Friday, October 5, 2012

پنچا یتی سیا ست کی کڑی آ زما ئش ....حکو مت کی پیشانی پہ داغ نہ رہے


محمد طاہر سعید


نامعلومبندوق بر داروں کے حملوں میں کئی سرپنچوں اور پنچوں کی ہلاکت کے بعداخبارات میںاراکین پنچایت کے استعفیٰ نامے تا دم تحریر شائع ہونے سے پریشان وزیر اعلیٰ عمرعبدللہ جب 26ستمبر 2012کو ایس کے آئی سی سی میں میڈیا کے سامنے آئے تو بندوق برداروں اور علیحدگی پسندوں کے تئیں ان کا رویہ نہایت ہی جارحانہ تھا جب کہ ان کے چہرے سے پریشانی کے آثار بھی نمایاں طور پر دکھائی دے رہے تھے۔وزیر اعلیٰ پریس کانفرنس سے اپنے خطاب کے دوران اس حد تک گئے کہ انہوں نے عسکریت پسندوں کو چیلنج کرتے ہوئے کہا ’اگر دم ہے تو مجھ پر حملہ کرو‘‘۔ اپریل 2011میں پنچایتی انتخابات کے انعقاد کے بعد سے ہی پنچایتیں اخبارات کی سرخیوں میں ہیں۔ انتخابات کے فوراً بعد پنچایتوں کے اختیارات پر بحث شروع ہوئی کیونکہ منتخبہ ارکان پنچایت کو خدشہ تھا کہ 2001 میںمنتخب پنچایتوںکی طرح آج بھی انہیں اختیارات سے محروم رکھا جائے گا ۔کئی ماہ سے حکومت کے لیت ولعل کے بعد جموںاو رکشمیر میں مختلف سرپنچوں اور پنچوں نے اپنی صفو ں میں ہم آ ہنگی اور اتحا د پیدا کر نے کے لئے ایسوسی ایشنوں کا قیام بھی عمل میں لایا اور پنچایتوں کو اختیارات کی منتقلی کے مطالبے کو لے کر وہ سڑکوں پر بھی آئے ۔ بالآخر حکومت نے ایک درجن سے زائد محکموں کے اختیارات سرپنچوں کو منتقل کئے لیکن بات یہاں ہی ختم نہیں ہوئی بلکہ کانگریس نے پنچایتوں کو مزید اختیارات دینے کیلئے پنچایتی راج ایکٹ میں 73اور 74ویں ترمیم کو لاگوکرنے کیلئے مہم شروع کی۔کانگریس نے اس مہم کو سرینگر سے دلی پہنچایا اور ایک درجن کے قریب سرپنچ آل انڈیا کانگریس کے جنرل سیکریٹری راہل گاندھی سے دلی میں ملاقی ہوئے اور ان پر زور دیا کہ وہ پنچایتی راج ایکٹ میں 73اور 74ترمیم کو لاگو کر انے کے ضمن میں وزیراعلیٰ عمر عبداللہ پر اپنے اثر رسوخ کا استعمال کریں ۔کانگریس نے اپنے اس قدم سے یہ تاثر دینے کی کوشش کی کہ عمر عبداللہ ہی پنچایتوں کو با اختیار بنانا نہیں چاہتے ہیں ۔حکومت میں برابر کی حصہ داری ہونے کے باوجود کانگریس یہ معاملہ خود حل کرنے کے بجائے سڑکوں پر لے آئی حتیٰ کہ یوتھ کانگریس نے اس سلسلے میںپوری ریاست میں احتجاجی مظاہرے کئے۔ اس معاملے پر کانگریس صدر سیف الدین سوز نے بھی حکومت کے ساتھ ٹکر لی لیکن عمر عبداللہ نے یہ کہہ کر پورے غبارے سے ہوا نکال دی کہ’’کانگریس کے متعدد ممبران اور 2وزراء نے ان سے مطالبہ کیا کہ پنچایتوں کو مزید اختیارات نہ دئے جائیں ‘‘۔اپوزیشن جماعت پی ڈی پی بھی اس معاملے میں دور نہیں رہی اور اس نے سب سے پہلے حکومت کو اس وقت حیرت میں ڈال دیا جب پارٹی نے سبقت لیتے ہوئے ٹی آر سی گروانڈ سرینگر میں پنچایتی کانفرنس کا انعقاد کر کے پنچوں اور سرپنچوںکو اختیارات سے متعلق آگاہ کیا۔مبصرین کے مطابق ٹی آر سی کی اس کانفرنس کا مقصدصرف طاقت کا مظاہرہ کرنا تھا اور پی ڈی پی حکومت پر یہ واضح کرنا چاہتی تھی کہ4130سرپنچوں اور 29719 منتخب پنچوں میں سب سے زیادہ حصہ پی ڈی پی کا ہی ہے اور یہی وجہ ہے کہ حکومت بلاک لیول کے انتخابات مسلسل ٹال رہی تھی کیونکہ انہیں خدشہ تھا کہ پی ڈی پی کے زیادہ حمایتی اراکین پنچایت کی وجہ سے بلاک کونسلوں پر اسی پارٹی کا غلبہ رہے گا۔پی ڈی پی نے ایک اور چال چلتے ہوئے اسمبلی میں ایک ترمیمی بل لاکر کانگریس کو مخمصے میں ڈال دیا ہے کیونکہ اس ترمیمی بل میں وہی خصوصیات تجا ویز کی صورت میںدرج ہیں جو 73اور 74ویں ترمیم میں موجود ہیں۔پنچایتوںکو اختیارات دینے کے معاملے پر حکومت پہلے ہی پریشانیوں کا شکار تھی لیکن اب چند سرپنچوں اور پنچوں کی ہلاکت کے بعد پنچایتی اراکین کے مسلسل استعفوںنے عمر عبداللہ کے لئے مزید پریشانیاں پیدا کی ہیں کیونکہ عمر عبداللہ پنچایتی انتخابات کو اپنے لئے ایک بڑی کامیابی قرار دے رہے ہیں جس کی بنیادی وجہ صرف یہ تھی کہ 2010کے حالات کے بعد جب عمر عبداللہ پرتنقید کی گئی کہ وہ عوام سے دور ہورہے ہیں اور اسی دوری کی وجہ سے ریاست میں حالات خراب ہوئے تو انہوں نے اپنی سیا سی شبیہ کو بہتر بنانے کیلئے 2011کی ابتداء میں ہی پنچایتی چنائو کرانے کا فیصلہ کیا ۔پنچایتی چنائو میں نہ صرف رائے دہی کی شرح اچھی رہی بلکہ انتخابات میں لوگوں نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔انتخابات کی کامیابی کے بعد وزیر اعظم من موہن سنگھ نے 15اگست 2011کو قوم کے نام اپنے خطاب میں ریاست کے پنچایتی چنائو کا ذکر کر کے اسے ایک بڑی کامیابی قرار دیا۔وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ نے بھی دلی سے شائع ہونے والے ہفتہ روزہ میگزین ’’تہلکہ‘‘کے 6اگست 2011کے شمارے کو دئے گئے ایک انٹریو میںپنچایتی انتخابات اور ان کے اختیارات سے متعلق پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں کہا تھا’’یہ یاتو ایک عظیم کامیابی ہوسکتی ہے یا میرے ماتھے پر ایک بدنما داغ‘‘۔اس انٹریو میں انہوں نے پنچایتوں کو اختیارات دینے اور ان اختیارات کا صحیح استعمال کا ذکر بھی کیا تھا ۔مبصرین کا کہنا ہے کہ سرپنچوں کی ہلاکت کے بعد عمر عبداللہ کا پریس کانفرنس میں بندوق برداروں اور علیحدگی پسندوں کے تئیں جارحانہ روّیہ اسی لئے تھا کہ عمر عبداللہ کسی بھی صورت میں اپنے ماتھے پرناکامی کا داغ نہیں دیکھنا چاہتے۔عمر عبداللہ نے پریس کانفرنس میں یہاں تک کہہ دیا کہ اگر کوئی سرپنچ یا پنچ استعفیٰ دیتا ہے تو وہ وہاں جلد از جلد ضمنی انتخابات کریں گے چاہیے اس میں کم ہی لوگ شرکت کیوں نہ کریں ۔عمر عبداللہ کی اس پریس کانفرنس سے واضح ہورہا تھا حالت کیسا بھی رخ اختیار کر یں عمر عبداللہ پنچایتوں کی ناکامی نہیں دیکھنا چاہتے کیونکہ اگر ایسا ہوا تو 2010 کے حالات کا داغ مٹاتے مٹاتے ان کے ماتھے پرناکامی کا ایک اور داغ لگ سکتا ہے۔خود ارکان پنچایت تذبدب کا شکار ہیں کہ وہ جائیں تو جائیں کہاں۔ انتخابات میں عوام سے کئے وعدے اور انہیں دی گئی یقین دہانیاں جب پوری نہیں ہوئیں تو وہ عوام کو کوئی معقول جواب بھی نہیں دے پاتے ہیں ۔ایک طرف اراکین پنچایت اپنے اختیارات کو لے کر پر مخمصے کا شکار تھے وہیں دوسری طرف چند سرپنچوں کی ہلاکت بعد اب ان کی مزید پریشانیاں بڑ ھ گئی ہیں کیونکہ یہ ہلاکتیں ایک معمہ ہیں ۔سرکردہ مزاحمتی رہنما سید علی گیلانی نے ان ہلاکتوں کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ ’’سیاسی نظریہ بنیاد پر کسی کا قتل جائز نہیں‘‘وہیں اس بیان کے بعد مزید دو ہلاکتوں کا واقعہ پیش آیا ۔اس پوری صورتحال نے ہزاروں پنچوں اور سرپنچوں کو اب مزید مخمصے میں ڈال دیا ہے۔پنچایتی انتخابات ایک اچھی کوشش تھی کیونکہ جمہوریت کو عوامی سطح تک پہنچانے اور لوگوں کے روزمرہ کے مسائل کو حل کرنے کیلئے پنچاتیو ں کا سب سے اہم رول ما نا جا تا ہے اور پنچاتیں تب ہی کام کر سکتی ہیں جب انہیں اختیارات حاصل ہوں ،لوگ ہر چھوٹے بڑے مسئلہ کیلئے روزانہ سیکریٹریٹ یا ڈپٹی کمشنروں کے دفاتر کے چکر نہیں کاٹ سکتے ہیں لیکن یہا ں ایک اور بات ذہن میں رکھنی ہوگی کہ ان مجو زہ اختیارات کا غلط استعمال نہ ہو۔گائوں کی زندگی اور روزمرہ کے معاملات بالکل مختلف ہوتے ہیںلیکن بلواسطہ یا بلاواسطہ ایک دوسرے سے جڑے ہوتے ہیں اور جب کسی خاص شخص کے پاس اختیارات آتے ہیں تو وہ ان کا غلط استعمال بھی کر سکتا ہے۔گزشتہ ایک سال کے دوران ریاست کے کئی علاقوں میں بعض پنچایتی اراکین کی غنڈہ گردی اور اختیارات کے غلط استعمال کی خبریں بھی اخبارات میں شائع ہوئیں جبکہ کئی جگہوں پر سیاسی لیڈران نے ان اراکین کو اپنے مفادات کیلئے استعمال بھی کیا۔اب جب کہ عمر عبداللہ پنچایتوں کی کامیابی کا جھنڈا بلند ہی رکھنا چاہتے ہیں تو انہیں پنچایتوں کے اختیارات اور اراکین پنچایت کی حفاظت کے تمام پہلوں پر سنجیدگی سے غور کرنا ہوگا تب ہی ان کا مقصد پورا ہوگا ورنہ پنچ اور سرپنچ صرف سیاسی کھلونا بن کر رہ جائیں گے۔

Wednesday, May 30, 2012

لل دید ہسپتال میں موجود موبائل ٹائور حاملہ خواتین اور نوزائیدہ بچوں کی صحت کا خیال رکھے بنا اجازت دی گئی


محمد طاہر سعید سرینگر//قوائد و ضوابط کو بالائے طاق رکھتے ہوئے ایک مواصلاتی کمپنی نے وادی کے واحد زچگی ہسپتال کے عقب میں موبائیل فون ٹاور نصب کیا ہے جس کا ماہرین کے مطابق حاملہ خواتین اور جنم لینے والے بچوں کی صحت پر منفی اثرات پڑ سکتے ہیں۔ لل دید ہسپتال جہاں 24گھنٹوں میں اوسطاً 70سے 80بچے جنم لیتے کے ایک وراڈ کے بالکل عقب میں ایک مواصلاتی کمپنی نے موبائیل ٹاور نصب کیا ہے۔ 500بستروں والے اس واحد بڑے زچگی ہسپتال میں وادی کے اطراف و اکناف سے خواتین کو منتقل کیا جاتا ہے اور یہاں مریضوں کا کافی رش لگا رہتا ہے۔اس بڑے ہسپتال کی انتظامیہ کی بے حسی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ ہسپتال کے ایک وارڈ کے بالکل عقب میں ہسپتال کے احاطے اندر ہی ایک مواصلاتی کمپنی کو موبائیل ٹاور بنانے کی اجازت دی گئی ہے جبکہ ماہرین کے مطابق موبائیل ٹاور ہسپتال یا کسی بھی رہائش گاہ سے 500میٹر کی دوری پر ہونا چاہیے کیونکہ موبائیل ٹاور سے نکلنے والی الیکٹرانک میگنیٹک شعاعوں سے انسانوں،جانوروں اور پودوںکے متاثر ہونے کی تصدیق ہوئی ہے۔ ماہرین کے مطابق یہ تابکاری شعاعیں دو سو سے تین سو میٹر کے ایریا میں مقیم افراد کو سماعت، بصارت پر منفی اثرات مرتب کرنے کے علاوہ ڈپریشن میں مبتلا کر سکتی ہیں جبکہ یہ عمل انتہائی سست رفتاری سے رونما ہوتا ہے۔ ماہر صحت ڈاکٹر نذیر مشتاق نے کشمیر عظمیٰ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ایسا باور کیا جاتا ہے کہ مو بائیل فون ٹاورز کے ذریعے موبائیل فون پر آنے والی یہ برق مقناطیسی لہریں ایک تسلسل کے ساتھ انسانی جسم کے خلیوں کو اپنا نشانہ بناتی ہیں اور انکے اس حملے سے ہمارے خلیوں ٹشو اور اعضاکے جنکشن پوائنٹ سمیت ہمارے سارے دماغی نظام پر منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔انہوں نے مزید بتایا تحقیق سے پتہ چلا ہے کہ موبائیل ٹاور کی شعائیںبڑوں کے مقابلے میں بچوں کے لئے زیادہ نقصان دہ ہوتی ہیں کیونکہ نشونما کا عمل ابتدائی دور میں مختلف مراحل سے گزر رہا ہوتا ہے اس لئے یہ تابکاری برقی مقناطیسی لہریں انہیں بہت جلد اپنا ہدف بنا کر مختلف امراض میں مبتلا کر سکتی ہیں کیونکہ ان موبائل ٹاورز کی تابکاری جسم میں میلونین کی مقدار کو کم کر دیتی ہیں۔ ماہرین کے مطابق اگر لیکٹرومیگنیٹک فیلڈز کم سطح کی بھی ہوں تو بھی تمام اقسام کے کینسر خاص کر دماغ کی رسولی، خون کا کینسر، امراض دل، ڈپریشن، سر درداور دیگر مسائل کا باعث بن سکتے ہیں ۔اس حوالے سے کشمیر عظمیٰ نے جب میڈکل سپر انٹنڈنٹ ڈاکٹر مشتا ق احمد سے رابطہ قائم کیا تو انہوں نے اس بات کی تصدیق کی کہ موبائیل ٹاور ہسپتال کے احاطے میں ہی کئی سال قبل نصب کیا گیا ہے تاہم یہ ایک سو میٹر سے زیادہ دور ہے۔انہوں نے کہا’’یہ ٹاور بہت پہلے نصب کیا گیا ہے تاہم میں دیکھ لوں گا کہ اس کی اجازت کیسے اور کن حالات میں دی گئی ہے‘‘۔

صدر ہسپتال کی تنگ دامنی… مریض ٹرالیوں ، سٹریچروں اور ویل چیئروں پر بستری

محمد طاہر سعید سرینگر//صدر ہسپتال میں چار دہائی قبل جتنے بستر لگائے گئے تھے آج بھی اتنے ہی بیڈ موجود ہیں جس کی وجہ سے مریضوں داخل کرنے کے بعد وئیل چیئروں پر بھی بٹھایا جارہا ہے جبکہ بعض وارڈوں میں ایک بیڈ پر 2دو مریضوں کا علاج بھی کیا جارہا ہے۔ ہسپتال میں دستیاب ریکارڈ کے مطابق ہسپتال میں 20وارڈ موجود ہیں جہاں پہلے 500بیڈ تھے لیکن بعد میں 250کا اضافہ کیا گیا تاہم یہاں روزانہ 200مریضوں کو داخل کیا جاتا ہے اور مریضوں کی تعداد بڑھنے سے اُن کیلئے نہ تو بیڈ کا انتظام ہوپاتا ہے اور نہ ہی انہیں معقول طبی سہولیات فراہم کی جاپاتی ہیں۔حتیٰ کہ صورتحال یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ مریضوں کو داخل کرنے کے بعد انہیں نہ صرف پہلے سے موجود مریضوں کے ساتھ رکھا جاتا ہے بلکہ ویل چیئروں اور سٹریچروں پر بھی رکھا جاتا ہے۔ اتنا ہی نہیں بلکہ بیشتر واڑوں میں ٹرالیوں پر بھی مریضوں کو رکھنے کیلئے استعمال میں لایا جاتا ہے۔وادی کے اطراف و اکناف سے اکثر مریضوں کو صدر ہسپتال ہی منتقل کیا جاتاہے تاہم صدر اسپتال میں جگہ کی کمی کی وجہ سے مریضوں کو سخت پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ صدر اسپتال کے ایک ڈاکٹر نے کشمیر عظمیٰ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ہر ایک اچھا اور مناسب علاج چاہتا ہے اس لئے لوگ مریض کو فوری طور پر سرینگر منتقل کرتے ہیں اور یہاں بھی انہیں مناسب علاج نہیں مل پاتا ہے جس کی بنیادی وجہ جگہ کی کمی ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہاں مریضوں کو بٹھانے کیلئے بیڈ بھی نہیں اور اکثر مریضوں کو ویل چیئر، فرش یا ٹرالیوں پر بٹھایا جاتا ہے۔ صدر اسپتال کے وارڈ نمبر 6میںبیڈ کی عدم موجودگی کی وجہ سے وئیل چیئر پر بٹھائے گئے ایک مریض بشیر احمد بٹ نے کشمیر عظمیٰ سے بات کرتے ہوئے کہا ’’مجھے اتوار کو ہسپتال پہنچایا گیاپہلے ایمرجنسی وارڈ اور بعد میں وارڈ نمبر 6میں منتقل کیا گیا لیکن یہاں بیڈ ہی موجود نہیں اور بعد میں مجھے ایک وئل چیئر فراہم کی گئی‘‘۔ بشیر احمدنے مزید بتا یا ’’ سوموار کو میری انڈاسکوپی بھی کی گئی اس کے بعد بھی مجھے بیڈ فراہم نہیں کیا گیا‘‘۔ بشیر کے مطابق انڈاسکوپی کے بعد اس کی حالت کافی خراب ہوچکی تھی اور پھر یہاں وارڈ میں ہی موجود ایک مریض نے کچھ وقت کیلئے مجھے اپنے بیڈ پر بٹھایا۔ وارڈ نمبر 6میں ہی داخل ایک مریض شوکت احمد نے کشمیر عظمیٰ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اسے دو روز قبل ہسپتال منتقل کیا گیا لیکن ابھی تک انہیں بیڈ فراہم نہیں کیا گیا جبکہ یہاں مختلف وارڈ وں میں داخل ایسے درجنوں مریض ہیں جنہیںبیڈ فراہم نہیں کئے گئے ہیں۔ویل چیئروں اور ٹرالیوں پر بٹھا گئے مریضوں کا کہنا ہے کہ انہوں نے متعدد بار ہسپتال انتظامیہ سے گزارش کی تھی کہ وہ انہیں بیڈ فراہم کریں تاہم انتظامیہ نے اُن سے یہ کہہ کر معذرت کا اظہار کیا کہ ہمارے پاس بیڈ ہی موجود نہیں ہیں۔ اس حوالے سے میڈکل سپر انٹنڈنٹ صد ر اسپتال ڈاکٹر نذیر احمد چودھری نے کشمیر عظمیٰ کو بتا یا کہ ہسپتال میں جگہ کی کمی ہے جبکہ مریضوں کا سخت رش لگا رہتا ہے۔ انہوں نے کہا ’’یہ سرکاری ہسپتال ہے اور ہم کسی کو یہاں آنے سے منع نہیں کرسکتے ہیں‘‘۔ میڈکل سپر انٹنڈنٹ کا کہنا تھا کہ مریضوں کے بڑھتے رش کے بعد حکومت نے مزید 200بستروں والا ایڈیشنل بلاک تعمیر کرنے کا فیصلہ کیا جو اس وقت زیر تعمیر ہے۔ انہوں نے کہا کہ جب تک ایڈیشنل بلاک تعمیر نہیں ہوتا تب تک ایسے مشکلات جاری رہ سکتے ہیں۔

Sunday, May 13, 2012

وجے ملہ کشمیر غزل گائیکی کی آبرو 9 مئی کو یہ آواز ہمیشہ کے لئے خاموش ہوگئی


محمد طاہر سعید زند ر زنہ باپتھ چھی مران لکھ ژ مرکھنا لوتہِ پاٹھی چیکھا پیالہ کیہواُف تِہ کرکھنا گیان پٹھ ایوارڈ یافتہ رحمان راہی کی شہرۂ آفاق غزل کا یہ شعر 10مئی کو کشمیری موسیقی سے محبت رکھنے والے ہرفرد کی زبان پر تھا کیونکہ جس شخص نے اپنی دلکش آواز سے اس غزل میں رنگ بھرا ہے وہ آواز ہمیشہ کے لئے خاموشی ہوچکی تھی۔ جی ہاں ہم بات کرہے ہیں نامور گلو کار اور کشمیری غزل گائیگی کے بے مثل فنکار اور کشمیری غلام علی کہلانے والے وجے کمار ملہ 9مئی 2012 کو چاہنے والوں کو ایک بڑا صدمہ دیکر ہارٹ اٹیک کے سبب جموں میں انتقال کر گئے۔56سالہ وجے ملہ کے پسماند گان میں سے ان کی اہلیہ رینو ملہ ‘ جن کا تعلق خود بھی سنگیت سے ہے‘ اور ایک بیٹا اور بیٹی شامل ہیں۔وجے کمار ملہ کا شمار ان چند گلو کاروں میں ہوتاہے جن کے منفرد لہجہ اور دلکش آوازنے کشمیری غزل کے تئیں نئی نسل کے رحجان کو مہمیز کیاجس کی وجہ سے کشمیری غزل آج نئی نسل میں بھی مقبول ہے۔وجے کمار ملہ نے کشمیری زبان میںغزل ،نعت ،بھجن اور لیلائیں گائیں۔اُنہوں نے انفرادی طور پر کشمیری موسیقی کے گایا اورکیلاش مہرا اور شمیمہ دیو کے ساتھ دوگانے بھی گائے ۔جو کافی مقبول عام ہوئے۔انہوں نے کئی اردو غزلیں بھی گائی ہیں جن میں جگرمراد آبادی کی مشہور غزل ’’اک لفظ محبت کا ادنیٰ سا فسانہ ہے ۔۔۔سمٹے تو دل عاشق ،پھیلے تو زمانہ ہے‘‘کافی مقبول ہوئی۔وجے ملہ جب پروفیسر رحمان راہی کا لکھا ہوا نعمہ’’ زند روزنہ باپتھ چھی مران لوکھ ژہ مرکھنا ،لئوت پاٹھ چکھا پیالہ کیو ہو اُف تے کرکھنا‘‘،کو جب اپنی دلکش اورمدھر آواز میں گایا تو اسے زبردست مقبولیت حاصل ہوئی، بلکہ اگر یہ کہا جائے کہ اس نے ریکارڈ توڑ دیئے تو غلط نہ ہوگاجو بعد میں کافی مقبول عام ہوااور فاروق نازکی کے مطابق اس غزل نے نہ صرف ملہ بلکہ کشمیری غزل کو بھی عروج فراہم کیا۔انہوں نے ’’ماں شیراںوالی‘‘ بجھن گیا جو اس قدر مقبول ہوا کہ وشنو دیوی مندر میں ہر خاص تقریب پر سنایاجاتا ہے۔وجے ملہ کو غزل گائیگی پر استادانہ مہارت حاصل تھی اور انہوں موجودہ دور کے کشمیری شاعروں کی درجنوں غزلیں گائی ہیں ۔ فلم اور میوزک انڈسٹری سے تعلق رکھنے والے کئی لوگ وجے ملہ کے چاہنے والوں میں شامل تھے۔بر صغیر کے عظیم اور پاکستان کے مشہور گلو کار حسین بخش نے وجے ملہ کے بارے میں ایک مرتبہ کہا تھاکہ ’ وجے کو سن کر میں نے اپنے رنگ کو محسوس کیا‘‘۔ملہ موسیقی کی دنیا میں کئی گلو کاروں کے استاد بھی رہے اور ان کے شاگرد وں کاشمار آج کشمیری کے معروف گلو کاروں میں ہوتا ہے۔معروف گلو کار ہ دپالی واتل نے کشمیر عظمیٰ سے بات کر تے ہوئے کہا ’’ مجھے ملہ صاحب کے شادگردوں کی صف میں شامل ہونے کا اعزاز حاصل ہے اور میں نے آنجہانی کے ساتھ درجنوں غزلیں ریکارڈ کروائیں‘‘۔ انہوں نے اس بات پر افسوس جتایا کہ ملہ صاحب کو حکومتی سطح پر وہ پذیرائی نہیں ملی جس کے وہ حق دار تھے اور وہ پچھلے کئی برسوں سے سفید پوشی کی زندگی بسرکر رہے تھے۔لیکن انہوں نے کبھی اپنی خودداری کا سودا نہیں کیا۔ انہوں نے کہا کہ ’’شہرت کے عروج پر ہونے کے باوجود وہ سروال جموں میں ایک کرائے کے مکان میں مقیم تھے‘‘میوزک کمپو زر خالد میر کے مطابق ملہ صاحب نے ریاست میں غزل گائیکی کی ایک خاموش تحریک شروع کی تھی جو مستقبل قریب میں ضرورایک غیر معمولی ادارہ بن کر سامنے آئے گا‘‘۔انہوں نے کہا کہ2007 میں جب انہوں نے وجے ملہ اور پاکستان کے عظیم گلو کار حسین بخش کی ملاقات کروائی تو آنجہانی کو سن کے حسین بخش نے کہا کہ ’’ میں نے وجے میں اپنا رنگ محسوس کیا ‘‘۔ملہ نے کشمیری غزل کو ملک کی مختلف ریاستوںمیں ہو نے والے’’ جشن کشمیر ‘‘ پروگراموں میں اْستادانہ مہارت کے ساتھ پیش کیا اورفن کے اساتذہ سے غیر معمولی داد وصول کی۔معروف ادیب اور سابق ڈپٹی ڈائریکٹر جنرل دور درشن فاروق نازکی نے کشمیر عظمیٰ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ کشمیری موسیقی کو بیسویں اور اکیسویں صدی کے دور میں جو آوازیں ملی ہیںان میںوجے ملہ کی آواز بھی شامل ہے ۔انہوںنے کہا ’’ہلکی موسیقی اور مہجور کے کلام کو گراما فون کے ذریعہ سب سے پہلے لوگوں تک پہنچانے والے محمود شہری تھے اس کے بعد یہ سلسلہ صوفی غلام محمد نے آگے بڑھایا ‘‘اور ان کے بارے میں ایک بار محمد رفیع نے کہا تھا اگر صوفی مجھ سے پہلے بمبئی آئے ہوتے تو محمد رفیع کا وجود نہیں ہوتا اور پھر اس موسیقی کو وجے ملہ نے آگے بڑھایا۔انہوں نے کہا’’کئی لوگ آئے اور چلے گئے لیکن وجے کمار ملہ نے اپنی ایک الگ شناخت قائم کی اور ایک ایسے وقت پر جب اردد غزل کی دنیا میں مہدی حسن اور جگجیت سنگھ کا طوطی بول رہا تھا اُس وقت ملہ نے کشمیری غزل کو ایک نئی جان عطا کی‘‘۔7فروری 1956کو حبہ کدل سرینگر میں پیدا ہوئے وجے ملہ نے نہایت ہی سادہ زندگی بسر کی ۔انہو ں نے موسیقی کی تربیت برج کرشن شاعر اور پنڈت جگن ناتھ شیو پوری سے حاصل کی، جس کے بعد انہوںنے 1982میں مرکزی ادارے سانگ اینڈ ڈرامہ ڈویژن میں بحثیت سٹاف آرٹسٹ نوکری اختیارکی۔انہوں نے موسیقی کی ابتدائی تربیت پریم سنگیت نکیتن سرینگر سے حاصل کی اور اس کے بعد وہ1985میں ممبئی چلے گئے جہاں انہوں نے 3سال تک بھارت کے معروف گلوکاروں کے ساتھ کام کیا ،لیکن بعد میں صحت کی خرابی کی وجہ سے وہ واپس ریاست چلے آئے۔انہوں نے ممبئی کے معروف گلوکاروں انوپ جلوٹااور ہری ہرن کے ساتھ بھی کام کیا ہے۔موصوف نے گانے کے ساتھ ساتھ میوزک ڈائریکٹر کی حیثیت سے بھی کام کیا۔ان کا میوزک البم ’’جستجو‘‘1992میں منظر عام پر آیا ۔انہیں 1995میں مرکزی وزارت اطلاعات و نشریات نے موسیقی کے میدان میں گراں قدر خدمات کے اعتراف میں ’اکھل بھارتیہ میوزک ایوارڈ ،سے بھی نوازا تھالیکن جس وجے ملہ نے کشمیری موسیقی کو ایک خول سے باہر نکال کر جدید خطوط پراستوار کرنے میں اہم کردار ادا کیا اُس کی مُدھر اور دلکش آواز کبھی بھی ریاستی حکومت کے کانوں تک نہیںپہنچی ۔مشہور میوزک ڈائریکٹر و نود چوپڑا کا کہنا ہے کہ ’’وجے ملہ کو سنگیت کی دنیا میں عزت کی نگاہوں سے دیکھا جاتاتھا لیکن ان کے حوالے سے ریاستی حکومت کا رویہ ٹھیک نہیں تھا‘‘۔بہرحال زندگی کے کئی اتار چڑھائو دیکھنے کے بعد ملہ کی زندگی کا سفر 9مئی کو ختم ہوا ۔جس سے ریاست اور بیرون کشمیری موسیقی کے دلدادوں کو گہرا صدمہ پہنچا ہے۔ وجے ملہ کی مکمل تجیم علی سردار جعفری کے اس شعر میں دیکھی جاسکتی ہے۔ پنے نغمہ پہ تجھے ناز ہو کہ نہ ہو نغمہ اس بات پر نازاں ہے کہ فن تیرا ہے

Friday, April 20, 2012

Bakshi hoisted tri-colour for first time in 1953

Tahir syeed Srinagar, Aug 14: It was in 1953 when for the first time, tri-colour was hoisted in Kashmir Valley by then Prime Minister of Jammu and Kashmir Bakshi Ghulam Muhammad. This was disclosed by Ghulam Mohiudin Sofi, former political secretary of late Moulana Muhammad Sayeed Masoodi. Masoodi was the first Member Parliament from Kashmir. Sofi, who was trusted lieutenant of Masoodi told Greater Kashmir on Tuesday that prior to 1953 late Sheikh Muhammad Abdullah used to hoist state flag on August 15. “First time Bakshi Ghulam Muhammad hoisted the Indian tri-colour at Residency ground, now known as Municipal park,” he said. Sofi said that before 1953 not much importance was given to August 15, but after Bakshi took over, this day turned into an important day. “In 1953 Bakshi hoisted tri-colour and state flag but the state flag was on foot below the tri-colour,” Sofi said. He said Bakshi kept on hoisting two flags on August 15 till he was in power. “The trend of hoisting only tri-colour became a regular feature after Ghulam Muhammad Sadiq took over from Bakshi as Chief Minister of the state,” Sofi said. According to the historians in earlier days, the functions were held only in Srinagar and Jammu. (15 Aug 2008 Ensglish Daily Greater Kashmir)

Saturday, April 7, 2012

Members Jammu and Kashmir Constituent Assembly 1951


Members Jammu and Kashmir Constituent Assembly 1951

My Grand Father Moulana Anwar Masoodi and His Elder Brother Moulana Muhammad Syeed Masoodi can also be seen in this Picture .Both were member of Jammu and Kashmir Constituent Assembly 1951.

ڈپٹی کمشنر کپوارہ چیف سکریٹری سے فریادی..... ایڈیشنل کمشنر کشمیر پر رقومات کی واگذاری کیلئے نذرانہ طلب کرنے کا الزام

محمد طاہر سعید
سرینگر//اس بات کا انکشاف ہوا ہے کہ ڈسٹرکٹ ڈیولپمنٹ کمشنر کپوارہ نے چیف سکریٹری کے نام ایک خط روانہ کردیا ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ ایڈیشنل کمشنر کشمیر نے 2010میں کپوارہ میں آئے تباہ کن سیلاب سے ہوئے نقصانات کے ضمن میں رقومات کی فراہمی کو ممکن بنانے کیلئے غیر قانونی طور پر نذرانے کا تقاضہ کیا اور ناکامی کے نتیجے میں اپنے اختیارات سے تجاوزکرکے حکومت کو ایک غلط رپورٹ پیش کی۔ ڈپٹی کمشنر کپوارہ نے چیف سکریٹری سے استدعا کی ہے کہ اس پورے معاملے کی غیر جانبدار افسران کے ذریعے تحقیقات کی جائے تاکہ ایڈیشنل کمشنر کشمیر کے منفی ارادوں کی چھان بین کی جاسکے۔

ہوا کیا تھا؟

فلڈ کنٹرول، آر اینڈ بی ،پی ایچ ای اور بجلی محکموں کو ہوئے نقصانات کے بارے میں ڈپٹی کمشنر کپوارہ نے چیف سکریٹری کے نام جو خط روانہ کیاہے اس میں بتایا گیا ہے ’’28اور 29جولائی2010 کو کپوارہ میں شدید بارشو ں او ر بادل پھٹنے سے کئی علاقے سیلاب کی زد میں آگئے جس کے بعد وزیر اعلیٰ اور کئی وزراء نے متاثرہ علاقوں کا دورہ کیا اور متواتر میٹنگوں کے بعد فیصلہ لیا گیا کہ سیلاب کی وجہ سے جو نقصان ہوا ہے اس کی رپورٹ ڈویژنل کمشنر کشمیر کے آفس کے ذریعہ حکومت کو پیش کی جائے گی‘‘۔ضلع ترقیاتی کمشنر نے کپوارہ نے نقصان کی ایک رپورٹ زیر نمبر DDCK/FC/2010/4886-88بتاریخ 25اگست 2011 ڈویژنل کمشنر کشمیر کے آفس میں جمع کی۔ اس رپورٹ میں بتایا گیا کہ محکمہ آر اینڈ بی ،پی ایچ ای اور اریگیشن اینڈ فلڈ کنڑوں کے کاموں کو سیلاب کی وجہ سے 1126.74لاکھ روپے کا نقصان ہوا ہے، ڈی سی کپوارہ نے صوبائی انتظامیہ سے کہا ان کاموں کے لئے 1126.74لاکھ روپے واگذار کئے جائیں۔

ایڈیشنل کمشنر کشمیر کی رپورٹ

اے ڈی سی کشمیر نے ڈپٹی کمشنر کپوارہ کی رپورٹ کو خاطر میں لائے بغیر غیر قانونی طریقے سے ازخود ان کاموں کا جائزہ لیا حالانکہ اس کیلئے ڈویژنل کمشنر کشمیر ، فائنانشل کمشنر ریونیو، کمشنر سکریٹری محکمہ مال اور ڈپٹی کمشنر کپوارہ کو خاطر میں لائے بغیر کپوارہ کا دورہ کیا۔ ایڈیشنل کمشنر کشمیر عبدالمجید وانی نے ایک خط، زیر نمبر Div.comm/Misc/805بتاریخ 4اکتوبر 2011،جس کی کاپی کشمیر عظمیٰ کے پاس موجود ہے، میں ریاستی چیف سیکریٹری کو بتا یا ضلع ترقیاتی کمشنر کپوارہ نے 2010میں سیلاب کے دوران کاموں کو ہوئے نقصان اور ان کاموں کی جو فہرست پیش کی تھی وہ درست نہیں ہے بلکہ انہوں نے جائے موقعہ پر جاکر یہ پایا کہ صرف 10سے 20فیصد کاموں کو ہی نقصان پہنچا ہے۔ رپورٹ میں بتایا ہے کہ اُس نے کپوارہ جاکر وہاں کے لوگوں، سرپنچوں اور سرکاری ملازمین کے ساتھ بات چیت کی اور جن کاموں کی فہرست حکومت کی پیش کی گئی ہے وہ کام زمین پر کہیںدکھائی ہی نہیں دیتے اور اس بات کی کوشش کی گئی ہے کہ سرکاری خزانے کو خسارے سے دوچار کیا جائے۔ ایڈیشنل کمشنر نے جو چٹھی چیف سکریٹری کو روانہ کی اس میں اس بات کی سفارش کی گئی کہ ڈپٹی کمشنر کپوارہ کے آفس میں کام کررہے ملازمین اور خاص کر پلاننگ آفیسر کیخلاف کارروائی کی جائے کیونکہ انہوں نے حکومت کو غلط اعداد و شمار پر مبنی رپورٹ تیار کی لہٰذا اُن کیخلاف قانون کے مطابق کارروائی کی جائے نیز اس معاملے کی اعلیٰ سطح پر تحقیقات کی جائے۔ جب اے ڈی سی کشمیر کی چٹھی چیف سکریٹری کے پاس پہنچی تو اس کی ایک کاپی ڈپٹی کمشنر کپوارہ کو توثیق کیلئے بھیج دی گئی۔

ڈپٹی کمشنر کپوارہ کا جواب

ڈپٹی کمشنر کپوارہ نے چیف سیکریٹری کے نام جو خط روانہ کیا ہے اُس میںبتایا گیا ہے کہ ایڈیشنل کمشنر کشمیر عبد المجید وانی نے جوائنٹ ڈائریکٹر پلاننگ کپوارہ سے فائل کو آگے بڑھانے کے لئے رشوت طلب کی۔ خط زیر نمبر DCK/ PS/ 2011/ 8252-58 بتاریخ 9نومبر 2011 (جس کی ایک کاپی کشمیر عظمیٰ کے پاس موجود ہے) میں ڈی سی کپوارہ نے سنسنی خیز انکشاف کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ فائل اکتوبر 2011تک ایڈیشنل کمشنر عبد المجید وانی کے میز پر پڑی رہی۔ خط میں لکھا گیا ہے ’’ایڈیشنل کمشنر کشمیر نے ڈسٹرکٹ ڈیولپمنٹ کمشنر کپوارہ کے دفتر سے جوائنٹ ڈائریکٹر پلاننگ کو بلایا اور کاغذات کو آگے بڑھانے کیلئے غیر قانونی نذرانہ کا مطالبہ کیا‘‘۔ ڈی سی نے مزید لکھا ہے’’ اس معاملے کو آگے بڑھانے کے دوران انہوں نے قائمقام ڈویژنل کمشنر سمیت تمام آفیسران کو نظر انداز کیا اور مذکورہ آفیسر نے ڈپٹی کمشنر اور سپر انٹنڈنٹ آر اینڈ بی ، سپر انٹنڈنٹ ہائڈرولیک اور متعلقہ ایگزیکٹو انجینئروں ،جنہوں نے یہ رپورٹ تیار کی تھی ،کو نظر انداز کر کے پٹواریوں اور لائن مینوں پر انحصار کیا‘۔ انہوں نے لکھا ہے کہ ایڈیشنل کمشنر نے آر اینڈ بی سیکٹر میں جن کاموں کی نشاندہی کی ہے ا ن کیلئے نقصان کی رپورٹ میں فنڈس طلب نہیں کئے گئے ہیں جبکہ فلڈ کنٹرول اور پی ایچ ای سیکٹر میں جن کاموں کی نشاندہی کی گئی ہے ان کے لئے درکار رقم کو مذکورہ آفیسر نے زیادہ دکھا یا ہے جبکہ ہمارے دفتر نے ان کاموں کیلئے کم رقم مانگی تھی۔چیف سکریٹری کے نام خط میں ڈپٹی کمشنر نے بتایا ہے ’’28اور29جولائی 2010کو کپوارہ میں سیلاب سے جو تباہی ہوئی تھی اس کا جائزہ لینے کیلئے اس وقت وزیر آبپاشی و فلڈ کنٹرول، وزیر مملکت آر اینڈ بی اور وزیر مملکت مال اور ٹورازم نے ضلع کا دورئہ کیا تھا۔ اس کے بعد وزیر اعلیٰ نے سب سے زیادہ متاثر علاقوں کیرن اور کرناہ کا جائزہ لیا تھا، چیف سکریٹری جن کے ہمراہ کمشنر سکریٹری پلاننگ اور ڈویژنل کمشنر کشمیر بھی تھے، نے بھی 20اگست 2011کو نقصانات کا جائزہ لیا تھا،مرکزی سرکار کی ایک اعلیٰ سطحی افسران کی ٹیم کو 17اکتوبر کو اس ضمن میں تفصیلات پیش کی گئیں، ریاستی سرکار کو ایک مفصل رپورٹ پیش کی گئی جس کے بعد 29نومبر بورڈ میٹنگ کے دوران یہ معاملہ اُٹھایا گیا بعد ازاں وزیر اعلیٰ کی صدارت میں ہوئی میٹنگ کے دوران یہ معاملہ زیر غور آیا اور حکومت کی جانب سے کئی سطحوں پر غور و خوض کرنے کے بعد یہ محسوس کیا گیا کہ نقصانات کے ضمن میں مفصل طریقے سے لازمی قواعد کے تحت ایک رپورٹ ڈویژنل کمشنر کے ذریعے ریاستی سرکار کو بھیجی جائے، بعد ازاں ڈویژنل کمشنر اصغر سامون کی غیر حاضری میں ایک چٹھی (جس کا حوالہ اُوپر دیا گیا ہے) روانہ کی گئی لیکن رپورٹ کو ایڈیشنل کمشنر کشمیر نے اکتوبر تک اپنی میز پر رکھا اور اس ضمن میں کوئی کارروائی نہیں کی، بجائے اس کے کہ ضلع ترقیاتی کمشنر کی رپورٹ پر کارروائی کرنے کیلئے اسے حکومت کو بھیجا جاتا ایڈیشنل کمشنر نے دوکان داروں، پٹواریوں اور راہ چلتے لوگوں کے بیانات پر مبنی ایک رپورٹ تیار کی حتیٰ کہ مذکورہ آفیسر نے اس بات کی زحمت بھی گوارہ نہیںکہ ڈپٹی کمشنر کپوارہ کو اپنے اعتماد میں لیا جاتا یا پھر نقصانات کاجائزہ لینے کے حوالے سے ضلع کے کسی آفیسر سے رابطہ کیا جاتا، اتنا ہی نہیں سرکاری چینلوں کا سہارا لئے بغیر آفیسر نے ڈویژنل کمشنر، فائنانشل کمشنر، کمشنر سکریٹری، محکمہ مال اور دیگر متعلقین کو نظرانداز کرکے چیف سکریٹری کو غلط اعداد و شمار پر مبنی رپورٹ پیش کی، جس سے مسٹر وانی کے غلط ارادوں کا پتہ چلتا ہے‘‘۔اس خط میں ڈپٹی کمشنر نے ایڈیشنل کمشنر کشمیر کی جانب سے 6نکات کو مشکوک قرار دیتے ہوئے اُن کی نشاندہی کی اور چیف سکریٹری سے استدعا کی گئی کہ اس پورے معاملے کو ایڈیشنل کمشنر نے مشکوک بنادیا ہے لہٰذا غیر جانبدار افسران پر مشتمل ایک ٹیم تشکیل دی جائے جو سیلاب سے ہوئے نقصانات کے بارے میں تیار کی گئی اُس وقت کی رپورٹ کا جائزہ لیں نیز جو کام ہوئے ہیں، اُن کا مشاہدہ کریں ۔ تاکہ حقیقت سامنے آسکے۔ چیف سکریٹری سے یہ بھی گذارش کی گئی کہ یہ کام کم وقت میں کیا جائے تاکہ جن ایجنسیوں نے کام کئے ہیں اُنہیں اپنا معاوضہ دیا جاسکے۔

Monday, March 19, 2012

Friday, January 27, 2012

جنوری 1994:جب کپوارہ خون میں نہلایا گیا

محمد طاہر سعید، اشرف چراغ
کپوارہ//18سال قبل 27جنوری 1994کا دن آج ہی کی طرح سرد تھااور صبح کہرے کی چادر نے آسمان کو لپیٹ لیا تھایہ وہ دن تھا جب کپوارہ کو معصوم شہریوں کے خون سے نہلایا گیا ۔کپوارہ کے لوگ اس دن کو اپنی زندگی کا منحوس دن تصور کررہے ہیں اور مہلوکین کے لواحقین کو انصاف کی دہائی دیتے ہوئے بے گناہوں کی یاد میں خون کے آنسو رورہے ہیں 27جنوری 1994کو لوگ معمول کے مطابق کام کاج کیلئے نکلے تھے اور لوگوں کی ایک بڑی تعداد سردی کے باجود ضلع ہیڈکوارٹر کپوارہ میں تھے اور صبح 10بجکر 45منٹ پر فوج نے بنا کسی وجہ کے لوگوں پر براہ راست گولیاں برسائیں ۔فائر نگ کا سلسلہ اُس وقت تک جاری رکھاگیا جب تک نہ فوجی اہلکاروں نے 27 افراد کوموت کی نیند سلا دیا جن میں دکاندار، پولیس اہلکار اورضلع ترقیاتی کمشنر کپوارہ کے دفاتر کے ملازمین شامل تھے جبکہ سینکڑوں لوگ زخمی ہوئے۔ایک عینی شاہد محمد عبداللہ کا کہنا ہے ’’26جنوری کو مزاحمتی قیادت نے مکمل ہڑتال کی کال دی تھی لیکن فوج کی 15پنجاب سکھ لائی یونٹ نے لوگوں کو پہلے ہی متنبہ کیا تھا کہ اگر انہوں نے ہڑتال کی تو اس کے سنگین نتائج سامنے آئیں گے‘‘محمد عبدااللہ کا کہنا ہے’’صبح دس بجکر 45 منٹ پرکپوارہ بائی پاس روڈ سے فوج کی ایک کانوائی جارہی تھی اور اس دوران اس علاقے میں فائرنگ کی آوازیں سنائی دیں۔لوگ ابھی یہ سمجھنے کی کوشش ہی کررہے تھے کہ فائرنگ کی آوازیں کہاں سے آرہی ہیں تو اِسی دوران کپوارہ بازار میں ہرطرف فوج نے بندوقوں کے دہانے کھول دیئے گئے اور لوگ اپنی جان بچانے کیلئے اِدھر اُدھر بھاگنے لگے۔ کپوارہ قصبہ کے نزدیک ایک پہاڑی پر ملہ پوسٹ ،پاپا2، وین اورریگی پورہ ٹاپ پرموجودفوجی بنکروں سے فائرنگ کی گئی جن کا نشانہ براہِ راست کپوارہ بازار میں موجود عام لوگ تھے اور اس کے علاوہ اولڈ برج پرقائم پولیس پوسٹ کو بھی نشانہ بنایاگیا،جب 20منٹ بعد فائیرینگ تھم گئی تو27 افراد کی لاشیں کپوارہ بازار میں بکھری پڑی تھیں‘‘۔عینی شاہد کا مزید کہنا ہے کہ تقریباً ساڑھے گیارہ بجے کے بعد لوگوں کو حکم دیا گیا کہ وہ شناختی پریڈ کے لئے اپنی گھروں سے باہر آئیں ‘‘۔ایک اور شاہد غلام نبی کا کہنا ہے ’’۔ڈی سی آفس کپوارہ کا ایک ملازم خضر محمدکوڑا کرکٹ کے ایک ڈھیر میں چھپا بیٹھا تھا، فوجی اہلکاروں نے اُسے وہاں سے گھسیٹ کر لایا اور گولیاں مار دیں۔ گلگام کپوارہ کے ایک فاریسٹ گارڈ غلام محمد میر کو اس بناء پر قتل کر دیاگیا کیونکہ اُس نے خاکی وردی پہنی تھی اور فوجی اہلکار اُسے پولیس جوان سمجھ بیٹھے۔مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ یہ قتل عام اس وجہ سے کیا گیاکیونکہ پولیس اور فوج کے درمیان محاذ آرائی چل رہی تھی، جو25جنوری کو اس وقت شروع ہوئی جب ایک پولیس کانسٹیبل اور ایک فوجی آفیسر کے درمیان ہاتھا پائی ہوئی۔بتایا جاتا ہے کہ کانوائی کی ایک گاڑی ایک بزرگ راہگیرکو کچلنے جارہی تھی تو اِس موقعہ پرفوجی اہلکاروں نے مذکورہ شہری کی مار پیٹ کی۔اس واقعہ کے نتیجے میں ایک پولیس کانسٹیبل نے مزاحمت کی، جسکی بناء پراُسکی ایک آفیسر کے ساتھ لڑائی ہوئی۔چنانچہ فوجی آفیسر نے پولیس اہلکار کو سنگین نتائج بھگتنے کی دھمکی دی اور اس کے بعد کپوارہ میں 26کی گئی ہڑتال کی وجہ سے فوج کے غصہ میں مزید اضافہ ہوگیا‘‘۔ چشم دید گواہ حبیب الہ میر کا کہنا ہے’’27جنوری کو شب برات تھی اور لوگ ضروری ساز و سامان خریدنے کے لئے کپوارہ آئے تھے ۔انہوں نے کہا’’میں اقبال مارکیٹ میں سامان خریدرہا تھاجس دوران اچانک فائیرینگ شروع ہوئی لوگ اپنی جان بچانے کے لئے محفوظ مقامات کی طرف بھاگنے لگے اور میں مقامی مندر میں گھس گیا باہر نکلنے بعد میں نے کپوارہ میں جگہ جگہ پر لاشیں بکھری ہوئیں دیکھیں‘‘۔ایک مقامی سینئر آفیسر ، جو اس واقعہ کا چشم دید گواہ تھا، نے اُس وقت فوج کو موردالزام ٹھہرایا تھا جسکے بعدفوج نے اسے گرفتار کیاتھاپولیس نے اس واقعہ کے سلسلے میں ایف آئی آر زیر نمبر13/94بتاریخ 27جنوری 1994زیر دفعہ 302/307درج کیا ہے۔ ایف آئی آر میں لکھاگیا ہے ’’31میڈیم ریجمنٹ سے وابستہ اہلکارفیلڈ آفیسر ایس بخشی کی سربراہی میں روڈ اوپننگ پارٹی پر مامور تھے،اور انہوں نے کپوارہ مارکیٹ اور اس کے گرد و نواح اندھادھندفائرنگ کر کے متعدد لوگوں کو ہلاک کیا‘‘۔ تاہم فوج نے اُس وقت کہا کہ 27شہریوں کی ہلاکت اُس وقت ہوئی جب ایک فوجی کانوائی پرجنگجوئوں نے حملہ کیا جسکے بعد طرفین کے مابین گولیوں کا تبادلہ ہوا ۔اس واقعہ کو اگرچہ 18سال ہوگئے ہیں لیکن مہلوکین کے لواحقین آج بھی انصاف کی دہائی رہے ہیں ۔لواحقین کا کہنا ہے کہ اس کیس کو بالکل بند کر دیا گیا ہے اور واقعہ میں ملوث افراد کی نشاندہی بھی ہوچکی ہے لیکن ابھی تک انہیں کوئی سزا نہیں دی گئی۔

جنوری1990…جب ہندوارہ میں قیامت صغریٰ بپا ہوئی تھی

محمد طاہر سعید
سرینگر//21جنوری1990 کو گائو کدل میں سی آر پی ایف کے ہاتھوں 52 معصوم شہریوں کی ہلاکت کے زخم ابھی تازہ ہی تھے کہ محض چار دن بعدیعنی 25جنوری کو شمالی کشمیر کے ہندوارہ قصبہ میں سرحدی حفاظتی دستہ(بی ایس ایف)کے ہاتھوں 17نہتے اور معصوم لوگ جاں بحق ہوئے۔یہ وہ وقت تھا جب مسلح تحریک اسکے جوبن پر تھی اور اسے بے پناہ عوامی مقبولیت حاصل تھی۔ وادی کے دیگر علاقوں کی طرح اس روز شمالی کشمیر کے ہندوارہ میں لوگوں نے تحریک کے حق میںایک جلوس نکالا اورصبح آٹھ بجے سے ہی علاقہ رامحال ،راجواڑ ،کنڈی بلاک ،پہرو پیٹھ ،ماور ،قاضی آباد اور ملحقہ علاقوں کے لوگوں نے ہندوارہ کا رُخ کیا۔ا س واقعہ کے چشم دید گواہ خضر محمد کا کہنا ’’لوگ ہندوارہ چوک سے ہائر سکنڈری سکول کے احاطہ کی طرف جارہے تھے جہاں انہیں جمع ہونا تھا اس دوران وہاں سے وارپورہ ہندوارہ میں تعینات بی ایس ایف کی 125بٹالین کی ایک گاڑی زیر نمبر HYN7717 گزری جس میں پولیس سٹیشن ہندوارہ میں موجودہ بی ایس ایف اہلکاروں اور ایک سیاسی لیڈر کی رہائش گاہ کی حفاظت پر معمور اہلکاروں کے لئے کھانا لے جا رہے تھے ‘‘یہ گاڑی ہندوارہ چوک سے ہزاروں کی تعداد میں جمع لوگوں کے درمیان سے نکلی لیکن کسی نے بھی ان کے ساتھ کوئی چھیڑ چھاڑ نہیں کی تاہم لوگ نعرے بازی کر رہے تھے جوں ہی گاڑی ہندوارہ پولیس سٹیشن کے سامنے پہنچ گئی تو گاڑی میں موجود اہلکاروں نے پہلے ہوا میں فائیرینگ کی جس پر لوگ مشتعل ہوئے اور گاڑی کو کئی میٹر دور کھینچ کر نذرآتش کیا۔گاڑی کو نذرآتش کرنے کی قبل ہی بی ایس ایف اہلکاروں نے جلوس میں شامل لوگوں پر براہ راست فائرنگ کی ،اتنا ہی نہیں جہاں جہاں بھی چوک میں بی ایس ایف کے اہلکار موجود تھے انہوں نے مظاہرین پر فائرنگ کی جس کے نتیجے میں 6افراد موقعہ پر ہی ہلاک اور ایک سو کے قریب افراد زخمی ہوئے ۔بی ایف ایف اہلکار ضلع ہسپتال ہندوارہ ،جامع قدیم ،جامع جدید ،بانڈے محلہ ،ہیر پورہ ،کھنہ بل میں فائرنگ کرتے ہوئے داخل ہوئے اور تقریباً دن کے دو بجے تک زخمیوں کو اٹھانے کی اجازت تک بھی نہیں دی گئی جس کی وجہ سے مرنے والوں کی تعداد 6سے بڑھ کر 17ہوگئی جبکہ 73افراد زخمی ہوئے۔ایک او ر عینی شاہد محمد شفیع کے مطابق’’وہ تو قیامت صغریٰ تھی ،ہر طرف لاشوں اور زخمیوں کے ڈھیر ،جگہ جگہ خون کے نشانات،اپنے عزیز و اقارب کی تلاش میں خواتین کی آہ و بکا،ایمبولنس گاڑیوں کی آواز ،اہل ہندوارہ یہ دن کبھی نہیں بھول سکتے ‘‘۔لوگوں پر براہ راست فائیرینگ کے بعد بی ایف اہلکاروں نے پورے چوک اپنے قبضے میں لے لیا اور صبح دس بجے سے لیکر دن کے دو بجے تک لاشوں کو اٹھانے کی اجازت تک نہیں دی گئی اور نہ ہی زخمیوں کو ہسپتال منتقل کرنے دیا گیا۔اس واقعہ کے بعد ہندوارہ میں ایک ہفتہ مسلسل کر فیو رہا ۔پولیس نے اس سلسلے میں ایک ایف آئی آر زیر نمبر 10۔1990بتاریخ 26جنوری 1990زیر دفعہ ,151,53A,435,436,148,149,336,427,307درج کیا۔مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ اس واقعہ میں بی ایس ایف کی 125بٹالین کے اہلکار ملوث ہیں لیکن آج تک ان کے خلاف کوئی کاروائی نہیں کی گئی۔شہداء ہندوارہ کو ہر سال ان کی برسیوں پر یاد کیا جاتا ہے اس سلسلے آج 25جنوری کو جامع قدیم ہندوارہ میںشہداء کو خراج عقیدت اور فاتحہ خوانی ہوگی۔(ہندوارہ سے جاوید زرگر کے ساتھ)

جنوری 1990:جب گاﺅ کدل مقتل میں تبدیل ہوا تھا


محمد طاہر سعید
سرینگر//گاﺅکدل قتل عام کو 22سال گزر گئے ہیں لیکن اس واقعہ کے زخم ابھی بھی تازہ ہیں اور ایسا لگتا ہے جیسے یہ واقعہ کل پیش آیاہے۔ 1990 جب ریاست میں عسکری تحریک اپنے جوبن پر تھی اور لوگوں کے جذبہ آزادی میں دن بدن اضافہ ہوتا جارہا تھا اور اس صورتحال کو بھانپتے ہوئے نئی دلی نے جگموہن کو ریاست کا گورنر بنا کر بھیجا ۔19جنوری کو نئی دلی نے جگموہن کو ریاست کا گورنر نامزد کیا اور ان کے نامزدگی کے صرف ایک روز بعد سی آر پی ایف کے ہاتھوں کشمیریوں کے قتل عام کا پہلا اور بڑا واقعہ پیش آیا۔اس واقعہ میں 52شہری ہلاک اور سینکڑوں زخمی ہوگئے۔21جنوری 1990کو وادی میںسخت سردی تھی لیکن عسکری تحریک دن بدن گرم ہوتی جارہی تھی،اس روز موسم صاف تھا مگر کرفیو کی وجہ سے لوگ اپنے گھروں میں سہمے ہوئے تھے اس دوران شہر کے پادشاہی باغ سے لوگوں نے ایک جلوس نکالا یہ جلوس جواہر نگر اور راجباغ سے ہوتے ہوئے گاﺅ کدل پہنچ گیا ۔دن کے دو بجے اس پرُامن جلو س پر سی آر پی ایف نے فائیرینگ کر کے گاﺅکدل کو مقتل میں تبدیل کی۔اس واقعہ کے چشم دید گواہ بسنت باغ کے ارشد احمد بٹ کا کہنا ہے”شہر میں کریک ڈاون اور گھر گھر تلاشیوں کے بعد کر فیو تھا،سول لائز سے ایک جلوس نکالا گیا جو گاﺅ کدل پہنچتے پہنچتے ایک بڑے جلوس کی شکل اختیار کر گیا،جلوس میں شامل لوگ جوں ہی گاﺅکدل پل پار کر کے نئی سڑک کے قریب پہنچ گئے تو سی آر پی ایف اہلکاروں نے دونوں طرف سے فائیرینگ شروع کی “ ۔اس قتل عام کے واقعہ کو دھراتے ہوئے ارشد کہتے ہیں” میں نے یہ منظر خود اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے،سی آر پی ایف اہلکاروں نے لوگوں پر براہ راست بندوق کے دھانے کھول دئے،کچھ لوگ موقعہ پر ہی ہلاک ہوئے اور کچھ زخمی حالت میں وہیں گر گئے ,یہ صورتحال تقریبا دس منٹ تک جاری رہی اس کے بعد سی آر پی ایف اہلکار گاڑیوں میں آگئے اور زخمیوں پر گولیاں چلائیں اتنا ہی نہیں انہوں نے لاشوں کے ساتھ بے حرمتی بھی کی ،باقی لوگ گلیوں اور کوچوں سے بھاگنے میں کامیاب ہوئے“۔ارشد کے مطابق ”یہ جلیانوالہ باغ قتل عام کو دوسرا منظر تھا ،سی آر پی ایف نے پر امن لوگوں پر فائیرینگ کی اور ایسا لگ رہا تھا کہ عام لوگوں کے قتل عام ایک منصوبہ بند طریقے سے کیا گیا کیونکہ پہلے لوگوں کو گاﺅ کدل پُل پار کرنے کی اجازت دی گئی اور لوگوں نے جوں ہی پُل پار کیا اور کچھ نئی سڑک پہنچ گئے تو دونوں تک سے سی آر پی ایف اہلکاروں نے اندھا دھند فائیرینگ کی“۔گاﺅ کدل قتل عام میں پیش آئے ایک خاص واقعہ کا ذکر کرتے ہوئے ارشد کہتے ہیں ”جب سی آر پی ایف اہلکاروں نے گولیاں چلانی شروع کیں تو کورٹ روڑ سرینگر کے ایک ٹیکسی ڈرائیور فاروق احمد شیخ جو نہایت طاقتوں اور جسیم تھا ،نے سی آر پی ایف اہلکار کی ایل ایم جی کے دھانے کو پکڑ کر اسے اپنے سینے پر لیا اور باقی لوگوں کو مرنے سے بچا لیا،جب ہم نے فاروق کی لاش کو اٹھایا اس کا بدن گولیوں سے چھیلنی تھا اور اس کے دونوں ہاتھ متواتر گولیاں چلنے سے آگ کی طرح تبتی ہوئی بندوق کی ناکلی پکڑے رکھنے سے جل چکے تھے“۔ارشد کا کہنا ہے کہ تقریباً آدھے گھنٹے کے بعد مقامی لوگوں نے ہمت اور حوصلے کا مظاہرہ کرتے ہوئے لاشوں اور زخمیوں کو د ریائے جہلم میں کشتیوں میں سوار کر کے انہیں ٹیکنی پورہ پہنچایا جہاں سے انہیں آٹو اور گاڑیوں میں بھر کر شہر کے مختلف ہسپتالوں تک پہنچا دیا گیا۔انہوں نے مزید کہا کہ گاﺅ کدل پل سے نئی سڑک تک ہزاروں کی تعداد میں جوتے تھے جو لوگوں نے بھاگنے کے دوران وہیں چھوڑ دے۔ارشد بٹ کا کہنا ”میں یہ سانحہ زندگی بھر کبھی بھول نہیں سکتا ،اس واقعہ کا میرے ذہن پر ایک گہرا اثر پڑ چکا ہے،میں نے لوگوں کو گولیاں لگتے ہوئے،گرتے ہوئے اور زخمیوں کو اٹھاتے ہوئے خود اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے اور یہ واقعہ آج بھی میرے ذہن میں تازہ ہے اور جو زخم لگا ہے وہ آج بھی ہرا ہے“۔ارشد کی عمر اب چالیس سال کے قریب ہے لیکن ان کا کہنا ”مجھے لگتا ہت کہ یہ کل کا واقعہ ہے ،جب بھی میں کبھی اس کے بارے میں سوچتا ہوں تو میرا بدن لرز اٹھتا ہے ،اس قتل عام کا مقصد ہی کشمیریوں کو خوف زدہ کرنا تھا کیونکہ اس وقت عسکری تحریک اپنے جو بن پر تھی اور لوگ بڑی تیزی کے ساتھ اس تحریک کے ساتھ منسلک ہورہے تھے “۔

ایس آر ٹی سی…اونٹ رے اونٹ تیری کون سی کل سیدھی............ گاڑیاں معمولی خرابی کی بناپہ ورکشاپوں میں مہینوں سے گردچاٹ رہی ہیں

محمد طاہر سعید
سرینگر//جموں وکشمیر سٹیٹ روڑ ٹرانسپورٹ کارپویشن کی غلط پالیسی وجہ سے کارپویشن کی تقریباً دو سو گاڑیاں معمولی خرابی کے باوجود مہینوں سے مختلف ورکشاپوں میں پڑی ہوئی ہیں ۔باوثوق ذرائع نے کشمیر عظمیٰ کوبتا یاکارپویشن کی پرچیزینگ کمیٹی کے حوالے سے جو نئی پالیسی اپنائی گئی ہے اس کی وجہ سے گاڑیاں ہفتوں اور مہینوں ورک شاپوں میں پڑی رہتی ہیں۔ذرائع نے بتا یا کہ ڈیپارٹمنٹل پرچیزینگ کمیٹی (اول)کے تحت کارپویشن براہ راست کمپنیوں سے پرزے حاصل کرتی تھی اور گاڑی میں خرابی پیدا ہونے کے بعد چند ہی گھنٹوں میں گاڑی کو ٹھیک کیا جاتا تھا تاہم ڈیپارٹمنٹل پرچیزینگ کمیٹی (دوم)کے تحت پرزوں کی تبدیلی کیلئے پہلے چار منیجروں سے اجازت حاصل کرنا پڑتی ہے اور یہ منجیر مختلف مقامات پر تعینات ہیں اور ان سے اجازت حاصل کرنے میں ہفتے لگ جاتے ہیں ۔ذرائع کا کہنا ہے کہ اس پالیسی کی وجہ سے گاڑیاں معمولی خرابی کے باعث ہفتوں اور کبھی کبھار مہینوں ورک شاپ میں پڑی رہتی ہیں جس کی وجہ سے کارپویشن کو لاکھوں روپے کا خسارہ اٹھانا پڑتا ہے۔ذرائع کے مطابق کارپویشن کی ایک نیو روم گاڑی زیر نمبر JK01Y-612 پانچ ماہ سے خرابی کے باعث ٹورسٹ سنٹر میں پڑی ہوئی ہے۔ذرائع نے مزید بتا یا کہ اس گاڑی سے کارپویشن کو روانہ 8550روپے حاصل ہوتے ہیں اور اس گاڑی کو ٹھیک کرنے میں صرف 15ہزار روپے کا خرچہ آتا ہے۔ذرائع نے بتا یا کہ تیس ہزاری نئی دلی سے سرینگر تک چلنے والی ایک سلیپر بس کی پریشر بال میں حال ہی میں کچھ خرابی پیدا ہوئی اور اسے ٹھیک کرنے میں صرف 20ہزارروپے لگ جاتے تھے جبکہ یہ آنے اور جانے میں اس گاڑی کی آمدنی 70ہزار روپے ہیں لیکن کارپویشن کی غلط پالیسی کی وجہ سے یہ گاڑی 19روز تک ورک شاپ میں پڑی رہی جس کی وجہ کارپویشن لاکھوں روپے کا نقصان ہوگیا۔ذرائع کا کہنا ہے کہ اس کارپویشن کے مختلف ورک شاپوں میں دو سو کے قریب گاڑیاں ،جن میں ٹرک اور دیگر چھوٹی بڑی گاڑیاں شامل ہیں،خرابی کے باعث پڑی ہوئی ہیں جو معمولی مرمت کے بعد قابل استعمال بن سکتی ہیں اور اس سے کارپویشن کی آمدنی میں بھی اضافہ ہوگاجبکہ برفباری کے موسم میں دور دراز علاقوں کے لئے ان گاڑیاں استعمال میں بھی لایا جا سکتا ہے۔جموں کشمیر سٹیٹ روڑ ٹرانسپورٹ کارپویشن ورکرز یونین کے چیر مین شکیل احمد کوچھے نے اس حوالے سے کشمیر عظمیٰ کو بتا یا یونین کا بہت دیر سے یہ مطالبہ رہا ہے کہ گاڑیوں کی مرمت کے حوالے سے محکمہ کو اپنی پالیسی میں تبدیلی لانی چاہیے کیونکہ اس پالیسی کی وجہ سے گاڑیاں ورکشاپوں میں پڑی رہتی ہیں اور کارپویشن کو خسارہ اٹھانا پڑتا ہے۔انہوں نے کہا’’اس حوالے محکمہ کو نئی پالیسی اپنا کر اختیار ات کو غیر مرکوز کرنا چاہیے تاکہ ایک معمولی پرزے کے لئے ڈرائیور کو منیجروں کے دفاتر کے چکر نہ کاٹنا پڑے۔انہوں نے کہا ’’ایک معمولی سے میٹنگ کے لئے کارپویشن کے ایک درجن آفیسران کو جموں طلب کیا گیا ہے اور ان کے آنے جانے میں کارپویشن کو لاکھوں روپے کا بوجھ اٹھانا ہے اور اس سلسلے میں کوئی جوابدہی بھی نہیں ہے۔انہوں نے کہا’’اگر اس وقت کارپویشن خسارے میں ہے تو پھر آفیسر ان کو جموں طلب کر کے ان کے ہوائی سفر پر لاکھوں روپے خرچ کرنے کا مطلب ہے ،اگر یہ لوگ کارپویشن کو مالی خسارے سے بچانے میں واقعی سنجیدہ ہیں تو پھر انہیں یہ رقومات خراب گاڑیوں پر خرچ کر کے انہیں قابل آمد و رفت بنانا چاہئے اس سے نہ صرف کارپویشن مالی خسارے سے بچ سکتی ہے بلکہ مستقبل میں ایسی ہوائی سفر بھی برداشت کر سکتی ہے‘‘۔اس حوالے سے کشمیر عظمیٰ نے ٹرانسپورٹ کے وزیر قمر علی آخون کے ساتھ رابطہ قائم کرنے کی کوشش کی لیکن ان کے ساتھ رابطہ نہ ہوسکا۔

جمہوریت پنپنے دی گئی نہ لوگوں کونمائندے چننے کا موقعہ دیا گیا .......ریاست کوقیدخانے میں تبدیل کیاگیا

محمد طاہر سعید

سرینگر//پی ڈی پی سرپرست اورسابق وزیراعلیٰ مفتی محمد سعید نے کہا ہ

ے کہ 1947میں ہند وپاک کی آزادی کیساتھ ہی جموں وکشمیر قید خانہ کی شکل اختیار کر گیا اور یہاں نہ تو جمہوریت کو پنپنے دیا گیااور نہ ہی لوگوں کو اپنے پسند کے نمائندے کو چننے کا موقعہ دیا گیا۔ پی ڈی پی کے یوم تاسیس کے موقعہ پر پارٹی ہیڈ کوارٹر پر منعقدہ ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے مفتی محمد سعید نے کہاکہ 1947میں برصغیر ہند و پاک کی آزادی کیساتھ ہی جموں وکشمیرقید خانے کی شکل اختیار کرگیا۔انہوں نے کہا ’’بیرونی سطح پر ہمارے تمام روایتی راستے بند کر دیئے گئے جو ہماری ریاست کی ترقی میں بڑی رکاوٹ بن گئے بلکہ اندرونی سطح پر کبھی جمہوریت کو پنپنے کا موقعہ ہی نہیں دیا گیا،اظہاررائے پر قدغن لگائی گئی اور انتخابات میں دھاندلیاں کی گئیں حتیٰ کہ آئین ساز اسمبلی ،جسے ریاستی عوام کی تقدیر کا فیصلہ کرنا تھا، کے ممبران بلا مقابلہ کامیاب قرار دئے گئے اور اس کیلئے بھی انتخابات نہیں ہونے دیئے گئے‘‘۔انہوں نے کہا کہ یہاں کئی دہائیوں تک ایک پارٹی نظام چلتا رہا جس نے ریاست کے سیاسی منظرنامے پر مزید اندھیرے کا اضافہ کردیا تاہم 1999میںپی ڈی پی کی بنیاد ڈالی گئی جس نے اسے سنگین چیلنج دیا ۔پی ڈی پی کے وجود کو ریاست کی جمہوری تاریخ میں ایک ٹرننگ پوائنٹ قرار دیتے ہوئے انہوںنے کہا ’’پی ڈی پی نے سیاسی منظرنامے پر اہم تبدیلیاں لائیں ‘‘۔پی ڈی پی سرپرست نے کہا ’ اپوزیشن کا ایک اہم رول ہوتا ہے اسلئے میراکام نیشنل کانفرنس کو ختم کر نا نہیں بلکہ میرا کام پارٹی پروگرام کو عوام تک پہنچانا ہے‘‘۔مفتی نے کہا کہ پی ڈی پی کو وجود میں لانے کا مطلب یہاں کے عوام کو مشکلات سے نجات دلانا اور مسئلہ کشمیر کو حل کر نے کیلئے ہند و پاک میں رائے عامہ بنا کر ہندوستان کو مجبور کرنا ہے کہ وہ مسئلہ کشمیر حل کر نے کیلئے غیر مشروط بات چیت کی شروعات کریں ۔انہوں نے کہا کہ پی ڈی پی کے دور حکومت میں ہی اس وقت کے وزیر اعظم اٹل بہاری واچپائی نے کشمیر کی سرزمین سے پاکستان کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھایا اور اس وقت جو امن عمل کا سلسلہ چل رہا ہے وہ اٹل بہاری واچپائی اور جموں وکشمیر کے عوام کی دین ہے۔انہوں نے کہا ’’ابھی تک صرف آر پار بچھڑے لوگ ملتے تھے ،اب کوئی بھی یہاں آسکتا ہے اور کوئی وہاں جاسکتا ہے حتیٰ کہ اب ہم بھی پاکستان کے زیر انتظام کشمیر جا سکتے ہیں ۔کشمیر میں پتھرائو پر قابو کرنے سے متعلق وزیر داخلہ پی چدمبر م کے بیان کو مضحکہ خیز قرار دیتے ہوئے مفتی محمد سعید نے کہا کہ کشمیر امن و قانون اور پتھرائو کا مسئلہ نہیں ۔ انہوں نے کہا کہ وزیر داخلہ کو پتھرائو سے متعلق بیان کی بجائے یہاں کے انتظامی معاملات اور حکومت کی بات کرنی چاہئے تھی۔انہوں نے کہا کہ کشمیر ایک سیاسی مسئلہ ہے اور اس کے تمام پہلوئوں کو حل کرناضروری ہے لیکن بد قسمتی یہ ہے کہ وزیر داخلہ نے ریاست کی حکومت اور یہاں کے عوام پر ڈھائے جارہے مظالم کا ذکر نہیں کیا۔مفتی سعید نے کہا ’’ جب میں نے اقتدار میں آنے کے بعد محمد یاسین ملک بشمول تمام حریت پسند لوگوں کی رہائی کا سلسلہ شروع کیا تو انہیں اس وقت منموہن سنگھ نے فون کر کے کہا تھا کہ گجرات میں انتخابات چل رہے ہیں اسلئے کانگریس کو گجرات میں نقصان ہوگا لیکن میں نے منہوہن سنگھ سے کہا میری پارٹی کا ایجنڈا یہی ہے ،میں لوگوں کو جیلوں میں بند نہیں رکھنا چاہتا‘‘۔انہوں نے کہا کہ پی ڈی پی نے اپنے منشور کے ایک ایک حصے اور پارٹی کے اس ایجنڈے پر مکمل عمل کیا جس کیلئے پی ڈی پی کو وجود میں لایا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ پنچایتی انتخابات کو غیرجماعتی بنیادوں پر کرانے کا مقصد صرف یہ تھا کہ حکمران جماعت تمام کامیاب امیدواروں کو اپنے کھاتے میں ڈالتی لیکن اگر پارٹی بنیادوں پر چنائو کرائے گئے ہوتے تو پی ڈی پی کو غالب اکثریت حاصل ہوتی ،اس کے بغیر بھی پی ڈی پی سب سے بڑی پارٹی بن کر ابھری ہے۔اس موقعہ پر پی ڈی پی سنیئر نائب صدر مولوی افتخار حسین انصاری ،جنرل سیکریٹری محمد دلاور میر ،ایم ایل سی محمد اشرف میر سمیت کئی لیڈران نے خطا ب کیا۔

’ پی ڈی پی پنچایت کانفرنس سبوتاژ کر نے کی کوشش ‘ حکومت مخمصے میں مبتلا،ٹکرائو کا راستہ ترک کرے


محمد طاہر سعید

سرینگر//حکومت پرپیپلز ڈیموکریٹک کی 28جولائی کو ہونیوالی ریاستی پنچایت کانفرنس سبوتاژ کر نیکا الزام عائد کرتے ہوئے پارٹی کے سنیئرلیڈر اور سابق نائب وزیراعلیٰ مظفر حسین بیگ نے کہا ہے کہ انکی پارٹی کو پنچایتی انتخابات میں دیگر جماعتوں کے مقابلے واضح برتری حاصل ہوئی ہے اور نیشنل کانفرنس کو خدشہ ہے کہ پی ڈی پی اس کانفرنس سے اپنی طاقت کا مظاہرہ کریگی۔پارٹی سرپرست مفتی محمد سعید کی سرکاری رہائش گاہ پر ایک ہنگامی پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے سابق نائب وزیر اعلیٰ نے کہا کہ انکی پارٹی نے 28جولائی کو نومنتخب سرپنچوں اورپنچوں کی کانفرنس منعقد کرنے کا فیصلہ کیا ہے اور یہ فیصلہ 10جولائی کوپارٹی نے لیا تھا اور اس کیلئے ضلع انتظامیہ سے12جولائی سے 21 جولائی تک چار بار اجازت طلب کی گئی لیکن ابھی تک انہیں یہ کانفرنس منعقد کر نے کیلئے اجازت نہیں دی گئی ہے تاہم سوموار کو انتظامیہ نے انہیں مطلع کیا کہ منگل صبح ساڑھے دس بجے تک انہیں اجازت دی جائیگی اور دوسری طرف اس کانفرنس کو سبوتاژ کر نے کیلئے 28جولائی کو ہی نو منتخبہ سرپنچوں اور پنچوں کو حلف دلانے کی تاریخ مقر ر کی گئی ہے۔ انہوں نے کہا’’حلف دینے کی تاریخ 21سے 26جولائی تک مقرر کی گئی تھی لیکن آج ہمیں پتہ چلا کہ اب سرپنچوں اور پنچوںکو28جولائی کو حلف دیا جارہا ہے جو کہ صرف ہماری کانفرنس سبوتاژ کر نیکی کوشش ہے‘‘۔بیگ نے کہا کہ پولیس اور محکمہ دیہی ترقی کے ملازمین کے ذریعہ ممبران کو ڈرایا جا رہا ہے کہ اگر وہ حلف نہیں لیں گے تو وہ ممبری سے خارج ہوجائیں گے ۔بیگ نے کہا’’ایسا کوئی قانون نہیں کہ اگر ممبر حلف نہیں اٹھائیگا تو وہ ممبری سے خارج ہوگا ،اس کا مقصد صرف ہماری کانفرنس ناکام کر نا ہے‘‘۔انہوں نے کہا’’ہم حکومت سے ٹکرائو نہیں چاہتے ،ہمارا حکومت سے مطالبہ ہے کہ حکومت 28جولائی کو حلف برداری کی تقریب موخر کرے یا ہم ہی اپنی کانفرنس کیلئے دوسری تاریخ مقرر کریں گے‘‘۔انہوں نے کہا ’’اگر حکومت ہماری کانفرنس منعقد کر نے میں روڑے اٹکائے گی تو ہمارے پنچ اور سرپنچ سڑکوں پر آنے کیلئے مجبور ہوجائیں گے اورایسی صورتحال کی ذمہ داری حکومت پر عائد ہوگی‘‘۔بیگ نے نیشنل کانفرنس پر الزام عائد کیا کہ وہ پنچوں اور سرپنچوں کو خریدنے کی کوشش کر رہی ہے تاکہ بلاک اور ضلع کمیٹیوں میں ان کے چیئرمین اور نائب چیرمین منتخب ہوں۔انہوں نے کہاکہ پہلی بار لوگوں نے بھاری تعداد میں ووٹ ڈالے ہیں حتیٰ کہ ان لوگوں نے بھی ووٹ ڈالے جنہوں نے اسمبلی انتخابات میں بائیکاٹ کیا تھا اور اس سے زمینی سطح پر جمہوریت کومضبوط کرنیکا ایک بہترین موقع ملا ہے اور ان نو منتخب ممبران کی رائے بھی مسئلہ کشمیر کو حل کر نے میں سود مند ثابت ہوگی کیونکہ یہ عوام کے منتخب نمائندے ہیں اور ان پر سنگ انداز یا لشکر طیبہ جنگجو ہونے کا کوئی الزام نہیں لگایا سکتا۔بیگ نے دعویٰ کیا کہ پی ڈی پی کوپنچایتی انتخابات میں برتری حاصل ہوئی ہے۔انہوں نے کہا’’15ہزار نو منتخب پنچوں اور سرپنچوں میں سے 8 ہزار سے زائد کا تعلق پی ڈی پی سے ہے اور حکومت کو خطرہ لگ رہا ہے کہ ہم اپنی طاقت کا مظاہرہ کریں گے اور اس سے یہ واضح ہوگا کہ ہمارے ممبران زیادہ ہیں اسلئے وہ کانفرنس کو سبوتاژ کر رہے ہیں‘‘۔انہوں نے کہا’’ہم حکومت سے کہنا چاہتے ہیں کہ وہ سرکس کا کھیل بند کرے ورنہ حالات ایسے کروٹ لیں گے کہ اس کی ذمہ دار ی حکومت پرہوگی‘‘۔مظفر حسین بیگ کے ہمراہ پریس کانفرنس میں پی ڈی پی جنرل سیکریٹری محمد دلاور میر،ترجمان اعلیٰ نعیم اختر،سٹیٹ سیکریٹری الطاف احمد بخاری اور ایم ایل سی مرتضیٰ خان تھے۔

مضافاتی ہسپتالوں سے 60فیصد مریضوںکی سرینگر منتقلی غیر ضروری SKIMSاورصدر ہسپتالوں میں روزانہ3500 کااندراج

محمد طاہر سعید
سرینگر//ضلع وسب ضلع ہسپتالوں اور پرائمری ہیلتھ سنٹروں میں بنیادی سہولیات کی عدم دستیابی کی وجہ سے مریضوں کو شہر کے ہسپتالوں کا رُخ کر نا پڑ تا ہے جس کی وجہ سے دیہی علاقوں کے ہسپتال بے معنی ہوکر رہ گئے ہیں ۔بیماروں کو سرینگر منتقل کرنا اب ایک معمول بن گیا ہے اور اگر کہیں ضلع یا سب ضلع ہسپتال میں بھی مریض کا علاج کا ممکن ہو لیکن بیمارکے لواحقین کو تب تک تسلی نہیں ہوتی جب تک نہ اسے سرینگر منتقل کیا جائے۔ وادی میں صحت کا شعبہ پوری طرح متاثر ہوا ہے اور تمام بیماروں کی نظریں صدر اسپتال، صورہ میڈکل انسٹی ٹیوٹ، جی پی پنتھ ہسپتال اور لل دید ہسپتال پر مرکوز ہوتی ہیں ۔اعداد و شمار کے مطابق وادی میں 9ضلع ہسپتال،47سب ڈسٹرکٹ ہسپتال ،228پرائمیری ہیلتھ سنٹر،125الوپیتھک ڈسپنسری،7ٹی بی سنٹر،280میڈکل ایڈ سنٹر اور 939 سب سنٹر موجود ہیں تاہم وادی میں کوئی بھی ایمرجنسی ہسپتال نہیں ہے جبکہ کشمیر کے مقابلے میں جموں میں 6ایمرجنسی ہسپتال کام کررہے ہیں۔ وادی کے ہسپتالوں میں بنیادی سہولیات کی کمی کی وجہ سے مریضوں کو سرینگرکا رُخ کر نا پڑتا ہے جس کی وجہ سے یہاں کے ہسپتالوں پر کافی دبائو رہتا ہے۔ وادی میں کل 1646 طبی ادارے ہیں اور ان پر اربوں روپے خرچ کئے جارہے ہیں تاہم بنیادی سہولیات کی عدم دستیابی کی وجہ سے یہ طبی ادارے بے معنی ہوکر رہ گئے ہیں۔ آورہ کپوارہ میں پرائمری ہیلتھ سنٹر پر 50لاکھ سے زائد روپے خرچ کئے گئے لیکن ہسپتال میں بنیادی سہولیات نہ ہو نے کی وجہ ہسپتال تباہی کے دہانے پر پہنچ گیا ہے۔ مقامی لوگوں کے مطابق ہسپتال میں کسی بھی طرح کی سہولیت موجود نہیں اور نہ ہی ہسپتال میں کوئی خاتون ڈاکٹر موجود ہیں جس کی وجہ سے خواتین اس ہسپتال کا رُخ نہیں کرتے۔اس ہسپتال میںا گر چہ ایک لیڈی ڈاکٹر موجود تھیں تاہم ایک سال قبل اس کا تبادلہ عمل میں لایا گیا اور ابھی تک کسی بھی دوسری لیڈی ڈاکٹر کو وہاں تعینات نہیں کیا گیا۔یہی حال وادی کے دیگر ہسپتالوں کا بھی ہے۔ سرینگر کے شیر کشمیر انسٹی ٹیوٹ آف میڈکل سائنسز صورہ کے او پی ڈی ریکارڈ کے مطابق روزانہ 2ہزار کے قریب نئے مریضوں کا اندراج ہوتا ہے جن میں زیادہ مریضوں کی تعداد دیہی علاقوں کی ہوتی ہے۔ میڈکل انسٹی انسٹی ٹیوٹ انتظامیہ کا کہنا ہے کہ اس رش کو کم کیا جاسکتا ہے کیونکہ 2ہزار میں 1200مریض ایسے ہوتے ہیں جن کا علاج مقامی ہسپتالوں میں بھی ممکن ہوسکتا ہے۔ سرینگر صدر ہسپتال کی حالت بھی میڈکل انسٹی ٹیوٹ سے مختلف نہیں۔ صدر اسپتال میں گزشتہ ماہ 40ہزار اوپی ڈی رجسٹر ہوئیں جبکہ پانچ ہزار مریض ہسپتال میں داخل رہے۔ صدر ہسپتال کے میڈکل سپر انٹنڈیٹ ڈاکٹر منیر مسعودی نے کشمیر عظمیٰ کو بتا یا کہ ہسپتال میں روزانہ اوسط 1500کے قریب مریض رجسٹر ہوتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ مریضوں کا سرینگر منتقل کر نے کا کوئی معقول نظام نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ مریضوں کو براہ راست سرینگر کے بڑے ہسپتالوں میں نہیں آنا چاہئے بلکہ اس کے لئے ایک معقول نظام کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ ضلعو ں سے سرینگر منتقل ہونے والے مریضوں کے پاس ضلع ،سب ضلع ہسپتالوں یا پرائمری ہسپتالوں کی ریفرل سلپ ہونی چاہیے اور اگر کسی مریض کاعلاج اپنے مقامی ہسپتالوں میں ہی ہوسکتا ہے تو اسے سرینگر منتقل نہیں کیا جانا چاہیے۔ اس صورتحال کے حوالے سے وزیر مملکت برائے صحت جاوید احمد ڈار نے بتا یا کہ ضلع یا سب اسپتالوں میں انفرسٹریکچر کی کمی نہیں ہے تاہم لوگوں کی ایک ذہنیت بن چکی ہے اور انہیں تب تک تسلی نہیں ہوتی جب تک شہر کے کسی ہسپتال کا رُخ نہیں کریں۔ انہوں نے کہا کہ ہم ماہانہ طور پر او پی ڈی مانیٹر کرتے ہیں تاہم انہوں نے اعتراف کیا کہیں کہیں پر ماہر ڈاکٹروں کی کمی ہوتی ہے جس کی وجہ سے مریضوں کو سرینگر منتقل کرنا لازمی بن جاتا ہے۔

شمالی کشمیر کے ہسپتالوں کو آلودہ پانی فراہم 20نمونوں میں سے 12مضر صحت ثابت

محمد طاہر سعید
سرینگر//اس بات کا انکشاف ہوا ہے کہ شمالی کشمیر کے 60فیصد ہسپتالوں میں پینے کا پانی مضر صحت ہے اور کسی بھی ہسپتال میں فلٹر پلانٹ نصب نہیں کیا گیا ہے۔ آئی ڈی ایس پی کپوارہ بارہمولہ کی ایک سروے رپورٹ کے مطابق شمالی کشمیر کے ضلع کپوارہ اور بارہمولہ کے اکثر ہسپتالوں کو پینے کا آلودہ پانی فراہم کیا جاتا ہے جو کہ بیماروں اور تیمارداروں کیلئے مضر صحت ہے۔ رپورٹ کے مطابق 20ہسپتالوں سے پینے کے پانی کے نمونے حاصل کئے گئے تھے اور لیبارٹری کی جانچ کے بعد 12ہسپتالوں میں پینے کا پانی مضر صحت پایا گیا ۔رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ان دونوں اضلا ع میں 41فیصد ہسپتالوں کو نل کا پانی فراہم کیا جاتا ہے۔ رپورٹ میں اس بات کا بھی انکشاف ہوا ہے کہ کپوارہ ضلع میں کوئی بھی فلٹریشن پلانٹ نہیں ہے۔ مذکورہ سروے رپورٹ نوڈل آفیسر آئی ڈی ایس پی شمالی کشمیر ڈاکٹر مسرت اقبال وانی کی قیادت میں ایک ٹیم نے تیار کی ہے۔ رپورٹ کے مطابق ٹنکیوں، جہاں پانی جمع کیا جاتا ہے ،کی مستقل بنیادوں پر صفائی نہیں ہوتی ہے اور نہ ہی پانی کے نمونوں کی جانچ کی جاتی ہے۔ رپورٹ کے مطابق صاف پانی کی فراہمی نیشنل رورل ہیلتھ مشن (این آر ایچ ایم)کے اہم مقاصد میں سے ایک ہے لیکن آج بھی یہ اس مقصد کو پانے میں ناکامی ہورہی ہے۔ حتی کہ ہسپتالوں میں چھوٹے فلٹریشن پلانٹ نصب نہیں کئے گئے تاکہ مریضوں اور تیمارداروں کو پینے کا صاف پانی فراہم کیا جاسکے۔ رپورٹ میں اگر چہ صرف ہسپتالوں کے پانی کی جانچ کی گئی ہے تاہم اس میں عام لوگوں کو فراہم کیا جانا والے پانی بھی صحت کے لئے مضر قرار دیا گیا ہے۔ رپورٹ میں یہ بات بھی منکشف ہوئی ہے کہ کئی علاقوں میں پانی کی ٹنکیوں کی مستقل بنیادوںپر صفائی نہیں کی جاتی ہے اور پی ایچ ای محکمہ لوگوں کو صاف پانی فراہم کر نے میں ناکام ہوا ہے۔ آئی ڈی ایس پی کے مطابق ضلع کپوارہ کے کئی علاقوں میں پانی میں ہزاروں کی تعداد میں کیڑے پائے گئے جسکی وجہ سے کئی بیماریوں نے جنم لیا۔ رپورٹ میں لوگوں سے کہا گیا کہ وہ پانی کو پانچ منٹ تک اُبالنے کے بعد ہی استعمال کر یں۔ جبکہ محکمہ صحت اور پی ایچ ای کے درمیان تال میل کی ضرورت پر زور دیا گیا ہے۔اس حوالے سے ڈائریکٹر ہیلتھ کشمیر ڈاکٹر سلیم الر حمان نے کشمیر عظمیٰ کو بتا یا کہ انہوں نے تمام ہسپتالوں کی انتظامیہ کو ہدایات دی ہیں کہ وہ بیماروں ، تیمارداروں اور ہسپتال عملہ کو صاف پانی فراہم کریں۔ انہوں نے کہا ’’ہسپتال انتظامیہ کو ہدایات دی گئی ہیں کہ وہ فلٹر کیا ہوا پانی مریضوں ،تیمارداروں اور عملہ کو فراہم کریں اور اس سلسلے میں وہ ہسپتالوں میں واٹر پیوری فائیر نصب کریں‘‘۔

مریض جائیں تو جائیں کہا ں ؟ سکمز میں 12وینٹی لیٹر ضروریات پورا کر نے کیلئے ناکافی

محمد طاہر سعید

سرینگر//وادی کے سب سے بڑے طبی مرکز صورہ میڈیکل انسٹی چیوٹ کے انتہائی نگہداشت والے وارڈ میں صرف 12وینٹی لیٹر موجود ہیں جو کہ مریضوں کی ضروریات پورا کر نے کیلئے بہت ہی کم ہے جبکہ وینٹی لیٹروں کی کمی سے اکثرو بیشتر مریضوں کی موت واقع ہوجاتی ہے۔انسٹی چیوٹ ذرائع نے کشمیر عظمیٰ کو بتا یا کہ سرجیکل آئی سی یو وارڈمیں صرف12وینٹی لیٹر موجودہیں جو کہ مریضوں کی بڑھتی ہوئی تعداد کے پیش نظر نہایت ہی کم ہیں۔ذرائع کے مطابق انسٹی ٹیوٹ میں صرف 5 وینٹی لیٹر موجود تھے اور سات سال قبل مزید سات وینٹی لیٹر لگائے گئے اور تب سے کوئی بھی نیا وینٹی لیٹر نہیں لایاگیا۔گزشتہ سال کے پُرتشدد حالات کے دوران وینٹی لیٹروں کی ضرورت زیادہ بڑھ گئی لیکن مذکورہ طبی ادارے کے پاس صرف 12ہی وینٹی لیٹر موجود تھے۔ذرائع کے مطابق اس وقت اگر انسٹی ٹیوٹ انتظامیہ نے مزید وینٹی لیٹر خریدنے کا فیصلہ کیا تھا تاہم ایک سال گزرجانے کے باوجود ابھی تک اس فیصلہ پر علمدار آمد نہیںکیاجاسکاہے۔ذرائع کا کہنا ہے کہ اگر کبھی کوئی بڑا حادثہ پیش آتا ہے یا زخمیوں کو انسٹی ٹیوٹ پہنچایا جاتا ہے تو اس وقت وینٹی لیٹروں کی کمی کی وجہ سے تمام زخمیوں کامعقول علاج نہیں ہوپاتا جس کی وجہ سے اکثر زخمیوں کی موت واقع ہوجاتی ہے۔انسٹی ٹیوٹ میں معمول کے مطابق بھی وینٹی لیٹروں کی کمی محسوس کی جاتی ہے لیکن انتظامیہ دلچسپی کا مظاہرہ نہیں کرتی۔کشمیر عظمیٰ کو ذرائع نے بتا یا کہ 19مئی کو کولگام کی تین سالہ بچی وینٹی لیٹر میسر نہ ہو نے کی وجہ سے فوت ہوئی۔مذکورہ بچی کو کولگام ضلع ہسپتال سے انسٹی ٹیوٹ منتقل کیا گیا تھا جہاں اسے وینٹی لیٹر کی سخت ضرورت تھی،مذکورہ بچی کی جان بچانے کیلئے چند ڈاکٹروں نے انتہائی نگہداشت والے وارڈ کے ساتھ رابطہ کر کے وینٹی لیٹر فراہم کر نے کو کہا تاہم مذکورہ وارڈ کے ڈاکٹروں نے یہ کہہ کر وینٹی لیٹر فراہم کر نے سے انکار کیا کہ تمام وینٹی لیٹر اس وقت مصروف ہیں،جس کے نتیجے میں بچی کی موت واقع ہوئی۔ذرائع کا کہنا ہے کہ انسٹی ٹیوٹ میں اکثراُنہی مریضوں کو داخل کیا جاتا ہے جنہیں وینٹی لیٹر کی ضرورت ہوتی ہے ۔ذرائع کا کہنا ہے کہ انسٹی ٹیوٹ میں مالی طور پر کوئی دشواری نہیں لیکن انتظامیہ وینٹی لیٹر خریدنے میں دلچسپی کا مظاہر ہ نہیں کرتی ہے۔اس حوالے سے انسٹی ٹیوٹ کے انچارج ڈائریکٹر رفیق احمد حکیم نے کشمیر عظمیٰ کو بتا یا کہ وینٹی لیٹروں کو نصب کر نے کیلئے جگہ کی کمی ہے تاہم اس سلسلے میں کام جارہی ہے اور چھ ماہ یا ایک سال کے اندر مزید 8وینٹی لیٹرنصب کئے جائیں گے۔انہوں نے اس بات کا اعتراف کیا کہ وینٹی لیٹروں کی اشد ضرورت ہے لیکن جگہ کی کمی کی وجہ سے مزید وینٹی لیٹروں کولگانے میں دشواریاں پیش آرہی ہیں ۔ انہوں نے کہا’’ہم نے آٹھ مزید وینٹی لیٹر لگانے کا فیصلہ کیا ہے اور اس سلسلے میں ضروری مشینری خریدنے کیلئے عنقریب احکامات صادر کئے جائیں گے تاہم اس کام میں چھ ماہ سے ایک سال کا وقت لگ سکتا ہے‘‘۔

سکمز :وادی کے مریضوں کی آخری امید لیکن ڈاکٹروں سے ملنے کے لئے مہینوں کاانتظار ،انتظامیہ کی پہلوتہی

محمد طاہر سعید
سرینگر//میڈکل انسٹی چیوٹ صورہ میں ڈاکٹروں سے ملنے کیلئے مریضوں کوکم از کم دو ماہ انتظار کرنا پڑرہا ہے۔انتظامیہ کا کہنا ہے کہ اسپتال میں مریضوں کی تعداد میں زبردست اضافہ ہورہا ہے جس کی وجہ سے مریضوں کو ڈاکٹروں سے ملنے کیلئے جلد وقت نہیں ملتا ۔ انسٹی ٹیوٹ کے ڈاکٹر وں کی پرائیویٹ پریکٹس پر پابندی کے بعد ہی یہاں کے اہم شعبوں جن میںانڈوکرنالوجی،کارڈیالوجی،گیسٹرو انٹرالوجی اوریورالوجی شامل ہیں،کے مریضوں کو ڈاکٹروں سے ملنے کیلئے مہینوں انتظار کرنا پڑ رہاہے۔ ذرائع کے مطابق انڈوکرنالوجی شعبہ میں مریضوں کو ڈاکٹروں سے ملنے کیلئے اکتوبر نومبر کی تاریخ دی جاتی ہے۔انڈو کرنالوجی کے ڈاکٹر نے 25مئی کو ایک مریض زیر او پی ڈی کارڈ نمبر 97386کا ملاحظہ کیا اور مذکورہ مریض کو ڈاکٹر سے ملنے کی اگلی تاریخ 29اکتوبر دی گئی۔گیسٹرو انٹرالوجی کے ایک مریض زیر او پی ڈی کارڈ نمبر 860886کا 26مئی کو ڈاکٹر نے ملاحظہ کیا اور اسے ڈاکٹر سے ملنے کی اگلی تاریخ 6اکتوبر دی گئی۔گسٹرو انٹالوجی کے ہی ایک اور مریض زیر او پی ڈی نمبر 51634کو بھی ڈاکٹر سے ملنے کی تاریخ 6اکتوبر دی گئی ۔میڈکل انسٹی ٹیوٹ کی او پی ڈی رجسٹر پر درج ریکارڈ کے مطابق 26مئی کو گیسٹروانٹرالوجی کے ڈاکٹروں سے ملنے والے تمام مریضوں کو اگلی تاریخ 6اکتوبر دی گئی ہے۔امراضِ قلب میںمبتلاایک مریض او پی ڈی نمبر 33743 کا 26مئی کو چیک اپ کیاگیااور اسے اب دوبارہ ڈاکٹر سے ملنے کے لئے 23جون تک انتظار کرنا پڑیگا۔ ذرائع کے مطابق مریض کو ڈاکٹر سے پہلی بار ملنے کے بعد 15دن کا وقت دیا جاتا تھا لیکن گزشتہ ڈیڑھ ماہ سے اب مریضوں کو دو سے تین ماہ کا وقت دیا جارہاہے جبکہ نئے مریضوں کو بھی اسی طرح ڈاکٹروں سے ملنے کیلئے مہینوں انتظار کرنا پڑرہاہے۔ضلع اور دیگر ہسپتالوں میں ڈاکٹروں کا بہترین انتظام نہ ہونے کی وجہ سے مریضوں کی آخری امید میڈکل انسٹی ٹیوٹ پرہے تاہم یہاں جب مریضوں کو ڈاکٹروںسے مہینوں کے بعدملنے کاموقعہ بھی فراہم ہوتا ہے تو اُس وقت تک انکی صحت بگڑ چکی ہوتی ہے۔ذرائع کا کہنا ہے کہ ان مریضوں کو بعدمیں نیم مردہ حالت میں کیجولٹی میں داخل کیا جاتا ہے اور اگر ان کا بروقت علاج نہیں ہوگا تو اکثر مریض کی موت واقع ہوتی ہے۔صورہ میڈکل انسٹی چیوٹ کے انچارج ڈائریکٹر رفیق احمد حکیم نے اس نے حوالے سے کشمیر عظمیٰ کو بتا یا کہ اسپتال میں بیماروں کی تعداد میں زبردست اضافہ ہواہے اور ہر ایک ڈاکٹر کی کوشش ہے کہ وہ زیادہ سے زیادہ بیماروں کا ملاحظہ کرسکے۔انہوں نے کہا کہ بدقسمتی سے ہمارے یہاں کے اسپتالوںمیںبیماروں کا تسلی بخش علاج نہیں ہوپاتاکیونکہ انکے پاس بہتربنیادی ڈھانچہ موجود نہیں ہے اسلئے بیمار انسٹی ٹیوٹ کا ہی رُخ کرتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ گزشتہ سال انسٹی ٹیوٹ میں لاکھوں بیماروں کا علاج اور ٹسٹ کرائے گئے اور تمام مشکلات کے باجود انسٹی ٹیوٹ کی کوشش رہتی ہے کہ وہ زیادہ سے زیادہ مریضوں کا علاج کرسکے۔انہوں نے کہا کہ اگر کہیں بھی پر کوئی کوتاہی ہو تو اسے دورکر نے کی کوشش کی جائیگی۔