Friday, April 20, 2012

Bakshi hoisted tri-colour for first time in 1953

Tahir syeed Srinagar, Aug 14: It was in 1953 when for the first time, tri-colour was hoisted in Kashmir Valley by then Prime Minister of Jammu and Kashmir Bakshi Ghulam Muhammad. This was disclosed by Ghulam Mohiudin Sofi, former political secretary of late Moulana Muhammad Sayeed Masoodi. Masoodi was the first Member Parliament from Kashmir. Sofi, who was trusted lieutenant of Masoodi told Greater Kashmir on Tuesday that prior to 1953 late Sheikh Muhammad Abdullah used to hoist state flag on August 15. “First time Bakshi Ghulam Muhammad hoisted the Indian tri-colour at Residency ground, now known as Municipal park,” he said. Sofi said that before 1953 not much importance was given to August 15, but after Bakshi took over, this day turned into an important day. “In 1953 Bakshi hoisted tri-colour and state flag but the state flag was on foot below the tri-colour,” Sofi said. He said Bakshi kept on hoisting two flags on August 15 till he was in power. “The trend of hoisting only tri-colour became a regular feature after Ghulam Muhammad Sadiq took over from Bakshi as Chief Minister of the state,” Sofi said. According to the historians in earlier days, the functions were held only in Srinagar and Jammu. (15 Aug 2008 Ensglish Daily Greater Kashmir)

Saturday, April 7, 2012

Members Jammu and Kashmir Constituent Assembly 1951


Members Jammu and Kashmir Constituent Assembly 1951

My Grand Father Moulana Anwar Masoodi and His Elder Brother Moulana Muhammad Syeed Masoodi can also be seen in this Picture .Both were member of Jammu and Kashmir Constituent Assembly 1951.

ڈپٹی کمشنر کپوارہ چیف سکریٹری سے فریادی..... ایڈیشنل کمشنر کشمیر پر رقومات کی واگذاری کیلئے نذرانہ طلب کرنے کا الزام

محمد طاہر سعید
سرینگر//اس بات کا انکشاف ہوا ہے کہ ڈسٹرکٹ ڈیولپمنٹ کمشنر کپوارہ نے چیف سکریٹری کے نام ایک خط روانہ کردیا ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ ایڈیشنل کمشنر کشمیر نے 2010میں کپوارہ میں آئے تباہ کن سیلاب سے ہوئے نقصانات کے ضمن میں رقومات کی فراہمی کو ممکن بنانے کیلئے غیر قانونی طور پر نذرانے کا تقاضہ کیا اور ناکامی کے نتیجے میں اپنے اختیارات سے تجاوزکرکے حکومت کو ایک غلط رپورٹ پیش کی۔ ڈپٹی کمشنر کپوارہ نے چیف سکریٹری سے استدعا کی ہے کہ اس پورے معاملے کی غیر جانبدار افسران کے ذریعے تحقیقات کی جائے تاکہ ایڈیشنل کمشنر کشمیر کے منفی ارادوں کی چھان بین کی جاسکے۔

ہوا کیا تھا؟

فلڈ کنٹرول، آر اینڈ بی ،پی ایچ ای اور بجلی محکموں کو ہوئے نقصانات کے بارے میں ڈپٹی کمشنر کپوارہ نے چیف سکریٹری کے نام جو خط روانہ کیاہے اس میں بتایا گیا ہے ’’28اور 29جولائی2010 کو کپوارہ میں شدید بارشو ں او ر بادل پھٹنے سے کئی علاقے سیلاب کی زد میں آگئے جس کے بعد وزیر اعلیٰ اور کئی وزراء نے متاثرہ علاقوں کا دورہ کیا اور متواتر میٹنگوں کے بعد فیصلہ لیا گیا کہ سیلاب کی وجہ سے جو نقصان ہوا ہے اس کی رپورٹ ڈویژنل کمشنر کشمیر کے آفس کے ذریعہ حکومت کو پیش کی جائے گی‘‘۔ضلع ترقیاتی کمشنر نے کپوارہ نے نقصان کی ایک رپورٹ زیر نمبر DDCK/FC/2010/4886-88بتاریخ 25اگست 2011 ڈویژنل کمشنر کشمیر کے آفس میں جمع کی۔ اس رپورٹ میں بتایا گیا کہ محکمہ آر اینڈ بی ،پی ایچ ای اور اریگیشن اینڈ فلڈ کنڑوں کے کاموں کو سیلاب کی وجہ سے 1126.74لاکھ روپے کا نقصان ہوا ہے، ڈی سی کپوارہ نے صوبائی انتظامیہ سے کہا ان کاموں کے لئے 1126.74لاکھ روپے واگذار کئے جائیں۔

ایڈیشنل کمشنر کشمیر کی رپورٹ

اے ڈی سی کشمیر نے ڈپٹی کمشنر کپوارہ کی رپورٹ کو خاطر میں لائے بغیر غیر قانونی طریقے سے ازخود ان کاموں کا جائزہ لیا حالانکہ اس کیلئے ڈویژنل کمشنر کشمیر ، فائنانشل کمشنر ریونیو، کمشنر سکریٹری محکمہ مال اور ڈپٹی کمشنر کپوارہ کو خاطر میں لائے بغیر کپوارہ کا دورہ کیا۔ ایڈیشنل کمشنر کشمیر عبدالمجید وانی نے ایک خط، زیر نمبر Div.comm/Misc/805بتاریخ 4اکتوبر 2011،جس کی کاپی کشمیر عظمیٰ کے پاس موجود ہے، میں ریاستی چیف سیکریٹری کو بتا یا ضلع ترقیاتی کمشنر کپوارہ نے 2010میں سیلاب کے دوران کاموں کو ہوئے نقصان اور ان کاموں کی جو فہرست پیش کی تھی وہ درست نہیں ہے بلکہ انہوں نے جائے موقعہ پر جاکر یہ پایا کہ صرف 10سے 20فیصد کاموں کو ہی نقصان پہنچا ہے۔ رپورٹ میں بتایا ہے کہ اُس نے کپوارہ جاکر وہاں کے لوگوں، سرپنچوں اور سرکاری ملازمین کے ساتھ بات چیت کی اور جن کاموں کی فہرست حکومت کی پیش کی گئی ہے وہ کام زمین پر کہیںدکھائی ہی نہیں دیتے اور اس بات کی کوشش کی گئی ہے کہ سرکاری خزانے کو خسارے سے دوچار کیا جائے۔ ایڈیشنل کمشنر نے جو چٹھی چیف سکریٹری کو روانہ کی اس میں اس بات کی سفارش کی گئی کہ ڈپٹی کمشنر کپوارہ کے آفس میں کام کررہے ملازمین اور خاص کر پلاننگ آفیسر کیخلاف کارروائی کی جائے کیونکہ انہوں نے حکومت کو غلط اعداد و شمار پر مبنی رپورٹ تیار کی لہٰذا اُن کیخلاف قانون کے مطابق کارروائی کی جائے نیز اس معاملے کی اعلیٰ سطح پر تحقیقات کی جائے۔ جب اے ڈی سی کشمیر کی چٹھی چیف سکریٹری کے پاس پہنچی تو اس کی ایک کاپی ڈپٹی کمشنر کپوارہ کو توثیق کیلئے بھیج دی گئی۔

ڈپٹی کمشنر کپوارہ کا جواب

ڈپٹی کمشنر کپوارہ نے چیف سیکریٹری کے نام جو خط روانہ کیا ہے اُس میںبتایا گیا ہے کہ ایڈیشنل کمشنر کشمیر عبد المجید وانی نے جوائنٹ ڈائریکٹر پلاننگ کپوارہ سے فائل کو آگے بڑھانے کے لئے رشوت طلب کی۔ خط زیر نمبر DCK/ PS/ 2011/ 8252-58 بتاریخ 9نومبر 2011 (جس کی ایک کاپی کشمیر عظمیٰ کے پاس موجود ہے) میں ڈی سی کپوارہ نے سنسنی خیز انکشاف کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ فائل اکتوبر 2011تک ایڈیشنل کمشنر عبد المجید وانی کے میز پر پڑی رہی۔ خط میں لکھا گیا ہے ’’ایڈیشنل کمشنر کشمیر نے ڈسٹرکٹ ڈیولپمنٹ کمشنر کپوارہ کے دفتر سے جوائنٹ ڈائریکٹر پلاننگ کو بلایا اور کاغذات کو آگے بڑھانے کیلئے غیر قانونی نذرانہ کا مطالبہ کیا‘‘۔ ڈی سی نے مزید لکھا ہے’’ اس معاملے کو آگے بڑھانے کے دوران انہوں نے قائمقام ڈویژنل کمشنر سمیت تمام آفیسران کو نظر انداز کیا اور مذکورہ آفیسر نے ڈپٹی کمشنر اور سپر انٹنڈنٹ آر اینڈ بی ، سپر انٹنڈنٹ ہائڈرولیک اور متعلقہ ایگزیکٹو انجینئروں ،جنہوں نے یہ رپورٹ تیار کی تھی ،کو نظر انداز کر کے پٹواریوں اور لائن مینوں پر انحصار کیا‘۔ انہوں نے لکھا ہے کہ ایڈیشنل کمشنر نے آر اینڈ بی سیکٹر میں جن کاموں کی نشاندہی کی ہے ا ن کیلئے نقصان کی رپورٹ میں فنڈس طلب نہیں کئے گئے ہیں جبکہ فلڈ کنٹرول اور پی ایچ ای سیکٹر میں جن کاموں کی نشاندہی کی گئی ہے ان کے لئے درکار رقم کو مذکورہ آفیسر نے زیادہ دکھا یا ہے جبکہ ہمارے دفتر نے ان کاموں کیلئے کم رقم مانگی تھی۔چیف سکریٹری کے نام خط میں ڈپٹی کمشنر نے بتایا ہے ’’28اور29جولائی 2010کو کپوارہ میں سیلاب سے جو تباہی ہوئی تھی اس کا جائزہ لینے کیلئے اس وقت وزیر آبپاشی و فلڈ کنٹرول، وزیر مملکت آر اینڈ بی اور وزیر مملکت مال اور ٹورازم نے ضلع کا دورئہ کیا تھا۔ اس کے بعد وزیر اعلیٰ نے سب سے زیادہ متاثر علاقوں کیرن اور کرناہ کا جائزہ لیا تھا، چیف سکریٹری جن کے ہمراہ کمشنر سکریٹری پلاننگ اور ڈویژنل کمشنر کشمیر بھی تھے، نے بھی 20اگست 2011کو نقصانات کا جائزہ لیا تھا،مرکزی سرکار کی ایک اعلیٰ سطحی افسران کی ٹیم کو 17اکتوبر کو اس ضمن میں تفصیلات پیش کی گئیں، ریاستی سرکار کو ایک مفصل رپورٹ پیش کی گئی جس کے بعد 29نومبر بورڈ میٹنگ کے دوران یہ معاملہ اُٹھایا گیا بعد ازاں وزیر اعلیٰ کی صدارت میں ہوئی میٹنگ کے دوران یہ معاملہ زیر غور آیا اور حکومت کی جانب سے کئی سطحوں پر غور و خوض کرنے کے بعد یہ محسوس کیا گیا کہ نقصانات کے ضمن میں مفصل طریقے سے لازمی قواعد کے تحت ایک رپورٹ ڈویژنل کمشنر کے ذریعے ریاستی سرکار کو بھیجی جائے، بعد ازاں ڈویژنل کمشنر اصغر سامون کی غیر حاضری میں ایک چٹھی (جس کا حوالہ اُوپر دیا گیا ہے) روانہ کی گئی لیکن رپورٹ کو ایڈیشنل کمشنر کشمیر نے اکتوبر تک اپنی میز پر رکھا اور اس ضمن میں کوئی کارروائی نہیں کی، بجائے اس کے کہ ضلع ترقیاتی کمشنر کی رپورٹ پر کارروائی کرنے کیلئے اسے حکومت کو بھیجا جاتا ایڈیشنل کمشنر نے دوکان داروں، پٹواریوں اور راہ چلتے لوگوں کے بیانات پر مبنی ایک رپورٹ تیار کی حتیٰ کہ مذکورہ آفیسر نے اس بات کی زحمت بھی گوارہ نہیںکہ ڈپٹی کمشنر کپوارہ کو اپنے اعتماد میں لیا جاتا یا پھر نقصانات کاجائزہ لینے کے حوالے سے ضلع کے کسی آفیسر سے رابطہ کیا جاتا، اتنا ہی نہیں سرکاری چینلوں کا سہارا لئے بغیر آفیسر نے ڈویژنل کمشنر، فائنانشل کمشنر، کمشنر سکریٹری، محکمہ مال اور دیگر متعلقین کو نظرانداز کرکے چیف سکریٹری کو غلط اعداد و شمار پر مبنی رپورٹ پیش کی، جس سے مسٹر وانی کے غلط ارادوں کا پتہ چلتا ہے‘‘۔اس خط میں ڈپٹی کمشنر نے ایڈیشنل کمشنر کشمیر کی جانب سے 6نکات کو مشکوک قرار دیتے ہوئے اُن کی نشاندہی کی اور چیف سکریٹری سے استدعا کی گئی کہ اس پورے معاملے کو ایڈیشنل کمشنر نے مشکوک بنادیا ہے لہٰذا غیر جانبدار افسران پر مشتمل ایک ٹیم تشکیل دی جائے جو سیلاب سے ہوئے نقصانات کے بارے میں تیار کی گئی اُس وقت کی رپورٹ کا جائزہ لیں نیز جو کام ہوئے ہیں، اُن کا مشاہدہ کریں ۔ تاکہ حقیقت سامنے آسکے۔ چیف سکریٹری سے یہ بھی گذارش کی گئی کہ یہ کام کم وقت میں کیا جائے تاکہ جن ایجنسیوں نے کام کئے ہیں اُنہیں اپنا معاوضہ دیا جاسکے۔