Sunday, December 25, 2011

سال 2011۔۔۔بیتے لمحے بیتی یادیں

سال 2011اب صرف ایک ہفتہ بعد تلخ اور شیرین یادوں کے ساتھ ہمیں الوداع کہنے جارہا ہے۔یہ سال اگرچہ گزشتہ تین سالوں کے مقابلے میں قدرے پُر امن رہا تاہم یہ سال بھی نئے پروجیکٹوں کے قیام،مزاحمتی قیادت پر پبلک سیفٹی ایکٹ کے بار بار اطلاق، نظربندی ،سیاسی لیڈران پر حملوں اور ہلاکتوںکی تاریخ میں ایک اور باب کے اضافہ کے ساتھ ہمیں آخری سلام کر نے جا رہا ہے۔

مرتب:محمد طاہر سعید /اعجاز میر

٭ 3جنوری کو بانڈی پورہ ،بجبہاڑہ اور پارمپورہ میں آتشزدگی کی ہولناک وارداتوں میں 48دکانیں خاکستر جبکہ اسی روز شہر خاص میں پاسپورٹ آفس کا افتتاح بھی کیا۔
٭5جنوری کو بھاجپا یوتھ ونگ نے لالچوک میں 26جنوری کو ترنگا لہرانے کا اعلان کیا۔
٭10جنوی کو موٹر موٹر سائیکلوں پر سوار چینی افواج نے لداخ خطے میں کنٹرول لائن عبور کرکے ٹھیکیدار اور مزدوروں کو سرحدکے 30کلومیٹر اندر تعمیر ہو رہے ایک مسافر شیڈ کی تعمیر روکنے پر مجبور کردیا۔
٭11جنوری کو لبریشن فرنٹ سربراہ محمد یاسین ملک نے2010میں 112کی ہلاکت پر حکومت کے خلاف قانونی جنگ لڑنے کا اعلان کیا۔
٭27جنوری جو جی آ ر صوفی کو چیف انفارمیشن انفارمیشن کمشنر نامزد کیا گیا۔
٭31جنوری کوسنیئر آئی اے ایس آفیسرمادھو لال نے ریاستی چیف سیکریٹری کا عہدہ سنبھالا
٭یکم فروری کو نامعلوم بندوق برداروں نے مسلم پیر سوپور میں دوبہنوں عارفہ 16سال اور اخترہ 18سال کو دوران شب ہلاک کیا۔
٭6فروری کو پولیس نے دوران شب سوپور ہسپتال پر قبضہ جمایا جبکہ دوسرے روز ہی عوام دباﺅ کے بعد ہسپتال کو خالی کیا گیا۔
٭6فروری کو چوگل کپوارہ میں فوج نے ایک نوجوان 21سالہ منطور احمد ماگرے کو ہلاک کیا۔عوامی غصہ کو کم کرنے کےلئے وزیر اعلیٰ چوگل پہنچ گئے۔
٭9فروری کو ریاستی کابینہ نے مئی میں پنچایتی چناﺅ کرانے کا اعلان کیا ۔
٭10فروری او آئی سی کے سیکریٹری جنرل احسان اکمل الدین نے کہا کہ او آئی سی کے ایجنڈے میں کشمیر سر فہرست ہے۔
٭11فروری کو بی جے پی کے کارکنوں نے اجمیر شریف میں لبریشن فرنٹ کے سربراہ محمد یاسین ملک پر پتھراﺅ کیا جس کے نتیجے میں ان کے سر میں چوٹ لگی۔ جبکہ اسی روز ڈائریکٹر ریسرچ سکاسٹ (ریٹائرڈ) پروفیسر اے آر تراگ کو اسلامک یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی اونتی پورہ کشمیر کا وائس چانسلر مقرر کیا گیا ہے۔
٭12فروری کوملورہ ایچ ایم ٹی سرینگر میں ا ایک بم زور دار دھماکے سے پھٹ گیا جسے بچے کھلونا سمجھ کر کھیل رہے تھے۔ اس دلدوز واقعہ میں بھائی بہن جاں بحق جبکہ ان کی ماں ،2 بہنیں اور ایک بھائی زخمی ہوئے
٭13فروری کو بھارت کے اس وقت کے معتمد داخلہ نے کہا کہ امسا ل جموں وکشمیر سے 10ہزار فورسز کا انخلاءعمل میں لائے گا جبکہ افسپا کو ہٹانے کا معاملہ مرکز کے زیر غور ہے۔
٭17فروری کو پولیس نے بٹہ مالو سے نے اسلامک سٹوڈنٹس لیگ چیئرمین شکیل احمد بخشی کو گرفتار کیا۔
٭ 18فروری مرکز کی نامزد مصالحت کار رادھا کمار نے کہا کہ کشمیر میں آزادی کا جذبہ نہایت ہی گہر ا ہے جبکہ جموں دامن چھڑانے اور لداخ مرکز کے ساتھ رہنے کا خواہاں ہے۔یہ بات انہوں نے ایک خبر رساںادارے کو انٹریو میں کہی۔
٭18فروری کو مرکز ی وزیر دفاع اے کے انٹونی نے فوج کو حاصل خصوصی اختیارات کو واپس لینے کے مطالبے کو سختی کیساتھ مسترد کرتے ہوئے کہاکہ افسپا کو واپس لیکر جنگجوﺅں کی کامیابیوں کیلئے میدان ہر گز کھلا چھوڑا نہیںجائے گا۔
٭19فروری کو اقوام متحدہ میں انسانی حقوق کی خصوصی مبصر مارگرٹ سکیگیا وادی میں حقوق انسانی کی صورتحال اوران کا دفاع کرنے والے لوگوںکی حالت کا جائزہ لینے کیلئے سرینگر پہنچ گئیں جہاں انہوں نے انسانی حقوق کی پامالیوں کے متعدد متاثرین ، حقوق البشر کارکنوں ،اسکے طرفداروں،وکلاء اور صحافیوں کے ساتھ ملاقات کی۔جبکہ اسی دن حاجن بازار میںنامعلوم بند وق برداروں نے این سی ورکر غلام محمد ڈار کو گولیاں مار کر ہلاک کردیا۔
٭23فروری کو حریت کانفرنس (گ)سربراہ سید علی شاہ گیلانی نے کہا کہ انہوںنے اپنا کوئی جا نشین مقرر نہیں کررکھا ہے اور جب کبھی بھی اس کی ضرورت پڑے گی توپارٹی آئین کے مطابق اس کیلئے انتخابات عمل میں لائے جاسکتے ہیں۔
٭24فروری کو وزیر اعظم من موہن سنگھ نے کہا کہ علیحدگی پسندوں کیلئے میدان کھلا نہیں چھوڑا جائے گا اور رنگاراجن کمیٹی کی سفارشات پر عنقریب عملدرآمد کے بعد ریاستی نوجوانوں کیلئے ایک لاکھ روزگار کے مواقع فراہم کئے جائیں گے۔
٭28فروری کو جموں میں ریاستی اسمبلی کا بجٹ اجلاس شروع ہوا.
٭3مارچ کو پی ڈی پی لیڈرسرتاج مدنی ڈپٹی سپیکرکے عہدے سے مستعفی جبکہ 12روز کے بعد انہوں نے اپنا استعفیٰ واپس لیا۔
٭7مارچ کو وزیر خزانہ عبدا لرحیم راتھر نے صفرخسارے کیساتھ 2011-12کا میزانیہ پیش کیاتمباکو مصنوعات پر ویٹ ، بھیڑ بکریوں ،پولٹری اور خوردنی تیل کے ٹول ٹیکس میں اضافہ۔اسی روز معروف معالج ڈاکٹر سمیر کول پی ڈی پی بھی شامل ہوگئے
٭9 مارچ کو تلیل گریز میں لائن آف کنٹرول کے نزدیک واقع دور افتادہ بستی کے23رہائشی مکانات آگ کی بھیانک واردات میں مکمل طور پر راکھ کے ڈھیر میں تبدیل ہوگئے۔
٭10مارچ کو پولیس نے فور شو روڈ پر جیش محمد کے دو عسکریت پسندوں سجاد افغانی اور عمر بلال کو جاں بحق کر دیا
٭14مارچ کو پنچایتی چناﺅ کے لئے تاریخوں کا علان
٭17مارچ کو شہر سرینگر میں 12بنکر ہٹائے گئے ۔ہٹائے گئے بنکروں میں اسلامیہ کالج کے نزدیک وہ بنکر بھی شامل ہے جہاں2 دہائی قبل مرحوم میرواعظ مولوی محمد فاروق کے جلوس جنازہ پر فائرنگ کرکے لگ بھگ 50 سے زائدافراد کوجاں بحق کیا گیا تھا۔
٭18مارچ کوبھارت میں مقیم امریکی سفیر ٹیموتھی جے ریومرنے علیحدگی پسندوں سے نہ ملنے کے فیصلے کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ ا ±نہوں نے وزیراعلیٰ عمر عبد اللہ سے بات کی جو ریاستی عوام کے منتخب نمائندے ہیں۔
٭23مارچ کوریاستی اسمبلی میں پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی کے ممبر اسمبلی بانڈی پورہ نظام الدین بٹ نے وزیراعلیٰ کے خلاف لگائے گئے رشوت ستانی کے الزامات کوواپس لیتے ہوئے ان سے معذرت طلب کرلی جسکے جواب میں وزیر اعلیٰ نے بھی انہیں موقعہ پر ہی معاف کردیا۔
٭6اپریل کوریاستی ہائیکورٹ کے سینئر ترین جج جسٹس فقیرمحمد ابراہیم کلیف اللہ کوہائیکورٹ کا قائمقام چیف جسٹس بنایاگیا ہے۔اسی روزبرطانوی وزیراعظم ڈیوڈکیمرون نے مسئلہ کشمیر برطانیہ کی پیداوارقرار دینے کا اعتراف کیا۔
٭7اپریل کومردم شماری کی پہلی عبوری رپورٹ جاری ، ریاست جموں و کشمیر کی موجودہ آبادی 1کروڑ25لاکھ48ہزار9سو26 جس میں مردوں کی کل تعداد66لاکھ65ہزار561جبکہ خواتین کی کل تعداد 58لاکھ83ہزار365 ہے۔اس طرح2001سے اب تک آباددی میں23.71فیصد کا اضافہ ہوا ہے۔
٭8اپریل کومائسمہ گاﺅکدل سرینگر میں بعد دوپہر ایک بارودی سرنگ دھماکے میں جمعیت اہلحدیث صدر اور مولانا شوکت احمد شاہ جاں ہوئے۔مولانا موصوف نماز جمعہ کی پیشوائی کیلئے مرکزی جامع اہلحدیث میں داخل ہورہے تھے اورمسجد کے عقبی دروازے کے قریب سائیکل میں نصب بارودی سرنگ کا دھماکہ ہوااورمولانا شوکت احمد دھماکے کی زد میں آگئے جبکہ دھماکے میں ایک شہری زخمی ہوا۔
٭13اپریل کو پنچایتی چناﺅ کا پہلا مرحلہ ،ووٹنگ کی شرح 79فیصدی رہی۔
٭15اپریل کو گدودباغ حبہ کدل میں آگ کی ایک ہولناک واردات میں30 رہائشی مکانات مکمل طورپر خاکستر ہوئے ۔
٭16اپریل کو ایک غیر معمولی پیش رفت کے طور پر وسطی ضلع بڈگام کی ایک عدالت نے ریاستی حکومت کے ان احکامات پر حکم امتناعی جاری کردیا ہے جس کے تحت جموں خطے کے لوگوں کو ڈوگرہ سرٹفکیٹ اجراءکرنے کا فیصلہ کیا گیا تھا۔
٭17اپریل کوایک حیران کن واقعہ میں قاضی گنڈ سے ٹرین نے بغیر کسی ڈرائیور کے 40کلومیٹر تک مسافت طے کی جو بعد میں خود بخود ر ±ک گئی۔
٭20اپریل کو مرکزی مصالحت کار مولانا عباس انصاری سے ملاقی، اتحادالمسلمین حریت (ع) سے معطل۔اسی روزکراس ووٹنگ کے مرتکب 7بھاجپا اراکین معطل کئے گئے جبکہ ان کے خلاف،وجہ بتاﺅ نوٹس جاری کیا گیا
٭28اپریل کو کابینہ کے ایک اجلاس میں ڈوگرہ سند اجرائی کا فیصلہ منسوخ کیا گیا جبکہ ایک اور اہم فیصلے میںجموں کشمیر سٹیٹ ویجی لینس کمیشن ایکٹ میں ضروری ترامیم کو منطوری دی گئی تاہم اس ضمن میں ماہرین اور عام لوگوں کی رائے حاصل کرنے کے لئے ترمیم شدہ مسودہ قانون انٹرنیٹ پر دستیاب رکھا جائے گا۔
٭6مئی کو سرینگر میں القاعدہ کے مہلوک سربراہ اسامہ بن لادن کا غائبانہ نماز ہ جنازہ ادا کیا گیا۔گیلانی اور شبیر احمد شاہ نے بھی شرکت کی۔
٭13مئی کو بھارت پر ایمنسٹی انٹرنیشنل کی سالانہ رپورٹ جاری کی۔رپورٹ کے مطابقفرضی جھڑپوں میں1224ہلاک کیا گیا ہے جبکہ1989سے کشمیر میں ہزاروں افراد لاپتہ ہوئے ہیں۔
٭14مئی کو فوج کے شمالی کمان کے جنرل آفیسر کمانڈنگ انچیف لیفٹنٹ جنرل کے ٹی پرنائیک نے کہا ہے کہ آرمڈفورسز اسپیشل پاورس ایکٹ (افسپا)کی واپسی سے متعلق بنائی گئی کمیٹیوں کی سفارشات وزیراعلیٰ عمر عبد اللہ کو بھیج دی گئی ہیںجس میں افسپا کو نہ ا ±ٹھانے کی بھی اہم سفارش کی گئی ہے۔
٭24مئی کو ریاست جموں وکشمیر کو متنازعہ خطے کے طور پر پیش کئے جانے کی پاداش میں ہندوستان میں بین الاقوامی میگزین اکنامسٹ کے تازہ شمارے کی تقسیم پر پابندی عائد کردی اور حکام نے اس میگزین 28ہزار کاپیوں پر چھپے ہوئے مخصوص نقشوں پرسادہ پرچیاں چسپاں کرنے کاحکم دیا ۔
٭27مئی کومظفر آباد سے80کلومیٹر دور ایک ہولناک سڑک حادثے کے دوران مسافر بس دریائے نیلم میں جاگری جس کے نتیجے میں 60سے زائد افراد ڈوب گئے۔
٭28مئی کوانسانی حقوق کے کارکن اور کالم نویس گوتم نولکھا کو پولیس نے سرینگر میں داخل ہونے کی ااجازت نہیں دی ۔ پولیس نے نولکھا کو سرینگر بین الاقوامی طیران گاہ سے گرفتار کر کے ہمہامہ پولیس گیسٹ ہاوس میں رکھا اور دوسرے واپس نئی دلی روانہ کیا۔
٭30مئی کو وزیر اعظم من موہن سنگھ نے پاکستان کومشورہ دیا پاکستان کو کشمیر کی بجائے داخلی سطح پر درپیش مسائل کی طرف توجہ مرکوز کرنی چاہئے۔
٭یکم جون کو حریت کانفرنس (ع)نے اتحاد المسلمین کی رکنیت بحال کرنے کا فیصلہ کرتے ہوئے اس سلسلے میں تنظیم کو تحریری طور پرآگاہ کیا۔جبکہ اسی روز معروف سائنس دان اور ماہر تعلیم پروفیسر طلعت احمد نے کشمیر یونیورسٹی کے نئے وائس چانسلر کا چارج سنبھالا۔
٭2جون کو میڈکل انسٹی ٹیوٹ صورہ کے شعبہ گیسٹر انٹرالوجی کے سربراہ پروفیسر ڈاکٹر شوکت زرگر کو انسٹی ٹیوٹ کا ڈائریکٹر مقرر کیا گیا ۔
٭14جون کو تاریخی مغل روڑ پر ٹریفک کی آمد رفت کو سرکارکی طرف سے ہری جھنڈی مل گئی ۔
٭17جون کو مارننگ پروازوں کاآغازکیا گیا ۔
٭20جون کوتحریک حریت اور حریت (گ) چیئرمین سید علی شاہ گیلانی کی ویب سائٹ کا آغاز۔
٭21جون کوپی چدمبرم نے 2010 ایجی ٹیشن کے دوران سب سے زیادہ خبروں میں رہنے والے علاقے ڈاﺅن ٹاﺅن کی گلیوں کا دورہ کیا۔
٭27جون کواردن کی ملکہ نور نے کہا ہے کہ عالمی برادری کو دنیا کو تباہ کن نیوکلیائی ہتھیاروں سے پاک کرنے کے ساتھ ساتھ کشمیر اور فلسطین جیسے دیرینہ مسائل فوری طور پر حل کرنے چاہئے۔
٭6جولائی کو سوپور پولیس سٹیشن پر پے در پہ ہوئے گرنیڈ حملوں میں 9پولیس اہلکار زخمی ہوئے۔
٭7جولائی کو حریت (گ)کے چیر مین سید علی گیلانی نے اپنی سوانح حیات’ ولر کنارے‘ اجراءکی اور رسم اجرائی کی تقریب ایک مقامی ہوٹل میں منعقد ہوئی۔
٭15جولائی کولولاب کپوارہ کے مضافاتی گاﺅں میدان پورہ میں فورسز اور جنگجوﺅں کے مابین 13گھنٹے تک چلی تصادم آرائی میں 5جنگجو اور ایک فوجی اہلکار ہلاک جبکہ کیپٹن سمیت 5اہلکار شدیدزخمی ہوگئے۔
٭20جولائی کوامریکہ کی خفیہ ایجنسی ایف بی آئی نے وہاںمقیم کشمیری نڑاد اور کشمیر امریکن کونسل کے ایگزیکٹیو ڈائریکٹر ڈاکٹرغلام نبی فائی کوگرفتارکر کے ان پر الزام عائد کیا ہے کہ وہ پاکستانی سراغ رساں ایجنسی آئی ایس آئی کیلئے کام کرتے تھے اور ا ±نہی کی ایماء پر امریکہ کے سینٹ ارکان کو پاکستان کے کشمیر کاز کی حمایت کرنے کیلئے خریدنے کی کوشش کرتے تھے ۔
٭21جولائی کو دمحال ہانجی پور کولگام میں ہ میں خاتون کی مبینہ عصمت ریزی۔فوج کے خلاف علاقہ عوام کا احتجاج۔
٭30جولائی کو پہلگام میں سڑک حادثہ 12جاں بحق ہوئے جبکہ اسی روز سابق ہائی کورٹ جج جسٹس یشپال نرگوترا کوجموں وکشمیر احتساب کمیشن کے چیر مین نامزد کیا۔
٭31جولائی کو 2009کے بعد پہلی حراستی ہلاکت کا واقعہ سوپور میں پیش آیاجہاں 25سالہ دکاندار ناظم رشید کو پولیس نے حراست میں لینے کے بعد ٹارچر سے ہلاک کیا۔
٭4اگست کو پلوامہ میں ایک معرکہ آرائی کے دوران 4عسکریت پسند جاں بحق ہوئے جبکہ عسکریت پسندوں کو بچانے کےلئے مشتعل ہجوم نے فوج اور پولیس اہلکاروں پر پتھراﺅ کیا۔
٭8اگست کو سرنکوٹ میں ذہنی مریض کو جھڑپ میں ہلاک کے عسکریت پسند جتلانے کا انکشاف ہوا جس کے بعد پولیس نے 2فوجی اہلکاروں کو حراست میں لیا۔
٭10اگست کو دلّی کی ایک عدالت نے 11 برس قبل چھٹی سنگھ پورہ میں 35سکھوں کے قتل کے الزام میں گرفتار 2پاکستانی شہریوں کو بری کردیا ہے۔
٭11اگست کو جموں میںموسلا دار بارشوں کی وجہ سے کم از کم9افراد ہلاک اور 18دیگر زخمی ہو گئے۔
٭13اگست کو سالانہ امرناتھ یاترااختتام پذیر ہوئی ساڑھے 6لاکھ یاتریوں نے درشن کئے جبکہ88کی موت واقع ہوئی
٭16اگست کو امریکی صدر باراک اوبامہ کے صدارتی حریف سینیٹرجان میکن،جو اس وقت امریکی سینٹ کے آرمڈ فورسز کمیٹی کے نائب چیئرمین بھی ہیں، امریکی خارجہ پالیسی سازوں اور فوجی حکام پر مشتمل 4رکنی ٹیم کے ہمراہ وادی کے خفیہ دورے پر سرینگر پہنچ گئے اور انہوں نے اپنے دورے کے آغاز میں وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ ، گورنر این این ووہرا اورریاست میں مقیم فوج کے سینئر کمانڈروں کیساتھ اہم ملاقاتیں کی۔
٭20اگست کو گریز سیکٹر میں خون ریز تصادم آرائی کے نتیجے میں 12عسکریت پسند اورلیفٹنٹ ہلاک۔
٭20اگست کو ضلع پونچھ کے میدانہ علاقے میںیک دلدوز سڑک حادثہ پیش آ جس میں 19مسافر لقمہ اجل اور19زخمی ہوگئے۔
٭21اگست کو انسانی حقوق کمیشن کی جانب سے 38مقامات پر 2156گمنام قبروں کا انکشاف ہوا۔
٭25اگست کو مولانا شوکت شاہ قتل کی انکوائری کر رہی ”کل جماعتی تحقیقاتی کمیٹی“ نے لشکر طیبہ کی طرف سے موصولہ رپورٹ میڈیا کیلئے جاری کردی جس میں لشکر طیبہ نے اس معاملے کی تحقیقات میں اپنی طرف سے مکمل تعاون کی پھر یقین دہانی کراتے ہوئے جاوید منشی عرف بل پاپاکومولانا کے قتل کااہم ملزم قرار دیا ہے۔
٭ 25اگست کو تحریک حریت کے جنرل سیکریٹر ی محمد اشرف صحرائی کو 14ماہ اسیری کے بعد رہا کئے گئے جبکہ اسی روز جنوبی کشمیر کے میرواعظ قاضی یاسر کو بھی رہا کیا گیا۔
٭28اگست کو وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ نے عیدا لفطر کے موقعہ پر 2010 کی گرمائی ایجی ٹیشن کے دوران 1200واقعات میںملوث نوجوانوںکے تمام کیسوںکو واپس لیتے ہوئے عام معافی کا اعلان کیا ۔
٭14ستمبر کو چینی فوج نے لداخ میں حقیقی کنٹرول لائن عبور کر کے بھارتی حدودمیں ڈیڑھ کلو میٹر اندر آکر فوجی بنکر اورآئی ٹی بی پی کے خیموں کو مسمار کردیا۔
٭16ستمبر کو وادی میں موسلادھاربارشوں سے متعدد علاقے زیر آب آگئے۔
٭17ستمبر کو برطانوی پارلیمان میں ’برصغیرمیںانسانی حقوق کی پامالیاں‘ کے عنوان سے پیش کی گئی قرارداد پر30ممبران نے بحث میں حصہ لیا۔
٭18ستمبر کو پاکستانی زیر انتظام کشمیر کے سابق وزیر اعظم بیرسٹر سلطان محمود چودھری سرینگر پہنچے جبکہ اسی روز گورنر این این و ±ہرا نے جسٹس ایف ایم ابراہیم کلیف اللہ کو جموں وکشمیر ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کی حیثیت سے حلف دیا۔
٭26ستمبر کو آل انڈیا کانگریس جنرل سیکریٹری راہل گاندھی نے کہا ہے کہ وہ خود کشمیریوں کی طرح حالات کے ستائے ہوئے ہیں،ان کی جڑیں کشمیر سے جڑی ہوئی ہیں اور کشمیر خطے سے ان کی گہری وابستگی ہے لہٰذا کشمیری بچوں کے دردو الم سے وہ ناآشنا نہیں۔
٭27ستمبر کو سرحدی ضلع کپوارہ کے کرالہ پورہ علاقے میں آوتھ ک ±ل ملیال جنگلات میں24گھنٹوں تک ہوئی تصادم آرائی میں تک ایک لیفٹنٹ سمیت 3 اہلکاراور5جنگجو جاں بحق ہوئے۔
٭28ستمبر کو قانون ساز اسمبلی میں پارلیمنٹ حملہ میں سزائے مو ت کے حقدار قرار دئے گئے کشمیری نوجوان افضل گورو کی سزا معاف کرنے سے متعلق قرارداد کانگریس اور بھاجپا ممبران کے شور شرابے کی نظر ہوگئی ۔
٭30ستمبر کو نیشنل کانفرنس کے کارکن سید محمد یوسف کی کرائم برانچ کے زیر حراست اس پُر اسرار موت واقعہ ہوئی۔
٭3اکتوبر کو جموں وکشمیر قانون ساز اسمبلی میں نیشنل کانفرنس کارکن کی مبینہ حراستی ہلاکت معاملہ کو لیکر ہنگامہ آرائی ۔اسمبلی اسپیکر محمد اکبر لون اورسینئر پی ڈی پی لیڈر مولوی افتخار حسین انصاری کے درمیان انتہائی شرمناک حد تک گالی گلوچ ہوئی ۔
٭3اکتوبر کو مرکزی وزارت دفاع نے سرینگر میں قائم حساس ترین بادامی باغ کنٹونمنٹ میں زمین فروخت کرنے کا ایک سنسنی خیز سکینڈل طشت از بام کیا ہے جس کی مالیت1,500کروڑ روپے بتائی جاتی ہے ۔
٭4اکتوبر کو وادی کشمیرکوبھارت کے ر یلوے نیٹ ورک سے جوڑنے والی11.5 کلو میٹر لمبی ٹنل جوایشیاءکی سب سے بڑی ٹنل ہے ،تعمیر مکمل ہوئی۔
٭6اکتوبر کو نیشنل کانفرنس نے ڈاکٹر شیخ مصطفیٰ کمال کو جنرل سیکریٹری شیخ نذیر احمد کا معاون اورپارٹی کا ترجمان اعلیٰ مقرر کیا کیا۔
٭9اکتوبر کوبھا رتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی)نے رواں برس اپریل میں قانون ساز کونسل انتخابات کے دوران ’نوٹ کے بدلے ووٹ ‘میںملوث ہونے کی پاداش میں قانون ساز اسمبلی کے 6ارکان کو پارٹی سے برخواست کرنے کا فیصلہ کیا ۔
٭16اکتوبر کو شمال مشرق کی خاتون اروم شرمیلا جو افسپا کے خلاف بھوک ہڑتال پر ہے،کے ساتھ اظہار یکجہتی کرنے کے لئے سرینگر سے ایک ریلی منی پور روانہ ہوئی۔
٭19اکتوبر کو ریاستی ہیومن رائٹس کمیشن کا اہم فیصلہ سناتے ہوئے ک ±نن پوشپورہ کیس دوبارہ کھولنے اور از سر نو تحقیقات کی سفارش کی۔
٭21اکتوبرکو وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ نے زیون میں پولیس یادگاری دن کے موقعہ پر افسپا کو جزوی طور پر ہٹنانے کا اعلان کرتے ہوئے اسے افسپا اور ڈسٹربڈ ایریا ایکٹ کو کالے قوانین سے تعبیر کیا۔
٭25اکتوبر کو صرف چار گھٹنوں میں مشتبہ جنگجوﺅںنے فورسزکے 4ٹھکانوں کو نشانہ بنایاجسکے دوران 3سی آر پی ایف اہلکاروں سمیت 4 افراد زخمی ہوئے ۔نیشنل کانفرنس کے ترجمان نے ان حملوں پر اپنا ردعمل ظاہر کرتے ہوئے کہا شک کی سوئی فوج کی طرف جاتی ہے کیونکہ وہ افسپا کو ہٹانے کے خلاف ہے۔
٭30اکتوبر کو لبریشن فرنٹ چیئرمین محمد یاسین ملک ا فریضہ حج کی ادائیگی کیلئے سعودی عرب روانہ ہوئے۔
٭31اکتوبرکو محبوبہ مفتی کو مسلسل تیسری مرتبہ پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی کا صدر منتخب کیا گیا۔
٭یکم نومبر کو پانپور میں تین دوستوں نے اپنے ساتھ کلیم قادری کا گھلا گھونٹ اسے قتل کیا ۔یکم نومبر کو ہی عدالت عالیہ کے سابق ریٹائرڈ جج جسٹس بشیر احمد کرمانی کو جموں کشمیر کنزیومر کمیشن کا چیئر مین نامزد کیا گیا ہے ۔
٭6نومبر کو دختران ملت کی سربراہ آسیہ اندرابی کو15ماہ کی قید کے بعد رہا کیا گیا۔
٭10نومبر کو نیشنل کانفرنس نے ڈاکٹر مصطفی کمال کو معاون جنرل سکریٹری اور ترجمان اعلیٰ کی حیثیت سے مستعفی ہونے کی ہدایت دی۔
٭18نومبر کو سرکارنے سید محمدیوسف قتل معاملے کی تحقیقات کیلئے یک نفری سبکدوش سپریم کورٹ جج جسٹس ایچ ایس بیدی کو’ جوڈیشل کمیشن آف انکوائری “کے لئے نامز د کیا ہے اور 6ہفتوں کے دوران اپنی رپورٹ پیش کرنے کی ہدایت دی
٭1دسمبر کو پائین شہر میں 21سال بعد فورسزنے فردوس سنیما خالی کردیا، جس کے ساتھ ہی مقامی آبادی نے راحت کی سانس لی ۔
٭11دسمبر کو عسکریت پسندوں نے ریاستی وزیر قانون علی محمد ساگر پر اس وقت حملہ کیا جب وہ اپنی بھتیجی کی سگائی کی تقریب میں شرکت کرنے کےلئے آبائی گھر نواب بازار میں موجود تھے۔اس حملے میں ساگر بال بال بچ گئے تاہم ان کا ذاتی محافظ ہلاک اور دیگر 3اہلکار زخمی ہوئے۔
٭17دسمبر کو مرکزی وزیر برائے دیہی ترقی و پنچائت راج جے رام رمیش نے مرکزی روزگار پروجیکٹ’حمایت ‘کا باضابطہ افتتاح کیا۔
٭18دسمبر کو مفرور حجیج اانڈیا کے مالک فبیان کو پولیس نے راجستھان سے گرفتار کیا۔

روزنامہ کشمیر عظمیٰ سرینگر

Friday, December 23, 2011

انتخاب از علامہ اقبال


يہ سحر جو کبھي فردا ہے کبھي ہے امروز
نہيں معلوم کہ ہوتي ہے کہاں سے پيدا
وہ سحر جس سے لرزتا ہے شبستان وجود
ہوتي ہے بندہ مومن کي اذاں سے پيدا
______________
ہو صداقت کے لئے جس دل میں مرنے کی تڑپ
پہلے اپنے پیکرخاکی میں جاں پیدا کرے
______________
موت کو سمجھے ہیں غافل اختتامِ زندگی
ہے یہ شامِ زندگی، صبحِ دوامِ زندگي
______________
دل مُردہ دل نہیں ہے، اسے زندہ کر دوبارہ
کہ یہی ہے اُمتوں کے مرض کہن کا چارہ
______________
خیرہ کر نہ سکا مُجھے جلوہء دانش فرنگ
سُرمہ ہے میری آنکھ کا خاک مدینہ و نجف
______________
ہزار خوف ہو لیکن زباں ہو دل کی رفیق
یہی رہا ہے ازل سے قلندروں کا طریق
______________
نکل کر خانقاہوں سے ادا کر رسم شبيري
کہ فقر خانقاہي ہے فقط اندوہ و دلگيري
ترے دين و ادب سے آ رہي ہے بوئے رہباني
يہي ہے مرنے والي امتوں کا عالم پيري
میں کھاں رکتا ھوں عرش و فرش کی آواز سے
مجھ کو جانا ھے بھت اونچا حد پرواز سے
______________
پرواز ہے دونوں کی اسی ایک فضا میں
کرگس کا جہاں اور ہے، شاہیں کا جہاں اور
الفاظ و معانی میں تفاوت نہیں لیکن
مُلا کی اذان اور مجاھد کی اذان اور
______________
شاہین
کیا میں نے اس خاکداں سے کنارا
جہاں رزق کا نام ھے آب و دانہ
بیاباں کی خلوت خوش آتی ھے مجھ کو
ازل سے ھے فطرت میری راہبانہ
نہ باد بہاری، نہ گل چیں ، نہ بلبل
نہ بیماریء نغمہ ء عاشقانہ
خیابانیوں سے ھے پرہیز لازم
ادائیں ہیں ان کی بہت دلبرانہ
ہواءے بیاباں سے ہوتی ھے کاری
جوانمرد کی ضربت غازیانہ
حمام و کبوتر کا بھوکا نہیں میں
کہ ہے زندگی باز کی زاھدانہ
جھپٹنا، پلٹنا، پلٹ کر جھپٹنا
لہو گرم رکھنے کا ہے اک بہانہ
یہ پورب، یہ پچھم، چکوروں کی دنیا
مرا نیلگوں آسماں بیکرانہ
پرندوں کی دنیا کا درویش ھوں میں
کہ شاہیں بناتا نہیں آشیانہ
______________
وہ فریب خوردہ شاہیں جو پلا ہو گرگسوں میں
اُسے کیا خبر کہ کیا ہے رہ رسم ِ شاہبازی
______________
ہوئی نہ زاغ میں پیدا بلند پروازی
خراب کر گئی شاہیں بچے کو صحبت ِ زاغ
حیا نہیں ہے زمانے کی آنکھ میں باقی
خدا کرے کہ جوانی تری رہے بے داغ
______________
کر بلبل و طاوس کی تقلید سے توبہ
بلبل فقط آواز ہے، طاوس فقط رنگ
______________
نوا پیرا ہو ایک بلبل کہ ہو تیرے ترنم سے
کبوتر کے تن نازک میں شاہیں کا جگر پیدا
______________
خودی کی شوخی و تندی میں کبر و ناز نہیں
جو ناز ہو بھی تو بے لذت نیاز نہیں
نگاہ عشق دل زندہ کی تلاش میں ہے
شکار مردہ سزاوار شاہباز نہیں
______________
خودی کو کر بلند اتنا کہ ہر تقدیر سے پہلے
خدا بندے سے خود پوچھے ، بتا تیری رضا کیا ہے
______________
افسوس صد افسوس کہ شاہیں نہ بنا تو
دیکھے نہ تیری آنکھ نے فطرت کے اشارات
تقدیر کے قاضی کا یہ فتوی ہے ازل سے
ہے جرم ضعیفی کی سزا مرگ مفاجات
______________
اقبال! یہاں نام نہ لے علمِ خودی کا
موزوں نہیں مکتب کے لئے ایسے مقالات
بہتر ہے کہ بچارے ممولوں کی نظر سے
پوشیدہ رہیں باز کے احوال ومقامات
______________
مجھے ڈرا نہيں سکتي فضا کي تاريکي
مري سرشت ميں ہے پاکي و درخشاني
تو اے مسافر شب! خود چراغ بن اپنا
کر اپني رات کو داغ جگر سے نوراني
______________
عقابی روح جب بیدار ہوتی ہے جوانوں میں
نظر آتی ہے ان کو اپنی منزل آسمانوں میں
نہیں ترا نشیمن قصرِ سلطانی کی گنبد پر
تو شاہیں ہے بسیرا کر پہاڑوں کی چٹانوں میں
______________
دیار عشق میں اپنا مقام پیدا کر
نیا زمانہ' نئے صبح و شام پیدا کر
خدا اگر دلِ فطرت شناس دے تجھ کو
سکوتِ لالہ و گُل سے کلام پیدا کر
اٹھا نہ شیشہ گرانِ فرنگ کا احساں
سفالِ ہند سے مینا و جام پیدا کر
میں شاخِ تاک ہوں میری غزل ہے میرا ثمر
مِرے ثمر سے مئے لالہ فام پیدا کر
میرا طریق امیری نہیں فقیری ہے
خودی نہ بیچ غریبی میں نام پیدا کر
______________
اندازِ بیاں گرچہ بہت شوخ نہیں ہے
شاید کہ اتر جائے ترے دل میں مری بات
______________
کبھی اے حقیقت منتظر نظر آ لباس مجاز میں
کہ ہزاروں سجدے تڑپ رہے ہیں‌میری جبین نیاز میں
طرب آشنائے خروش ہو، تو نوا ہے محرم گوش ہو
وہ سرور کیا کہ چھپا ہوا ہو سکوت پردہ ساز میں
تو بچا بچا کہ نہ رکھ سے، ترا آئنہ ہے وہ آئنہ
کہ شکستہ ہو تو عزیز تر ہے نگاہ آئنہ ساز میں
دم طوف کرمک شمع نے یہ کہا کہ وہ اثر کہن
نہ تری حکایت سوز میں، مہ میری حدیث گداز میں
نہ کہیں جہاں میں اماں ملی، جو اماں ملی تو کہاں ملی
مرے جرم خانہ خراب کو ترے عفو بندہ نواز میں
نہ وہ عشق میں رہیں گرمیاں، نہ وہ حسن میں رہیں شوخیاں
نہ وہ غزنوی میں تڑپ رہی، نہ وہ خم ہے زلف ایاز میں
جو میں سربسجدہ ہوا کبھی، تو زمیں سے آنے لگی صدا
ترا دل تو ہے صنم آشنا، تجھے کیا ملے گا نماز میں
______________
گیسوائے تاب دار کو اور بھی تاب دار کر
ہوش و خرد شکار کر ، قلب و نظرشکار کر
باغِ بہشت سے مجھے حکمِ سفر دیا تھا کیوں
کارِ جہاں دراز ہے اب میرا انتظار کر
______________
کھول آنکھ ، زمیں دیکھ ، فلک دیکھ ، فضا دیکھ
مشرق سے ابھرتے ہوئے سورج کو ذرا دیکھ
اس جلوۂِ بے پردہ کو پردوں میں چھپا دیکھ
ایام جدائی کے ستم دیکھ ، جفا دیکھ
بے تاب نہ ہو معرکۂ بیم و رجا دیکھ

ہیں تیرے تصرف میں یہ بادل ، یہ گھٹائیں
یہ گنبدِ افلاک ، یہ خاموش فضائیں
یہ کوہ یہ صحرا ، یہ سمندر یہ ہوائیں
تھیں پیشِ نظر کل تو فرشتوں کی ادائیں

آئینۂِ ایام میں آج اپنی ادا دیکھ

سمجھے گا زمانہ تری آنکھوں کے اشارے
دیکھیں گے تجھے دور سے گردوں کے ستارے
ناپید ترے بحرِ تخیل کے کنارے
پہنچیں گے فلک تک تری آہوں کے شرارے

تو!میر خودی کر ، اثرِ آہِ رسا دیکھ

خورشید جہاں تاب کی ضو تیرے شرر میں
آباد ہے اک تازہ جہاں تیرے ہنر میں
جچتے نہیں بخشے ہوئے فردوس نظر میں
جنت تری پنہاں ہے ترے خونِ جگر میں

اے پیکرِ گل کوششِ پیہم کی جزا دیکھ

نالندہ ترے عود کا ہر تار ازل سے
تو جنسِ محبت کا خریدار ازل سے
تو پیرِ صنم خانۂ اسرار ازل سے
محنت کش و خوں ریز و کم آزار ازل سے

ہے راکبِ تقدیر جہاں تیری رضا ، دیکھ
______________
زبان سے کہہ بھی دیا لا الھ الا اللھ تو کیا حاصل
دل و نگاہ مسلمان نہیں تو کچھ بھی نہیں
______________
ترے ضمیر پہ جب تک نہ ہو نزول کتاب
گرہ کشا ہے نہ رازی نہ صاحب کشاف
______________
یہ راز کسی کو نہیں معلوم کہ مومن
قاری نظر آتا ہے؛ حقیقت میں ہے قرآن
______________
کھو نہ جا اس سحروشام میں اے صاحب ہوش
اک جہاں اور بھی ہے جس میں نہ فردا ہے نہ دوش
______________
عروجِ آدمِ خاكى سے انجم سهمے جاتے هيں
كه يه ٹوٹا هوا تارا مهِ كامل نه بن جاۓ
______________
نقش ہیں سب ناتمام خونِ جگر کے بغیر
نغمہ ہے سودائے خام خونِ جگر کے بغیر
______________
نگاہِ شوق میسر نہیں اگر تُجھ کو
ترا وجود ہے قلب و نظر کی رُسوائی
______________
ہے دل کے لئے موت مشینوں کی حکومت
احساسِ مروت کو کچل دیتے ہیں آلات
______________
ڈھونڈنے والا ستاروں کی گزرگاہوں کا
اپنے افکار کی منزل کا سفر کر نہ سکا
اپنی حکمت کے خم و پیچ میں الجھا ایسا
آج تک فیصلہ نفع و ضرر کر نہ سکا
جس نے سورج کی شعاعوں کو گرفتار کیا
زندگی کی شب تاریک سحر کر نہ سکا
______________
پختہ افکار کہاں ڈھونڈنے جائے کوئی
اس زمانے کی ہوا رکھتی ہے ہر چیز کو خام
______________
خدا تجھے کسي طوفاں سے آشنا کر دے
کہ تيرے بحر کي موجوں ميں اضطراب نہيں
تجھے کتاب سے ممکن نہيں فراغ کہ تو
کتاب خواں ہے مگر صاحب کتاب نہيں
______________
نہ تو زمیں کے لیے ہے ،نہ آسمان کے لیے
جہاں ہے تیرے لیے ، تو نہیں جہاں کے لیے
رہے گا راوی و نیل و فرات میں کب تک
ترا سفینہ کہ ہے بحر بے کراں کے لیے
نشان راہ دکھاتے تھے جو ستاروں کو
ترس گئے ہیں کسی مرد راہ داں کے لیے
نگہ بلند ، سخن دل نواز ، جاں پرسوز
یہی ہے رخت سفر میر کارواں کے لیے
______________
مسجد تو بنا دی شب بھر میں ایماں کی حرارت والوں نے
من اپنا پرانا پاپی ہے، برسوں میں نمازی بن نہ سکا۔
______________
فکر عرب کو دے کے فرنگی تخیلات
اسلام کو حجاز و یمن سے نکال دو
______________
یہ دور اپنے براہیم کی تلاش میں ہے
صنم کدہ ہے جہاں، لا الہ الا اللہ
یہ نغمہ فصل گل و لالہ کا نہیں پابند
بہار ہو کہ خزاں، لا الہ الا اللہ
______________
ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہیں
ابھی عشق کے امتحاں اور بھی ہیں
تہی، زندگی سے نہیں یہ فضائیں
یہاں سینکڑوں کارواں اور بھی ہیں
قناعت نہ کر عالم رنگ و بو پر
چمن اور بھی ہیں ، آشیاں اور بھی ہیں
تو شاہین ہے ، پرواز ہے کام تیرا
تیرے سامنے آسماں اور بھی ہیں
اسی روز و شب میں الجھ کر نہ رہ جا
کہ تیرے زمان و مکان اور بھی ہیں
گئے دن کہ تنہا تھا میں انجمن میں
یہاں اب مرے رازدان اور بھی ہیں
______________
دیار عشق میں اپنا مقام پیدا کر
نیا زمانہ' نئے صبح و شام پیدا کر
خدا اگر دلِ فطرت شناس دے تجھ کو
سکوتِ لالہ و گُل سے کلام پیدا کر
اٹھا نہ شیشہ گرانِ فرنگ کا احساں
سفالِ ہند سے مینا و جام پیدا کر
میں شاخِ تاک ہوں میری غزل ہے میرا ثمر
مِرے ثمر سے مئے لالہ فام پیدا کر
میرا طریق امیری نہیں فقیری ہے
خودی نہ بیچ غریبی میں نام پیدا کر
______________
وه سحر جو كبهى فردا هے ، كبهى هے امروز
نهيںمعلوم كه هوتى هے كهاں سے پيدا
وه سحر جس سے لرزتا هے شبستانِ وجود
هوتى هے بنده مومن كی اذاں سے پيدا
______________
جس سے دل دریا متلاطم نہیں ہوتا
اے قطرہ نہاں وہ صدف کیا وہ گہر کیا؟
______________
اٹھ کہ اب بزم جہاں کا اور ہی انداز ہے
مشرق و مغرب میں تیرے دور کا آغاز ہے
______________
ہوس نے کر ديا ہے ٹکڑے ٹکڑے نوع انساں کو
اخوت کا بياں ہو جا، محبت کي زباں ہو جا
______________
مجھے سزا کے لئے بھی نہیں قبول وہ آگ
کہ جس کا شعلہ نہ ہو تند و سرکش و بے باک
______________
گرتے ہیں شاہ سوار ہی میدانِ جنگ میں
وہ طفل کیا گرے جو گھٹنوں کے بل چلے
______________
دیکھتا ہے تُو فقط ساحل سے رزمِ خیر و شر
کون طوفاں کے طمانچے کھا رہا ہے؟ میں کہ تُو؟
______________
بھروسہ کر نہیں سکتے غلاموں کی بصیرت پر
کہ دنیا میں فقط مردانِ حُر کی آنکھ ہے بینا
______________
قوم کیا چیز ہے، قوموں کی امامت کیا ہے
اس کو کیا سمجھیں یہ بیچارے دو رکعت کے امام
______________
دشت تو دشت دریا بھی نہ چھوڑے ھم نے
بحرِ ظلمات میں دوڑا دئیے گھوڑے ھم نے
______________
الفاظ کے پیچوں میں اُلجھتے نہیں دانا
غواص کو مطلب ہے صدف سے کہ گہر سے
______________
تیرے عشق کی انتہا چاہتا ہوں
مری سادگی دیکھ کیا چاہتا ہوں
ستم ہو کہ ہو وعدہ بے حجابی
کوئی بات صبر آزما چاہتا ہوں
یہ جنت مبارک رہے زاہدوں کو
کہ میں آپ کا سامنا چاہتا ہوں
ذرا سا تو دل ہوں مگر شوخ اتنا
وہی لن ترانی سنا چاہتا ہوں
کوئی دم کا مہمان ہواے اہل محفل
چراغ سحر ہوں بجھا چاہتا ہوں
بھری بزم میں راز کی بات کہہ دی
بڑا بے ادب ہوں سزا چاہتا ہوں
______________
ترانه ملی......
چین و عرب همارا ، هندوستاں همارا
مسلم هیں هم ، وطن هے سارا جهاں همارا
توحید كی امانت سینوں میں هے همارے
آساں نهیں مٹانا نام و نشاں همارا
دنیا كے بُت كدوں میں پهلا وه گھر خدا كا
هم اس كے پاسباں هیں ، وه پاسباں همارا
تیغوں كے سائے میں هم پل كر جواں هوئے هیں
خنجر هلال كا هے قومی نشاں همارا
مغرب كی وادیوں میں گونجی اذاں هماری
تھمتا نه تھا كسی سے سیل رواں همارا
باطل سے دبنے والے اے آسماں نهیں هم
سو بار كر چكا هے تو امتحاں همارا
اے گلستان اندلس وه دن هیں یاد تجھ كو
تھا تیری ڈالیوں پر جب آشیاں همارا
اے موجِ دجله تو بھی پهچانتی هے هم كو
اب تك هے تیرا دریا افسانه خواں همارا
اے ارض پاك تیری حرمت په كٹ مرے هم
هے خوں تری رگوں میں اب تك رواں همارا
سالارِ كارواں هے میرِ حجاز اپنا
اس نام سے هے باقی آرامِ جاں همارا
اقبال كا ترانه بانگِ درا هے گویا
هوتا هے جاده پیما پھر كارواں همارا
______________
ظاہر کی آنکھ سے نہ تماشا کرے کوئی
ہو دیکھنا تو دیدۂ دل وا کرے کوئی
منصور کو ہوا لب گویا پیام موت
اب کیا کسی کے عشق کا دعوی کرے کوئی
ہو دید کا جو شوق تو آنکھوں کو بند کر
ہے دیکھنا یہی کہ نہ دیکھا کرے کوئی
میں انتہائے عشق ہوں ، تو انتہائے حسن
دیکھے مجھے کہ تجھ کو تماشا کرے کوئی
عذر آفرین جرم محبت ہے حسن دوست
محشر میں عذر تازہ نہ پیدا کرے کوئی
چھپتی نہیں ہے یہ نگہ شوق ہم نشیں
پھر اور کس طرح انھیں دیکھا کر ے کوئی
اڑ بیٹھے کیا سمجھ کے بھلا طور پر کلیم
طاقت ہو دید کی تو تقاضا کرے کوئی
نظارے کو یہ جنبش مژگاں بھی بار ہے
نرگس کی آنکھ سے تجھے دیکھا کرے کوئی
کھل جائیں ، کیا مزے ہیں تمنائے شوق میں
دو چار دن جو میری تمنا کرے کوئی
______________
نہ آتے ، ہمیں اس میں تکرار کیا تھی
مگر وعدہ کرتے ہوئے عار کیا تھی
تمھارے پیامی نے سب راز کھولا
خطا اس میں بندے کی سرکار کیا تھی
بھری بزم میں اپنے عاشق کو تاڑا
تری آنکھ مستی میں ہشیار کیا تھی
تامل تو تھا ان کو آنے میں قاصد
مگر یہ بتا طرز انکار کیا تھی
کھنچے خود بخود جانب طور موسی
کشش تیری اے شوق دیدار کیا تھی
کہیں ذکر رہتا ہے اقبال تیرا
فسوں تھا کوئی ، تیری گفتار کیا تھی
______________
شکوہ
کيوں زياں کار بنوں سود فراموش رہوں؟
فکرِ فردا نہ کروں، محوِ غمِ دوش رہوں
نالے بلبل کے سنوں، اور ہمہ تن گوش رہوں
ہمنوا ! ميں بھي کوئي گل ہوں کہ خاموش رہوں؟

جرءات آموز مري تابِ سخن ہے مجھ کو
شکوہ اللہ سے 'خاکم بدہن' ہے مجھ کو

ہے بجا شيوہء تسليم ميں مشہور ہيں ہم
قصہء درد سناتے ہيں کہ مجبور ہيں ہم
سازِ خاموش ہيں ، فرياد سے معمور ہيں ہم
نالہ آتا ہے اگر لب پہ، تو معذور ہيں ہم

اے خدا! شکوہء اربابِ وفا بھي سن لے
خوگرِ حمد سے تھوڑا سا گِلا بھي سن لے

تھي تو موجود ازل سے ہي تِري ذاتِ قديم
پھول تھا زيبِ چمن، پر نہ پريشاں تھي شميم
شرط انصاف ہے اے صاحبِ الطافِ عميم
بوئے گل پھيلتي کس طرح جو ہوتي نہ نسيم؟

ہم کو جمعيتِ خاطر يہ پريشاني تھي
ورنہ اُمّت ترے محبوب کي ديواني تھي؟

ہم سے پہلے تھا عجب تيرے جہاں کا منظر
کہيں مسجود تھے پتھر ، کہيں معبود شجر
خوگرِ پيکرِ محسوس تھي انساں کي نظر
مانتا پھر کوئي اَن ديکھے خدا کو کيونکر؟

تجھ کو معلوم ہے ليتا تھا کوئي نام ترا؟
قوتِ بازوئے مسلم نے کيا کام ترا!
بس رہے تھے يہيں سلجوق بھي، توراني بھي
اہلِ چيں چين ميں ، ايران ميں ساساني بھي
اسي معمورے ميں آباد تھے يوناني بھي
اسي دنيا ميں يہودي بھي تھے ، نصراني بھي

پر ترے نام پہ تلوار اٹھائي کس نے؟
بات جو بگڑي ہوئي تھي ، وہ بنائي کس نے؟

تھے ہميں ايک ترے معرکہ آراؤں ميں
خشکيوں ميں کبھي لڑتے ، کبھي درياؤں ميں
ديں اذانيں کبھي يورپ کے کليساؤں ميں
کبھي افريقہ کے تپتے ہوئے صحراؤں ميں

شان آنکھوں ميں نہ جچتي تھي جہانداروں کي
کلمہ پڑھتے تھے ہم چھاؤں ميں تلواروں کي

ہم جو جيتے تھے، تو جنگوں کے مصيبت کے ليے
اور مرتے تھے ترے نام کي عظمت کے ليے
تھي نہ کچھ تيغ زني اپني حکومت کے ليے
سربکف پھرتے تھے کيا دہر ميں دولت کے ليے؟

قوم اپني جو زر و مالِ جہاں پر مرتي
بت فروشي کے عوض بت شکني کيوں کرتي؟

ٹل نہ سکتے تھے، اگر جنگ ميں اڑ جاتے تھے
پاؤں شيروں کے بھي ميداں سے اکھڑ جاتے تھے
تجھ سے سرکش ہوا کوئي، تو بگڑ جاتے تھے
تيغ کيا چيز ہے؟ ہم توپ سے لڑ جاتے تھے

نقش توحيد کا ہر دل پہ بٹھايا ہم نے
زيرِ خنجر بھي يہ پيغام سنايا ہم نے

تو ہي کہہ دے کہ اکھاڑا درِ خيبر کس نے؟
شہر قيصر کا جو تھا اس کو کيا سَر کِس نے؟
توڑے مخلوق خداوندوں کے پيکر کس نے؟
کاٹ کر رکھ دیئے کفار کے لشکر کس نے؟

کس نے ٹھنڈا کيا آتشکدہء ايراں کو؟
کس نے پھر زندہ کيا تذکرہء يزداں کو؟

کون سي قوم فقط تيري طلب گار ہوئي؟
اور تيرے ليے زحمت کشِ پيکار ہوئي؟
کس کی شمشير جہانگير ، جہاندار ہوئي؟
کس کی تکبير سے دنيا تری بيدار ہوئي؟

کس کي ہيبت سے صنم سہمے ہوئے رہتے تھے
منہ کے بل گر کے 'ھُوَ اللہُ اَحَد' کہتے تھے

آ گيا عين لڑائي ميں اگر وقتِ نماز
قبلہ رو ہو کے زميں بوس ہوئي قومِ حجاز
ايک ہي صف ميں کھڑے ہو گئے محمود و اياز
نہ کوئي بندہ رہا اور نہ کوئي بندہ نواز

بندہ و صاحب و محتاج و غني ايک ہوئے
تيري سرکار ميں پہنچے تو سبھي ايک ہوئے
محفلِ کون و مکاں ميں سحر و شام پھرے
مئے توحيد کو لے کر صفت جام پھرے
کوہ ميں ، دشت ميں لے کر ترا پيغام پھرے
اور معلوم ہے تجھ کو کبھي ناکام پھرے؟

دشت تو دشت ہيں ، دريا بھي نہ چھوڑے ہم نے
بحرِ ظلمات ميں دوڑا ديئے گھوڑے ہم نے

صفحہء دہر سے باطل کو مٹايا ہم نے
نوعِ انساں کو غلامي سے چھڑايا ہم نے
تيرے کعبے کو جبينوں سے بسايا ہم نے
تيرے قرآن کو سينوں سے لگايا ہم نے

پھر بھي ہم سے يہ گِلا ہے کہ وفادار نہيں
ہم وفادار نہيں ، تو بھي تو دلدار نہيں

امتيں اور بھي ہيں ، ان ميں گنہگار بھي ہيں
عجز والے بھي ہيں ، مستِ مئے پندار بھي ہيں
ان ميں کاہل بھي ہيں، غافل بھي ہيں، ہشيار بھي ہيں
سينکڑوں ہيں کہ ترے نام سے بيزار بھي ہيں

رحمتيں ہيں تري اغيار کے کاشانوں پر
برق گرتي ہے تو بيچارے مسلمانوں پر

بت صنم خانوں ميں کہتے ہيں مسلمان گئے،
ہے خوشي ان کو کہ کعبے کے نگہبان گئے
منزلِ دہر سے اونٹوں کے حدي خوان گئے
اپني بغلوں ميں دبائے ہوئے قرآن گئے

خندہ زن کفر ہے ، احساس تجھے ہے کہ نہيں؟
اپني توحيد کا کچھ پاس تجھے ہے کہ نہيں؟

يہ شکايت نہيں ، ہيں ان کے خزانے معمور
نہيں محفل ميں جنھيں بات بھي کرنے کا شعور
قہر تو يہ ہے کہ کافر کو مليں حور و قصور
اور بےچارے مسلماں کو فقط وعدہء حور

اب وہ الطاف نہيں ، ہم پہ عنايات نہيں
بات يہ کيا ہے کہ پہلي سي مدارات نہيں؟

کيوں مسلمانوں ميں ہے دولتِ دنيا ناياب
تيري قدرت تو ہے وہ جسکي نہ حد ہے نہ حساب
تو جو چاہے تو اٹھے سينہء صحرا سے حباب
رہروِ دشت ہو سيلي زدہء موجِ سراب

طعنِ اغيار ہے ، رسوائي ہے ، ناداري ہے
کيا ترے نام پہ مرنے کا عوض خواري ہے؟

بنی اغيار کي اب چاہنے والی دنيا
رہ گئی اپنے ليے ايک خيالی دنيا
ہم تو رخصت ہوئے اوروں نے سنبھالی دنيا
پھر نہ کہنا ہوئی توحيد سے خالی دنيا

ہم تو جيتے ہيں کہ دنيا ميں ترا نام رہے
کہيں ممکن ہے کہ ساقي نہ رہے ، جام رہے؟

تيري محفل بھي گئي ، چاہنے والے بھي گئے
شب کی آہيں بھي گئیں، صبح کے نالے بھي گئے
دل تجھے دے بھي گئے ، اپنا صلہ لے بھي گئے
آ کے بيٹھے بھي نہ تھے اور نکالے بھي گئے

آئے عشاق ، گئے وعدہء فردا لے کر
اب انھيں ڈھونڈ چراغ رخِ زيبا لے کر

دردِ ليلٰي بھي وہي ، قيس کا پہلو بھي وہي
نجد کے دشت و جبل ميں رمِ آہو بھي وہي
عشق کا دل بھي وہي ، حسن کا جادو بھي وہي
امتِ احمدِ مرسل بھي وہي ، تو بھي وہي

پھر يہ آزردگيء غيرِ سبب کيا معني؟
اپنے شيداؤں پہ يہ چشمِ غضب کيا معني؟

تجھ کو چھوڑا کہ رسولِ عربي کو چھوڑا
بت گري پيشیہ کيا ؟ بت شکني کو چھوڑا؟
عشق کو ، عشق کي آشفتہ سري کو چھوڑا؟
رسم سلمان و اويسِ قرني کو چھوڑا؟

آگ تکبير کي سينوں ميں دبي رکھتے ہيں
زندگي مثلِ بلالِ حبشي رکھتے ہيں

عشق کي خير ،وہ پہلي سي ادا بھی نہ سہی
جادہ پيمائي تسليم و رضا بھي نہ سہي
مضطرب دل صفتِ قبلہ نما بھي نہ سہي
اور پابنديء آئينِ وفا بھي نہ سہي

کبھي ہم سے ، کبھي غيروں سے شناسائي ہے
بات کہنے کي نہيں تو بھي تو ہرجائی ہے

سرِ فاراں پہ کيا دين کو کامل تو نے
اک اشارے ميں ہزاروں کے ليۓ دل تو نے
آتش اندوز کيا عشق کا حاصل تو نے
پھونک دي گرميء رخسار سے محفل تو نے

آج کيوں سينے ہمارے شرر آباد نہيں؟
ہم وہی سوختہ ساماں ہيں ، تجھے ياد نہيں؟

واديء نجد ميں وہ شور سلاسل نہ رہا
قيس ديوانہء نظّارہِ محمل نہ رہا
حوصلے وہ نہ رہے ، ہم نہ رہے ، دل نہ رہا
گھر يہ اجڑا ہے کہ تو رونقِ محفل نہ رہا

اے خوش آں روز کہ آئی و بصد ناز آئي
بے حجابانہ سوئے محفلِ ما باز آئي

بادہ کش غير ہيں گلشن ميں لبِ جو بيٹھے
سنتے ہيں جام بکف نغمہء کو کو بيٹھے
دور ہنگامہء گلزار سے يک سو بيٹھے
تيرے ديوانے بھي ہيں منتظرِ 'ھُو' بيٹھے

اپنے پروانوں کو پھر ذوقِ خود افروزي دے
برقِ ديرينہ کو فرمانِ جگر سوزي دے

قومِ آوارہ عناں تاب ہے پھر سوئے حجاز
لے اُڑا بلبلِ بے پر کو مذاقِ پرواز
مضطرب باغ کے ہر غنچے ميں ہے بوئے نياز
تو ذرا چھيڑ تو دے، تشنہء مضراب ہے ساز

نغمے بیتاب ہيں تاروں سے نکلنے کے ليے
طور مضطر ہے اسي آگ ميں جلنے کے ليے

مشکليں امتِ مرحوم کي آساں کر دے
مورِ بے مايہ کو ہمدوشِ سليماں کر دے
جنسِ نايابِ محبّت کو پھر ارزاں کر دے
ہند کے دير نشينوں کو مسلماں کر دے

جوئے خوں مي چکد از حسرتِ ديرينہء ما
مي تپد نالہ بہ نشتر کدہء سينہء ما

بوئے گل لے گئي بيرونِ چمن، رازِ چمن
کيا قيامت ہے کہ خود پھول ہيں غمّازِ چمن
عہدِ گل ختم ہوا، ٹوٹ گيا سازِ چمن
اڑ گئے ڈاليوں سے زمزمہ پروازِ چمن

ايک بلبل ہے کہ ہے محوِ ترنّم اب تک
اس کے سينے ميں ہے نغموں کا تلاطم اب تک

قمرياں شاخِ صنوبر سے گريزاں بھي ہوئيں
پتیاں پھول کی جھڑ جھڑ کے پريشاں بھي ہوئيں
وہ پراني رَوِشيں باغ کی ويراں بھي ہوئيں
ڈالياں پيرہنِ برگ سے عرياں بھي ہوئيں

قيدِ موسم سے طبيعت رہی آزاد اس کي
کاش گلشن ميں سمجھتا کوئی فرياد اس کي

لطف مرنے ميں ہے باقي ، نہ مزا جينے ميں
کچھ مزا ہے تو يہي خونِ جگر پينے ميں
کتنے بیتاب ہيں جوہر مرے آئينے ميں
کس قدر جلوے تڑپتے ہيں مرے سينے ميں

اس گلستاں ميں مگر ديکھنے والے ہي نہيں
داغ جو سينے ميں رکھتے ہوں وہ لالے ہي نہيں

چاک اس بلبلِ تنہا کي نوا سے دل ہوں
جاگنے والے اسي بانگِ درا سے دل ہوں
يعني پھر زندہ نئے عہدِ وفا سے دل ہوں
پھر اسي بادہء ديرينہ کے پياسے دل ہوں

عجمي خُم ہے تو کيا ، مے تو حجازي ہے مري
نغمہ ہندي ہے تو کيا ، لے تو حجازي ہے مريہ
______________
جوابِ شکوہ
دل سے جو بات نکلتی ہے اثر رکھتی ہے
پر نہیں، طاقتِ پرواز مگر رکھتی ہے
قدسی الاصل ہے، رفعت پہ نظر رکھتی ہے
خاک سے اٹھتی ہے، گردوں پہ گزر رکھتی ہے

عشق تھا فتنہ گروسرکش و چالاک مرا
آسماں چیر گیا نالہء بیباک مرا

پیرِ گردوں نے کہا سن کے، کہیں ہے کوئی
بولے سیّارے، سرِعرشِ بریں ہے کوئی
چاند کہتا تھا، نہیں، اہلِ زمیں ہے کوئی
کہکشاں کہتی تھی، پوشیدہ یہیں ہے کوئی

کچھ جوسمجھامرے شکوےکوتورضواں سمجھا
مجھے جنّت سے نکالا ہوا انساں سمجھا

تھی فرشتوں کو بھی حیرت کہ یہ آواز ہے کیا
عرش والوں پہ بھی کھلتا نہیں یہ راز ہے کیا
تاسرِعرش بھی انساں کی تگ و تاز ہے کیا؟
آگئی خاک کی چٹکی کو بھی پرواز ہے کیا؟

غافل آداب سے سُکّانِ زمیں کیسے ہیں
شوخ و کستاخ یہ پستی کے مکیں کیسے ہیں

اس قدر شوخ کہ اللہ سے بھی برہم ہے
تھا جو مسجودِ ملائک یہ وہی آدم ہے؟
عالمِ کیف ہے، دانائے رموز کم ہے
ہاں،مگرعجزکےاسرارسےنامحرم ہے

ناز ہے طاقتِ گفتار پہ انسانوں کو
بات کرنے کا سلیقہ نہیں نادانوں کو

آئی آواز غم انگیز ہے افسانہ ترا
اشکِ بیتاب سے لبریز ہے پیمانہ ترا
آسماں گیر ہوا نعرہ مستانہ ترا
کس قدر شوخ زباں ہے دلِ دیوانہ ترا

شکر شکوے کو کیا حسنِ ادا سے تو نے
ہم سخن کردیا بندوں کو خدا سے تو نے

ہم تو مائل بہ کرم ہیں، کوئی سائل ہی نہیں
راہ دکھلائیں کسے؟ رہروِ منزل ہی نہیں
تربیت عام تو ہے، جوہرِ قابل ہی نہیں
جس سے تعمیر ہو آدم کی یہ وہ گل ہی نہیں

کوئی قابل ہو تو شانِ کئی دیتے ہیں
ڈھونڈنے والوں کو دُنیا بھی نئی دیتے ہیں

ہاتھ بے زور ہیں، الحاد سے دل خوگرہیں
امتی باعثِ رسوائی پیغمبر ہیں
بت شکن اٹھ گئے، باقی جو رہے بت گر ہیں
تھا ابراہیم پدر، اور پِسر آزر ہیں

بادہ آشام نئے، بادہ نیا، خم بھی نئے
حرمِ کعبہ نیا، بت بھی نئے، تم بھی نئے

وہ بھی تھے کہ یہی مایہء رعنائی تھا
نازشِ موسمِ گل لالہء صحرائی تھا
جو مسلمان تھا االلہ کا سودائی تھا
کبھی محبوب تمھارا یہی ھرجائی تھا

کسی یکجائی سے اب عہدِ غلامی کرلو
ملتِ احمدِ مرسل کو مقامی کرلو

کس قدر تم پہ گراں صبح کی بیداری ہے
ہم سے کب پیار ہے؟ ہاں نیند تمہیں پیاری ہے
طبعِ آزاد پہ قیدِ رمضاں بھاری ہے
تمہیں کہدو یہی آئینِ وفاداری ہے

قوم مذہب سے ہے، مذہب جو نہیں، تم بھی نہیں
جذبِ باہم جونہیں، محفلِ انجم بھی نہیں

جن کو آتا نہیں دنیا میں کوئی فن، تم ہو
نہیں جس قوم کو پروائے نشیمن، تم ہو
بجلیاں جس میں ہوں آسودہ وہ خرمن، تم ہو
بیچ کھاتے ہیں جو اسلاف کے مدفن، تم ہو

ہو نِکو نام جو قبروں کی تجارت کر کے
کیا نہ بیچوگے جو مل جائیں صنم پتھر کے؟

صفحہء دہر سے باطل کو مٹایا کس نے؟
نوعِ انساں کو غلامی سے چھڑایا کس نے؟
میرے کعبے کو جبینوں سے بسایا کس نے؟
میرے قرآن کو سینوں سے لگایا کس نے؟

تھے تو آبا وہ تمہارے ہی، مگر تم کیا ہو
ہاتھ پر ہاتھ دھرے منتظرِ فردا ہو

کیا کہا؟ بہرِ مسلماں ہے فقط وعدہء حور
شکوہ بیجا بھی کرے کوئی تو لازم ہے شعور؟
عدل ہے فاطرِ ہستی کا اَزل سے دستور
مسلم آئیں ہوا کافر تو ملے حور و قصور

تم میں حوروں کا کوئی چاہنے والا ہی نہیں
جلوہء طور تو موجود ہے موسٰی ہی نہیں

منفعت ایک ہے اس قوم کی، نقصان بھی ایک
ایک ہی سب کانبی، دین بھی، ایمان بھی ایک
حرمِ پاک بھی، اللہ بھی، قرآن بھی ایک
کچھ بڑی بات تھی ہوتے جو مسلمان بھی ایک

فرقہ بندی ہے کہیں اور کہیں ذاتیں ہیں
کیا زمانے میں پنپنے کی یہی باتیں ہیں؟

کون ہے تارکِ آئینِ رسولِ مختار؟
مصلحت وقت کی ہے کس کے عمل کا معیار؟
کس کی آنکھوں میں سمایا ہے شعارِ اغیار؟
ہوگئی کس کی نگہ طرزِ سلف سے بیزار؟

قلب میں سوز نہیں، روح میں احساس نہیں
کچھ بھی پیغامِ مُحمّد کا تمہیں پاس نہیں

جاکے ہوتے ہیں مساجد میں صف آرا، تو غریب
زحمتِ روزہ جو کرتے ہیں گوارا، تو غریب
نام لیتا ہے اگر ہمارا، تو غریب
پردہ رکھتا ہے اگر کوئی تمہارا، تو غریب

امرا نشّہء دولت میں ہیں غافل ہم سے
زندہ ہے ملّتِ بیضا غربا کے دم سے

واعظِ قوم کی پختہ خیالی نہ رہی
برق طبعی نہ رہی، شعلہ مقالی نہ رہی
رہ گئی رسمِ اذاں، روحِ بلالی نہ رہی
فلسفہ رہ گیا، تلقینِ غزالی نہ رہی

مسجدیں مرثیہ خواں ہیں کہ نمازی نہ رہے
یعنی وہ صاحب اوصافِ حجازی نہ رہے

شور ہے ہوگئے دنیا میں مسلمان نابود
ہم یہ کہتے ہیں کہ تھے بھی کہیں مسلم موجود؟
وضع میں تم ہو نصاریٰ، تو تمدّن میں ہنود
یہ مسلماں ہیں ! جنہیں دیکھ کے شرمائیں یہود

یوں تو سیّد بھی ہو، مرزا بھی ہو، افغان بھی ہو
تم سبھی کچھ ہو، بتاؤ تو مسلمان بھی ہو

دمِ تقریر تھی مسلم کی صداقت بیباک
عدل اس کا تھا قوی، لوثِ مراعات سے پاک
شجرِ فطرتِ مسلم تھا حیا سے نمناک
تھا شجاعت میں وہ اک ہستیء فوق الادراک

خودگدازی نمِ کیفیتِ صہبایش بود
خالی ازخویش شدن صورتِ منیاش بود

ہر مسلماں رگِ باطل کے کیے نشتر تھا
اس کے آئینہء ہستی میں عمل جوہر تھا
جو بھروسا تھا اسے قوتِ بازو پر تھا
ہے تمہیں موت کا ڈر، اس کو خدا کا ڈر تھا

باپ کا علم نہ بیٹے کو اگر ازبر ہو
پھر پسر قابل میراثِ پدر کیونکر ہو!
ہر کوئی مست مئے ذوقِ تن آسانی ہے
تم مسلماں ہو؟ یہ اندازِ مسلمانی ہے؟
حیدری فقر ہے، نے دولتِ عثمانی ہے
تم کو اسلاف سے کیا نسبت روحانی ہے

وہ زمانے میں معزز تھے مسلماں ہو کر
اور تم خوار ہوئے تارکِ قرآں ہو کر

تم ہو آپس میں غضبناک، وہ آپس میں رحیم
تم خطاکار و خطابیں، وہ خطا پوش و کریم
چاہتے سب ہیں کہ ہوں اوجِ ثریّا پہ مقیم
پہلے ویسا کوئی پیدا تو کرے قلبِ سلیم!
تختِ فغفور بھی ان کا تھا، سریر کے بھی
یوں ہی باتیں ہیں، کہ تم میں وہ حمیت ہے بھی؟

خودکُشی شیوہ تمہارا، وہ غیور و خوددار
تم اخوّت سے گریزاں، وہ اخوّت پہ نثار
تم ہو گفتار سراپا، وہ سراپا کردار
تم ترستے ہو کلی کو، وہ گلستاں بکنار

اب تلک یاد ہے قوموں کو حکایت ان کی
نقش ہے صفحہء ہستی پہ صداقت ان کی

مثلِ انجم افق قوم پہ روشن بھی ہوئے
بت ہندی کی محبت میں برہمن بھی ہوئے
شوقِ پرواز میں مہجورِ نشیمن بھی ہوئے
بے عمل تھے ہی جواں، دین سے بدظن بھی ہوئے

ان کو تہذیب نے ہر بند سے آزاد کیا
لا کے کعبے سے صنم خانے میں آباد کیا

قیس زحمت کشِ تنہائی صحرا نہ رہے
شہر کی کھائے ہوا؟ بادیہ پیما نہ رہے
وہ تو دیوانہ ہے، بستی میں رہے یا نہ رہے
یہ ضروری ہے، حجابِ رخِ لَیلا نہ رہے

گِلہء جور نہ ہو، شکوہء بیداد نہ ہو
عشق آزاد ہے، کیوں حسن بھی آزاد نہ ہو

عہدِ نَو برق ہے، آتش زنِ ہر خرمن ہے
ایمن اس سے کوئی صحرا، نہ کوئی گلشن ہے
اس نئی آگ کا اقوامِ کہن ایندھن ہے
ملتِ ختمِ رُسل شعلہ بہ پیراہن ہے

آج بھی ہو جو براہیم سا ایماں پیدا
آگ کرسکتی ہے اندازِ گلستاں پیدا

دیکھ کر رنگِ چمن ہو نہ پریشاں مالی
کوکبِ غنچہ سے شاخیں ہیں چمکنے والی
خس و خاشاک سے ہوتا ہے گلستاں خالی
گل بر انداز ہے خونِ شہدا کی لالی

رنگ گردوں کا ذرا دیکھ تو عنّابی ہے
یہ نکلتے ہوئے سورج کی افق تابی ہے

امتیں گلشنِ ہستی میں ثمر چیدہ بھی ہیں
اور محرومِ ثمر بھی ہیں، خزاں دیدہ بھی ہیں
سینکڑوں نخل ہیں، کاہیدہ بھی، بالیدہ بھی ہیں
سینکڑوں بطنِ چمن میں ابھی پوشیدہ بھی ہیں

نخلِ اسلام نمونہ ہے برومندی کا
پھل ہے یہ سینکڑوں صدیوں کی چمن بندی کا

پاک ہے گردِ وطن سے سرِ داماں تیرا
تو وہ یوسف ہے کہ ہر مصر ہے کنعاں تیرا
قافلہ ہو نہ سکے گا کبھی ویراں تیرا
غیریک بانگِ درا کچھ نہیں ساماں تیرا

نخلِ شمع استی ودشِعلہ دودریشہء تو
عاقبت سوز بود سایہء اندیشہء تو

تو نہ مٹ جائے گا ایران کے مٹ جانے سے
نشّہء مے کو تعلّق نہیں پیمانے سے
ہے عیاں یورشِ تاتار کے افسانے سے
پاسباں مل گئے کعبے کو صنم خانے سے

کشتیء حق کا زمانے میں سہارا تو ہے
عصرِ نورات ہے، دھندلا سا ستارا تو ہے

ہے جو ہنگامہ بپا یورشِ بلغاری کا
غافلوں کے لیے پیغام ہے بیداری کا
تو سمجھتا ہے، یہ ساماں ہے دل آزاری کا
امتحاں ہے ترے ایثار کا، خودداری کا

کیوں ہراساں ہے صَہِیلِ فرسِ اعدا سے
نورِ حق بجھ نہ سکے گا نفسِ اعدا سے

چشمِ اقوام سے مخفی ہے حقیقت تیری
ہے ابھی محفلِ ہستی کو ضرورت تیری
زندہ رکھتی ہے زمانے کو حرارت تیری
کوکبِ قسمتِ امکاں ہے خلافت تیری

وقتِ فرصت ہی کہاں کام ابھی باقی ہے
نورِ توحید کا اتمام ابھی باقی ہے

مثلِ بُوقید ہے غنچے میں، پریشاں ہوجا
زحمت بردوش ہوائے چمنستاں ہوجا
ہے تنک مایہ، تو ذرّے سے بیاباں ہوجا
نغمہء موج سے ہنگامہء طوفاں ہوجا

قوّتِ عشق سے ہر پست کو بالا کردے
دہر میں اسمِ محمد سے اجالا کردے

ہو نہ یہ پھول، تو بلبل کا ترنم بھی نہ ہو
چمنِ دہر میں کلیوں کا تبسّم بھی نہ ہو
یہ نہ ساقی ہو تو پھر مے بھی نہ ہو، خم بھی نہ ہو
بزمِ توحید بھی دنیا میں نہ ہو، تم بھی نہ ہو

خیمہ افلاک کا استادہ اسی نام سے ہے
نبضِ ہستی تپش آمادہ اسی نام سے ہے

دشت میں، دامنِ کہسار میں، میدان میں ہے
بحر میں، موج کی آغوش میں، طوفان میں ہے
چین کے شہر، مراقش کے بیابان میں ہے
اور پوشیدہ مسلمان کے ایمان میں ہے

چشمِ اقوام یہ نظّارہ ابد تک دیکھے
رفعتِ شانِ رَفَعنَا لَکََ ذِکرَک دیکھے

مردمِ چشمِ زمیں، یعنی وہ کالی دنیا
وہ تمہارے شہدا پالنے والی دنیا
گرمیء مہر کی پروردہ، ہلالی دنیا
عشق والے جسے کہتے ہیں بلالی دنیا

تپش اندوز ہے اس نام سے پارے کی طرح
غوطہ زن نور میں ہے آنکھ کے تارے کی طرح

عقل ہے تیری سپر عشق ہے شمشیر تری
مرے درویش! خلافت ہے جہانگیر تری
ما سوا اللہ کے لیے آگ ہے تکبیر تری
تو مسلماں ہو تو تقدیر ہے تدبیر تری

کی محمد سے وفا تو نے تو ہم تیرے ہیں
یہ جہاں چیز ہے کیا لوح و قلم ترے ہی
______________

Tuesday, December 13, 2011

MOULANA MASOODI ....Unforgettable Character Of Kashmir’s Modern History

DR A H SHAH

It was on 13 dec 1990 that Mufaqqr -e- Kashmir, Moulana Mohd Syeed Masoodi, the most revered politician of J&K was cowardly assassinated.He was neither active in politics nor a belligerent combatant.This gruesome killing triggered off a decade of orchestrated elimination of a whole crop of intellectuals of the state. The following years saw Professor Mashirul Haq, Mirwaiz Moulvi Farooq, Dr Qazi Nisar, Dr G Q Wani, A G Lone, H L Kheda , Lassa Koul ,T L Taploo and numerous others going the same fate. Whatever may be the reasons of the perpetrators for choosing Moulana Masoodi as the first political victim, the killing sent one message loud and clear that the space had completely shrunk for compassion, inclusiveness, tolerance and ambivalence, the ideas that were inculcated and idealised by Moulana Masoodi in the socio cultural ethos of the Kashmir politics.The fact that the personalties across the political spectrum from Abdullas to Syed Ali Shah Geelani condemned the killing in unequivocal terms simply render him as one of the most respected politician of the state. But the most interesting reaction came from Amanullah Khan, the president of JKLF. Mr Khan in a letter to weekly “Chattan” in January 1991 described the killing of Moulana as the murder of the benefactor of Kashmiris who according to Khan was not only his mentor but the most sincere and clear hearted politician that Kashmir has ever seen.
One of the co founders of Muslim and later National Conference, Moulana remained general secretary of the organisation for 30 long years.He was the first Lok Sabah MP from Srinagar Parliamentary constituency,infact a signatory to the constitution of India.His colleagues most of them masters in their own field ,always revered him for his intellectual exuberance , political acumen, intelligent farsightedness, organisational skills, crisis management qualities and spiritual overtones. He was one of those rare leaders who blended politics with simplicity and social service, power with compassion and authority with responsibility. What makes him unique amongst his whole lot of compatriots and contemporaries is the fact he was never lured , tempted or seduced by power games and money mantras. He did not believe in the politics of vendetta and mud slinging despite himself being a victim of vengeance and vindictiveness at the hands of his own colleagues. He never allowed his ideas of clean politics to be corrupted by the perverted thoughts of his fellow politicians.
The history of first the generation leadership of Kashmir is replete with bickering and insinuations, intrigues and conspiracies, and character assassinations but if there is one man who throughout his political career remained averse to these dirty tricks, it was late Moulana Masoodi. Mr M Y Teng, the celebrated author of Aatish-e- Chinar might find himself the only person under the compulsive influence of late Shiekh Sahib to spew venom against Moulana and one can understand the limitations of a biographer of the most powerful leader of kashmir. But the writer inspite of imposed reservations could not restrain himself from describing Moulana as the real brain behind the revolutionary and reformist politics of Kashmir.
In the contemporary political scheme, our first generation leaders fostered and facilitated their scions to pass on the legacy and carry forward the mantle of political leadership to the next generation. Again the only exception is Moulana Masoodi who instead of catapulting his family into politics preferred to nurture and prop up the second generation leadership in Kashmir politics. Some of the stalwarts of the second generation leadership identified, influenced and encouraged by Moulana Masoodi include Mirwaiz Moulvi Farooq, Syeed Ali shah Geelani, Shamim Ahmad Shamim and Khawaja Abdul Ghani Lone.
Despite the influence he yielded at the time, the faqir in him was never impressed or carried away by any power hangover. Instead he demonstrated the simplicity, integrity and substance of character in every sphere of his life. He was an ideologue, architect, mystic, philologist, philosopher, parliamentarian and a social worker all rolled into one.His party men would rely on his astute trouble shooting capabilities to diffuse the situation and many a times he would steer the organisation though an impending disaster. The way he skillfully handled the highly volatile Holy Relic agitation in the state has been an inspiration. In the absence of majority of popular leadership from the scene, it was left to Moulana’s wisdom and maturity which prevented the spontaneous agitation from being hijacked and degenerating into any communal or sectarian uneasiness.
According to Rasheed Taseer, the historian, Moulana is one of the pioneers of Urdu journalism in the state. He started, published and edited a number of newspapers and magazines which include The Hamdard, The Khidmat, The Khalid etc. Incisive analysis of events, fair criticism, neutral commentaries and cautioning editorials are a few trends set by Moulana in the arena of popular local print media. Apart from being a religious scholar of high repute and known for his oratory skills, he was no amateur in the field of poetry either. An authority on Iqbaliyat he himself wrote number of patriotic and religious poems. The national song of Kashmir written by him “Lehrayey kashmir ke jhandey” struck a chord through the political landscape of the state for decades together.
During his immaculate and highly impeccable political career, his only flawed overture has been described as his decision to assume the convenorship of the state unit of Janata party in 1977.Riding on the whirlwind of anti emergency at the national level, the Janata party was threatening to hurricane the politics of J&K and Moulana Masoodi finally decided to utilise the opportunity to reign in the intransigent and dictatorial Shiekh Abdullah who by now had become autocratic in his political approach and decision making. This state of affairs had arisen because of the lack of tolerance to any criticism within the organisation and a virtual non-existent opposition in the state. According to former Chief Minister, Syed Mir Qasim this was the time when Sheikh sahib was suffering from the ego of being the most popular leader and eventually lost a number of his steadfast friends with sycophants taking over the control of party that had once exhibited exemplary cohesiveness and unity in dethroning of the Dogra rule and ushering in an era of freedom and parliamentary democracy for the people of the state. The Janata experience may have proved to be a misadventure but it paved the way for vibrant and aggressive opposition in the state with new outfits like People’s Conference and Panthers Party announcing their impressive arrival on the political horizon of J&K.
Moulan’s statement recorded before the UN observers in connection with the historical Hazaratbal conspiracy case and published by the Daily Newspaper Zamindar, Amritsar in April 1951 is an embodiment of truth and reality on the politically outstanding issue of the state. The statement underscores the importance of people to people contact, castigates the ethnic and geographic division of the state, reminds the leadership of both India & Pakistan to full fill their international commitments vis-a- vis the people of Kashmir and cautions against inflicting any forced solution on the people of J&K. It is a matter of record that he is first person to float the idea of Independent Kashmir and used the words like buffer state even in the Indian parliament during his tenure as MP . According to AG Noorani, the author of the book “ARICLE 370” Moulana Massoodi in the capacity of Publicity administrator under emergency administration of sheikh Abdullah in 1947 even tried to build up public opinion to discuss and deliberate upon what is now referred to as ‘third option’ but could not succeed in his endeavour because of the powerful coterie that held sway over Sheikh sahibs decision making at important times.
In recognition of his services and stature, Moulana was offered the post of the vice president of India By Morarjee Desai but the former politely declined the offer saying he had never been interested in titles or positions of power. Only a man of immense mental strength and integrity can take such an important decision in his political career. The fact of the matter, however, is that he always preferred service over politics, solitude over limelight and serenity over grandeur. In the competitive politics of today these attributes are not only conspicuous by their absence but are actually considered demerits by ostentatious politicians.
Moulana Ahmad Syeedabadi believes that Masoodi Sahib had inherited the politics of Moulana Mahmudul Hassan(aseer-e-malta) and wisdom of Abul Kalam Azad. This marvellous blend is unique and matchless in the cotemporary history of India.
As in life, so after his death, Moulana Masoodi has remained less talked about although he continues to remain one of the most important and central character of the revolutionary as well as mainstream politics of the state. He has been deliberately sidelined by the very party he organised and ran for over 40 years. This also shows how the oldest political party of the state tends to ignore everyone else other than the Abdullahs. Moulana’s grave in the court yard of Jamia Masjid Ganderbal has been razed to the ground and the authorities made no effort to preserve the grave of Mufaqar-e- Kashmir.His tombstone callously tossed aside just like his political legacy.
“ Bar Mazaar -e- Ma Ghariban Naye Charag -e- naye Guley
Naye parrey parwanaa sozad naye sadaaye bulbuley”.

Monday, December 12, 2011

بدعنوانیوں پر پردہ ڈالنے کیلئے ریکارڈ نذرِ آتش.... خمریال زون میں محکمہ تعلیم کے دو ملازمین پولیس کے شکنجے میں

محمد طاہر سعید
سرینگر//تعلیمی زون خمریال کپوارہ میں پہاڑی اور گجر بکروال سکالر شپ میں مبینہ دھاندلیوں کی تحقیقات کیلئے ویجی لنس آرگنائز یشن کی طرف سے ریکارڈ طلب کرنے کے فوراً بعد سنیچر کو پُر اسرار طور پر ایک کلرک کی گاڑی میں پورا ریکارڈ نذر آتش ہوگیا۔پولیس کے مطابق ریکارڈ دانستہ طور پر نذر آتش کیا گیا اور اس سلسلے میں زونل ایجوکیشن آفیسر خمریال اور ایک سنیئر اسسٹنٹ کو گرفتار کر کے تحقیقات کا آغاز کیا گیا۔ریاستی ویجی لنس آرگنائزیشن ذرائع نے کشمیر عظمیٰ کو بتایا کہ انہیں دس روز قبل اس بات کی تحریری طور شکایت موصول ہوئی تھی کہ تعلیمی زون خمریال میں سال 2009-10اور 2010-11کے دوران پہاڑی اور گجر بکروال طالب علموں کے سکالر شپ کیلئے ایک کروڑ8لاکھ روپے فراہم کئے گئے لیکن ویلگام اور کپوارہ زون کی طرف خمریال زون میں بھی سکالر شپ رقومات کی تقسیم کاری میں بھاری پیمانے پر خرد برد کیا گیاہے۔ویجی لینس ذرائع نے بتایا کہ شکایت موصول ہونے کے بعد تحقیقات کا ٓغاز کیا گیا اور ایک خط زیر نمبر24/2011کے تحت زونل ایجوکیش آفیسر خمریال سے کہا گیا کہ وہ سکالر شپ سے متعلق ریکارڈ کا نقل ویجی لینس حکام کو پیش کریں۔ ویجی لینس ذرائع نے بتایا کہ اس ضمن میں زونل آفس کو فوری طور حرکت میں آنے کی تاکید کی گئی تھی تاکہ تحقیقاتی عمل کو آگے بڑھایا جاسکتا تاہم ذرائع کے مطابق ابھی ریکارڈ ویجی لینس حکام کو ملنا باقی ہی تھا کہ وہ آگ کی ایک پراسرار واردات میں خاکستر ہوگیا۔پولیس ذرائع کے مطابق سنیچر سہ پہرچار بجے کے قریب کو زونل ایجوکیشن آفیس خمریال کے احاطے میں کلرک محمد امین کی سپارک شیورولیٹ گاڑی زیر نمبر JK09-6805میںاچانک آگ نمودار ہوگئی اور دیکھتے ہی دیکھتے گاڑی میں آگ کے شعلے بلند ہوگئے ۔ذرائع کے مطابق گاڑی میں سکالر شپ سے متعلق تمام اصلی کاغذات رکھے گئے تھے اور بدیہی طور انہیں فوٹوسٹیٹ کرانے کیلئے کپوارہ لیجانا تھا تاکہ ان کی ایک نقل کاپی ویجی لینس حکام کو پیش کی جاتی تاہم اس سے قبل ہی یہ کاغذات خاکستر ہوگئے۔پولیس کے مطابق گاڑی کے انجن کی حالت بالکل ٹھیک ہے اور صورتحال پوری طرح واضح ہے کہ کاغذات کو جان بوجھ کر گاڑی میں ہی نذر آتش کیا گیا ہے۔پولیس کا کہنا ہے کہ یہ ریکارڈ سوموار کو ویجی لنس آرگنائزیشن کو دینا تھا۔پولیس نے کشمیر عظمیٰ کو بتا یا کہ جن حالات میں یہ واقعہ پیش آیا ہے اس نے پوری صورتحال کو مشکوک بنا دیا ہے اوراس سلسلے میںایک ایف آئی آر زیر نمبر 403زیر دفعہ 409,120B ,435آر پی سی درج کر کے زونل ایجوکیشن آفیسر خمریال محمد اکبر میر اور سنیئر اسسٹنٹ محمد امین لون کو گرفتار کیا ہے۔گرفتاری سے قبل محمد امین لو ن نے کشمیر عظمیٰ کو بتا یا کہ ویجی لنس آرگنائزیشن نے پہاڑی اور گجر بکروال سکالر شپ سے متعلق تمام ریکارڈ طلب کیا تھا اور اس ریکارڈ کا فوٹو سٹیٹ کرنے کیلئے ہمیں کپوارہ جانا تھا اور یہ ریکارڈ ہم نے گاڑی میں رکھا تھا جس دوران اچانک گاڑی کو آگ لگ گئی اور پورا ریکارڈ خاکستر ہوا۔ اس دوران اس بات کا بھی انکشاف ہوا ہے کہ غلام محی الدین بٹ ساکنہ خمریال نامی ایک شہری نے قانون حق اطلاعات کے تحت ایک درخواست دی تھی جس میں انہوں نے سکالر شپ سے متعلق تفصیلات مانگی تھی تاہم تاحال انہیں ٹرخایا جارہا تھا۔غلام محمد بٹ نے کشمیرعظمیٰ کو بتایا کہ خمریال زونل آفس کی جانب سے انہیں بار بار ٹرخایا جارہا تھا اور انہیں ایک نہیں دوسرے بہانے مطلوبہ معلومات فراہم نہیں کی جارہی تھیں۔انہوں نے بھی کہا کہ ریکارڈ کو جان بوجھ کر نذر آتش کیا گیا ہے تاکہ بھاری پیمانے پر ہوئے خرد برد کو چھپایا جاسکے۔اس دوران کیس کی تحقیقات پر مامور ویجی لینس حکام نے اپنا نام مخفی رکھنے کی شرط پر بتایا کہ سکالر شپ گھوٹالہ صرف کپوارہ ،رامحال یا خمریال زون تک محدود نہیں ہے بلکہ پورے کپوارہ ضلع میں یہ سکالر شپ ہڑپ کی گئی ہے اور اس ضمن میں اب پورے ضلع میں بڑے پیمانے پر تحقیقات عمل میں لائی جائے گی۔

Thursday, December 8, 2011

شازیہ مجید قتل کیس : سماجی جرائم اور گھریلو تشدد کیخلاف خاموش احتجاج

محمد طاہر سعید


سرینگر// سماجی جرائم اور خواتین پر گھریلو تشدد کے خلاف سماجی تنظیموں اور سول سو سائٹی نے بدھ کو پریس
کالونی میں موم بتیاں جلاکر احتجاج درج کیا۔ احتجاج میں شامل لوگ سماجی جرائم اور گھریلوتشدد کی شکار شازیہ مجید ،کلیم قادری، رومانہ جاوید اور دیگر افراد کے لواحقین کو انصاف دلانے کا مطالبہ کر رہے تھے۔شازیہ مجید کے لواحقین کو انصاف دلانے کیلئے سول سائٹی نے پریس کالونی پر امن خاموش احتجاج کرنے کا پروگرام بنایا تھا اور اس کے لئے سماجی رابطہ کی وئب سائٹ فیس بک پر ’شازیہ مجید کیلئے انصاف‘ نام سے ایک صفحہ بنایا گیا تھا جس کے ذریعہ موم بتیاں جلا نے کے مظاہرے کا پیغام لوگوں تک پہنچایا گیا۔ ایڈوکیٹ سید فیصل قادری، ایڈوکیٹ نرجیس نواب، ایڈوکیٹ ندیم قادری اور میر داور نے فیس بک سے شازیہ مجید کو انصاف دلانے کی مہم شروع کی ہے۔ لائبریری سائنس میں گولڈ میڈل حاصل کرنے والی شازیہ مجیدساکن باغ مہتاب 6 نومبر کو اپنے سسرال میں مردہ حالات میں پایا گیا تھا اور پولیس کا کہنا ہے کہ شازیہ نے خودکشی کی تھی تاہم لواحقین کے مطابق شازیہ کو سسرال والوں نے قتل کیا اور وہ اسے تقریباً 5سال سے مسلسل ذہنی اور جسمانی تشدد کا نشا نہ بنایا جا رہا تھا۔ شازیہ مجید اسلامک یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی میں لائبریرین تھی اور لواحقین کے مطابق شوہر انہیں مسلسل میکے سے پیسے لانے کا مطالبہ کر رہا تھا جس کے بعد شازیہ نے اوم پورہ بڈگام میں پلاٹ فروخت کرنے کے علاوہ بنک سے قرضہ بھی حاصل کیا تھا اس کے باجود بھی شوہر انہیں مزید پیسے لانے کی مانگ کرتا رہا۔ عید سے قبل چند رو ز شازیہ کو اپنے شوہر نے واپس گھر بلا یا اور 6نومبر کو چھت کے پنکھے سے لٹکتی ہوئی ان کی لاش پائی گئی۔ شازیہ کے والد عبد المجید جوپر امن احتجاج میں شامل تھے،نے کشمیر عظمیٰ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ پولیس نے 306کے تحت کیس درج کر کے اسے خود کشی کا معاملہ بنایا ہے۔ انہوں نے کہا ’’میری بیٹی میں کافی ہمت تھی اور پانچ سال سے وہ اپنے سسرال والوں سے لڑ رہی تھی اور اسے ختم کر نے میں انہیں پانچ سال لگ گئے اور وہ اپنے اس منصوبے میں کامیاب ہوئے۔ انہوں نے کہا ’’یہ خودکشی کا واقعہ نہیں بلکہ قتل ہے اور اس میں شازیہ کے شوہر کے علاوہ تمام سسرال والے ذمہ دار ہیں‘‘۔ انہوں نے کہا’’میں پولیس سے پوچھنا چاہتا ہوں کہ اس کے سسرال والے ابھی تک آزاد کیوں گھوم رہے ہیں جبکہ اس واقعہ میں وہ برابر کے ملوث ہیں‘‘۔ جموں وکشمیر یوتھ پارلیمنٹ کے چیئر مین ایڈوکیٹ ندیم قادری نے کشمیر عظمیٰ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ہمارے سماج میں شازیہ کی طرح کئی خواتین زندگی بسر کر رہی ہیں اور یہ ہماری اخلاقی ذمہ داری ہے کہ ہم شازیہ کیلئے انصاف کی آواز بلندکرنے کے علاوہ ان بد نصیب خواتین کا معاملہ اٹھائیں جو گھریلو تشدد سہہ کر گھٹ گھٹ کر مر رہی ہیں۔ کلیم قادری اور رومانہ جاوید قتل کیس کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ان واقعات کا باریک بینی سے مشاہد ہ کرنے کے بعد لگتا ہے کہ جرائم پیشہ افراد کے حوصلے بلند ہیں اور کس طرح وہ اپنے منصوبوں کو عملی جامہ پہنا تے ہیں۔ اس پر امن احتجاج میں شازیہ اور کلیم قادری کے لواحقین کے علاوہ اسلامک یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کے طلباء ،سٹاف ممبران ،جموں وکشمیر یوتھ پارلیمنٹ ،جموں وکشمیر آر ٹی آئی مومنٹ ،انہد ،انر سیل اور سنٹر فار جسٹس اینڈ ڈیولپمنٹ کے ممبران نے شرکت کی۔