Thursday, December 31, 2009

یادیںبیتے لمحوں کی

محمد طاہر سعید

سرینگر//سال 2009اب کچھ گھنٹوں کے بعد تلخ اورشیرین یادوں کے ساتھ ہمیں الوداع کہنے جا رہا ہے۔2009 کی آمد کے ساتھ ہی6سال کے انتظار کے بعد دوبارہ نیشنل کانفرنس برسر اقتدار آئی اور عمر عبداللہ نے ریاست کی حکومت سنبھال لی ۔ شوپیان واقعہ 2009کا تلخ ترین واقعہ رہا اور ابھی تک اس واقعہ سے کشمیریوں کو لگے زخم مندمل نہیں ہوئے ہیں۔یہ سال بھی نئے پروجیکٹوں کے افتتاح ،سنگ بنیاد،مزاحمتی قیادت پر پبلک سیفٹی ایکٹ کے بار بار اطلاق، نظربندی ،سیاسی لیڈران پر حملوں اور عام شہریوں کی ہلاکت کی تاریخ میں ایک اور باب کے اضافہ کے ساتھ ہمیں آخری سلام کر نے جا رہا ہے۔

٭4جنوری کو نیشنل کانفرنس کے صدر عمر عبداللہ نے ریاست کے گورنر این این ووہراسے ملاقات کر کے نئی حکومت کی تشکیل کا دعویٰ پیش کیا ۔اس سے قبل پردیش کانگریس کے صدر پروفیسر سیف الدین سوز اور کانگریس پارلیمانی پارٹی کے لیڈر چودھری محمد اسلم نے جموں میں گورنر سے ملاقات کر کے انہیں عمر عبداللہ کی سربراہی میں بننے والی سرکار کو حمایت دینے کے سلسلے میں ایک خط سونپا۔

٭5جنوری کو عمر عبداللہ نے جموں وکشمیر کے نئے وزیر اعلیٰ کے عہدے کا حلف لیا۔جموں یونیورسٹی زورآور سنگھ آڈیٹوریم میںریاست کے گورنر این این ووہرا نے 38سالہ عمر عبداللہ کو اپنے عہدے اور رازداری کا حلف دیا۔اس موقع پر مزید 9وزراءنے بھی حلف لیا۔

٭14فروری کو کانگریس صدر سونیا گاندھی نے شہری ہوا بازی کے مرکزی وزیر پروفل پٹیل ،ریلوے وزیر لالو پر ساد یادو اور وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ کی موجودگی میں سرینگر انٹر نیشنل ایئر پورٹ اور مازہامہ ورمل ریلوے اسٹیشن کو عوام کے نام وقف کیا۔اس موقع پر کانگریس صدر سونیا گاندھی نے اسمبلی انتخابات میں عوام کی بھاری شرکت کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ جموں وکشمیر کے لوگوں نے بھارت کی جمہوریت پر اعتماد کا اظہار کر کے علیحدگی پسندوں کو مسترد کر دیا۔

٭21فروری کو بومئی سوپر میںفوج نے تجر شریف کے عرس سے واپس لوٹ رہے نوجوانوں پر گولیاں چلائیں جس کی وجہ سے دو نوجوان محمدامین تانترے اور جاوید احمد موقع پر ہی جان بحق جبکہ فردوس احمد زخمی ہوئے۔حکومت نے اس واقعہ کی مجسٹریل انکوائری کر انے کا اعلان کیا اور انکوائری میں فوج کو براہ راست اس میں ملوث قرار دیا گیا۔

٭لبریشن فرنٹ چیئرمین محمد یاسین ملک 22فروری کو پاکستان نژاد مشعل ملک کےساتھ ازدواجی بندھن میں بند گئے۔ پاکستان میں ہوئی شادی کی تقریب کے بعد محمد یاسین ملک اکیلے واپس کشمیر لوٹے جہاں پارلیمانی چناﺅ کے پیش نظر انہیں اپنے گھر میں نظر بند رکھا گیا ۔رہائی کے چند ماہ بعد محمد یاسین ملک دوبارہ پاکستان چلے گئے جہاں سے 6ستمبر کو اپنے بیوی مشعل ملک کے ہمراہ کشمیر لوٹے ۔کشمیر واپسی پر دونوں کازبردست استقبال کیا گیا۔

٭بھارت کی 15ویں لوک سبھا کےلئے 23مارچ سے انتخابات 5مرحلوں میں ہوئے اور ایک بار پھر کانگریس کی قیادت والی یو پی اے نے ہندوستان میں اقتدار سنبھالااور ڈاکٹر منموہن سنگھ دوسری بار وزیر اعظم بنے ۔جموں وکشمیرکی6لوک سبھا نشستوں کے لئے ہوئے چناﺅ میں ووٹوں کی شرح اسمبلی چناﺅ کے مقابلہ میں کافی کم رہی جبکہ اس انتخابات میں ریاستی اسمبلی میں اپوزیشن کی دو اہم جماعتوں پی ڈی پی اور بی جے پی کو کافی دھچکا لگا اور دونوں جماعتیں اپنا کھاتہ کھولنے میں ناکام ہوئےں۔ تین نشستوں پر نیشنل کانفرنس ،دوپر کانگریس اور لداخ کی ایک نشست پر آزاد امیداوار نے کامیابی حاصل کی ۔پیپلز کانفرنس چیئرمین سجاد غنی لون نے بھی انتخاب میں حصہ لیا تاہم وہ نیشنل کانفرنس کے شریف الدین شارق کے مقابلہ میں چناﺅ ہار گئے اور پارلیمنٹ میں جانے کا ان کا خواب شرمندہ تعبیر نہ ہوسکا۔سرینگر پارلیمانی حلقہ سے کامیاب ہوئے نیشنل کانفرنس کے صدر ڈاکٹر فاروق عبداللہ منموہن سنگھ کی وزارت میں نئی اور قابل تجدید کے وزیر بنائے گئے۔

٭29اور 30مئی کی درمیانی شب کو شوپیان کی دو خواتین نیلوفر اور اس کی نند آسیہ اچانک لاپتہ ہوئیں اور دوسرے روز رمبی آرہ نالہ شوپیان سے دونوں کی لاشیں پائیں گئیں جسکے بعد پورے کشمیر میں حالات خراب ہوئے اور ایک ہفتہ تک کشمیر میں ہڑتال رہی جبکہ اس واقعہ کے خلاف شوپیان میں 45روزتک ہڑتال رہی۔حکومت نے اس واقعہ کی تحقیقات پہلے جسٹس (ر)مظفر جان سے کرائی جنہوں نے ثبوت مٹانے کے الزام میں اس وقت کے ایس پی شوپیان اور دیگر پولیس افسران کی گرفتاری کی سفارش کی ۔ اس کیس کی تحقیقات پولیس کی ایک خصوصی ٹیم کے ذریعہ بھی کرائی گئی جبکہ ہائی کورٹ اس تحقیقات کی نگرانی کر رہا تھا۔حکومت نے اس کیس کی تحقیقات مرکزی تفتیشی بیورو (سی بی آئی)کے ذریعہ بھی کرائی جنہوں نے اپنے رپورٹ میں عصمت ریزی اور قتل کو خارج کر تے ہوئے کہا کہ دونوں خواتین کی موت رمنبی آرہ میں ڈوبنے کی وجہ سے ہوئی ہے۔شوپیان کیس کے حوالے سے علیحدگی پسند لیڈر سید علی گیلانی کی طرف سے دی گئی مسلسل ہڑتال کالوں کے پیش نظر سرکار نے انہیں نظربند کرکے ان پر پبلک سیفٹی ایکٹ نافذ کیا جبکہ ان کے دوسرے ساتھیوں کو بھی گرفتار کر کے ریاست کے مختلف جیلوں میں بند رکھا گیا۔

٭11جون کو مرکزی وزیر داخلہ پی چدمبر م ریاست کے دورے پر آئے جہاں انہوں نے یونیفائڈ کمانڈہیڈ کوارٹر کی میٹنگ کی صدارت کی چدمبرم نے ریاست کا دورہ ایک ایسے وقت کیا جب شوپیاں میں دو خواتین کی عصمت ریزی اور قتل کے پس منظر میں ہرٹال اور پر تشدد مظاہروں کو سلسلہ جاری تھا۔انہوں نے پولیس اور سیکورٹی فورسز کو مظاہرین سے نمٹنے کے دوران احتیاط برتنے کو کہا۔دوسرے روز پی چدمبرم نے شیر کشمیر انٹر نیشنل کنوکیشن کمپلیکس میں ایک پریس کانفرنس سے بھی خطاب کیا ۔

٭27جولائی کو جموں وکشمیر اسمبلی کا اجلاس شروع ہوا اور پہلے ہی روز شوپیان مسئلہ پر پی ڈی پی نے ایوان میں ہنگامہ کیا اور اسمبلی میں پی ڈی پی پارلیمانی پارٹی لیڈر محبوبہ مفتی نے اسمبلی کے سپیکر محمد اکبر لون کی مائیک چھیننے کی کوشش کی۔سپیکر نے محبوبہ مفتی کے خلاف سخت لہجہ اختیار کر تے ہوئے کہا”اس عور ت کو باہر نکالو“کے الفاظ بھی کہے۔اجلاس کے دوسرے روز پی ڈی پی سنیئر لیڈر مظفر حسین بیگ نے عمر عبداللہ پر 2006جنسی اسکینڈل میں ملوث ہو نے کا الزام عائد کیا جس کے بعد عمر عبداللہ نے استعفیٰ دیا تاہم سی بی آئی کی طرف سے کلین چٹ ملنے کے بعد عمر عبداللہ کا استعفیٰ نامنظور کیا گیا۔

٭اگست کے مہینہ میں سنٹرل یونیورسٹی کا معاملہ بھی چھایا رہا اور اس مسئلہ پر جموں میں کئی روز تک ہڑتال بھی رہی۔جموں سے تعلق رکھنے والے ممبران اسمبلی نے سنٹرل یونیورسٹی کا معاملہ اسمبلی میں اٹھایا ۔پیر پنچال اور چناب ویلی سے تعلق رکھنے والے ممبران نے جموں سے تعلق رکھنے والے ممبران کے مطالبے کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ جموں کا مطلب صرف جموں ضلع نہیں ہے اس لئے یہ یونیورسٹی ڈوڈہ یا راجوری میں قائم کی جائے تاہم اس مسئلہ پر کشمیر میں خاموشی چھائی رہی ۔جموں میں سنٹرل یونیورسٹی قائم کر نے کا معاملہ اس وقت ختم ہوا جب عمر عبداللہ ریاست کے لئے دو سنٹرل یونیورسٹیوں کو منظوری دلانے میں کامیاب ہوئے۔

٭ستمبر کے مہینہ میں چین نے کشمیر کے حوالے سے الگ ویز ا پالیسی اختیار کی ۔چین نے کشمیریوں کو پاسپورٹ پر ویزا دینے کی بجائے علیحدہ کاغذ پر ویزا دینے کا سلسلہ شروع کیا۔جبکہ چین میں ہوئی ایک تقریب کے دوران کشمیر کو ایک علیحدہ ملک کے طور پر نقشہ میں دکھا یا گیا ۔

٭23ستمبر کو لیبا کے صدر معمر قذافی نے یو این جنرل اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے جموں وکشمیر کو مکمل آزادی دینے کی وکالت کی۔

٭14اکتوبر کو وزیر داخلہ پی چدمبر م سرینگر میں آئے جہاں انہوں نے آل انڈیا ایڈیٹرس کانفرنس میںکشمیر مسئلہ کے حل کے حوالے سے خفیہ مذکرات شروع کر نے کا اعلان کیا ۔اس پریس کانفرنس میں انہوں نے پری پیڈ موبائیل سروس پر پابندی عائد کرنے کا اشارہ بھی دیا۔وزیر داخلہ کے اس بیان کا حریت (ع)چیئرمین میر واعظ عمر فاروق نے خیر مقدم کیا جبکہ سید علی گیلانی نے خفیہ مذاکرات کو مسترد کر دیا۔

٭28اکتوبر کو وزیر اعظم ڈاکٹر وادی کشمیر کے دورے پر آگئے اور یہاں انہوں نے قاضی گنڈ اسلام آباد ریلوے اسٹیشن کا افتتاح کیا ۔وزیر اعظم کے ہمراہ مرکزی ریلوے وزیر ممتا بےنرجی ،وزیر صحت غلام نبی آزاد ،نئی و قابل تجدید توانائی کے وزیر ڈاکٹر فاروق عبداللہ اور وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ بھی تھے۔

٭23دسمبر کومرکز ریاست تعلقات سے متعلق وزیر اعظم کی طرف سے جسٹس صغیر کی سربراہی میں بنائے گئے ورکنگ گروپ نے جموں میں وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ کو اپنی رپورٹ پیش کی۔رپورٹ نے ریاست کےلئے کشمیر ایکارڈ کے دائرے کے اندر خود مختاری دینے اور مسئلہ کشمیر کو ہمیشہ کے لئے حل کر نے کی ضرورت پر زور دیا۔

٭میر واعظ عمر فاروق نے 25ستمبر کو نیو یارک میںہوئی او آئی سی کانفرنس میں شرکت کی۔انہوں نے اجلاس میں اس بات پر زور دیا کہ او آئی سے ہندوستان اور پاکستان پر مسئلہ کشمیر کو حل کر نے کے سلسلے میں اپنا اثر رسوخ کا استعمال کریں ۔انہوں نے کہا ہندوستان کو کشمیر کے حوالے سے اعتماد سازی کے اقداما ت کر نے چاہیے جن میں فوجی انخلاءاور سیاسی غیر مشرو ط رہائی بھی شامل ہے۔

٭29اکتوبر کو مرکزی وزارت داخلہ نے ایک سخت فیصلہ لیتے ہوئے جموں وکشمیر میں پری پیڈ موبائیل سروس پر پابندی عائد کی ۔اس پابندی کی وجہ 38لاکھ صارفین متاثر ہوئے۔

٭4دسمبر شام کو نا معلوم افراد نے حریت کانفرنس کے سنیئر لیڈر فضل الحق قریشی پر حملہ کیا اور وہ صورہ میڈکل انسٹی چیوٹ میں موت و حیات کی کشمکش میں مبتلا رہے ۔25روز بعد انہوں نے موت سے زندگی کی جنگ جیت لی۔اس واقعہ کے بعد علیحدگی پسندوں کی سیکورٹی کا از سر نو جائزہ لیا گیا اور شبیر احمد شاہ اور محمد یاسین ملک نے حکومت کی طرف سے سیکورٹی کی آفر کو ٹھکر ادیا۔

٭کشمیر2009 کے دوران فلموں کی شوٹنگ کے حوالے سے بھی خاص اچھا رہا ۔جنوری میں راہل ڈھولکیا نے اپنے فلم ”لمحہ“ کی دوبارہ شوٹنگ سرینگر میں شروع کی ۔اس فلم میں بالی وڈ کے مشہور سٹار سنجے دت ،کنال کپور ،بپاشا بسو اور انوپم کھیر اہم کردار ادا کر رہے ہیں اور یہ فلم اپریل 2010 میں ریلیز ہونے والی ہے۔سنجے سوری کی فلم ’میگھا ‘کی شوٹنگ بھی امسال اگست میں سرینگر میں شروع ہوئی جس میں بالی وڈ ادارکارہ جوہی چاولہ ،منیشا کوئیرالہ اور خود سنجے سوری اہم کردار ادا کر رہے ہیں ۔

٭گورنر راج کے خاتمہ اور نئی حکومت کی تشکیل کے بعد ہی مارچ کے مہینہ میں سید علی گیلانی اور دیگر کئی مزاحمتی لیڈروں کو رہا کیا گیا تاہم شوپیان سانحہ کے بعد حکومت نے 80سالہ بزرگ لیڈر گیلانی کو دوبارہ گرفتار کرکے چشمہ شاہی میں نظر بند رکھا اور ستمبر کے آخری ہفتہ میں انہیں رہا کیا گیا ۔سید علی گیلانی کو حکومت نے کئی بار اپنے گھر میں بھی نظربند رکھا اور انہیں نماز ِعید اور کئی بار نماز جمعہ بھی ادا کر نے سے بھی روکا گیا۔اکتوبر میں ہی سنیئر حریت لیڈر شبیر احمد شاہ اور نعیم احمد خان کو کئی ماہ کی نظر بندی کے بعد رہا کیا گیا۔

Wednesday, December 30, 2009

الوداع 2009
334دن:4038سڑک حادثات، 790اموات

ہر سال40ہزارگاڑیوں کا اضافہ،افرادی قوت وہی جو 10سال پہلے تھی
محمد طاہر سعید
سرینگر//ریاست میں امسال یکم دسمبر تک 4038سڑک حادثات کے دوران 790افرادلقمہ اجل بن گئے جبکہ 5273 مضروب ہوئے جن میں متعدد عمر بھر کےلئے اپاہج ہوکر رہ گئے ہیں۔محکمہ ٹریفک سے کشمیر عظمیٰ کو دستیاب اعداد و شمار کے مطابق یکم دسمبر 2009 تک ریاست میں کل 4038سڑک حادثات ہوئے جس میں وادی کے 479اور جموں کے 3559حادثات شامل ہیں ۔ان حادثات کی زد میں آکر 790 افراد لقمہ اجل بن گئے ۔ان میںجموں صوبہ سے تعلق رکھنے والے 733اور وادی سے 57افراد شامل ہیں ۔ ان حادثات میں5273افراد یا تو معمولی زخمی ہوئے یا عمر بھر کےلئے ناکارہ ہوکر رہ گئے جن میں کشمیر سے 505اور جموں سے 4768 افراد شامل ہیں ۔ 2009میں سب سے زیادہ ٹریفک حادثات جموں صوبہ میں ہوئے ۔ جنوری 2009میں ڈوڈہ ضلع میں ہوئے سڑک حادثہ ،جس میں 36 افراد ہلاک ہوئے تھے ،کو سال کا سب سے بڑا سڑک حادثہ قرار دیا گیا ہے۔ریاست میں سڑک حادثات کے حوالے سے ٹریفک پولیس کا کہنا ہے کہ گاڑیوں کی تعداد میں اضافہ اور پرانی گاڑیاں حادثات کی سب سے بڑی وجہ ہےں تاہم عمومی طورپر اسے حکومت کی ناقص منصوبہ سازی اور جموں و سرینگر کے واحد متبادل شاہراہ کی تعمیر میں تاخیر،ان حادثات کی بڑی وجہ قرار دی جارہی ہے۔محکمہ ٹریفک پولیس کا کہناہے کہ اس وقت محکمہ کے پاس پولیس اہلکاروں کی کمی ہے اور اس سلسلے میں اگر چہ حکومت کو بھی مطلع کیا گیا ہے تاہم ابھی تک اس سلسلے میں کوئی کارروائی عمل میں نہیں لائی گئی ۔لوگوں میں ٹریفک قوانین کی لاعلمی کو بھی ٹریفک حادثات میں اضافہ کی ایک وجہ بتایا جارہا ہے اور اس سلسلے میں محکمہ ٹریفک نے محکمہ تعلیم کو ٹریفک قوانین کو نصاب میں شامل کر نےکی سفارش بھی کی تھی تاہم ابھی تک متعلقہ محکمہ کی طرف سے کوئی بھی مثبت جواب نہیں ملا ہے۔محکمہ آر ٹی او کی طرف سے 2005میں تیار کئے گئے اعداد و شمار کے مطابق ریاست میں گاڑیوں کی تعداد 4,77839ہے اور اس وقت اس تعداد میں دوگنا اضافہ ہوا ہے۔اس صورتحال کے حوالے سے انسپکٹر جنرل آف ٹریفک پولیس محمد امین شاہ نے کشمیر عظمیٰ کو بتا یا کہ ٹریفک حادثات میں قومی سطح پر جموں وکشمیر 22ویں نمبر پر ہے تاہم محکمہ کی کوشش ہے کہ ریاست میں کم سے کم حادثات پیش آئیں۔انہوں نے کہا کہ گاڑیوں کی تعداد میں بڑی تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے اور ہرسال ریاست میں 40ہزار نئی گاڑیاں سڑکوں پر چلنا شروع ہوتی ہیں۔آئی جی ٹریفک کا کہنا ہے کہ ڈرائیوروں کی غفلت شعاری ،تیزی سے گاڑی چلانا اور لڑائی جھگڑا کے بعد گاڑی چلانے کی وجہ سے اکثر حادثات رونما ہوتے ہیں۔ٹریفک پولیس میں اہلکاروں کی کمی کا اعتراف کرتے ہوئے محمد امین شاہ نے کہا ”اس وقت محکمہ کے پاس صرف ایک ہزار ٹریفک پولیس اہلکار ہیں اور اس سلسلے میں حکومت کوآگاہ کیا گیا ہے اور حکومت کی طرف سے دی گئی منظوری کے باجود بھی ابھی تک محکمہ کو مزید اہلکار فراہم نہیں کئے گئے ہیں“۔انہوں نے کہا کہ ٹریفک پولیس نے جنوری 2009سے یکم دسمبر تک ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی کر نے والے 4لاکھ ڈرائیوروں کاچالان کیا ہے اور ان سے 8کروڑ روپے کا جرمانہ وصول کیا گیا جو کہ گزشتہ سال کے مقابلہ میں دوگنا ہے ۔

Friday, December 11, 2009

Troops unleashed hell in Budgam’

They didn’t even spare women and children: Locals; Army apologizes

TAHIR SYEED
Zaneegam (Budgam), Dec 10: Day before the international human rights day, troops unleashed a reign of terror in this village and its neighbouring localities including Kangripora, Pakherpora and Beerwah.
According to locals, the troops went berserk as revenge to the incident in which people caught hold of an army personnel who was trying to sneak into a residential house on the intervening night of December 8 and 9. They said there have been many cases of burglaries since Eid in the area leaving the locals fear-struck.
“We caught hold of a trooper in civvies as he was trying to sneak into the house of Ghulam Nabi Sheikh. However army came to the rescue of the accused and he fled,” locals said.
“While I was chasing the man, the army troopers asked me to stop,” Iqbal Sheikh, a local resident, told Greater Kashmir. “Within 10 minutes the accused arrived in uniform and I recognized him,” he said.
The locals said that when they protested against the incident, the army unleashed terror on the villagers and beat them up and even fired several rounds in air. Several dozen people sustained injuries in the incident.
“They beat up us irrespective of the age and gender. They barged into our houses and ransacked our goods and smashed the window panes of the vehicles parked on roadside,” the locals said.
Around 40 houses and half-a-dozen vehicles were damaged as troops went on rampage, they said.
“They didn’t even spare women and children. They misbehaved with them too,” said a villager. “How can we remain mum?”
“Army entered into our house and broke all window panes without any provocation. They also damaged our three vehicles in the lawn,” said Shakeela, a woman whose house was also ransacked by troops.
“We had kept gold ornaments worth lakhs of rupees in a locker. They went missing after yesterday’s incident as troops forcibly entered into our house,” she rued.
The villagers continued to protest on Thursday. They blocked roads and shouted anti-army slogans.
General Officer Commanding of Victor Force Maj Gen A S Nandan who was appointed as the inquiry officer by the army today visited the affected villages and the Police station and personally apologised to the victims.
He assured the people that such incidents will not be tolerated and those involved would be taken to task, the sources said.
Talking to Greater Kashmir, he said, “I have assessed the situation and huge damage to property has been caused here. I have asked for the list of personnel who were on duty at the time of the incident,” he said, adding that he had asked for an explanation from the concerned army regiment.
“People will be compensated for the damage caused by army and we will ensure that such incidents don’t occur in future. We will investigate the matter and the culprits will be punished,” the officer assured.
He asked the villagers to form a joint committee with army to prevent such incidents in future.

‘Troops unleashed hell in Budgam’

Wednesday, December 9, 2009

پری پیڈ پابندی....عزتِ نفس اور معیشی نکاس

محمد طاہر سعید
بہر حال پری پیڈ موبائیل سروس پر پابندی عائد کر کے مرکزی وزیر داخلہ پی چدمبرم نے اپنی اس بات کو عملی شکل دی جو انہوں نے گزشتہ ماہ سرینگر میں منعقدہ ایک تقریب کے دوران کہی تھی اور اس سے عام لوگوں میں یہ تاثر مزید گہرا ہوگیا ہے کہ کشمیری عوام کو جنس فیصلوں سے نقصان یا تکلیف پہنچتی ہے مرکز اُسے عملی جامہ پہنانے میں کوئی دقیقہ فروگذاشت نہیں کرتا۔بھارت کے وزیر داخلہ پی چدمبرم نے یو پی اے کے دوبارہ اقتدار میں آنے کے بعد جون 2009میں ایک پریس کانفرنس کے دوران عام لوگوں کی راحت کے لئے فوج میں تخفیف کر نے اور فورسز کو حاصل خصوصی اختیارات واپس لینے کی بات بھی کی تھی ۔پارلیمانی انتخابات سے قبل جموں میں عمر عبداللہ کے ہمراہ ایک پریس کانفرنس میں اُنہوں نے اس بات کا اعادہ بھی کیا تھا، مگر اس اہم اعلان پر عمل آوری کی بجائے 14اکتوبر کو وزیرداخلہ نے سرینگر میں کل ہند اُردو ایڈیٹرس کی کانفرنس میں جموں و کشمیر میں پری پیڈ موبائل سروس بند کرنے کی بات کی اور صرف 15روز کے اندر اندر ہی اس پر عمل کر کے دکھایا۔ اگرچہ حکمراں جماعت نیشنل کانفرنس سمیت بیشتر سیاسی جماعتوں نے اس فیصلے پر برہمی کا اظہار کیا، مگر ابھی تک مرکزی اربابِ اقتدار پر اس کا کوئی اثر نہیں ہوا۔ یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ ہر ایک چیز کے فوائد اور نقصانات ہوتے ہیں اور خاص کر جب کوئی چیز اپنی حدود سے تجاوز کر جائے تو وہ وبال جان بن جاتی ہے ۔ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم پری پیڈ موبائیل سروس پر لگی پابندی کے دونوں پہلوں پر غور کریں ۔اس پابندی کی وجہ سے ریاست میںکم و بیش 40لاکھ پری پیڈ موبائیل فون بے کار ہوگئے اور 80فیصد موبائیل استعمال کر نے والوں کے لئے یہ پابندی واقعی ایک پریشان کن بات ہے۔پابندی سے بھارت کی کئی مواصلاتی کمپنیوں خاص کر ائر ٹیل اور ایر سیل کوکافی نقصان کا سامنا ہے کیونکہ پری پیڈ کنکشنوں میں بڑا حصہ انہی کا تھا۔ اتنا ہی نہیں پری پیڈ کے کاروبار سے جڑے ہزاروں نوجوان اپنے روزگار سے محروم ہوئے جبکہ لوگوں کے درمیان موبائل فون کی وجہ سے بنے رابطے بھی ختم ہوئے جس سے لوگوں کا کاروبار زندگی بری طرح متاثر ہوا۔ وزارت داخلہ نے اسے سیکورٹی کا معاملہ قرار دے کر بند کر دیا ہے حالانکہ ماضی میں جب بھی کبھی کسی عسکری گروہ کے خلاف کوئی کامیاب کارروائی کی جاتی رہی ہے تو سیکورٹی ایجنسیوں کا یہ دعویٰ رہا ہے کہ یہ کامیابیاں عسکریت پسندوں کے موبائل فونوں کی سگنل کی نشاندہی کی وجہ سے ممکن ہوئی ہےں، اس طرح یہ موبائل سروس نہ صرف ان سیکورٹی ایجنسیوں کے لئے کارآمد ثابت ہوئی ہے بلکہ پولیس نے جرائم سے متعلق کئی کیسوں کو اسی فون سروس کی وجہ سے ہی حل کرنے میں کامیابی حاصل کی ہے۔ وزارت داخلہ کی یہ دلیل کہ جنگجو پری پیڈ حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے تھے صحیح ہوسکتی ہے لیکن کیا یہ ممکن نہیں کہ جو شخص پری پیڈ سم کارڈ حاصل کرسکتا ہے وہ پوسٹ پیڈ بھی حاصل کرنے میں کامیاب ہوسکتا ہے لہٰذا اس پر مکمل پابندی لگانے کی بجائے ویری فیکشن کے سسٹم میں بہتری لانے کی ضرورت تھی۔جموں وکشمیر کے مقابلے میںبھارت کی شمال مشرق ریاستوں میں ملی ٹنسی(نکسل واد)کافی زیادہ ہے مگر وہاں پری پیڈ پر ایسی کوئی پابندی عائد نہیں ہے۔وزارت داخلہ اس بات سے بھی بخوبی واقف ہے کہ پورے ملک میں ملی ٹنٹوں کے لئے سم کارڈ حاصل کرنازیادہ مشکل نہیں ہے ۔حال ہی میں دلی سے شائع ہو نے والے ایک ہفتہ روزہ میگزین نے اپنی ایک تحقیقاتی رپورٹ شائع کی تھی جس میں میگزین کے نمائندے نے یہ ثابت کیا کہ کس طرح سے ہندوستان میں دہشت پسند کاروائیوں میں ملوث افراد اور غیر ملکی لوگ سم کارڈ اورڈارئیوینگ لائسنس حاصل کر سکتے ہیں۔مذکورہ نمایندئے نے ممبئی حملوں میں گرفتار اجمل قصاب اور سابق انڈر ورلڈ ڈان ابو سالم کی تصاویر استعمال کر کے سم کارڈ اورڈرائیونگ لائسنس حاصل کئے حتیٰ کہ ایک کرایہ نامہ جہاں ابو سالم کو مالک مکان اور اجمل قصاب کو کرایہ دار دکھایاگیاہے ۔مذکورہ نمائندے نے رپورٹ میں کہا کہ ہندوستان میں کسی بھی نام پر اور کوئی تصویر لگا کر پیسوں کے عوض کچھ بھی کیا جا سکتا ہے۔اگر پی چدمبر م اور ان کی وزارت صرف پابندی پر ہی یقین رکھتی ہے تو انہیں سب سے پہلے نئی دلی اور کولکتہ میں پری پیڈپر پابندی عائد کرنی چاہیے تھی جہاں سے ممبئی حملوں میں ملوث جنگجوﺅں نے سم کارڈ حاصل کئے تھے اور اس کے بعد کشمیر کی باری آتی جہاں بقول چدمبرم کے حالات اب ٹھیک ہیں اور ملی ٹنسی کے واقعات میں کافی کمی ہوئی ہے اور بقول مرکزی وزیر برائے قابل تجدید تونائی ڈاکٹر فاروق عبداللہ کے سیکورٹی کے حالات اتنے ٹھیک ہیں کہ وزیر اعظم من موہن سنگھ اور یوپی اے چیر پرسن سونیا گاندھی بلٹ پروف کے بغیر عوامی اجتماع سے خطاب کرتے ہیں اس کا کیا کریں کہ کشمیر کےلئے مرکز کا معیار ہی الگ ہے۔
پری پیڈ موبائیل سروس پر لگائی گئی پابندی کاایک مثبت پہلو بھی ہے جس پر بہت کم غور ہوا۔ جیسا پہلے ذکر ہوا کہ جو بھی چیز حد سے بڑھ جاتی ہے تو وہ نقصان دہ بھی ہوتی ہے اور ایساہی ہمارے یہا ں پری پیڈ موبائیل سروس کی وجہ سے ہے۔ ہمارے یہاں ایک ایک گھر میں چار سے پانچ موبائیل فون موجود ہیں حتی کہ آٹھویں جماعت میں زیر تعلیم بچے کے پاس بھی موبائیل فون ہے ۔اگر رابطوں کی بات کریں تو جہاں پانچ سال قبل ایک گھر میں ایک لینڈ لائن ہوتی تھی تو وہ ایک رابطہ کا بہترین ذریعہ ہوتا تھا اور آج گھر میں ایک یا دو موبائیل فون کے بجائے تقریباًنصف درجن موبائیل فون ہیں ۔پری پیڈ کی وجہ سے ایک بچہ یا بچی جس کے والدین اسے موبائیل فون استعمال کر نے کی اجازت نہیں بھی دیتے تھے موبائیل فون لانے میں کامیاب ہوئے کیونکہ مختلف مواصلاتی کمپنیوں نے سم پری پیڈ سم کارڈی کی قیمت اتنی سستی رکھی کہ ایک بچہ اپنے جیب خرچہ سے آسانی سے سم کارڈ خرید سکتا ہے جبکہ موبائیل فون کی قیمت بھی کافی کم ہے اور صرف ہزار بارہ سو روپے میں موبائیل سیٹ خریدا جا سکتا ہے۔ان مواصلاتی کمپنیوں نے رات کے دوران بات کر نے کے لئے مختلف سکیمیں بھی رکھیں تھیں اور چند ماہ قبل مواصلاتی کمپنی ائر ٹیل سے وابستہ ایک ملازم نے بتا یا کہ صرف کشمیر وادی میں رات کو 40ہزار ائر ٹیل کے سم مصروف ہوتے ہیں ۔کوئی شک نہیں ہے کہ پابندی کی وجہ سے نہ صرف مواصلاتی کمپنیوں بلکہ اس پیشے سے منسلک بے روزگار وں کو کافی نقصان ہوا تاہم ہمیں یہ مثبت پہلو بھی مد نظر کھنا چاہئے ۔پری پیڈ کی وجہ سے ایک صارف کے پاس ایک سے زائد سم کارڈ ہیں اور مختلف سم کارڈوں سے مختلف نمبروں پر فون کر تے رہتے ہیں اور اب پابندی کی وجہ سے فالتو سم کارڈ بند ہوجائیں گے اور بقول ڈاکٹرفاروق عبداللہ کے اب موبائیل فون استعمال کر نے والے اصلی صارف سامنے آئیں گے۔مرکزی وزارت داخلہ کی طرف سے پری پیڈ پر لگائی گئی پابندی سے قبل اخبارات میں کئی کالم نویسوں نے موبائیل فون کے بے جا استعمال سے پھیل رہے جرائم اور بے راروی پر اپنی تشویش کا اظہار کیا تھا۔موبائیل فون کے کثرت استعمال کا اس بات لگایا جا سکتا ہے کہ موبائل کمپنیاں بھارت کی دوسری ریاستوں کے مقابلے میں جموں وکشمیر سے زیادہ پیسہ حاصل کرتے ہیں ۔2004-05کے دوران صرف بی ایس این ایل اور ائیر ٹیل نے 103کروڑ روپے کمائے جبکہ 2005-06کے دوران 276.28کروڑ ،2006-07کے دوران
800.31کروڑ ،2007-08کے دوران 917کروڑ روپے کی ریکارڑ کمائی صرف جموں وکشمیر سے حاصل کی جبکہ جون 2009تک ان مواصلاتی کمپنیوں نے 274.98کروڑ روپے کمائے ہیں ۔ایک ایسی ریاست جو کہ پہلے ہی اپنا وجودبرقرار رکھنے کےلئے جدوجہد میں مصروف ہے اُس کی معیشت میں سے اتنی خطیر رقم ریاست کے باہر جارہی ہے ۔اگر ہم پری پیڈ لگائی گئی پابندی کے اس مثبت پہلو کو ہی مدنظر رکھیں گے تو شاید اس پر زیادہ افسوس بھی نہیں ہوگا تاہم جہاں تک عزت نفس سے کھلواڑ کی بات ہے تو کس کو برداشت ہوسکتی ہے
syeedtahir07@gmail.com

خاموش مذکرات کاری۔۔ایجنڈا کیا ہوگا؟؟

محمد طاہر سعید
بھارتی وزیر اعظم ڈاکٹرمن موہن سنگھ نے وادی کے اپنے حالیہ دورہ کے دوران مسئلہ کشمیر کے حل کے حوالے سے جہاں خارجی سطح پر پاکستان کی طرف ایک بار پھر دوستی کا ہاتھ بڑھا یا وہیں داخلی سطح پربھی انہوں نے ہر اُس شخص کے ساتھ غیر مشروط مذاکرات کا اعلان کیا جو تشدد اور خون خرابہ کاراستہ ترک کرکے ریاست میںبقول ان کے امن و خوشحالی کے فروغ کیلئے کوئی بامعنی تجویز رکھتا ہو۔من موہن سنگھ کایہ بیان اگر چہ بھارت کی روایتی پالیسی کے عین مطابق تھا تاہم اپنی تقریر میں انہوں نے جو لہجہ اختیار کیا تھا،وہ واقعی ایک مثبت تبدیلی کی جانب اشارہ کرتا تھا۔حتیٰ کہ جب ایک صحافی نے حریت کانفرنس (ع) چیئرمین میر واعظ عمر فاروق کی جانب سے حال ہی میں لندن میں دیئے گئے بیان، جس میں موصوف نے عسکریت کو کشمیر کی تحریک آزادی کا ایک ر±خ قرار دیا تھا، کے بارے میں پوچھا تو مسٹر سنگھ نے نہایت ہی نرم لہجہ اختیار کرتے ہوئے کہا ” ہمیں غصے میں دیئے گئے بیانات پر ردعمل ظاہر نہیں کرنا چاہیے“۔گزشتہ ایک دوماہ کے دوران کشمیر مسئلہ کے حوالے سے بھارت نے بظاہر اپنی پالیسی میں کافی تبدیلی لائی ہے۔مسٹر سنگھ کے بیان سے قبل وزیر داخلہ پی چدمبرم نے بھی کشمیر حل کے حوالہ سے چند غیر متوقع باتیں کیں۔پریس انفارمیشن بیورو آف انڈیا کی طرف سے سرینگرمیں منعقد کی گئی آل انڈیا ایڈیٹرس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے چدمبرم نے صحافیوں کے سوالوں کا جواب دیتے ہوئے کہا ”کشمیر ایک سیاسی مسئلہ ہے اور اس کا سیاسی حل نکالنا ہے اور اس اس ضمن میں حکومت ہند کی پالیسی یہ ہے کہ ریاست کے ہر طبقہ کے ساتھ مذاکرات ہونگے“تاہم چدمبرم نے ساتھ ہی مذاکرات کی نوعیت بتاتے ہوئے کہا کہ یہ مذکرات میڈیا کے سامنے نہیں ہونگے بلکہ خفیہ اور سفارتی سطح کے مذاکرت ہونگے اور وقت آنے پر میڈیا کے سامنے تفصیلات رکھی جائیں گی۔انہوں نے کہا کہ بھارت کسی دوسرے حل کو کاپی کر کے نہیں ٹھونسے گا چونکہ یہاں کے تاریخی اور جغرافیائی حالات منفرد ہیں، اس لئے حل بھی منفرد ہوگا اور وہ حل ریاستی عوام کی اکثریت کو قبول ہوگا۔مرکزی وزیر داخلہ کے بیان پر معمول کے مطابق ریاست کی تمام سیاسی جماعتوں کی طرف ملا جلا ردعمل سامنے آیا ۔مین سٹریم جماعتوں اور حریت کانفرنس کے اعتدال پسند دھڑے نے جہاںچدمبرم کے بیان کا خیر مقدم کیا وہیں بزرگ مزاحتمی قائد سیدعلی شاہ نے گیلانی نے اسے بھارت کی شاطرانہ پالیسی قرار دیتے کہا ہے کہ یہ بیانات مسئلہ کشمیر کے حوالہ سے بھارت پر عالمی دباﺅ کو زائل کرنے کی کوششیں ہیں۔تاہم میر واعظ عمر فاروق کی قیادت والی حریت کانفرنس نے نئی دلی سے دوبارہ مذاکرات شروع کرنے کا من بنالیا ہے اور اس کیلئے تیاریاں جاری ہیں جس کی ایک کڑی کے تحت انہوں نے حریت کے اندر اور باہر مشاورت کا سلسلہ شروع کیا ہواہے ۔حریت(ع) نے دیگر مزاحمتی قوتوں ،خاص کر بزرگ مزاحمتی لیڈر سید علی گیلانی اور لبریشن فرنٹ کے محمد یاسین ملک کو اعتماد میں لینے کی کوششیں بھی تیز کر دیں ہیں اور اس کےلئے فضل الحق قریشی اور بلال غنی لون پر مشتمل دو نفری کمیٹی بھی بنائی گئی ہے جو مذاکرات کے حوالے سے دیگر مزاحمتی لیڈروں سے مشاورت کریں گے لیکن فی الوقت حریت کانفرنس (ع)میں بھی کئی اکائیاںبھارت کے ساتھ مذاکرات کے حق میں نہیں ہیں اور ان کا ماننا ہے کہ یہ وقت گزاری کے سوا کچھ بھی نہیں ۔ان لیڈروں کے مطابق منموہن سنگھ نے حریت کو مذاکرات کی دعوت نہیں دی ہے جبکہ حریت آئین کے مطابق دوطرفہ مذاکرات مسئلہ کا حل نہیں بلکہ صرف سہ فریقی بنیاد پر حق خودارادیت کو مرکز بنا کر بات چیت ممکن ہے۔اس میں کوئی شک نہیں کہ لمبے وقفہ کے بعد حکومت ہند نے اٹوٹ انگ کے اپنے روایتی موقف پر خاموشی اختیارکرکے کچھ اس طرح بات کی جس سے بظاہر لگ رہا ہے کہ دلّی اب کی بار کشمیر مسئلہ پرمثبت مذاکرات میں سنجیدہ ہے ،تاہم اس ساری صورتحال کا ایک دلچسپ پہلو یہ بھی ہے کہ یہ سارا عمل مسئلہ کے داخلی پہلو سے جڑا ہوا ہے جبکہ خارجی سطح پر حکومت ہندنے پاکستان کے ساتھ مذاکرات کی بحالی کوگوکہ آج الفاظ کا ہیر پھیر کے ساتھ دہشت گردی سے مشروط نہیں کیا ہے لیکن بین السطور منموہن سنگھ نے صاف کیا کہ دہشت گردی کے خلاف کارروائی کئے بغیر مذاکراتی عمل سود مند ثابت نہیں ہوسکتی ،اس طرح انہوں نے پاکستان سے بالواسطہ طور پر کہا ہے کہ وہ مذاکرات کی کامیابی کیلئے پہلے انتہاپسندی کا خاتمہ کرے ۔ تاریخی اعتبار سے پاکستان کشمیرمسئلہ کا ایسا ہی فریق ہے جیسا بھارت اورکشمیری عوام، اور ان کی شمولیت کے بغیر کوئی پائیدار حل نکالنے کی امید کرنا عبث ہے۔اس ضمن میں ریاستی وزیراعلیٰ عمر عبداللہ کا یہ بیان انتہائی اہمیت کا حامل ہے کہ نئی دلّی کو کشمیر مسئلہ حل کرنے کیلئے بیک وقت پاکستان اور کشمیریوں کے ساتھ مذاکرات شروع کرنے چاہئیںکیونکہ بقول ان کے ماضی میں دلّی اور کشمیر یا دلّی اور اسلام آباد کے درمیان ہوئے تمام معاہدے یکطرفہ طور کئے گئے تھے اورانہیں تیسرے فریق کی توثیق حاصل نہیں تھی جس کی وجہ سے ان معاہدوں کو ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا جبکہ مسئلہ ابھی بھی برابر اپنی جگہ پر قائم ہے ۔جب وزیراعلیٰ کو خود دوطرفہ مذاکرات سے کوئی نتیجہ برآمد ہونے کی امید نہیں ہے ،ایسے میں دلّی اور کشمیری قیادت کے ساتھ مذاکرات کی بحالی بے معنی ہوکر رہ جاتی ہے کیونکہ اگر ان مذاکرات کو وزیراعلیٰ کے بیان کی روشنی میں دیکھا جائے تو ان کا حشر بھی ماضی جیسا ہوگا۔”درپردہ سفارتکاری اور خفیہ مذاکراتکاری“کے طویل ادوار کے بعد داخلی پہلو پر جو بھی حل نکل آئے گا،ہوسکتا ہے کہ وہ پاکستان کو قابل قبول نہیں ہو ،یوں یہ مسئلہ بھارت اور پاکستان سمیت ریاستی عوام کے سروں پر تلوار کی طرح لٹکتا رہے گاجس کے چلتے امن و خوشحالی کے تمام خواب ،خواب ہی رہیں گے۔ اس ساری صورتحال کے باوجو د میرواعظ حریت مذاکرات کیلئے آمادہ ہے ،جو کافی معنی خیز ہے ۔یہ امر قابل ذکر ہے کہ میرواعظ کی سربراہی والی حریت کانفرنس سمیت کئی مزاحمتی جماعتوں نے اس سے قبل بھی کئی بار ہندوستان کے ساتھ مسئلہ کشمیر پر بات چیت کے کئے ادوار کئے مگر ان کا کوئی معنی خیز نتیجہ سامنے نہیں آیا بلکہ میرواعظ عمر فاروق کو ہمیشہ نئی دلی سے شکایت ہی رہی کہ انہوں نے مذکرات کے دوران حریت کو دی گئی یقین دہانیوں کو پورا نہیں کیا گیا۔حریت کانفرنس نے 2004سے براہ راست نئی دلی کے ساتھ مذاکرات کا آغاز کیا ۔حریت کانفرنس کو مذاکرات کے لئے تیار کر نے میں ہندوستان کے سابق وزیر قانون رام جیٹھ ملانی، جو کہ ُاس وقت کشمیر کمیٹی کے سربراہ تھے ،کے علاوہ جموں و کشمیر کے موجودہ گورنر این این وہراہ نے اہم کردار ادا کیا۔حریت کانفرنس نے 22جنوری 2004کو اُس کے وقت کے وزیر داخلہ کے ساتھ پہلی اور 27مارچ 2004کو اُس وقت کے وزیر اعظم اٹل بہاری واچپائی کے ساتھ دوسری ملاقات کی۔نئی دلی اور حریت کے درمیان مذکراتی سلسلہ کو آگے بڑھاتے ہوئے ستمبر 2005 میں نئی یو پی اے سرکا رنے حریت کانفرنس کے ساتھ مذکرات کئے ۔حریت کانفرنس کے علاوہ محمد یاسین ملک نے 17فروری 2006کو جبکہ پیپلز کانفرنس کے سجاد غنی لون نے 14جنوری 2006کو وزیر اعظم من موہن سنگھ کے ساتھ ملاقات کی۔حریت کانفرنس ،یاسین ملک اور سجاد لون کی نئی دلی کے ساتھ مذاکرات کو خوب تشہیر ملی اور تمام دھڑوں نے مذاکرات کو تسلی بخش قرار دیا۔مذاکرتی عمل کے فوراً بعد کسی بھی معجزے کی امید رکھنا ٹھیک تو نہیں تھاتاہم بات چیت کے زمینی سطح پر کچھ اثرات مرتب ہونے کی ضرور امید رکھی جا سکتی تھی مگر بات چیت کے تین سال گزرجانے کے باوجود بھی زمینی سطح پر کوئی قابل قدر بدلاﺅ نہیں آیا اور آج مذاکرتی عمل میں حصہ لینے والے حریت لیڈران اور مین اسٹریم جماعتوں کے رہنما مذاکرات کی ناکامی کا اعتراف کر تے ہیں۔ایسے میں وزیر داخلہ پی چدمبرم نے کچھ نئے اور انوکھے الفاظ کا سہارا لیتے ہوئے ریاست کی سیاسی جماعتوں کو ایک بار لبھانے کی کوشش کی ہے اور اس وقت مذاکرات کو خفیہ سفارتکاری کا نام دیکر اسے ریاست کیلئے ایک سیاسی پیکیج تیار کرنے کی کڑی قراردیا گیا ۔اس ضمن میں چدم برم کاکہنا تھاکہ جموں و کشمیر میں مختلف گروپوں کےساتھ خاموش سفارت کاری کے تحت بالمشافہ مذاکرات کے ذریعے ریاست کے لئے ایک پیکیج تیار کرنے میں تجاویز کے خد و خال مرتب کرنے میں مدد ملے گی۔ چدمبرم کا خفیہ مذاکراتکاری اور سفارتکاری کو اتنی اہمیت دینا بے معنی نہیں ہے ۔انہیں بخوبی معلوم ہے کہ اگر اس بار بھی مذاکرات کا ڈھنڈورا پیٹا جائے تو حشر ماضی سے کچھ مختلف نہیں ہوگا لیکن اس وقت صورتحال ماضی سے بالکل مختلف ہے
۔عالمی سطح پر رونما ہورہی تبدیلیوں اور مسئلہ کشمیر کی گونج کے چلتے بھارت اس وقت اس بات کا متحمل نہیں ہوسکتا ہے کہ مذاکرات کے غبارے سے جلد ہوا نکل جائے ۔ان کی کوشش رہے گی کہ ریاست کی زیادہ سے زیادہ سیاسی قوتیں مذاکراتی عمل کا حصہ بنیں اور اس کو وہ اعتباریت ملے جس کی بھارت کو فی الوقت شدت سے تلاش ہے ۔ایسا کرنے سے جہاں اس عمل کو طوالت ملے گی ،وہیں مذاکراتی عمل کا حصہ بننے والوں کو بھی کچھ اس طرح الجھا کر رکھا جائے گا کہ وہ دلّی کی بھول بھلیوں میں گم ہو کر اصل مسئلہ کو ہی بھول جائیں ۔بھارتی وزیر اعظم بھلے ہی یہ کہیں کہ داخلی اور خارجی سطح پر مذاکرات کی بحالی کسی عالمی دباﺅ کے تحت نہیں ہورہی ہے لیکن بیشترسیاسی مبصرین کا ماننا ہے کہ مذاکرات کی تازہ پیشکش وقت گزاری کے سوا کچھ بھی نہیں اور اس ہتھیار کا استعمال کرکے بھارت مسئلہ کشمیر سے عالمی توجہ ہٹانے کی ایک اور کامیاب کوشش میں لگا ہوا ہے ۔مبصرین کے نزدیک حکومت ہند کے پاس اس وقت اس بات کے سوا کوئی چارہ کار نہیں کہ وہ بات چیت کی ڈفلی بجاکرعالمی دباﺅ کو اس کے شور میں کچھ اس طرح گم کردے کہ کل کوئی یہ کہنے والا نہ ہو کہ ”آپ نے پہل نہ کی“۔اگر ایسا نہ ہوتا تو وزیراعظم ہند صرف اڑھائی ماہ بعد اپنے موقف میں اس قدر لچک نہیں لاتے ۔یاد رہے کہ 15اگست کے روزلال قلعہ کی فصیل سے اپنی تقریر میں وزیر اعظم من موہن سنگھ نے کہا تھا کہ” اسمبلی اور پارلیمانی چناﺅ میں عوام کی بھاری شرکت سے یہ واضح ہوگیا کہ اب جموں وکشمیر میں علیحدگی پسندوں کی کوئی جگہ ہے اور انہیں اس راستہ سے باز آنا چاہئے“۔اب ایسا کیا ہوا کہ بھارت کو دوماہ بعد ہی اپنا لہجہ بدلنا پڑا؟۔یہاں اس امر پر بھی غور کرنا ضروری بنتا ہے کہ مذاکرات کی بحالی کے حوالہ سے بھارت کا موقف انتہائی مبہم اور غیر واضح ہے ۔فی الوقت کسی کو معلوم نہیں کہ مذاکرات کا ایجنڈا کیا ہوگا اور کس کے ساتھ مذاکرات ہونگے،جو کئی ایک خدشات کو جنم دیتا ہے۔ عوامی حلقوں کی جانب سے یہ سوال کیا جارہا ہے کہ اگر نئی دلّی کشمیر کو واقعی ایک سیاسی مسئلہ مانتی ہے اور اس کا سیاسی حل نکالنے کی باتیں کر رہی ہے تو درپردہ سفارتکاری کا کیا مطلب ہے ۔ مذاکرات کی بحالی کے حوالہ سے خدشات بالکل بجا ہیں ۔مین سٹریم جماعتوں کو بہر حال ان خدشات کے ہوتے ہوئے بھی زہر کا یہ جام پینا ہی پڑے گا کیونکہ وہ دلّی ناراضگی مول نہیں سکتے مگر علیحد گی پسند قیادت کو سوچنا پڑے گا کیونکہ وہ خون کی ترجمانی کا دعویٰ کرتے ہیں ۔کیا وہ اس عمل کا حصہ بن کر کر بلواسطہ طور پرہی سہی ،بھارت کے آلہ کار تو نہیں بن رہے ہیں؟۔کس کو معلوم نہیں کہ بھارت کی یہ تاریخ رہی ہے کہ اس نے کشمیری لیڈروں کو ہر وقت اپنے مفاد کیلئے استعمال کیا ہے اور جب اتنے مفادات کی تکمیل ہوئی تو انہیں اس طرح پھینک دیا گیا جیسے دودھ سے مکھی پھینکی جاتی ہے۔اگر موجودہ مزاحمتی قیادت کو بھی اس حشر کا انتظار ہے تو بے شک مذاکراتی عمل کا حصہ بننے میں کوئی برائی نہیں لیکن اگر وہ ماضی سے عبرت حاصل کرکے واقعی کشمیری خون کے ترجمان ہیں تو وہ اس طرح کی مکر و فن ِخواجگی سے مرعوب نہیں ہوسکتے۔
syeedtahir07@gmail.com

اٹانومی کتنی قریب کتنی دور

محمد طاہر سعید

اسمبلی کے حالیہ اجلاس کے دوران سی پی آئی ایم کے ممبر اسمبلی محمد یوسف تاریگامی نے جب سال 2000میں قانون سازاسمبلی میں پاس کی گئی اٹانومی قرارداد پر از سر نو غور کر نے کے لئے قرداد ایوان میںلائی تو امید کی جاری تھی کہ نیشنل کانفرنس اس قراداد کی حمایت کرئے گی ،یا کم از کم اتنا ضرور ہوگا کہ حکمران نیشنل کانفرنس مذکورہ ممبر کو اٹانومی کی قرادا د خود ایوان میں لانے کا یقین دلائے گی مگر ہوا اس کے برعکس ۔نیشنل کانفرنس کے سنیئر لیڈر اور قانون و پارلیمانی امور کے وزیر علی محمد ساگر نے تاریگامی کی قرارداد کی یہ کہہ کر مخالفت کی کہ وزیر اعظم کی طرف مرکز ریاست تعلقات پر بنائے گئے رنگا راجن ورکنگ گروپ نے ابھی تک اپنی رپورٹ پیش نہیں کی ہے ۔حالانکہ یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ہے کہ رنگا راجن کمیٹی میں اٹانومی کی مخالفت کی گئی ہے اور اس بات کا اظہار واضح طور پر اس کمیٹی کے ایک ممبر نے اسی اسمبلی کے ایوان میں برملا طور پر کیا ۔
آخر نیشنل کانفرنس جو 1977سے اٹانومی کے وعدے پر سانسیں لے رہی ہے کو ایسا سٹینڈ لینے کی ضرورت کیوں محسوس ہوئی ۔اس سارے معاملے کو ماضی قریب کی سیاسی ڈیولپمنٹ میں دیکھنے کی ضرورت ہے۔2002میں پی ڈی پی اور کانگریس کی مخلوط حکومت کے وجود میں آنے کے بعدنیشنل کانفرنس نے نئی دلی میں اپنی پوزیشن کو مستحکم بنانے کی ہر ممکن کوشش کی تھی مگر وہ ہر ایسی کوشش میں ناکام رہے تاہم 2008میں بادلوں کی اوٹ سے سورج کی ایک کرن چھن کراس وقت نکل آئی جب امر ناتھ تنازعہ کے پس منظر میں پی ڈی پی نے غلام نبی آزاد حکومت کی حمایت واپس لی اور پی ڈی پی اور کانگریس میں دوریاں بڑھنے لگیںاور یہ خلیج نیشنل کانفرنس اور کانگریس میں قربت کا سبب ثابت ہوئی۔چونکہ آنے والے پارلیمانی انتخاب میں پی ڈی پی کا سٹینڈ کانگریس کو بھاری پڑنے کا اندیشہ تھالہذا انہوں نے بھی نیشنل کانفرنس کی عجلت کو غنیمت سمجھ لیا ۔یہی وجہ ہے کہ نیشنل کانفرنس فی الوقت کوئی ایسا قدم نہیں اٹھانا چاہتی ہے جس سے وہ اپنے اکھڑے پاﺅں زمین پر واپس جمانے کا زریں موقع گنوا بیٹھے۔نیشنل کانفرنس کو اس سے قبل کئی بار مرکز کے ساتھ ٹکراﺅ کا مزا چکھنا پڑا ہے اور آ ج بھی انہیں مرکز کے ساتھ ٹکراﺅ سے پیدا ہو نے والے نقصان کا بھر پور اندازہ ہے ۔نیشنل کانفرنس نے جب 2000میں اٹانومی کی قراردا د پاس کی تھی اس وقت عمر عبداللہ بی جے پی کی قیادت والے قومی جمہوری اتحاد حکومت میں وزیر مملکت کے عہدے پر فائز تھے اور آج نیشنل کانفرنس کے صدر فاروق عبداللہ یو پی اے کی حکومت میں وزیر ہیں ۔نیشنل کانفرنس اس وقت دِلّی سے لے کر سرینگر تک اقتدار پر براجمان ہے ،اس لئے اسے اس بات کی قطعی ضرورت نہیں ہے کہ وہ دِلّی کے ساتھ کوئی ٹکراﺅ پیداکرے ۔اسمبلی میں اگر چہ نیشنل کانفرنس کے کئی ممبران نے اٹانومی کے اس ریزولیشن پر بحث کر نے کا مطالبہ کیا تھا مگر اسپیکر نے وزیر قانون علی محمد ساگر کے تیور دیکھ کر ایوان کی کاروائی ہی ملتوی کر دی۔
نیشنل کانفرنس نے اپنے ویژن ڈاکو منٹ میں اٹانومی کو جموں وکشمیر کے مسئلہ کا پر امن حل قرار دینے کی بات کی ہے اور ہندوستان کے سنجیدہ فکر طبقے نے اس کو قبول کر نے کا عندیہ بھی دیا ہے ،تو یہ توقع ضرور کی جا رہی تھی کہ اقتدار میں آنے کے بعد نیشنل کانفرنس دوبارہ اس پر غور کر نے کے لئے نئی دِلّی سے رجو ع کر ے گی۔اس بات میں کوئی مضائقہ نہیں ہے کہ نیشنل کانفرنس اقتدار سے باہر اٹانومی کے مسئلہ پر جتنی سنجیدہ ہو تی ہے اتنا ہی اقتدار میں آنے کے بعد دکھائی دے کیونکہ حد سے زیادہ آگے بڑھنے کے نتائج اس جماعت کے بار بار کے تجربات شامل ہیں۔نیشنل کانفرنس کا اس وقت کانگریس کے ساتھ گہرانا یارانہ ہے اور ایسے یارانے ٹوٹنے کی تلخ یادیں بھی ان کی سیاسی یاداشت کا حصہ ہیں۔نئی دلی کے ساتھ الحاق کے بعد دہلی کی مہربانیوں کو محسوس کر کے جب شیخ محمد عبداللہ نے پنڈت جواہر لال نہر و سے کہا کہ کشمیر کے لوگ ہندوستان کے ساتھ خوش نہیں ہیں اس لئے انہیں آزاد چھوڑا جائے تو نئی دِلّی کو شیخ مرحوم کو الگ کر کے جیل کی کال کوٹھہری میں پہنچانے اور بخشی غلام محمد کو ان کی جگہ وزیر اعظم کے عہدے پر فائز کر نے میںکوئی دیر نہ لگی ،حالانکہ پنڈت نہرو کو اپنے عزیز دوست کو پابند سلاسل کرنے پر عمر بھر افسوس رہا ۔9اگست 1953ءکو شیخ محمد عبداللہ گرفتار ہوئے اور 15اگست کو پہلی بار ریاستی پرچم کے ساتھ ترنگا لہرا یا گیا اور جب 1975میں شیخ محمد عبداللہ کشمیر ایکارڈ کے ذریعہ دوبارہ اقتدار میں آئے تب تک ریاستی پرچم اپنی اہمیت اور افادیت کافی حد تک کھو چکا تھا اور ریاست کو حاصل خصوصی آئینی پوزیشن کی بیخ کنی اپنے عروج کو پہنچ چکی تھی حالانکہ ایکارڈ کے وقت لوگوں کو یقین دلایا گیا تھا کہ 1953ءسے قبل کی پوزیشن بحال کی جائے گی مگر اقتدار حاصل کر نے کے بعدجب شیخ محمد عبداللہ نے وزیر اعظم اندرا گاندھی کو اپنا وعدہ یاد دلا یا تو اندرا گاندھی نے شیخ محمد عبداللہ سے کہا کہ گھڑی کی سوئیاں واپس نہیں موڑی جا سکتی ہیں ۔1984میں ڈاکٹر فاروق عبداللہ نے کانگریس کو سینگ دکھانے کے لئے کانگریس مخالف پارٹیوں کو یکجا کر نے کی کوشش تھی تو نئی دِلّی نے انہیں اپنے ہی بہنوئی غلام محمد شاہ کے ذریعہ ایسی پٹخنی دی کہ آج تک فاروق عبدللہ ہر قدم اُٹھانے سے پہلے سو بار سوچتے ہیں کہ اس سے کہیں دِلّی کا دل تو نہیں دُکھے گا ۔اب وہ ان کی منشا کے بغیر پر بھی نہیں ہلاتے اور جب فاروق عبداللہ کو 1984کا زمانہ یاد آتا ہے تو وہ بلاجھجک کہہ اٹھتے ہیں کہ کشمیری راضی رہیں یا نہ رہیں دلی راضی رہنی چاہیے۔
جون 2000میں نیشنل کانفرنس نے جو اٹانومی کی قرادراد اسمبلی میں پاس کی ،گرین سگنل اسے 1996میں اس وقت ملا تھا جب ایچ ڈی دیوی گوڑا ہندستان کے وزیر اعظم تھے اوراس وقت کے وزیر دفاع ملائم سنگھ یادو نے کہاتھا کہ مرکز جموں وکشمیر کو اندرونی خود مختاری دینے کے بارے میں سنجیدگی سے غور کر رہا ہے اور اس سلسلے میں پارلیمنٹ کے آئندہ اجلاس میں قانون بھی بنایا جائے گا۔فاروق عبداللہ کی زیر قیادت حکومت نے اٹانومی کی قرادراد منظور کر نے سے قبل ایک کمیٹی ضرور تشکیل دی لیکن جب تک اس کمیٹی نے اپنی رپورٹ پیش کی تب تک کافی دیر ہوچکی تھی اور مرکز میں بھاجپا نے اقتدار سنبھالا تھااور ایک بات واضح تھی کہ بھاجپا کبھی بھی اس قرارداد کی حمایت نہیں کرے گی کیونکہ ”ایک ودھان،ایک پردھان اور ایک نشان “ اسی جماعت کا نعرہ تھا اور 1953ءمیں شیخ کی برطرفی سے قبل اسی کو بنیاد بنا کر 1952میں شیخ محمد عبداللہ کے خلاف جموں میں پرجا پریشد کی ایجی ٹیشن چلائی گئی تھی ۔جس وقت دیو گوڑا کی قیادت والی یو نائٹیڈفرنٹ حکومت نے جموں وکشمیر کو مکمل اٹانومی دینے کی بات کی اسی وقت بی جے پی نے اس کی مخالفت کر تے ہوئے کہا تھا کہ ’یہ دیش کا ایک اوربٹوارا کرنے کے مترادف ہے“تو پھر اسی بی جے پی کے پاس یہ قراداد بھیجنے کا ہی کیا مقصد تھا؟
اب 2008کے چناﺅ میں نیشنل کانفرنس نے ایک بار پھر اٹانومی کا وعدہ کیا ہے اور یہ بات قابل فہم ہے کہ کانگریس کے ساتھ ساجھے داری کے ہوتے ہوئے ایسے کسی قانون کے لئے راہ ہموار ہونا مشکل ہے جس سے کشمیر کی آئینی حیثیت مضبوط ہو اور مخالف پارٹیوں کو کانگریس کی پوزیشن پورے ہندوستان میں کمزور کر نے کا موقع ہاتھ آئے ۔ ویسے بھی کانگریس کی کشمیر کے تئیں ابتداءسے ہی دوغلی اور سخت پالیسی رہی ہے اور کشمیر کا مسئلہ پیدا کر نے کی ذمہ داری بھی سی پارٹی پر ہے ۔اس میں کوئی شک نہیں کہ اندرونی خود مختاری نیشنل کانفرنس کی مسئلہ کشمیر کے تئیں واضح پالیسی ہے اور سیاسی مصلحت کی وجہ سے کبھی کبھی انہیں اس مسئلہ پر خاموشی اختیار کرنا پڑتی ہے اور اگر کبھی انہیں مسئلہ کشمیر کے حوالے سے بات کر نے کا موقع ملے گا تو ان سے یہ امید ضرور کی جا سکتی کہ وہ اٹانومی کا معاملہ زیر بحث لائیں گے تاہم مستقبل قریب میں ان سے ایسی کوئی بھی امید رکھنا ٹھیک نہیں ہے کہ وہ اقتدار اور وہ بھی کانگریس کے ساتھ شراکت میں ہوتے ہوئے اٹانومی کی قراداد اسمبلی میں لائیں گے اور فی الحال انہوں نے اپنی اٹانومی کو رنگا راجن ورکنگ گروپ کی رپورٹ کے نیچے دبا کر رکھ دیا ہے۔

President awards Kashmiri inventor, researcher

TAHIR SYEED
New Delhi Nov 19: President of India, Pratiba Patel today awarded two young Kashmiri boys – a researcher and an innovator – at the fifth National Grassroots Innovation Award Function. The function was organized by National Innovation Foundation of India in collaboration with IIM (A) and Department of Science and Technology, Government of India. Sheikh Fayaz Ahmad, a young Kashmiri researcher hailing from Halmatpora Kupwara in north Kashmir and Mushtaq Ahmad Dar of Dooru, Islamabad in south Kashmir, who has invented a Tree Climber and Walnut Cracking Machine were honored with trophies, merit certificates and cheques. Patel while congratulating the award winners said, “I am impressed with their exhibits and their work.” Fayaz told Greater Kashmir: “I am very excited that I was honored today. But I am a little disappointed that my state sans an ecosystem of innovations” “I am meeting Dr A P J Abdul Kalam on 29th of this month and I am sure he will suggest us how this ‘ecosystem of innovations’ can be generated in Kashmir Valley,” he said. Dr. R. A. Mashelkar, Chairperson NIF, Dr. T. Ramasami, Secretary DST, Government of India, Prof. Anil K Gupta Executive Vice chair NIF and Prof. T. N. Prakash were present at the function

President awards Kashmiri inventor, researcher

TAHIR SYEED
New Delhi Nov 19: President of India, Pratiba Patel today awarded two young Kashmiri boys – a researcher and an innovator – at the fifth National Grassroots Innovation Award Function. The function was organized by National Innovation Foundation of India in collaboration with IIM (A) and Department of Science and Technology, Government of India. Sheikh Fayaz Ahmad, a young Kashmiri researcher hailing from Halmatpora Kupwara in north Kashmir and Mushtaq Ahmad Dar of Dooru, Islamabad in south Kashmir, who has invented a Tree Climber and Walnut Cracking Machine were honored with trophies, merit certificates and cheques. Patel while congratulating the award winners said, “I am impressed with their exhibits and their work.” Fayaz told Greater Kashmir: “I am very excited that I was honored today. But I am a little disappointed that my state sans an ecosystem of innovations” “I am meeting Dr A P J Abdul Kalam on 29th of this month and I am sure he will suggest us how this ‘ecosystem of innovations’ can be generated in Kashmir Valley,” he said. Dr. R. A. Mashelkar, Chairperson NIF, Dr. T. Ramasami, Secretary DST, Government of India, Prof. Anil K Gupta Executive Vice chair NIF and Prof. T. N. Prakash were present at the function

Be united to achieve freedom


TAHIR SAYEED
Srinagar, Mar 30: Senior leader of Hurriyat Conference (M), Shabir Ahmad Shah, on Sunday asserted that unity among various pro-freedom leaders was essential to achieve freedom.Shah was speaking at a seminar titled ‘Itehaad Aur Tehreek-e-Azadi Jammu and Kashmir' organized by Idariya Sout-ul-Haq, Jammu and Kashmir here at a hotel.“We are fighting on different fronts, but our basic aim of achieving freedom is same. So the need of the hour is to get united to fight on a common front,” Shah said.He said that different conspiracies were being hatched against the people of Kashmir. “One such conspiracy is that of renaming tulip garden after Indira Gandhi,” Shah said. “She might have been a great leader for India. But for us, she is the lady who belongs to an occupying power.”Shah welcomed the recent statement by Pakistan Prime Minister, Syed Raza Gillani, that Kashmir issue should be solved as per the United Nations resolutions. “For the past 60 years, Pakistan has been supporting us politically, diplomatically and morally. We appreciate its stand on Kashmir,” he said.Shah said it was India's figment of imagination that the freedom struggle has died in the valley. “The freedom sentiment is still alive in people,” he said.Chairman of Islamic Students League , Shakeel Bakshi, however criticized Shabir Shah on his views about unity among leaders. “The unity slogan is misleading. And it is in the name of this unity that Kashmir's freedom struggle got weakened,” he said.Bakshi analysed the political scenario in Kashmir from 1970. “First Peoples League was broken. Then Muslim United Front met the same fate. This was followed by Tehreek-e-Hurriyat which did not last longer. And finally, the All Parties Hurriyat Conference saw the same end,” he said

Dholakia is all set to start the shooting of LAMHAA

Tahir Sayeed
Srinagar, Sep 17: After meeting the pro-freedom leaders earlier this year, renowned Bollywood director, Rahul Dholakia, is all set to start the shooting of his forthcoming film on Kashmir in Valley in the next few weeks.
The director had met chairmen of the Hurriyat conferences Syed Ali Shah Geelani, Mirwaiz Umar Farooq, other pro-freedom leaders including Shabir Shah, Mushtaq-ul-Islam, Asiya Andrabi , General Moosa and former militant commanders earlier this year and got apprised of the “actual situation” in the Valley.
The film titled, as “Lamha” will be based on the situation prevailing in the Valley for the past two decades and is the first of its kind movie where the director met the pro-freedom leadership before writing the story and the script of movie.
Sources close to Dholakia say that he has signed leading Bollywood actors Sanjay Dutt, Kunal Kapoor and Bipasha Basu for the lead roles in the movie. They said the Mumbai-based Kashmiri journalist Anil Raina helped him in organizing meetings with the pro-freedom leaders in Kashmir early of this year . They said Basu, who is playing the role of the lead actress, is learning Kashmiri language those days and Kashmiri girl is doing this job in Mumbai.
Sources say the Kashmiri pro-freedom leaders apprised Dholakia that a fallacious and misleading image of Kashmir was being portrayed in India and abroad, which was hurting the Kashmir cause. “Dholakia realized that Kashmiri aspirations needed to be portrayed in a just manner. He realized that Kashmiri sentiment was being misrepresented,” sources said. “Dholakia decided to make a film on Kashmir and represent the sentiment in true sense.”
They said Dholakia was in no way propagating the cause of militants but he wanted to portray the true situation in Kashmir which has been missing in the earlier films made on Kashmir.
Sources said that Rahul wants that his film should be different from other films like “Mission Kashmir and Tahhan “/
“Some Delhi-based Kashmiris, a few years back, had also informed me that Bollywood movies often misrepresented the Kashmir situation. Then I decided to make a movie of Kashmir and since then I have visited Kashmir many a time and experienced the situation on ground,” the director Rahul Dolakia Told Greater Kashmir.
“The movie will be a different from the other movies made on Kashmir. I hope Kashmiris will like it,” he said.
Dholakia had also made a movie, Parzania, on the Gujarat riots of 2002. He won the Best Director’s Award for “Parzania”.




حریت کانفرنس نہ جائے ماندن نہ پائے رفتن

کشمیر میں اٹھنے والاسیاسی طوفان ابھی تھما بھی نہیں تھا اور حریت کانفرنس کے دون
دھڑوں میں بے چینی پیدا ہوگئی تھی وزیر مملکت برائے امور داخلہ پرکاش جیسوال نے پارلیمنٹ میں حریت دلی مذاکرات پر بیان دے کر میر واعظ عمر فاروق کی قیادت والی حریت کانفرنس کے لیڈروں کی بے چینوں میں مذید اضافہ کر دیا۔پرکاش جیسوال نے پارلیمنٹ میں ایک ضمنی سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا تھا ”حریت نے 2004سے دلی کے ساتھ مذاکرات کے 4 ادوار کئے مگر کسی بھی دور میں حریت کانفرنس کے لیڈروں نے کشمیر مسئلہ کے حوالے سے کوئی بھی تجویز پیش نہیں کی“۔پرکاش جیسوال کے اس بیان کے بعداگر چہ سخت گیر حریت کانفرنس خیمے کو مسرت ہوئی کیونکہ وہ ہمیشہ سے ہی دلی حریت مذاکرا ت کی مخالفت کرتی آئی ہے تاہم میر واعظ عمر فاروق کی قیادت والی حریت کانفرنس تذب زب کا شکار ہوگئی ہے ۔دلی کی طرف سے حریت کو پارلیمنٹ میں ایکسپوز کر نا حریت کانفرنس کے لئے بہت ہی بڑا دھچکہ تھا کیونکہ موجودہ سیاسی حالات کے تناظر میںحریت کے سیاسی مستقبل کے لئے اس طرح کا بیان مستحسن نہیں تھا۔کشمیر میں اگر چہ حریت دلی مذاکرات کے بارے میں پہلے ہی خدشات کا اظہار کیا جا رہا تھا تاہم آج کی بار دلی نے واضح طور پر ان خد شات کو صحیح ثابت کر دیا ہے۔حریت کانفرنس کانفرنس اس وقت پوری طرح سے مخمصے میں ہے ایک طرف پاکستان جو کشمیر مسئلہ کے حوالے سے حریت کانفرنس کی سیاسی اور سفارتی سطح پر حمایت کرتا تھا نے منہ موڈ لیا اور دوسری طرف دلی جس کی طرف اب حریت لیڈروں کی نگاہیں لگی ہوئی تھی اور انہیں اس دن کا انتظار تھا کہ کب انہیں دلی سے مذاکرات کی دعوت ملتی مگر دلی نے پارلیمنٹ میں بیان دے کر حریت کے مصائب میں اضافہ کر دیا۔حریت کانفرنس نے اگر چہ گزشتہ ماہ کسی بھی طرح کے دو طرفہ مذاکرات کو خارج از امکان قرار دیا تھا لیکن حالات کے مسلسل بد لاو کے بعد اور پر کاش جیسوال کے بیان کے بعد سنیئر حریت لیڈر شبیر احمد شاہ اب یہاں تک کہہ گئے دلی کے ساتھ مذاکرات نہ کر نے کا فیصلہ لینا موجودہ وقت میںقبل ازوقت ہو گا ۔حریت کانفرنس جس نے ایک ماہ قبل دلی کے ساتھ مذاکرات نہ کر نے کا فیصلہ کیا تھا اب براہ راست مذاکرات سے انکار بھی نہیں کر پارہی ہے کیو نکہ ا یک ماہ قبل جس طرح کی امید انہیںپاکستان کے ساتھ تھیں اب ان امیدوں پر پانی پھیر گیا ہے ۔حریت کانفرنس نے اب پاکستان جانے کا بھی فیصلہ کیا ہے اگرچہ انہیں وہاں دعوت بھی نہ ملے ۔اسی ساری صورتحال کے تناظر میں ہی حریت کی بے چینی ایک صاف آئینہ کی طرح نظر آتی ہے۔فی الوقت دلی کی طرف ایکسپوز کر نے کے بعد حریت نے دفاعی پوزیشن اختیار کر تے ہوئے دلی پر سنجیدہ نہ ہونے کا الزام لگایا۔دلی اور حریت کے دو متضاد بیایات کے بعد دو چیزیں سامنے آرہی ہیں۔ایک یہ کہ اگردلی حریت کانفرنس کے ساتھ ہی بات چیت میں سنجیدہ تھی تو گول میز کانفرنس کا انعقاد کیوں کیا گیا ۔دوسری بات یہ ہے کہ اگر حریت کانفرنس نے دلی کے ساتھ بات چیت کے چار ادوار کئے توانہوں نے وزیر اعظم کے ساتھ ہوئی بات چیت کو خلاصہ میڈیا کے سامنے کیوں نہیں رکھا۔اول الذکر کے بارے میں سیاسی تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ دلی نے جس وقت حریت کو بات چیت کی دعوت دی گئی تو اس کا ایک مقصد این ڈی اے سرکار کی طرف سے جاری مذاکرات کو آگے بڑھانا تھا اور دوسرا مقصد یہ تھا کہ پاکستان نے کشمیر کے حوالے سے نہایت ہی لچک کا مظاہر ہ کیا تھا اور دلی چاہتی تھی کہ حریت کانفرنس کو مذاکرات میںمشغول کر کے آئین ہند کے تحت کوئی حل نکالا جائے مگر نے دلی ساتھ مذاکرات کے دوارن کشمیر کا مسئلہ اٹھا نے کے بجائے انسانی حقوق ،جیلوں میں بند سیاسی قائدین کی رہائی جیسے مطالبات اٹھائے جس کے بعد دلی نے ایک اور کارڑ کھیل کر گول میز کانفرنس بھلائی تاکہ حریت کانفرنس کو مین سٹریم (نیشنل کانفرنس،پی ڈی پی اور کانگریس وغیرہ)جماعتوں کے سامنے ان کا موقف پوچھا جائے مگر یہ تمام تجربات ناکام ہونے کے بعد اب دلی نے حریت کوسر بازار ننگا کر دیا تاکہ آنے والے انتخابات میں حریت کانفرنس کی الیکشن بائیکاٹ مہم کو ناکام غیر موثر بنا یا جا سکے۔دوسری بات حریت نے چار بارمن موہن سنگھ کی قیادت والی سرکار ساتھ چار بار مذاکرات کئے مگر حریت نے کبھی بھی میڈیا کے سامنے بات چیت کی مفصل تفصیلات فراہم نہیں کیں اور اسی وقت سے خدشات کا اظہار کیا جا رہا تھا۔حر یت کانفرنس اس وقت ”نہ پائے رفتن نہ جائے ماندن“والی صورتحال سے دو چار ہے۔ایک طرف پاکستان مسلسل اپنے موقف میںتبدیلیاں لا رہا ہے اور پاکستان پیپلز پارٹی کی کا میابی سے حریت کانفرنس کی امیدیں بڑھ گئی تھیں تاہم آصف علی زرداری کے حالیہ بیان کے بعد ان کی امیدیوں پر پانی پھیر گیا ہے ،اب دوسری جانب دلی نے بھی حریت کی طرف اپنا رخ سخت کر دیا،حریت جہاں دلی سے مذاکرات کی آس لگائے بیٹھے تھی وہیں دلی نے حریت کو بلواسطہ طور پر اپنا جواب سنا دیا ۔حریت نے اب اپنا دامن جھاڑنے کے لئے واپس دلی پر وار کر نا شروع کیا ۔حریت کانفرنس نے دلی پر الزام لگایا کہ وہ مذاکرات کے بارے میں سنجیدہ نہیں ہیں کیونکہ انہوں نے گول میز کانفرنس منعقد کرکے دلی حریت مذاکرات کی افادیت ہی ختم کردی۔حریت کانفرنس کے قائمقام چیرمین عباس انصاری تو یہاں تک کہہ گئے کہ کانگریس سے بہتر تو بی جے پی ہی تھی۔ عباس انصاری نے کہا ’ ’حریت نے بھاجپا اور کانگریس ،دونوں حکومتوں سے ملاقات کے دوران مسئلہ کشمیر کے حوالہ سے اپنی تجاویز پیش کیں “۔انہوں نے کہا کہ ملاقات کے دوران ہم نے منموہن سنگھ سے کہا کہ ”ان تجاویز پر تبادلہ خیال کیجئے تاکہ بات چیت کا عمل آگے بڑھایاجا سکے “۔انہوں نے کہا کہ مذاکراتی عمل کو پٹری سے اتارنے کے لئے ہی گول میز کانفرنس بلائی گئی جس نے پورے عمل کو بگاڑ دیا۔ایسی صورتحال میں اب حریت کانفرنس پوری طرح سے تذبذب کا شکار ہے اور کشمیریوں کی نظروں میں بھی اب یہ مشکوک ہو رہے ہیں ۔سجاد لون اور یاسین ملک کا ذکر کئے گئے بات ادھوری رہ جائے گی ۔میرواعظ حریت کانفرنس کے ساتھ بات چیت کر نے کے علاوہ وزیر اعظم من موہن سنگھ نے پیپلز کانفرنس کے چیر مین سجاد غنی لون کے ساتھ بھی بات چیت کی ۔سجاد لون نے جس وقت من موہن سنگھ سے بات چیت کی تو انہیں بتا یا گیا کہ وہ کشمیر کے حوالے سے ایک پرپوزل پیش کریں جس کے بعد سجاد لون نے ’حصول وطنیت‘ کے نام سے ایک ڈاکو منٹ تیار کیا تاہم ابھی تک انہیں سجاد لون کو دلی نے دو بارہ مذاکرات کمے لئے نہیں بلا یا جس کا وہ بے صبری سے انتظار کررہے ہیں۔ سیاسی مبصرین کا کناہے کہ پر کاش جیسوال نے جس وقت پارلیمنٹ میں بیا ن دیا لیکن وہ سجاد لون کے ڈاکو مںت کا ذکر کرنا بھول گئے۔سجاد لون اگرچہ دلی کی فر مائش پر ہی یہ ڈاکو منٹ تیار کیا تھا تاہم اگر سنجید ہو تی تو انہیں سجاد لون کو بات چیت کے لئے دوبارہ مدعو کر نا چاہیے تھادلی اگر مذاکرات میں سنجید ہ ہے اور کشمیر مسئلہ کو آنے والی نسلوں کے پر چھوڑنے کے بجائے اس حل کر نا چاہتی ہے تو اسے دور بینی کا مظاہرہ کر کے اس مسئلہ کو ہمیشہ کے لئے حل کرنا ہوگا تاکہ ایک بھارت بھی جو قوت پر فوج پر صرف کرتی ہے وہ قوت اقتصادی ترقی پر صرف ہوگی اور کشمیرکے لوگ بھی چین کا سانس لیں گے ۔اس میں پاکستان کو بھی اپنے مفادات یک طرفہ چھوڑ کر کشمیریوں کے مستقبل کے بارے میں سنجیدگی کا مظاہرہ کر نا چاہیے.
syeedtahir07@gmail.com
Dated :Sun, 03/23/2008 - 16:58 — Guest

پیشگی چناوی اتحاد ۔ کانگریس کا نیا پینترا

Sat, 01/12/2008
گجرات میں بھارتیہ جنتا پارٹی کی جیت کے بعد جموں و کشمیر میں کانگریس نے اپنی ایک اتحادی جماعت پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی کے ساتھ رشتوں کو مضبوط کر نے کی کوشش شروع کر دی ہے ۔کانگریس کوخدشہ ہے کہ اگر انتخابات سے قبل اس کا اتحاد پی ڈی پی سے ٹوٹ گیا تو ریاست میں اگلی حکومت غیر کانگریس ہو سکتی ہے ۔ہندوستان کی مختلف ریاستوں میں ہوئے اسمبلی انتخابات میں کانگریس کی شکست کے بعد جب کانگریس کو کشمیر میں بھی اپنی شکست کا احساس ہونے لگا توکانگریس کے لیڈران نے اپنی اتحادی جماعت پی ڈی پی کے خلاف بیان بازیوں کا سلسلہ کم و بیش روک دیا۔
گزشتہ ماہ غلام نبی آزاد نے لمبے وقفہ کے بعد پی ڈی پی کے سرپرست اعلیٰ اور سابق وزیر اعلi مفتی محمد سعید کے ساتھ ملاقات کی جس کے بعد دونوں پارٹیوں کے درمیان کئی ماہ سے جاری تعطل ختم ہو گیا ۔دو نوں پارٹیوں کے درمیان تعطل کے بعد سیاسی مبصرین نے عندیہ دیا تھا کہ مخلوط حکومت اب چند دنوں یا ہفتوں کی مہمان ہے جبکہ غلام نبی آزاد نے بھی نئی دہلی میں کانگریس ہائی کمان کو اس بات کی پیشکش کی تھی کہ وہ جموں و کشمیر کے وزیر اعلیٰ کی حیثیت سے مستعفی ہونا چاہتے ہیں۔تاہم بعد میں یہ تعطل دہلی کی براہ راست مداخلت سے ختم ہوا ۔پی ڈی پی نے اپنے سنیئر لیڈر مظفر حسین بیگ کو دوبارہ کابینہ میں بیج دیا اور انہیں نائب وزیر اعلیٰ بنایا ۔بیگ کو گزشتہ سال پارٹی نے مبینہ طور پر کانگریس سے قربت رکھنے اور حکومتی معاملات میں پارٹی کی پالیسوں کو پس پردہ ڈالنے کی پاداش میں کابینہ سے واپس بلایاتھا ۔کانگریس اور پی ڈی پی کی بڑھتی ہوئی دوریوں کا حزب اختلاف کی جماعت نیشنل کانفرنس نے فائیدہ اٹھا نے کی کوشش کی تھی اور اس پارٹی کے سرپرست اعلیٰ ڈاکٹر فاروق عبداللہ نے کئی بار کانگریس کو بلواسطہ اتحاد کی پیش کش کی بھی کی تھی ۔

نیشنل کانفرنس نے کانگریس کی قربت حاصل کر نے کے لئے صدر جمہوریہ کے انتخاب کے دوران پرتبھادیو سنگھ پاٹل کو حمایت بھی دی تھی مگر فاروق عبداللہ اور ان کی جماعت کو سو نیا گاندھی پسند نہیں کر تی ہے دوسری طرف اس کے سرپرست کومستقل مزاج اور قابل اعتماد بھی نہیں مانا جا تا ہے اس لئے وہ اپنے مقصد میں کامیاب نہ ہوسکے۔انہوں نے این ڈی اے کے دور حکومت میں ریاست میںاپنی حکومت کو برقرار رکھنے کے لئے این ڈی اے کے ساتھ اتحاد بھی کیااور پارٹی کے سنیئر لیڈر پروفیسرسیف الدین سوز کو این ڈی اے مخالف ووٹ دینے پر پارٹی سے نکال دیا جس کے بعد انہوں نے کانگریس کے کیمپ میں پناہ لی۔نیشنل کانفرنس کے سرپرست فاروق عبداللہ نے گجرات میں اب نریندر مودی کی کامیابی کے بعد انہیں مبارک باد دی اور کہا کہ ان کی کامیابی بہترین نظم کی کامیابی ہے۔

2002کے انتخابات میں شکت کے بعد نیشنل کانفرنس نے این ڈی اے کے ساتھ اتحاد کر نے اور گجرات فسادات کے دوران چب سادھ لینے پر جموں و کشمیر کے مسلمانوں سے معافی مانگی اور اس پارٹی کے لیڈران بار بار اور ہر عوامی جلسہ میں اپنی اس غلطی پر نادم اور شرمسار نظر آئے ۔نیشنل کانفرنس کے صدر عمر عبداللہ نے کئی بار کہا کہ این ڈی اے کے ساتھ ان کا اتحاد سب سے بڑی غلطی تھی ۔مگر گجرات میں بی جے پی کی کامیابی کے بعد اب نیشنل کانفرنس دو بارہ بی جے پی کا آشیر واد حاصل کرنے کی کوشش کر رہی ہے اور اسی کی ایک کڑی کے تحت فاروق عبداللہ نے اپنی ایک تقریر میں مودی کے حق میں تعریفوں کے پل باندھے ۔نیشنل کانفرنس کے صدر عمر عبداللہ نے اگر چہ اپنے والد اور پارٹی کے سرپرست کی طرف سے دئے گئے بیان پر لاعملی کا اظہار کیا ہے تاہم سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ نیشنل کانفرنس انتخابات کے پیش نظر اس طرح کا طرز عمل اختیار کر رہی ہے ۔مبصرین کا کہنا ہے کہ نیشنل کانفرنس کی یہ روایت رہی ہے کہ باپ بیٹے کے بیان کی تردید کرتا ہے اور بیٹا باپ کے بیان کی تردید کر تا ہے تاہم فاروق عبداللہ کا بیان وزن سے خالی نہیں ہو سکتااور ان کا بیان پارٹی کا پالیسی بیان ہوتا ہے۔

نیشنل کانفرنس کانگریس اور پی ڈی پی کے اتحاد کے بعد اب کافی پریشان نظر آرہی ہے اور وہ کسی بھی صورت میں اب دہلی میں این ڈی اے کا سپورٹ حاصل کر نے کی کوشش کر رہے ہیں کیونکہ گزشتہ چار سال کے دوران نیشنل کانفرنس کانگریس کی قربت حاصل کر نے میں کامیاب نہیں ہوئی ۔نیشنل کانفرنس نے قومی سطح پر اپنی پوزیش مضبوط کر نے کے لئے علاقائی جماعتوں کی طرف سے بنائے گئے تھرڑ فرنٹ ،یو این پی اے کے ساتھ بھی اتحاد بنانے کی کوشش کی مگر اس کے لیڈران کو جلد ہی اس بات کا احساس ہوا یو این پی اے کوئی مضبوط اتحاد نہیں ہے اور جموں و کشمیر جیسی حساس ریاست کی جماعت کے لئے یہ اتحاد کامیاب نہیں رہے گا ۔جموں و کشمیر کی اسمبلی کی معیاد 2008میں مکمل ہورہی ہے اور انتخابات سے قبل ہی جوڑ توڑ شروع ہوا اور تمام جماعتیں دہلی کا آشیر واد حاصل کرنے میں مصروف ہیں ۔

جموں و کشمیر میں اگلی حکومت کو ن بنائے گایہ کہنا قبل از وقت ہوگا ۔کانگریس ،نیشنل کانفرنس ، پی ڈی پی ،سی پی آئی ایم سمیت تمام مین سٹریم جماعتوں نے انتخابی کوششوں کا آغاز کیا ہے ۔سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ کئی علحیدگی پسند جماعتیں 2002کے اسمبلی انتخابات کی طرح آج کی بار بھی آزاد امید وار کی حیثیت سے الیکشن میں حصہ لیں گے۔ریاست کے سابق وزیر اعلیٰ اور فاروق عبداللہ کے بہنوئی غلام محمد شاہ نے بھی انتخابات میں حصہ لینے کا فیصلہ کیا ہے ۔غلام محمد شاہ کو ایک بہترین منتظم کے طور پر مانا جا تا ہے ۔سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ انتظامیہ کے کئی اعلیٰ افیسران انتخابات کے دوران غلام محمد شاہ کی حمایت کریں گے کیونکہ انہوں نے اپنے دورحکومت میں مقامی آفیسران کی حوصلہ افزائی کی اور دس سال بعد بھی یہ آفیسران جو پوزیشن اختیار نہیں کر سکتے، غلام محمد شاہ نے اپنے دور حکومت میں انہیں وہ پوزیشن دی ۔غلام محمد شاہ کو ایک بہترین منتظم ہونے کے ساتھ ساتھ سخت گیر مسلمان بھی مانا جا تا ہے ۔انہوں نے 1984میں حکومت قائم کر نے کے بعد پہلے قدم کے طور پر سرینگر اورجموں کے سول سیکریٹریٹ میں مسجد تعمیر کروائی ۔مبصرین کے مطابق غلام محمد شاہ گزشتہ کئی سال سے حریت کانفرنس کی بولی بھی بول رہے تھے اور انہیں حریت کانفرنس کی حمایت بھی حاصل ہوسکتی ہے اور ان کے کئی امیدوار وں کا تعلق حریت کانفرنس سے ہوگا ۔

ریاست کی سیاست کا باو آدم ہی نرالہ ہے یہاں کی سیاست کسی بھی وقت کوئی بھی کروٹ لے سکتی ہے اور جموں وکشمیر کے سیاسی اور حکومتی معاملات میں دہلی کی براہ راست مداخلت رہتی ہے۔نئی دہلی کشمیر میں وقت سے پہلے ہی انتخابات کر انے کے حق میں ہیں کیونکہ گزشتہ سال اور امسال ہوئے ضمنی انتخابات میں رائے دہندگان کی بھاری شرکت کی وجہ سے اب نئی دہلی کے حوصلے بھی بلند ہوئے ہیں ،ریاست میں مسلح تحریک شروع ہونے کے بعد ہوئے انتخابات میں ووٹنگ کی شرح کافی کم رہی تاہم ضمنی انتخابات میں 70فیصد کے قریب ووٹنگ ہوئی جو ایک ریکارڑ ہے اگر آنے والے اسمبلی انتخابات میں بھی رائے دہی کی شرح اسی طرح رہی تو نئی دہلی اسے اپنی بڑی کامیابی قرار دے سکتا ہے اور 2009میں ہونے والے پارلیمنٹ انتخابات میں قومی سطح پر اس کو ستعمال کر سکتی ہے کہ اپنے موقف میںکوئی لچک لائے بغیرریاست کے اندر امن قائم ہوا اور لوگوں کی بڑی تعداد اب ہندوستان کی جمہویت میں یقین رکھتی ہے۔اس وقت کانگریس اور پی ڈی پی درمیان بھی معاملات ٹھیک ٹھاک چل رہے ہیں اس لئے دونوں پارٹیاں پیشگی انتخابات کو ہی ترجیح دیں گے۔
syeedtahir07@gmail.com