Wednesday, May 30, 2012

لل دید ہسپتال میں موجود موبائل ٹائور حاملہ خواتین اور نوزائیدہ بچوں کی صحت کا خیال رکھے بنا اجازت دی گئی


محمد طاہر سعید سرینگر//قوائد و ضوابط کو بالائے طاق رکھتے ہوئے ایک مواصلاتی کمپنی نے وادی کے واحد زچگی ہسپتال کے عقب میں موبائیل فون ٹاور نصب کیا ہے جس کا ماہرین کے مطابق حاملہ خواتین اور جنم لینے والے بچوں کی صحت پر منفی اثرات پڑ سکتے ہیں۔ لل دید ہسپتال جہاں 24گھنٹوں میں اوسطاً 70سے 80بچے جنم لیتے کے ایک وراڈ کے بالکل عقب میں ایک مواصلاتی کمپنی نے موبائیل ٹاور نصب کیا ہے۔ 500بستروں والے اس واحد بڑے زچگی ہسپتال میں وادی کے اطراف و اکناف سے خواتین کو منتقل کیا جاتا ہے اور یہاں مریضوں کا کافی رش لگا رہتا ہے۔اس بڑے ہسپتال کی انتظامیہ کی بے حسی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ ہسپتال کے ایک وارڈ کے بالکل عقب میں ہسپتال کے احاطے اندر ہی ایک مواصلاتی کمپنی کو موبائیل ٹاور بنانے کی اجازت دی گئی ہے جبکہ ماہرین کے مطابق موبائیل ٹاور ہسپتال یا کسی بھی رہائش گاہ سے 500میٹر کی دوری پر ہونا چاہیے کیونکہ موبائیل ٹاور سے نکلنے والی الیکٹرانک میگنیٹک شعاعوں سے انسانوں،جانوروں اور پودوںکے متاثر ہونے کی تصدیق ہوئی ہے۔ ماہرین کے مطابق یہ تابکاری شعاعیں دو سو سے تین سو میٹر کے ایریا میں مقیم افراد کو سماعت، بصارت پر منفی اثرات مرتب کرنے کے علاوہ ڈپریشن میں مبتلا کر سکتی ہیں جبکہ یہ عمل انتہائی سست رفتاری سے رونما ہوتا ہے۔ ماہر صحت ڈاکٹر نذیر مشتاق نے کشمیر عظمیٰ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ایسا باور کیا جاتا ہے کہ مو بائیل فون ٹاورز کے ذریعے موبائیل فون پر آنے والی یہ برق مقناطیسی لہریں ایک تسلسل کے ساتھ انسانی جسم کے خلیوں کو اپنا نشانہ بناتی ہیں اور انکے اس حملے سے ہمارے خلیوں ٹشو اور اعضاکے جنکشن پوائنٹ سمیت ہمارے سارے دماغی نظام پر منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔انہوں نے مزید بتایا تحقیق سے پتہ چلا ہے کہ موبائیل ٹاور کی شعائیںبڑوں کے مقابلے میں بچوں کے لئے زیادہ نقصان دہ ہوتی ہیں کیونکہ نشونما کا عمل ابتدائی دور میں مختلف مراحل سے گزر رہا ہوتا ہے اس لئے یہ تابکاری برقی مقناطیسی لہریں انہیں بہت جلد اپنا ہدف بنا کر مختلف امراض میں مبتلا کر سکتی ہیں کیونکہ ان موبائل ٹاورز کی تابکاری جسم میں میلونین کی مقدار کو کم کر دیتی ہیں۔ ماہرین کے مطابق اگر لیکٹرومیگنیٹک فیلڈز کم سطح کی بھی ہوں تو بھی تمام اقسام کے کینسر خاص کر دماغ کی رسولی، خون کا کینسر، امراض دل، ڈپریشن، سر درداور دیگر مسائل کا باعث بن سکتے ہیں ۔اس حوالے سے کشمیر عظمیٰ نے جب میڈکل سپر انٹنڈنٹ ڈاکٹر مشتا ق احمد سے رابطہ قائم کیا تو انہوں نے اس بات کی تصدیق کی کہ موبائیل ٹاور ہسپتال کے احاطے میں ہی کئی سال قبل نصب کیا گیا ہے تاہم یہ ایک سو میٹر سے زیادہ دور ہے۔انہوں نے کہا’’یہ ٹاور بہت پہلے نصب کیا گیا ہے تاہم میں دیکھ لوں گا کہ اس کی اجازت کیسے اور کن حالات میں دی گئی ہے‘‘۔

صدر ہسپتال کی تنگ دامنی… مریض ٹرالیوں ، سٹریچروں اور ویل چیئروں پر بستری

محمد طاہر سعید سرینگر//صدر ہسپتال میں چار دہائی قبل جتنے بستر لگائے گئے تھے آج بھی اتنے ہی بیڈ موجود ہیں جس کی وجہ سے مریضوں داخل کرنے کے بعد وئیل چیئروں پر بھی بٹھایا جارہا ہے جبکہ بعض وارڈوں میں ایک بیڈ پر 2دو مریضوں کا علاج بھی کیا جارہا ہے۔ ہسپتال میں دستیاب ریکارڈ کے مطابق ہسپتال میں 20وارڈ موجود ہیں جہاں پہلے 500بیڈ تھے لیکن بعد میں 250کا اضافہ کیا گیا تاہم یہاں روزانہ 200مریضوں کو داخل کیا جاتا ہے اور مریضوں کی تعداد بڑھنے سے اُن کیلئے نہ تو بیڈ کا انتظام ہوپاتا ہے اور نہ ہی انہیں معقول طبی سہولیات فراہم کی جاپاتی ہیں۔حتیٰ کہ صورتحال یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ مریضوں کو داخل کرنے کے بعد انہیں نہ صرف پہلے سے موجود مریضوں کے ساتھ رکھا جاتا ہے بلکہ ویل چیئروں اور سٹریچروں پر بھی رکھا جاتا ہے۔ اتنا ہی نہیں بلکہ بیشتر واڑوں میں ٹرالیوں پر بھی مریضوں کو رکھنے کیلئے استعمال میں لایا جاتا ہے۔وادی کے اطراف و اکناف سے اکثر مریضوں کو صدر ہسپتال ہی منتقل کیا جاتاہے تاہم صدر اسپتال میں جگہ کی کمی کی وجہ سے مریضوں کو سخت پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ صدر اسپتال کے ایک ڈاکٹر نے کشمیر عظمیٰ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ہر ایک اچھا اور مناسب علاج چاہتا ہے اس لئے لوگ مریض کو فوری طور پر سرینگر منتقل کرتے ہیں اور یہاں بھی انہیں مناسب علاج نہیں مل پاتا ہے جس کی بنیادی وجہ جگہ کی کمی ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہاں مریضوں کو بٹھانے کیلئے بیڈ بھی نہیں اور اکثر مریضوں کو ویل چیئر، فرش یا ٹرالیوں پر بٹھایا جاتا ہے۔ صدر اسپتال کے وارڈ نمبر 6میںبیڈ کی عدم موجودگی کی وجہ سے وئیل چیئر پر بٹھائے گئے ایک مریض بشیر احمد بٹ نے کشمیر عظمیٰ سے بات کرتے ہوئے کہا ’’مجھے اتوار کو ہسپتال پہنچایا گیاپہلے ایمرجنسی وارڈ اور بعد میں وارڈ نمبر 6میں منتقل کیا گیا لیکن یہاں بیڈ ہی موجود نہیں اور بعد میں مجھے ایک وئل چیئر فراہم کی گئی‘‘۔ بشیر احمدنے مزید بتا یا ’’ سوموار کو میری انڈاسکوپی بھی کی گئی اس کے بعد بھی مجھے بیڈ فراہم نہیں کیا گیا‘‘۔ بشیر کے مطابق انڈاسکوپی کے بعد اس کی حالت کافی خراب ہوچکی تھی اور پھر یہاں وارڈ میں ہی موجود ایک مریض نے کچھ وقت کیلئے مجھے اپنے بیڈ پر بٹھایا۔ وارڈ نمبر 6میں ہی داخل ایک مریض شوکت احمد نے کشمیر عظمیٰ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اسے دو روز قبل ہسپتال منتقل کیا گیا لیکن ابھی تک انہیں بیڈ فراہم نہیں کیا گیا جبکہ یہاں مختلف وارڈ وں میں داخل ایسے درجنوں مریض ہیں جنہیںبیڈ فراہم نہیں کئے گئے ہیں۔ویل چیئروں اور ٹرالیوں پر بٹھا گئے مریضوں کا کہنا ہے کہ انہوں نے متعدد بار ہسپتال انتظامیہ سے گزارش کی تھی کہ وہ انہیں بیڈ فراہم کریں تاہم انتظامیہ نے اُن سے یہ کہہ کر معذرت کا اظہار کیا کہ ہمارے پاس بیڈ ہی موجود نہیں ہیں۔ اس حوالے سے میڈکل سپر انٹنڈنٹ صد ر اسپتال ڈاکٹر نذیر احمد چودھری نے کشمیر عظمیٰ کو بتا یا کہ ہسپتال میں جگہ کی کمی ہے جبکہ مریضوں کا سخت رش لگا رہتا ہے۔ انہوں نے کہا ’’یہ سرکاری ہسپتال ہے اور ہم کسی کو یہاں آنے سے منع نہیں کرسکتے ہیں‘‘۔ میڈکل سپر انٹنڈنٹ کا کہنا تھا کہ مریضوں کے بڑھتے رش کے بعد حکومت نے مزید 200بستروں والا ایڈیشنل بلاک تعمیر کرنے کا فیصلہ کیا جو اس وقت زیر تعمیر ہے۔ انہوں نے کہا کہ جب تک ایڈیشنل بلاک تعمیر نہیں ہوتا تب تک ایسے مشکلات جاری رہ سکتے ہیں۔

Sunday, May 13, 2012

وجے ملہ کشمیر غزل گائیکی کی آبرو 9 مئی کو یہ آواز ہمیشہ کے لئے خاموش ہوگئی


محمد طاہر سعید زند ر زنہ باپتھ چھی مران لکھ ژ مرکھنا لوتہِ پاٹھی چیکھا پیالہ کیہواُف تِہ کرکھنا گیان پٹھ ایوارڈ یافتہ رحمان راہی کی شہرۂ آفاق غزل کا یہ شعر 10مئی کو کشمیری موسیقی سے محبت رکھنے والے ہرفرد کی زبان پر تھا کیونکہ جس شخص نے اپنی دلکش آواز سے اس غزل میں رنگ بھرا ہے وہ آواز ہمیشہ کے لئے خاموشی ہوچکی تھی۔ جی ہاں ہم بات کرہے ہیں نامور گلو کار اور کشمیری غزل گائیگی کے بے مثل فنکار اور کشمیری غلام علی کہلانے والے وجے کمار ملہ 9مئی 2012 کو چاہنے والوں کو ایک بڑا صدمہ دیکر ہارٹ اٹیک کے سبب جموں میں انتقال کر گئے۔56سالہ وجے ملہ کے پسماند گان میں سے ان کی اہلیہ رینو ملہ ‘ جن کا تعلق خود بھی سنگیت سے ہے‘ اور ایک بیٹا اور بیٹی شامل ہیں۔وجے کمار ملہ کا شمار ان چند گلو کاروں میں ہوتاہے جن کے منفرد لہجہ اور دلکش آوازنے کشمیری غزل کے تئیں نئی نسل کے رحجان کو مہمیز کیاجس کی وجہ سے کشمیری غزل آج نئی نسل میں بھی مقبول ہے۔وجے کمار ملہ نے کشمیری زبان میںغزل ،نعت ،بھجن اور لیلائیں گائیں۔اُنہوں نے انفرادی طور پر کشمیری موسیقی کے گایا اورکیلاش مہرا اور شمیمہ دیو کے ساتھ دوگانے بھی گائے ۔جو کافی مقبول عام ہوئے۔انہوں نے کئی اردو غزلیں بھی گائی ہیں جن میں جگرمراد آبادی کی مشہور غزل ’’اک لفظ محبت کا ادنیٰ سا فسانہ ہے ۔۔۔سمٹے تو دل عاشق ،پھیلے تو زمانہ ہے‘‘کافی مقبول ہوئی۔وجے ملہ جب پروفیسر رحمان راہی کا لکھا ہوا نعمہ’’ زند روزنہ باپتھ چھی مران لوکھ ژہ مرکھنا ،لئوت پاٹھ چکھا پیالہ کیو ہو اُف تے کرکھنا‘‘،کو جب اپنی دلکش اورمدھر آواز میں گایا تو اسے زبردست مقبولیت حاصل ہوئی، بلکہ اگر یہ کہا جائے کہ اس نے ریکارڈ توڑ دیئے تو غلط نہ ہوگاجو بعد میں کافی مقبول عام ہوااور فاروق نازکی کے مطابق اس غزل نے نہ صرف ملہ بلکہ کشمیری غزل کو بھی عروج فراہم کیا۔انہوں نے ’’ماں شیراںوالی‘‘ بجھن گیا جو اس قدر مقبول ہوا کہ وشنو دیوی مندر میں ہر خاص تقریب پر سنایاجاتا ہے۔وجے ملہ کو غزل گائیگی پر استادانہ مہارت حاصل تھی اور انہوں موجودہ دور کے کشمیری شاعروں کی درجنوں غزلیں گائی ہیں ۔ فلم اور میوزک انڈسٹری سے تعلق رکھنے والے کئی لوگ وجے ملہ کے چاہنے والوں میں شامل تھے۔بر صغیر کے عظیم اور پاکستان کے مشہور گلو کار حسین بخش نے وجے ملہ کے بارے میں ایک مرتبہ کہا تھاکہ ’ وجے کو سن کر میں نے اپنے رنگ کو محسوس کیا‘‘۔ملہ موسیقی کی دنیا میں کئی گلو کاروں کے استاد بھی رہے اور ان کے شاگرد وں کاشمار آج کشمیری کے معروف گلو کاروں میں ہوتا ہے۔معروف گلو کار ہ دپالی واتل نے کشمیر عظمیٰ سے بات کر تے ہوئے کہا ’’ مجھے ملہ صاحب کے شادگردوں کی صف میں شامل ہونے کا اعزاز حاصل ہے اور میں نے آنجہانی کے ساتھ درجنوں غزلیں ریکارڈ کروائیں‘‘۔ انہوں نے اس بات پر افسوس جتایا کہ ملہ صاحب کو حکومتی سطح پر وہ پذیرائی نہیں ملی جس کے وہ حق دار تھے اور وہ پچھلے کئی برسوں سے سفید پوشی کی زندگی بسرکر رہے تھے۔لیکن انہوں نے کبھی اپنی خودداری کا سودا نہیں کیا۔ انہوں نے کہا کہ ’’شہرت کے عروج پر ہونے کے باوجود وہ سروال جموں میں ایک کرائے کے مکان میں مقیم تھے‘‘میوزک کمپو زر خالد میر کے مطابق ملہ صاحب نے ریاست میں غزل گائیکی کی ایک خاموش تحریک شروع کی تھی جو مستقبل قریب میں ضرورایک غیر معمولی ادارہ بن کر سامنے آئے گا‘‘۔انہوں نے کہا کہ2007 میں جب انہوں نے وجے ملہ اور پاکستان کے عظیم گلو کار حسین بخش کی ملاقات کروائی تو آنجہانی کو سن کے حسین بخش نے کہا کہ ’’ میں نے وجے میں اپنا رنگ محسوس کیا ‘‘۔ملہ نے کشمیری غزل کو ملک کی مختلف ریاستوںمیں ہو نے والے’’ جشن کشمیر ‘‘ پروگراموں میں اْستادانہ مہارت کے ساتھ پیش کیا اورفن کے اساتذہ سے غیر معمولی داد وصول کی۔معروف ادیب اور سابق ڈپٹی ڈائریکٹر جنرل دور درشن فاروق نازکی نے کشمیر عظمیٰ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ کشمیری موسیقی کو بیسویں اور اکیسویں صدی کے دور میں جو آوازیں ملی ہیںان میںوجے ملہ کی آواز بھی شامل ہے ۔انہوںنے کہا ’’ہلکی موسیقی اور مہجور کے کلام کو گراما فون کے ذریعہ سب سے پہلے لوگوں تک پہنچانے والے محمود شہری تھے اس کے بعد یہ سلسلہ صوفی غلام محمد نے آگے بڑھایا ‘‘اور ان کے بارے میں ایک بار محمد رفیع نے کہا تھا اگر صوفی مجھ سے پہلے بمبئی آئے ہوتے تو محمد رفیع کا وجود نہیں ہوتا اور پھر اس موسیقی کو وجے ملہ نے آگے بڑھایا۔انہوں نے کہا’’کئی لوگ آئے اور چلے گئے لیکن وجے کمار ملہ نے اپنی ایک الگ شناخت قائم کی اور ایک ایسے وقت پر جب اردد غزل کی دنیا میں مہدی حسن اور جگجیت سنگھ کا طوطی بول رہا تھا اُس وقت ملہ نے کشمیری غزل کو ایک نئی جان عطا کی‘‘۔7فروری 1956کو حبہ کدل سرینگر میں پیدا ہوئے وجے ملہ نے نہایت ہی سادہ زندگی بسر کی ۔انہو ں نے موسیقی کی تربیت برج کرشن شاعر اور پنڈت جگن ناتھ شیو پوری سے حاصل کی، جس کے بعد انہوںنے 1982میں مرکزی ادارے سانگ اینڈ ڈرامہ ڈویژن میں بحثیت سٹاف آرٹسٹ نوکری اختیارکی۔انہوں نے موسیقی کی ابتدائی تربیت پریم سنگیت نکیتن سرینگر سے حاصل کی اور اس کے بعد وہ1985میں ممبئی چلے گئے جہاں انہوں نے 3سال تک بھارت کے معروف گلوکاروں کے ساتھ کام کیا ،لیکن بعد میں صحت کی خرابی کی وجہ سے وہ واپس ریاست چلے آئے۔انہوں نے ممبئی کے معروف گلوکاروں انوپ جلوٹااور ہری ہرن کے ساتھ بھی کام کیا ہے۔موصوف نے گانے کے ساتھ ساتھ میوزک ڈائریکٹر کی حیثیت سے بھی کام کیا۔ان کا میوزک البم ’’جستجو‘‘1992میں منظر عام پر آیا ۔انہیں 1995میں مرکزی وزارت اطلاعات و نشریات نے موسیقی کے میدان میں گراں قدر خدمات کے اعتراف میں ’اکھل بھارتیہ میوزک ایوارڈ ،سے بھی نوازا تھالیکن جس وجے ملہ نے کشمیری موسیقی کو ایک خول سے باہر نکال کر جدید خطوط پراستوار کرنے میں اہم کردار ادا کیا اُس کی مُدھر اور دلکش آواز کبھی بھی ریاستی حکومت کے کانوں تک نہیںپہنچی ۔مشہور میوزک ڈائریکٹر و نود چوپڑا کا کہنا ہے کہ ’’وجے ملہ کو سنگیت کی دنیا میں عزت کی نگاہوں سے دیکھا جاتاتھا لیکن ان کے حوالے سے ریاستی حکومت کا رویہ ٹھیک نہیں تھا‘‘۔بہرحال زندگی کے کئی اتار چڑھائو دیکھنے کے بعد ملہ کی زندگی کا سفر 9مئی کو ختم ہوا ۔جس سے ریاست اور بیرون کشمیری موسیقی کے دلدادوں کو گہرا صدمہ پہنچا ہے۔ وجے ملہ کی مکمل تجیم علی سردار جعفری کے اس شعر میں دیکھی جاسکتی ہے۔ پنے نغمہ پہ تجھے ناز ہو کہ نہ ہو نغمہ اس بات پر نازاں ہے کہ فن تیرا ہے