Thursday, July 28, 2011

دس ماہ قبل 43ہزار کیجول لیبروں کی تعیناتی کا فیصلہ, کابینہ احکامات پرعملدرآمد ہونا ہنوزباقی،منظورِنظرافرادپرعنایتیں

محمد طاہر سعید
سرینگر//اس بات کا انکشاف ہوا ہے کہ 10ماہ قبل مختلف محکموں میں عارضی بنیادوں پر 43ہزار کیجول اور مقررہ وقت کیلئے درکار بیروزگاروں کی تعیناتی سے متعلق کابینہ فیصلہ پر ابھی تک عملدر آمد نہیں کیا جاسکا ہے تاہم ذرائع نے بتا یا کہ کئی محکموں میں متعلقہ وزراء نے اپنے من پسند افراد کی چور دروازوں سے تعیناتی عمل میں لائی ہے ۔کشمیرعظمیٰ کو معلوم ہوا ہے 14اکتوبر 2010کو وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ کی صدارت میں جو کابینہ اجلاس منعقد ہوا تھا ،اس میں ایک فیصلہ زیر نمبر 263/21/2101 بتاریخ 14/10/2010 میں مختلف محکموں میں عارضی طور پر 43ہزار بیروزگاروں کی تعیناتی کا فیصلہ لیا گیا تھا۔کابینہ فیصلہ کے بعد پلاننگ اینڈ ڈیولپمنٹ محکمہ کے پر نسپل سیکریٹری نے اس سلسلے میں ایک آڈر زیر نمبر105/PD/2010جاری کیاجس میں واضح طور پر لکھا گیا ہے’’ کابینہ کے فیصلہ کے مطابق محکمہ پاور ڈیولپمنٹ ، پبلک ہیلتھ انجینئرنگ ،اریگیشن اینڈ فلڈ کنٹرول،پبلک ورکس ، سکول ایجوکیشن ،دیہی ترقی ،جنگلات اور پھولبانی محکموں میں عارضی بنیادوں پر43 ہزاربیروزگاروں کوکیجول لیول کے طور تعینات کیا جائیگا‘‘۔کشمیر عظمیٰ کے پاس موجود دستاویزات کے مطابق پلاننگ اینڈ ڈیولپمنٹ محکمہ نے جو احکامات صادر کئے تھے انکے مطابق پاو رڈیولپمنٹ محکمہ میں 10ہزار ،پی ایچ ای ،اریگیشن اینڈ فلڈ کنٹرول میں 10ہزار،پبلک ورکس محکمہ میں 6ہزار،دیہی ترقی محکمہ میں 8ہزار ،پھولبانی محکمہ میں 2ہزار ،سکول ایجوکیشن میں 6ہزار اور محکمہ جنگلات میں ایک ہزار بیروزگاروں کو بحیثیت کیجول لیبر تعینات کرنا تھا۔احکامات کے مطابق سرینگر ضلع میں 4500، گاندربل میں 1500، بڈگام میں 2ہزار ،بارہمولہ میں 2ہزار ،بانڈی پورہ میں 1500،کپوارہ میں 2ہزار ،پلوامہ میں 2ہزار،شوپیان میں 1500،اننت ناگ(اسلام آباد) میں2ہزار اور کولگام میں 1500کے علاوہ جموں ضلع میں 4500، کٹھوعہ میں 2ہزار ،سانبہ 1500،ادھم پورمیں 2ہزار ،ریاسی میں 1500، راجوری میں 2000،پونچھ میں 2ہزار ،ڈوڈہ میں 2ہزار ،رام بن میں 1500،کشتواڑ میں 1500،لیہہ میں 1000اورکرگل میں 1000فراد کو کیجول بنیادوں پرمختلف محکموں میں تعینات کرنا تھا۔ذرائع نے مزیدبتا یا کہ ان تعیناتیوں کے سلسلے میں کسی بھی محکمہ نے کوئی اشتہار مشتہر نہیں کیااور نہ ہی اب تک کابینہ کے اس فیصلہ پر عملدرآمد کیاگیاہے یہ امر قابل ذکر ہے کہ موجودہ حکومت نے کابینہ میں جو فیصلہ لیا تھا وہ مفتی محمد سعید کی سابق حکومت میں لئے گئے ایسے ہی ایک فیصلے کے مطابق تھا جسکے دوران وادی کے آئی ٹی آئی تربیت یافتہ بیروزگاروں کو مختلف محکموں میں بحیثیت کیجول تعینات کر نیکا فیصلہ کیا گیا تھا ۔اُس وقت کی حکومت نے ایسا کر کے تقریباً ایک ہزار سے زائد تربیت یافتہ افراد کو مختلف محکموں میں تعینا ت کیا تھا اور اس کیلئے باضابطہ طور پر انٹرویو لئے گئے تھے۔موجود ہ حکومت نے اسی سلسلے کو آگے بڑھاتے ہوئے 10ماہ قبل جو فیصلہ لیا تھا اسکے مطابق ان آئی ٹی آئی تربیت یافتہ افراد کو ترجیح دینا تھی اور اس کیلئے مختلف محکموں کے سربراہان انٹرویو لے سکتے تھے جن محکموں کی نشاندہی پرنسپل سیکریٹری پلاننگ اینڈ ڈیولپمنٹ محکمہ نے کابینہ فیصلے کی رو سے کی تھی لیکن حکومت نے اس سلسلے میں لوازمات پورے نہیں کئے جسکے نتیجے میں کابینہ فیصلہ کی روح کو برقرار رکھا جاتا ۔بجائے اس کے کہ کئی محکموں میں وزراء نے کابینہ کے اس فیصلہ کو بنیاد پر اپنے من پسند افراد کو تعینات کیا جنہیں محض سیاسی بنیادوں پرترجیح دی گئی اور اس طرح تربیت یافتہ بیروزگاروں کو نظرانداز کیاگیا۔یہاں یہ بات بھی دلچسپی سے خالی نہیں کہ مختلف محکموں میں43ہزارافراد کو روزگار فراہم کرنے کیلئے وزیراعلیٰ نے کئی مواقع پر دعویٰ بھی کئے ہیں۔

مہندی لگنے والے ہاتھوں میں ہتھکڑیاں

محمد طاہر سعید
سرینگر//جلال آباد سوپور میں 21سالہ قرۃ العین کی شادی کی تیاریاں چل رہی تھیں او ر دلہن خود ملبوسات اور زیوارت خریدنے کیلئے تاریخ متعین کر رہی تھی لیکن اُسے کیا معلوم تھا کہ ہاتھوں میں مہندی رچانے سے 10روز قبل ہی وہ زینت زندان بن جائیگی۔افراد خانہ قرۃ العین کو بے گناہ قرار دے رہے ہیں جبکہ پولیس کادعویٰ ہے کہ اس کا ملی ٹینٹوں کے ساتھ رابطہ ہے اور سوپور پولیس سٹیشن پر حالیہ حملے میں بھی اس کا ہاتھ ہے۔پولیس نے اس کیخلاف قتل او رآرمز ایکٹ کے تحت کیس درج کیا ہے۔مقامی لوگوں نے کشمیر عظمیٰ کو بتا یا کہ قرۃ العین کو بے بنیاد کیس میں پھنسانے کا منصوبہ دراصل پولیس نے مارچ میں ہی بنایا تھا ۔لوگوں کا کہنا ہے کہ 30مارچ 2011کو پولیس نے جلال آباد میں چھاپہ ڈالا اور کئی مکانوں کی تلاشی لی۔لوگوں کے مطابق تلاشی کارروائی کے دوران پولیس نے قرۃ العین کے والد پیرزادہ شمس الدین کو ہدایت دی کہ وہ اگلے روز 31مارچ کو اپنی بیٹی کو لیکر پولیس سٹیشن حاضر ہو جائے اور جب شمس الدین اگلے روزپولیس سٹیشن پہنچ گیا تو اسے گرفتار کر کے 6روز بعد رہا کیا گیا اس ہدایت کے ساتھ کہ وہ 7اپریل کودوبارہ بیٹی کے ہمراہ پولیس سٹیشن میں حاضر ہوجائے۔ لوگوں کے مطابق پولیس نے 7اپریل کوشمس الدین اور اسکے اہل خانہ کے فون نمبرات حاصل کئے اور اسے کہا کہ وہ روزانہ اپنی بیٹی کو لیکر پولیس سٹیشن میں حاضری دیا کرے۔لوگوں کا کہنا ہے کہ قرۃ العین اپنی پڑھائی کیساتھ مصروف تھی جس کی وجہ سے وہ پولیس سٹیشن پر حاضر نہیں ہوسکی ۔ اسکے بعد اسے روزانہ پولیس سٹیشن سے فون آیا کرتے تھے کہ وہ حاضر ہونے کیلئے یہاں کیوں نہیں آتی ؟لوگوں کے مطابق 16جو ن کو پولیس نے دوبارہ جلال آبادمیں چھاپہ ڈالا اور شمس الدین و اس کے افرادِخانہ کو پولیس سٹیشن پر حاضر ہونے کیلئے کہا ۔مقامی لوگوں کے مطابق پولیس نے اس روز بھی انہیں دوبارہ پولیس سٹیشن پر حاضر ہونے کی ہدایت دی اور 10جولائی کو قرۃ العین اپنی والدہ مریم بیگم اور اپنے ایک نزدیکی رشتہ دار باسط احمد مسعودی ولد الطاف حسین مسعودی کے ہمراہ پولیس سٹیشن پہنچ گئی جہاں پولیس نے قرہ العین اور باسط کو حراست میں رکھا۔لواحقین کے مطابق قرۃ العین نے حال ہی میں گورنمنٹ گرلز ڈگری کالج سوپور نے بی اے کی ڈگری حاصل کی تھی اور اب اس نے فرلینگ کالج آف ایجوکیشن جلا ل آباد سوپورمیں بی ایڈ کرنے کیلئے داخلہ لیا تھا۔قرۃ کی شادی کی تاریخ بھی طے ہے اور 22و23جولائی کواس کی شادی اپنے ایک قریبی رشتہ دار سے ہونے والی ہے جس کیلئے تمام تیاریاں مکمل کی جاچکی تھیں جبکہ دعوت نامے بھی تقسیم کئے جا چکے ہیں۔قرۃ العین کے گھر میں ماتم کا ماحول ہے اور لواحقین سہمے ہوئے ہیں اور کچھ بتانے کیلئے تیار نہیں۔
پولیس کیا کہتی ہے
ایس ایچ او سوپور غضنفر احمد نے اس حوالے سے کشمیر عظمیٰ کو بتا یا کہ وہ قرۃ العین کو کسی بھی فرضی کیس میں نہیں پھنسا رہے ہیں اور اگر انہیں ایسا کرنا ہوتا تو اسے 30مارچ کو ہی گرفتار کیا گیا ہوتا۔انہوں نے کہا کہ قرۃ العین کا 2009سے لشکر طیبہ کیساتھ قریبی رابطہ ہے اور لشکر کے کمانڈر عبداللہ اُونی مذکورہ لڑکی کی والدہ کا سم کارڈ استعمال کر رہاتھاجبکہ اہل خانہ کے ناموں پر حاصل کئے گئے سم کارڈبھی ملی ٹینٹوں کے زیر استعمال ہیں۔انہوں نے بتا یا کہ جس وقت سوپور پولیس سٹیشن پر حملہ ہوا اس وقت قرۃ العین پولیس سٹیشن کے باہر موجود تھی اور اسکا فون بھی پولیس سٹیشن کے باہر چل رہا تھا۔ایس ایچ او نے کہا کہ قرۃ العین اور اسکے دیگر اہل خانہ پر پہلے ہی شک تھا اور مارچ سے ہی پوچھ تاچھ جاری تھی۔پولیس کے مطابق سوپور پولیس سٹیشن پر ہوئے حملے کے بعد زخمی ہونیوالے جوپولیس اہلکار صورہ اسپتال میں تھے، تو وہاں پولیس نے ایک شخص کو مشکوک حالت میں دیکھا،جسکے نتیجے میں پولیس نے اسے گرفتار کیا ، اس کا نام محمد شفیع شیخ ساکن ہندوارہ بتایاگیا ہے۔ پولیس کا مزید کہنا ہے کہ تفتیش کے دوران محمد شفیع نے اس بات کا اعتراف کیا کہ زخمی پولیس اہلکاروں پر اسپتال میں نظرگذر رکھنے کیلئے اسے جنگجوئوں نے تین ہزار روپے دیئے تھے۔ محمد شفیع کی بعد میں تفتیش کی گئی اور اْس کی نشاندہی پر جلال آباد سوپور میں چھاپہ ڈالا گیا جہاں قرۃالعین دختر شمس الدین کو گرفتار کیا گیا اور چار دن تک اسکی تفتیش کرنے کے بعد اس کیخلاف زیر نمبر 182/2011زیر دفعات 302, 7/4آرپی سی درج کر کے اسے زنانہ پولیس اسٹیشن سرینگر منتقل کیا گیاہے۔