Sunday, August 21, 2016

The journey ahead


Mehbooba Mufti has accepted the challenge and here begins a new chapter of history


Muhammad Tahir Sayeed


Mehbooba Mufti is all set to write a new chapter in the political history of state. After accepting the crown, Mehbooba has an uphill task ahead.
She has to carry the legacy of peace, transparency, development and reconciliation her father initiated.

Many critics view her alleviation to the position of Chief Minister much akin to Omar Abdullah of National Conference as a continuation of ‘dynastic rule’. But as far as we know her political career this claim seem to be very naïve and politically erroneous. The fact is that Mehboba never opted for political short-cuts; opportunism and politics of adventurism is something she always tried to desist.
Her determination to get involved at the grassroots level, understand the problems of plebeians, marginalized and disadvantaged make her a right contender to lead the state next. Considering her political journey, it becomes evident that she started it as a strong grassroots level worker.
At a time when the National Conference used every political mischief to create its hegemony by crushing all voices of dissent, it was Mehbooba who took the challenge and bagged the assembly seat from her home constituency Bijbehara on the Congress ticket in 1996.
Mehbooba would have continued with Congress and made her political career easily with a national political party but she strived hard and gave an alternative political voice to the hapless people of state. It was during these political settings mired in uncertainty when she along with her father Mufti Muhammad Syeed together with other likeminded people floated Peoples Democratic Party. Floating a new political front in a politically unstable state and leaving one national party was a huge decision. The circumstance in Kashmir and the political tribulations since 1947 present a testimony to the fact that every attempt to create alternative politics experimented by the then political stalwarts almost ended in failure.
She built this party brick by brick under the mentorship and guidance of Mufti Muhammad Syeed. She left no stone unturned to strengthen the party at grassroots level. Eventually party grew slowly with the leadership, vision, political acumen and wisdom of Mufti sahib and her own hard work.
Undeniably, she was part of every important decision making but she never took a decision at her own without consulting father. Here the PDP came into existence and people reposed faith in it.
Despite lack of resources in its maiden election of 2002, party won 16 seats and formed the coalition government with Congress. It was here the first political take off for the party, and today, PDP is not only expanding within the state but is popular in the rest of country for its inclusive political and economic agenda.
The outstanding reach of its progressive political and economic agenda is evident from the fact that it has in Parliamentary elections swept all the seats from valley and increased the vote share in Jammu region. It was followed by the Assembly elections during the same year when party emerged out as the single largest political party despite results throwing a fractured mandate.
In a state like Kashmir, where every kind of war mongering, human rights abuse, unemployment, harassment, and killings of innocent was a norm, PDP not only tried every experiment of healing touch to get this troubled state out from this mess but helped to give a new hope to the future generation of valley.
The dividends of peace and healing touch policy we strongly believe will be realized by the state in near future. Better relations with our neighboring state Pakistan, dialogue with all internal and external stake holders of Kashmir issue, and reaching out to the unheard victims of Kashmir conflict is one of the core policies of PDP.
Mehbooba who is famous for raising the voice against all atrocities, human rights violations is also considered one of the few politicians in the state who stand by the deprived sections of our society without any kind of prejudice.
She is rightly called as the ‘iron lady of Kashmir’, because she preached peace, prosperity and development in the peripheries of Kashmir at a time when it was even impossible to discuss politics right in the heart of the city. However, when she reached a crucial and decisive phase of her political career, she unfortunately lost her political guide and mentor and above all a loving father.
She made it sure that the agenda of alliance is just not a document but a road map which needs to be followed. Allying with the BJP was not an easy choice but Mufti Sahib’s dream of transforming this ailing state to a model state motivated him to walk an extra political mile and experiment new political innovations. We are sure about the positive outcomes of this next experiment. Good luck Mehbooba Mufti.


( http://www.greaterkashmir.com/news/opinion/the-journey-ahead/213506.html )

مفتی محمد سعید۔۔۔امن کا پیامی وہ جو سب کو ساتھ لے کر چلتا تھا



محمد طاہر سعید


پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی کے بانی سرپرست اور وزیر اعلیٰ مفتی محمد سعید کے انتقال کے بعد ریاست میں جو سیاسی خلا پیدا ہوا ہے اس کا مستقبل قریب میں پر ہونا ممکن نظر نہیں آ رہا ہے۔مرحوم مفتی محمد سعید ریاست کے موجودہ سیاسی نقشے پر
ایک قد آور اور دور اندیش سیاستدان تھے اور سیاست کے اس اعلیٰ مقام تک پہنچنے کے لئے انہوں نے تدبر اور استقامت کا مظاہرہ کیا۔ مرحوم چونکہ چھ دہائیوں تک ریاستی سیاست پہ چھائے رہے ۔ میں قارئین کرام کو اپنے نقطہ نظر سے ان کی شخصیت کے بارے میں روشناس کرانا چاہتا ہوں۔میں نے مرحوم کو ذاتی طور ہمیشہ ایک مدبر ،دور اندیش ،امن پسند اور اپنے لوگوں کے تئیں سنجیدہ و ہمدرد سیاستدان پایا۔60 سال طویل اپنے سیاسی سفر میں مفتی صاحب نے کافی نشیب و فراز دیکھے اور مشکل حالات کے باوجود ان کے قدم کبھی بھی نہیں لڑ کھڑاے بلکہ بہادری سے حالات کا مقابلہ کرتے رہے ، نیز زندگی کی آخری سانس تک اپنے فرائض کے تئیں سنجیدگی کا مظاہرہ کیا۔مرحوم بستر علالت پر بھی عوامی معاملات اور مسائل کے تئیں فکر مند تھے اور اپنی صاحبزادی پی ڈی پی صدر محبوبہ مفتی، جو ایمز میں اُن کی تیمار داری کے لئے ہمہ وقت موجود تھیں،سے ریاست کے حالات اور جاری ترقیاتی پروجیکٹس کے بارے میں جانکاری حاصل کرتے رہے، حتیٰ کہ بستر علالت پر اپنے پرنسپل سیکرٹری سے اپنے حالیہ فیصلوں اور ہدایات کی عمل آوری کے بارے میں اَپ ڈیٹ ہوتے رہے۔مفتی صاحب ایک بہترین منتظم بھی تھے۔2002 ءسے 2005ءاور حالیہ دس ماہ طویل اپنے دورِحکومت میں انہوں دور اندیش اور بہتر منتظم ہونے کا قدم قدم پر ثبوت دیا اور عملاًدکھایاکہ کس طرح نظریاتی اختلاف ہونے کے باوجود سب کو ساتھ لے کر ریاست کا نظم ونسق چلایا جا سکتا ہے۔مرحوم ریاست جموں و کشمیر کی تعمیر و ترقی اور خوشحالی کے وعدہ بند تھے۔چلہ کلان کی سخت سردی کے باوجود انہوں نے گھنٹوں شہر خاص کا دورہ کیا اور اپنی صحت اور بزرگی کا خیال رکھے بغیر شہر میں جاری ترقیاتی پروجیکٹس کا بر سر موقع جائزہ لیا۔مرحوم سرینگر کو ریاست کا دل مانتے تھے اور شہر سرینگر میں نہ صرف اپنی سربراہی والی حکومت کے آخری پروجیکٹ کا سنگ ِبنیاد رکھا بلکہ یہیں آخری جلسہ سے بھی خطاب کیا۔ایک ایسے وقت جب ہم اُن کے انتقال پر افسوس کر رہے ہیں، ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم ان کے نظریہ¿ جموں و کشمیر پر بھی کچھ بات کریں۔ مفتی صاحب ریاست کو امن و امان کا گہوارہ بنانا چاہتے تھے اور ایسے نازک وقت جب کئی لیڈران گولی کا جواب بم سے دینے کی وکالت کر رہے تھے ،مفتی صاحب امن کے وکیل بن کر سامنے آئے۔انہوں نے پاکستان کے ساتھ بات چیت، امن عمل اور گولی کا جواب بولی سے دینے کی وکالت کی۔ا س کے نتیجے میں 2002 ءسے 2005 ءتک اُن کی وزارت ِعالیہ کے دوران سرحدوں پر جنگ بندی، پاکستان اور علیحدگی پسندوں کے ساتھ مذاکرات اور اعتماد سازی کے اقدامات کے طور پر کئی بند پڑے راستے کھول دئے گئے جس کے لئے انہیں ہمیشہ امن کے علمبر دارکے طور پر یاد رکھا جائے گا ۔
2002 میں جب مفتی صاحب نے ریاست کا اقتدار سنبھالا تو عوام کو احساسِ تحفظ دلانے کے لئے پوٹا قانون کی منسوخی کے فیصلے کے ساتھ انسانی حقوق کے تحفظ کو یقینی بنانے اور فوج کو جوابدہ بنانے کے علاوہ کریک ڈاو¿ن اور لوگوں کی جامہ تلاشیوں کو روکنے کے لئے عملی اقدامات کئے۔ا س سے ریاست میں ایک سازگار ماحول تیار ہوا۔وہ اپنے فیصلے پر ہمیشہ قائم رہتے تھے اور انہیں یقین تھا جو فیصلہ وہ کرتے اس کے مثبت نتائج سامنے آئیں گے۔اس وقت سرینگر میں تعینات جی او سی لفٹیننٹ جنرل وی جی پٹانکر نے حالیہ میں اپنے ایک مضمون میں مفتی صاحب کے ایک فیصلے کا ذکر کرتے ہوئے لکھا”مفتی کافی فکر مند تھے کہ سرینگر جموں شاہراہ صرف دن کو ہی گاڑیوں کی آمدورفت کے لئے کھلی رہتی ہے اور جب میں نے ان سے شاہراہ کو 24 گھنٹہ کھلا نہ رکھنے کی تفصیل کے ساتھ وجوہات بتائیں تو وہ مان گئے لیکن دوسرے روز مجھ سے کہا کہ میں نے شاہراہ کو 24 گھنٹہ کھلا رکھنے کا فیصلہ کیا ہے۔اس سلسلے میں کئے گئے اعلان کو عوامی سطح پر کافی پذیرائی حاصل ہوئی۔جیسے دن گزرتے گئے وزیر اعلیٰ کا فیصلہ صحیح ثابت ہوا۔شاہراہ پر کسی پر طرح کی کوئی پریشانی نہیں ہوئی اور جب میں دوبارہ ان سے ملنے گیا تو انہوں نے مجھ سے واضح کرتے ہوئے کہا کہ یہ ہیلنگ ٹچ پالیسی کا ایک اہم حصہ ہے “آپ مفتی صاحب کے سیاسی نظریات سے اختلاف کر سکتے ہیں لیکن جن حالات میں نے انہوں نے اپنی ایک الگ سیاسی پہچان بنائی اور ہمیشہ اپنے موقف پر ڈَٹے رہے، اُس کے لئے وہ خراج تحسین کے مستحق ہیں۔انہوں نے نہ صرف امن کی وکالت کی بلکہ سیاسی اور جمہوری اداروں کو با اثر بنانے کے ساتھ ساتھ ریاست کے لوگوں کو ایک سیاسی متبادل بھی فراہم کیا۔مفتی صاحب جمہوریت کو نظریات کی جنگ مانتے تھے اور ہمیشہ مخالف سیاسی آواز کو جگہ دینے کے لئے کوشاں رہے۔ریاست میں ایک ہی سیاسی جماعت کا غلبہ تھا لیکن انہوں نے پی ڈی پی کی صورت میں ایک سیاسی متبادل فراہم کر کے لوگوں خاص کر نوجوانوں کی حوصلہ افزائی کی۔
مرحوم سے میری پہلی ملاقات 2011 ءمیں ہوئی۔میں رفیع آباد ان کے ایک جلسہ کی رپورٹنگ کرنے گیا تھا جہاں انہوں نے ریاست کو 1947 ءسے قبل کی آزادی دینے کی بات کہی۔میں اُن کی اس بات کو سمجھنا چاہتا تھا، اس لئے دوسرے روز ان کے دفتر فون کر کے ملاقات کا وقت مانگا ۔ ایک گھنٹہ بعد ہی ان کے دفتر سے واپس فون آیا کہ دوسرے روز صبح ملاقات کا وقت دیا گیا ہے۔مرحوم اپنے کمرے میں کرسی پر براجمان تھے اور ایک ہلکی سی مسکراہٹ کے ساتھ میرا استقبال کیا۔باتوں باتوں میں انہوں نے میرے خاندان کے بارے میں جانکاری حاصل کی اور میرے نانا مرحوم کے ساتھ اپنی وابستگی کا ذکر کیا۔رخصت ہوتے ہوئے میں نے جب مصافحہ کے لئے ہاتھ بڑھایا تو مرحوم نے مسکراتے ہوئے کہا ”آپ کو سیاست میںآنا چاہئے۔ اب تو آپ نوجوانوں کا زمانہ ہے“۔وقت گزرتا گیا اور میں نے مارچ 2014ءکو پی ڈی پی میں شمولیت اختیار کر لی اور چند روز بعد ہی اُن سے ملنے گیا ، یہ مرحوم سے میری دوسری ملاقات تھی۔بالکل اسی کمرے میں جہاں چند سال قبل میری ان سے پہلی بار ملاقات ہوئی تھی ۔اپنے مخصوص انداز میں مسکراکر مجھے بیٹھنے کے لئے کہا۔اس ملاقات میں زیادہ بات چیت پارلیمانی انتخابات اور کپواڑہ میں عوامی جلسوں کےلئے اہم مقامات پر ہی مر کوز رہی۔مرحوم کپواڑہ کے سیاسی طور اہم علاقوں کا ذکر کرتے رہے اور میں حیران ہوا کہ وہ کپواڑہ میں سیاسی طور پر حساس علاقوں کے بارے میں بہت زیادہ جانکاری رکھتے تھے۔جب بات میرے علاقے میں عوامی جلسہ منعقد کرنے کی ہوئی تو مرحوم نے کہا ”آپ آورہ میں رہتے ہیں، یہ سیاسی طور پر اہم علاقہ ہے ، میں آج کل زیادہ جلسوں کے لئے بنائی گئی مخصوص گاڑی میں بیٹھ کر ہی تقریر کرتا ہوں لیکن آپ وہاں میرے لئے سٹیج قائم کریں، جلسہ کی پوری ذمہ داری آپ کی ہے اور مجھے آپ کی تقریر بھی سننی ہے اور ہاں سیاست کو جز وقتی( Part time )نہیں بلکہ کل وقتی ( Full time ) کے طور پر اختیار کرنا۔آپ کا سیاسی مستقبل روشن ہے“۔مرحوم کی یہ باتیں مشکل اوقات میں مجھے آگے بڑھنے کا حوصلہ دیتی ہیں۔ مفتی محمد سعید کی موت سے ریاست جموں و کشمیر کے لوگوں نے امن کے علم بردار اور زخموں پر مرہم لگانے والے ایک شفیق رہنما کو کھودیا ہے۔ضرورت اس بات کی ہے ان کی سیاسی لیگیسی کو آگے بڑھا کر اُن کے امن و ترقی کے ادھورے مشن کو پایہ¿ تکمیل تک پہنچایاجائے۔2002 ءسے 2005 ءتک امن و ترقی کا جو کام انہوں نے شروع کیا، اُسے سیاسی حالات نے منطقی انجام تک پہنچنے نہیں دیا اور آج زندگی کا ساتھ نہیں رہا۔مرحوم برصغیر میں امن کی فضا اور ریاست جموں و کشمیر کو ترقی اور امن کا گہوارہ بنانا چاہتے تھے اور اس مشن کو پایہ تکمیل تک پہنچانا مفتی محمد سعید کو بہترین خراج عقیدت ہوگا۔ ع
حق مغفرت کرے عجب آزاد مرد تھا


(http://kashmiruzma.net/full_story.asp?Date=23_1_2016&ItemID=4&cat=5#.V7nQdimECM-)

سیاسی بدلاؤ زمانے کی پکار .......پیامِ سحرکی یہ دستک مبارک



محمد طاہر سعید

جمہوریت جہاں خیالات کی جنگ ہے وہیںتنقید جمہوریت کی روح ہے لیکن اگر جمہوری نظام میں جائز تنقید کرنے کے لئے کوئی مضبوط اپوزیشن جماعت موجود نہ ہو تو جمہوریت کے معنی ہی ختم ہوجاتے ہیں۔ریاست میں عوامی راج کے بعد جمہوریت برائے نام رہی۔یہاں ایک ہی سیاسی جماعت یعنی نیشنل کا نفرنس کی موجودگی سے لوگوں کے پاس کوئی متبادل بھی نہیں تھا۔ نتیجہ کے طور پر اس سیاسی جماعت کی قیادت نے من چاہے فیصلے لئے اوراقتدار کی نیلم پری کو ہمیشہ اپنی جاگیر سمجھ بیٹھے۔ اگر کوئی این سی مخالف آواز تھی تووہ صرف آزادی پسندوں کی آواز تھی لیکن یہ آواز انتظامی اور حکومتی معاملات کو زیادہ ترجیج نہ دیتی رہی۔ ویسے بھی یہاں کبھی مخالف آواز یا جمہوریت کو پننے کا موقع بھی نہیں دیا گیا ۔اگر کسی بھی سیاستدان نے ایسی کوشش کی تو اسے مختلف طریقوں سے زیر کیا گیا۔1957 ء میں ڈیموکریٹک نیشنل کانفرنس،1984میں عوامی نیشنل کانفرنس یا 1987کے انتخابات میں ہم خیال سیاسی جماعتوں کے اتحاد موسوم بہ مسلم متحدہ محاذ کی کوششیں مختلف وجوہا ت کی بنا پر کوئی موثر متبادل قائم کرنے میں قائم نہیں ہوئیں۔ریاست میں اگر چہ کانگریس یا دیگر مرکزی سیاسی جماعتوں کے شاخیںقائم کرکے متبادل سیاسی جماعت قائم کرنے کی کوشش بھی کی گئی، تاہم ریاست خاص کر وادی کشمیر میں ان جماعتوں کو مقبولیت حاصل نہیں ہوسکی ۔ماضی میں جھانک کر دیکھیں تو پتہ چلتا ہے کہ ریاست میں چند ایک علاقوں کو چھوڑ کر انتخابات ہمیشہ یک طرفہ رہے ۔1962کے اسمبلی انتخابات میں بخشی غلام محمد کی قیادت والی نیشنل کانفرنس نے 72نشستوں پر ،پرجا پریشد نے تین جب کہ دونشستوں پر آزاد امیدوار عبدالغنی لون اور غلام نبی وانی کامیاب ہوکر آئے ۔تاہم 1962سے 1967تک ریاست کے سیاسی حالات میں کئی تبدیلیاں ہوئیں ،جہاں بخشی غلام محمد کو وزارت اعظمیٰ کے عہدے سے سبکدوش ہونا پڑا، وہیں 1964میں جی ایم صادق کی طرف سے نیشنل کانفرنس کے ممبران کی مدد سے نئی حکومت قائم ہوئی تووزیر اعظم اور صدر ریاست کو بالترتیب وزیر اعلیٰ اور گورنر کے ناموںمیں تبدیل کر کے جموں کشمیر کی خصوصی پوزیشن کی بیخ کنی کا آغاز ہوا۔1967کے چنائو میں غلام محمدصادق کی قیادت میں کانگریس کو اچھی خاصی اکثریت حاصل ہوئی جب کہ بخشی غلام محمد کی نیشنل کانفرنس 8نشستوں تک سمٹ کر رہ گئی اوربھارتیہ جن سنگھ کو تین نشستیں حاصل ہوئیں۔1971میں جی ایم صادق کی وفات کے بعد سید میر قاسم وزیر اعلیٰ بنے اور ان کی قیادت میں انڈین نیشنل کانگریس نے 58جب کہ جماعت اسلامی کو 5نشستیں حاصل ہوئیں اور بھارتیہ جن سنگھ کو جموں سے تین نشستوں پر کامیابی حاصل ہوئی۔اندرا عبداللہ ایکارڈ کے بعد سید میر قاسم نے شیخ محمد عبداللہ کیلئے وزرات اعلیٰ کی کرسی چھوڑ دی اور 1977میں ہوئے انتخابات کے دوران نیشنل کانفرنس نے واضح اکثریت حاصل ۔

1977ء کے بعد ہوئے انتخابات میں نیشنل کانفرنس مسلسل کامیابی حاصل کرتی رہی، یہاں تک کہ 1987کے انتخابات میں مسلم متحدہ محاذ کے امیدواروں کی کامیابی کے باجود بھی انہیں ناکام قرار دیا گیا اور یہ واقعہ ریاست کی جمہوری تاریخ کا ایک بڑا خون آشام سانحہ بنا۔مف کے علاوہ بھی اگر کسی نے یہاں نیشنل کانفرنس یا اس کی قیادت کے خلاف آواز بلند کرنے کی کوشش کی تو اُس آواز کو طاقت اور سیاسی سازشوں کے بل بوتے پر دبایا گیا۔ماضی کے ان انتخابات پر باریک بینی سے نظر ڈالنے کے بعد یہی بات ظاہر ہوتی ہے کہ یہاں کبھی متبادل کے قیام یا جمہوریت کو پنپنے کا موقع نہیں دیا گیا۔پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی کے سرپرست مفتی محمد سعید یہ کہنے میں حق بجانب ہیں کہ وہ ریاست جموں وکشمیر میں لوگوں کو ایک متبادل علاقائی سیاسی جماعت فراہم کرنے میں وہ کامیاب ہوئے۔2002میں پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی نے پہلا اسمبلی چنائو لڑا اور 9.28فیصدی ووٹوں کے ساتھ 16نشستوں پر کامیابی حاصل کی۔2004کے پارلیمانی چنائو میں پارٹی کے ووٹ بنک میں اضافہ ہوا اور پارٹی نے 11.94فیصدی ووٹ حاصل کئے اور 2009کے پارلیمانی چنائو میں پارٹی کے ووٹ بنک میں 20.5فیصدی کا اضافہ ہوا ۔پارٹی کے ووٹ بنک میں مسلسل اضافہ اس بات کی طرف واضح اشارہ ہے کہ ریاست کے لوگ کافی وقت سے متبادل کے انتظار میں تھے اور پی ڈی پی کی شکل میں انہیں ایک متبادل سیاسی جماعت مل گئی ۔نیشنل کانفرنس ریاست کی سب سے پرانی سیاسی جماعت ہے اور اگر اس جماعت نے عوامی خواہشات کا احترام کیا ہوتا تو شاید لوگ اس جماعت سے دوری اختیار نہیں کرتے۔

اصولی بات یہ ہے کہ لوگوں کے پاس کوئی متبادل سیاسی جماعت موجود نہ ہونے کی صورت میں جہاں جمہوریت کو پنپنے کا موقعہ نہیں ملتا، وہیں ایک ہی سیاسی جماعت کی اجارہ داری کی وجہ سے حکومت کئی ایسے فیصلے بھی لیتی ہے جو عوامی توقعات اور خواہشات کے عین مطابق نہیں ہوتے۔ماضی کی کئی ایسی مثالیں ملتی ہیں جہاں سیاسی قیادتوں اور وقت کی حکومتوں نے ایسے فیصلے لئے جن سے عوامی مفادات کے بجائے ان کے ذاتی مفادات کی تکمیل ہوئی اور کسی مضبوط اپوزیشن کی غیر موجودگی سے بلا کسی خوف و جھجک کے یہ مصلحت پسندانہ فیصلے لئے گئے۔حالیہ پارلیمانی چنائو میں لوگوں نے نیشنل کانفرنس کو عملاًمسترد کیا اور انہیںپی ڈی پی کی شکل میں ایک متبادل سیاسی جماعت مل گئی ہے لیکن نیشنل کانفرنس کی موجودہ حالت پی ڈی پی سمیت دیگر سیاسی جماعتوں کے لئے بھی پیغام ہے کہ جمہوریت میں عوام کو طاقت حاصل ہے اور اگر یہ جماعتیں بھی عوامی مفادات کا خیال نہیں رکھیں تو عوام اگرنیشنل کانفرنس جیسی سیاسی جماعت جس کا منڈیٹ ایک زمانے میں جیت کا پروانہ سمجھا جاتا تھا، کو مسترد کرسکتے ہیں، کل ان کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوگا۔

ریاست کے سیاسی نظام میں ایک مثبت تبدیلی کی ضرورت ہے اور اس کیلئے ایک مضبوط متبادل سیاسی جماعت کی ضرورت ہے ۔بدقسمتی سے گزشتہ کئی سالوں سے وادی کشمیر میں کئی سیاسی جماعتیں وجود میں آئیں جن کا مقصد صرف کشمیر وادی کے ووٹ بنک کوتقسیم کرنا تھا ۔اس بات پر غور کرنے کی ضرورت ہے کہ صرف وادی میں ہی کئی سالوں خاص کر انتخابات کا بگل بجنے کے ساتھ ہی نئی جماعتیں وجود میں کیوں آئیں؟اس طرح کے عمل سے وادیٔ کشمیر،پیر پنچال اور خطہ چناب کے لوگوں کی خواہشات کا احترام نہیں ہوسکتا ۔کئی سالوں کی انتھک کوششوں کے بعد اب پی ڈی پی ایک قابل قبول متبادل سیاسی جماعت کے طور پر ابھرچکی ہے اور اس جماعت کو اس وقت ریاست کے تینوں خطوں میں عوامی مقبولیت حاصل ہے اور جاریہ انتخابات کا ریاست کی سیاست کا رُخ بدلنے میں اہم رول ہے،اس لئے ضرورت اس بات کی ہے کہ عوام ایک ہی سیاسی جماعت کو واضح منڈیٹ دیں تاکہ بیساکھیوں کے سہارا لینے کے بجائے ایک مضبوط حکومت قائم ہوسکے اورعوامی مفادات کے اور خواہشات کا احترام ہوسکے۔۔حالیہ ایام میں تباہ کن سیلاب نے ریاست کو تباہی کے دہانے پر پہنچایا ہے ۔انتخابات کے فوراً بعد نئی حکومت کے قیام کے ساتھ ہی سب سے اہم کام ریاست کی تعمیر نو ہے اور اس کیلئے ایک مضبوط حکومت کی ضرورت ہے ۔

(http://kashmiruzma.net/full_story.asp?Date=29_11_2014&ItemID=5&cat=5#.V7nO8imECM9)