Tuesday, November 22, 2011

لل دید اسپتال پر دبائو کیوں؟ مضافات میں سہولیات کا فقدان یا ڈاکٹروں کا فرار؟

محمد طاہر سعید
سرینگر// کشمیر کی معروف صوفی شاعرہ لل عارفہ کے نام سے منسوب لل دید اسپتال وادی میں امراض خواتین سے متعلق واحد طبی ادارہ ہے۔ خصوصی طور پر دردِ زہ میں مبتلا خواتین کیلئے بنائے گئے اس اسپتال میں 24گھنٹوں کے دوران اوسطاً 70سے80 بچے جنم لیتے ہیں اور گزشتہ 3برسوں کے اعداد شمار کے مطابق اسپتال میں ہر سال 25000زچگیاں ہوتی ہیں۔لل دید اسپتال کے بغیر وادی میں کوئی بھی زچگی اسپتال نہ ہونے کی وجہ سے اس پر کافی دبائو رہتا ہے ۔پرائمری ہیلتھ سنٹروں، سب ڈسٹرکٹ اسپتال اور ضلع اسپتالوں میں بنیادی سہولیات اور ماہرین امراض خواتین کی قلت کی وجہ سے اکثر خواتین کو لل دید اسپتال ہی منتقل کیا جاتا ہے۔ 500 بستروں والے اس زچگی اسپتال پر زیادہ دبائو دیہی علاقوں کا ہی رہتا ہے۔ اسپتال ذرائع کے مطابق اپریل 2011سے 31اکتوبر 2011تک اسپتال میں 85340مریضوں کا علاج کیا گیا جن میں 58944مریضوں کا تعلق دیہی علاقوں اور 26396کا تعلق شہر اور اس کے ملحقہ علاقوں سے تھا۔ لل دید اسپتال پر دبائو کم کر نے کے لئے 1996میں ڈاکٹر فاروق عبداللہ کے دور حکومت میں صنعت نگر میں ایک ڈسپنری کو میٹرنٹی ہوم میں تبدیل کیا گیا تھا لیکن 14سال کے دوران اس اسپتال میں ایک بھی بچے نے جنم نہیں لیا۔ اسپتال میں موجود ایک ملازم کا کہنا تھا کہ اس اسپتال میں ایک اسسٹنٹ سرجن موجود ہے جومریضوں کا ملاحظہ کرکے انہیں مزید علاج و معالجہ کے لئے لل دید اسپتال منتقل کرتا ہے جبکہ دوپہر کے بعد اس ہسپتا ل میں ایک بھی ڈاکٹر موجود نہیں ہوتا ہے۔ لل دید اسپتال پر نہ صرف سرینگر بلکہ وادی کے اسپتالوں سے بھی مریضوں کو منتقل کیا جاتا رہا ہے جبکہ کبھی کبھار اگر کسی خاتون کا علاج کسی پرائمر ی ہیلتھ سنٹر یا ضلع اسپتال میں ہورہا ہوگا اور حالت خراب ہونے کے بعد اسے بھی لل دید اسپتال ہی منتقل کیا جاتا ہے کیونکہ ان اسپتالوں میں بنیادی سہولیات کے علاوہ ماہرین امراض خواتین کی بھی کمی ہوتی ہے۔ 500بستروں والے لل دید اسپتال میںمریضوں کا اس قدر رش لگا رہتا ہے کہ ایک بیڈ پر کئی مریضوں کو بیٹھایا جاتا ہے۔ اس صورتحال پر قابو پانے کے لئے لل دید اسپتال کے بغل میں ہی 200بیڈ کا ایک اور اسپتال زیر تعمیر ہے۔ ستمبر 2011میں ریاستی حکومت نے اعلان کیا تھا کہ مرکزی وزارت صحت کی امداد سے سرینگر اور جموں میں مزید دو زچگی اسپتال تعمیر کئے جائیں گے لیکن وہ محض اعلان تک ہی محدود رہا۔ لل دید اسپتال کی ایک ڈاکٹر نے نام ظاہر نہ کر نے کی شرط پرکشمیر عظمیٰ کو بتا یا کہ اسپتالوں میں مریضوں کی بڑھتی تعداد کی وجہ کبھی کبھار مریض لاپرواہی کا بھی شکار ہوجاتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اگر پرائمری ہیلتھ سنٹروں، ڈسٹرکٹ اور سب ڈسٹرکٹ اسپتالوں کو تمام بنیادی سہولیات فراہم کئے جائیں تو لل دید اسپتال پر دبائو بہت کم رہے گا۔ تاہم سب ڈسٹرکٹ اسپتال کپوارہ سے اپریل 2011سے نومبر 2011تک درد زہ میں مبتلا کسی بھی خاتون کو لل دید اسپتال منتقل نہیں کیا گیا۔ سب ڈسٹرکٹ اسپتال کپوارہ میں ہر ماہ تقریباً 70سے 80تک درد زہ میں مبتلا خواتین کے آپریشن ہوتے ہیں۔ بلاک میڈکل آفیسر کپوارہ ڈاکٹر مسرت اقبال نے کشمیر عظمیٰ کو بتا یا کہ کپوارہ اسپتال میں ہر ماہ تقریباً 80آپریشن کے علاوہ سینکڑوں نارمل ڈیلیوریز ہوتی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ صرف گزشتہ ماہ ہی کپوارہ اسپتال میں 85 آپریشن کے علاوہ 308نارمل ڈیلیوریز ہوئیں۔ انہوں نے کہا کہ کپوارہ اسپتال میں اپریل سے نومبر تک کسی بھی مریضہ کو لل دید اسپتال منتقل نہیں کیا گیا اور اگر وادی کے دیگر اسپتال بھی یہی طریقہ کار اختیار کریں گے تو لل دید اسپتال پر بہت ہی کم دبائو رہے گا۔ وادی کے اسپتالوں سے مریضوں کو سرینگر منتقل کر نے اور اسپتالوں میں بنیادی سہولیات کی عدم دستیابی کے حوالے سے کشمیر عظمیٰ نے ڈائریکٹر ہیلتھ سروسز کشمیر ڈاکٹر سلیم الرحمان سے رابطہ قائم کر نے کی کوشش کی تھی تاہم ان کے ساتھ رابطہ نہ ہوسکا۔

Monday, November 21, 2011

فیس بُک معاملہ پر مرکزی وزارتِ داخلہ کو رپورٹ پیش


مکمل پابندی کی بجائے مذہبی منافرت پھیلانے والے صفحات بند ہونگے
محمد طاہر سعید

سرینگر//ریاستی حکومت نے سماجی رابطہ کار کی ویب سائٹ فیس بُک پر ان صفحات کو بند کرنے کا فیصلہ کیا ہے
جن کی وجہ سے ریاست میں امن و امان درہم برہم ہونے کا خطرہ ہے۔ ذرائع کے مطابق فیس بُک پر اسلام مخالف صفحات بنانے اور ان پر اسلام کے خلاف نازیبا الفاظ استعمال کرنے کے بعد پیدا شدہ صورتحال کا جائزہ لینے کے لئے پولیس کی اعلیٰ سطحی میٹنگ سرینگر میں منعقد ہوئی۔ میٹنگ میں اسلام مخالف صفحات بنانے سے پیدا شدہ صورتحال کا جائزہ لیا گیا اور اس بات کو محسوس کیا گیا کہ اگر فوری طور پر کوئی قدم نہیں اٹھایا گیا تو ریاست میں امن و امان درہم برہم ہوسکتا ہے۔ ذرائع کے مطابق کئی گھنٹوں تک چلنے والی اس میٹنگ میں پوری صورتحال کا جائزہ لیا گیا ،جس دوران یہ بات سامنے آئی کہ ’وکی اسلام ‘ویب سائٹ جو پوری دنیا میں خالص اسلام کا پرچار کرتی ہے،کے خلاف ایک ویب سایٹ بنائی گئی ہے اور اسی اسلام مخالف ویب سائٹ کی مختلف لنکس کو سماجی رابط کی ویب سائٹ فیس بک پر اپ لوڈ کیا جاتا ہے اور گھنٹوں میں دنیا کے مختلف حصوں میں فیس بک استعمال کرنے والے افراد کے ہوم پیچ پر آجاتا ہے۔ ذرائع کے مطابق میٹنگ میں بتا یا گیا کہ فیس بک پر اگر مکمل پابندی عائد کی جاتی تو لوگ دوسری سماجی رابطہ کار کی ویب سائٹوں کا استعمال کرسکتے ہیں، اس لئے فیس بک پر مکمل پابندی لاحاصل ہوسکتی ہے۔ ذرائع کے مطابق میٹنگ میں ایک رپورٹ تیار کی گئی جس کی ایک کاپی مرکزی وزارت داخلہ کی ویب سائٹ مانٹرینگ سیل کو بھیج دی گئی ہے۔ ذرائع نے بتا یا کہ اس رپورٹ میں پولیس نے وزارت داخلہ سے کہا ہے کہ انہوں نے کشمیر میں فیس بک کے استعمال کی مکمل جانچ کی ہے اس سلسلے میں اگر ممکن ہو تو کشمیر میں فیس بک پر مکمل پابندی عائد کی جائے تاہم رپورٹ میںپولیس نے یہ بھی واضح کیا کہ لوگ فیس بک کو سماجی رابطے اور مختلف موضوعات پر مباحثے کے لئے استعمال کرتے ہیں تاہم کچھ ایسے لوگ بھی فیس بک پر موجود ہیں جو اس کا غلط استعمال کرتے ہیں اور ان کی نشاندہی بھی کی جاچکی ہے۔ ذرائع کے مطابق ریاستی پولیس نے مرکزی وزارت داخلہ کی سائبر سیل کو یہ بھی تجویز دی ہے فیس بک کو مکمل طور پر بند کر نے سے قانونی اڑچنیں بھی پیدا ہوسکتی ہیں اس لئے کیوں نہ فیس بک پر مذاہب خاص کر اسلام کے خلاف منافرت پھیلانے والے صفحات اور وئب سائٹس کو بند کر دیا جائے۔ ذرائع کے مطابق مرکزی وزارت داخلہ نے ریاستی پولیس سے کہا ہے کہ وہ کشمیر کے لئے ان تمام صفحات کو بند کر دیں گے جو امن درہم برہم کرنے کا باعث بن سکتے ہیں۔ ذرائع کے مطابق مرکزی وزارت داخلہ کی سائبر سیل کی طرف سے فیس بک کے مخصوص صفحات اور اسلام مخالف سائٹ کو کشمیر کے لئے بند کر نے کی یقین دہانی کے بعد ریاستی پولیس نے فیس بُک پر مکمل پابندی عائد کرنے کی بجائے اب صرف منافرت پھیلانے والے مخصوص صفحات کو بند کر نے کا فیصلہ کیا ہے۔ ریاستی پولیس نے مرکزی وزارت داخلہ سے مطالبہ کیا کہ ریاستی پولیس کو ایسے آلات فراہم کئے جائیں جس سے وہ سماجی رابطہ کی ویب سائٹوں کے استعمال کو مانیٹر کر سکے گی۔نیز پولیس نے یہ بھی فیصلہ کیا ہے کہ وادی میں فیس بک استعمال کرنے والے افراد کی جانب سے منافرت پھلانے پر بھی روک لگا دی جائیگی اور اُن کی نشاندہی کرکے نہ صرف اُن کے صفحات بندکردیئے جائینگے بلکہ نشاندہی کرکے اُن کی گرفتاری بھی عمل میںلائی جائیگی۔دریں اثناء نے وزیر اعلیٰ نے ایک ٹویٹ میں فیس بک پر پابندی عائد ہونے کی خبروں کو محض افواہیں سے تعبیر کیا۔ انہوں نے لکھا ’فیس بک پابندی کیخلاف افواہیں پھیلانا بند کرو، حکومت کے پاس ایسا کوئی ارادہ نہیںکہ اس ویب سائٹ کو بند کیا جائے‘۔