Friday, January 27, 2012

جنوری 1994:جب کپوارہ خون میں نہلایا گیا

محمد طاہر سعید، اشرف چراغ
کپوارہ//18سال قبل 27جنوری 1994کا دن آج ہی کی طرح سرد تھااور صبح کہرے کی چادر نے آسمان کو لپیٹ لیا تھایہ وہ دن تھا جب کپوارہ کو معصوم شہریوں کے خون سے نہلایا گیا ۔کپوارہ کے لوگ اس دن کو اپنی زندگی کا منحوس دن تصور کررہے ہیں اور مہلوکین کے لواحقین کو انصاف کی دہائی دیتے ہوئے بے گناہوں کی یاد میں خون کے آنسو رورہے ہیں 27جنوری 1994کو لوگ معمول کے مطابق کام کاج کیلئے نکلے تھے اور لوگوں کی ایک بڑی تعداد سردی کے باجود ضلع ہیڈکوارٹر کپوارہ میں تھے اور صبح 10بجکر 45منٹ پر فوج نے بنا کسی وجہ کے لوگوں پر براہ راست گولیاں برسائیں ۔فائر نگ کا سلسلہ اُس وقت تک جاری رکھاگیا جب تک نہ فوجی اہلکاروں نے 27 افراد کوموت کی نیند سلا دیا جن میں دکاندار، پولیس اہلکار اورضلع ترقیاتی کمشنر کپوارہ کے دفاتر کے ملازمین شامل تھے جبکہ سینکڑوں لوگ زخمی ہوئے۔ایک عینی شاہد محمد عبداللہ کا کہنا ہے ’’26جنوری کو مزاحمتی قیادت نے مکمل ہڑتال کی کال دی تھی لیکن فوج کی 15پنجاب سکھ لائی یونٹ نے لوگوں کو پہلے ہی متنبہ کیا تھا کہ اگر انہوں نے ہڑتال کی تو اس کے سنگین نتائج سامنے آئیں گے‘‘محمد عبدااللہ کا کہنا ہے’’صبح دس بجکر 45 منٹ پرکپوارہ بائی پاس روڈ سے فوج کی ایک کانوائی جارہی تھی اور اس دوران اس علاقے میں فائرنگ کی آوازیں سنائی دیں۔لوگ ابھی یہ سمجھنے کی کوشش ہی کررہے تھے کہ فائرنگ کی آوازیں کہاں سے آرہی ہیں تو اِسی دوران کپوارہ بازار میں ہرطرف فوج نے بندوقوں کے دہانے کھول دیئے گئے اور لوگ اپنی جان بچانے کیلئے اِدھر اُدھر بھاگنے لگے۔ کپوارہ قصبہ کے نزدیک ایک پہاڑی پر ملہ پوسٹ ،پاپا2، وین اورریگی پورہ ٹاپ پرموجودفوجی بنکروں سے فائرنگ کی گئی جن کا نشانہ براہِ راست کپوارہ بازار میں موجود عام لوگ تھے اور اس کے علاوہ اولڈ برج پرقائم پولیس پوسٹ کو بھی نشانہ بنایاگیا،جب 20منٹ بعد فائیرینگ تھم گئی تو27 افراد کی لاشیں کپوارہ بازار میں بکھری پڑی تھیں‘‘۔عینی شاہد کا مزید کہنا ہے کہ تقریباً ساڑھے گیارہ بجے کے بعد لوگوں کو حکم دیا گیا کہ وہ شناختی پریڈ کے لئے اپنی گھروں سے باہر آئیں ‘‘۔ایک اور شاہد غلام نبی کا کہنا ہے ’’۔ڈی سی آفس کپوارہ کا ایک ملازم خضر محمدکوڑا کرکٹ کے ایک ڈھیر میں چھپا بیٹھا تھا، فوجی اہلکاروں نے اُسے وہاں سے گھسیٹ کر لایا اور گولیاں مار دیں۔ گلگام کپوارہ کے ایک فاریسٹ گارڈ غلام محمد میر کو اس بناء پر قتل کر دیاگیا کیونکہ اُس نے خاکی وردی پہنی تھی اور فوجی اہلکار اُسے پولیس جوان سمجھ بیٹھے۔مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ یہ قتل عام اس وجہ سے کیا گیاکیونکہ پولیس اور فوج کے درمیان محاذ آرائی چل رہی تھی، جو25جنوری کو اس وقت شروع ہوئی جب ایک پولیس کانسٹیبل اور ایک فوجی آفیسر کے درمیان ہاتھا پائی ہوئی۔بتایا جاتا ہے کہ کانوائی کی ایک گاڑی ایک بزرگ راہگیرکو کچلنے جارہی تھی تو اِس موقعہ پرفوجی اہلکاروں نے مذکورہ شہری کی مار پیٹ کی۔اس واقعہ کے نتیجے میں ایک پولیس کانسٹیبل نے مزاحمت کی، جسکی بناء پراُسکی ایک آفیسر کے ساتھ لڑائی ہوئی۔چنانچہ فوجی آفیسر نے پولیس اہلکار کو سنگین نتائج بھگتنے کی دھمکی دی اور اس کے بعد کپوارہ میں 26کی گئی ہڑتال کی وجہ سے فوج کے غصہ میں مزید اضافہ ہوگیا‘‘۔ چشم دید گواہ حبیب الہ میر کا کہنا ہے’’27جنوری کو شب برات تھی اور لوگ ضروری ساز و سامان خریدنے کے لئے کپوارہ آئے تھے ۔انہوں نے کہا’’میں اقبال مارکیٹ میں سامان خریدرہا تھاجس دوران اچانک فائیرینگ شروع ہوئی لوگ اپنی جان بچانے کے لئے محفوظ مقامات کی طرف بھاگنے لگے اور میں مقامی مندر میں گھس گیا باہر نکلنے بعد میں نے کپوارہ میں جگہ جگہ پر لاشیں بکھری ہوئیں دیکھیں‘‘۔ایک مقامی سینئر آفیسر ، جو اس واقعہ کا چشم دید گواہ تھا، نے اُس وقت فوج کو موردالزام ٹھہرایا تھا جسکے بعدفوج نے اسے گرفتار کیاتھاپولیس نے اس واقعہ کے سلسلے میں ایف آئی آر زیر نمبر13/94بتاریخ 27جنوری 1994زیر دفعہ 302/307درج کیا ہے۔ ایف آئی آر میں لکھاگیا ہے ’’31میڈیم ریجمنٹ سے وابستہ اہلکارفیلڈ آفیسر ایس بخشی کی سربراہی میں روڈ اوپننگ پارٹی پر مامور تھے،اور انہوں نے کپوارہ مارکیٹ اور اس کے گرد و نواح اندھادھندفائرنگ کر کے متعدد لوگوں کو ہلاک کیا‘‘۔ تاہم فوج نے اُس وقت کہا کہ 27شہریوں کی ہلاکت اُس وقت ہوئی جب ایک فوجی کانوائی پرجنگجوئوں نے حملہ کیا جسکے بعد طرفین کے مابین گولیوں کا تبادلہ ہوا ۔اس واقعہ کو اگرچہ 18سال ہوگئے ہیں لیکن مہلوکین کے لواحقین آج بھی انصاف کی دہائی رہے ہیں ۔لواحقین کا کہنا ہے کہ اس کیس کو بالکل بند کر دیا گیا ہے اور واقعہ میں ملوث افراد کی نشاندہی بھی ہوچکی ہے لیکن ابھی تک انہیں کوئی سزا نہیں دی گئی۔

جنوری1990…جب ہندوارہ میں قیامت صغریٰ بپا ہوئی تھی

محمد طاہر سعید
سرینگر//21جنوری1990 کو گائو کدل میں سی آر پی ایف کے ہاتھوں 52 معصوم شہریوں کی ہلاکت کے زخم ابھی تازہ ہی تھے کہ محض چار دن بعدیعنی 25جنوری کو شمالی کشمیر کے ہندوارہ قصبہ میں سرحدی حفاظتی دستہ(بی ایس ایف)کے ہاتھوں 17نہتے اور معصوم لوگ جاں بحق ہوئے۔یہ وہ وقت تھا جب مسلح تحریک اسکے جوبن پر تھی اور اسے بے پناہ عوامی مقبولیت حاصل تھی۔ وادی کے دیگر علاقوں کی طرح اس روز شمالی کشمیر کے ہندوارہ میں لوگوں نے تحریک کے حق میںایک جلوس نکالا اورصبح آٹھ بجے سے ہی علاقہ رامحال ،راجواڑ ،کنڈی بلاک ،پہرو پیٹھ ،ماور ،قاضی آباد اور ملحقہ علاقوں کے لوگوں نے ہندوارہ کا رُخ کیا۔ا س واقعہ کے چشم دید گواہ خضر محمد کا کہنا ’’لوگ ہندوارہ چوک سے ہائر سکنڈری سکول کے احاطہ کی طرف جارہے تھے جہاں انہیں جمع ہونا تھا اس دوران وہاں سے وارپورہ ہندوارہ میں تعینات بی ایس ایف کی 125بٹالین کی ایک گاڑی زیر نمبر HYN7717 گزری جس میں پولیس سٹیشن ہندوارہ میں موجودہ بی ایس ایف اہلکاروں اور ایک سیاسی لیڈر کی رہائش گاہ کی حفاظت پر معمور اہلکاروں کے لئے کھانا لے جا رہے تھے ‘‘یہ گاڑی ہندوارہ چوک سے ہزاروں کی تعداد میں جمع لوگوں کے درمیان سے نکلی لیکن کسی نے بھی ان کے ساتھ کوئی چھیڑ چھاڑ نہیں کی تاہم لوگ نعرے بازی کر رہے تھے جوں ہی گاڑی ہندوارہ پولیس سٹیشن کے سامنے پہنچ گئی تو گاڑی میں موجود اہلکاروں نے پہلے ہوا میں فائیرینگ کی جس پر لوگ مشتعل ہوئے اور گاڑی کو کئی میٹر دور کھینچ کر نذرآتش کیا۔گاڑی کو نذرآتش کرنے کی قبل ہی بی ایس ایف اہلکاروں نے جلوس میں شامل لوگوں پر براہ راست فائرنگ کی ،اتنا ہی نہیں جہاں جہاں بھی چوک میں بی ایس ایف کے اہلکار موجود تھے انہوں نے مظاہرین پر فائرنگ کی جس کے نتیجے میں 6افراد موقعہ پر ہی ہلاک اور ایک سو کے قریب افراد زخمی ہوئے ۔بی ایف ایف اہلکار ضلع ہسپتال ہندوارہ ،جامع قدیم ،جامع جدید ،بانڈے محلہ ،ہیر پورہ ،کھنہ بل میں فائرنگ کرتے ہوئے داخل ہوئے اور تقریباً دن کے دو بجے تک زخمیوں کو اٹھانے کی اجازت تک بھی نہیں دی گئی جس کی وجہ سے مرنے والوں کی تعداد 6سے بڑھ کر 17ہوگئی جبکہ 73افراد زخمی ہوئے۔ایک او ر عینی شاہد محمد شفیع کے مطابق’’وہ تو قیامت صغریٰ تھی ،ہر طرف لاشوں اور زخمیوں کے ڈھیر ،جگہ جگہ خون کے نشانات،اپنے عزیز و اقارب کی تلاش میں خواتین کی آہ و بکا،ایمبولنس گاڑیوں کی آواز ،اہل ہندوارہ یہ دن کبھی نہیں بھول سکتے ‘‘۔لوگوں پر براہ راست فائیرینگ کے بعد بی ایف اہلکاروں نے پورے چوک اپنے قبضے میں لے لیا اور صبح دس بجے سے لیکر دن کے دو بجے تک لاشوں کو اٹھانے کی اجازت تک نہیں دی گئی اور نہ ہی زخمیوں کو ہسپتال منتقل کرنے دیا گیا۔اس واقعہ کے بعد ہندوارہ میں ایک ہفتہ مسلسل کر فیو رہا ۔پولیس نے اس سلسلے میں ایک ایف آئی آر زیر نمبر 10۔1990بتاریخ 26جنوری 1990زیر دفعہ ,151,53A,435,436,148,149,336,427,307درج کیا۔مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ اس واقعہ میں بی ایس ایف کی 125بٹالین کے اہلکار ملوث ہیں لیکن آج تک ان کے خلاف کوئی کاروائی نہیں کی گئی۔شہداء ہندوارہ کو ہر سال ان کی برسیوں پر یاد کیا جاتا ہے اس سلسلے آج 25جنوری کو جامع قدیم ہندوارہ میںشہداء کو خراج عقیدت اور فاتحہ خوانی ہوگی۔(ہندوارہ سے جاوید زرگر کے ساتھ)

جنوری 1990:جب گاﺅ کدل مقتل میں تبدیل ہوا تھا


محمد طاہر سعید
سرینگر//گاﺅکدل قتل عام کو 22سال گزر گئے ہیں لیکن اس واقعہ کے زخم ابھی بھی تازہ ہیں اور ایسا لگتا ہے جیسے یہ واقعہ کل پیش آیاہے۔ 1990 جب ریاست میں عسکری تحریک اپنے جوبن پر تھی اور لوگوں کے جذبہ آزادی میں دن بدن اضافہ ہوتا جارہا تھا اور اس صورتحال کو بھانپتے ہوئے نئی دلی نے جگموہن کو ریاست کا گورنر بنا کر بھیجا ۔19جنوری کو نئی دلی نے جگموہن کو ریاست کا گورنر نامزد کیا اور ان کے نامزدگی کے صرف ایک روز بعد سی آر پی ایف کے ہاتھوں کشمیریوں کے قتل عام کا پہلا اور بڑا واقعہ پیش آیا۔اس واقعہ میں 52شہری ہلاک اور سینکڑوں زخمی ہوگئے۔21جنوری 1990کو وادی میںسخت سردی تھی لیکن عسکری تحریک دن بدن گرم ہوتی جارہی تھی،اس روز موسم صاف تھا مگر کرفیو کی وجہ سے لوگ اپنے گھروں میں سہمے ہوئے تھے اس دوران شہر کے پادشاہی باغ سے لوگوں نے ایک جلوس نکالا یہ جلوس جواہر نگر اور راجباغ سے ہوتے ہوئے گاﺅ کدل پہنچ گیا ۔دن کے دو بجے اس پرُامن جلو س پر سی آر پی ایف نے فائیرینگ کر کے گاﺅکدل کو مقتل میں تبدیل کی۔اس واقعہ کے چشم دید گواہ بسنت باغ کے ارشد احمد بٹ کا کہنا ہے”شہر میں کریک ڈاون اور گھر گھر تلاشیوں کے بعد کر فیو تھا،سول لائز سے ایک جلوس نکالا گیا جو گاﺅ کدل پہنچتے پہنچتے ایک بڑے جلوس کی شکل اختیار کر گیا،جلوس میں شامل لوگ جوں ہی گاﺅکدل پل پار کر کے نئی سڑک کے قریب پہنچ گئے تو سی آر پی ایف اہلکاروں نے دونوں طرف سے فائیرینگ شروع کی “ ۔اس قتل عام کے واقعہ کو دھراتے ہوئے ارشد کہتے ہیں” میں نے یہ منظر خود اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے،سی آر پی ایف اہلکاروں نے لوگوں پر براہ راست بندوق کے دھانے کھول دئے،کچھ لوگ موقعہ پر ہی ہلاک ہوئے اور کچھ زخمی حالت میں وہیں گر گئے ,یہ صورتحال تقریبا دس منٹ تک جاری رہی اس کے بعد سی آر پی ایف اہلکار گاڑیوں میں آگئے اور زخمیوں پر گولیاں چلائیں اتنا ہی نہیں انہوں نے لاشوں کے ساتھ بے حرمتی بھی کی ،باقی لوگ گلیوں اور کوچوں سے بھاگنے میں کامیاب ہوئے“۔ارشد کے مطابق ”یہ جلیانوالہ باغ قتل عام کو دوسرا منظر تھا ،سی آر پی ایف نے پر امن لوگوں پر فائیرینگ کی اور ایسا لگ رہا تھا کہ عام لوگوں کے قتل عام ایک منصوبہ بند طریقے سے کیا گیا کیونکہ پہلے لوگوں کو گاﺅ کدل پُل پار کرنے کی اجازت دی گئی اور لوگوں نے جوں ہی پُل پار کیا اور کچھ نئی سڑک پہنچ گئے تو دونوں تک سے سی آر پی ایف اہلکاروں نے اندھا دھند فائیرینگ کی“۔گاﺅ کدل قتل عام میں پیش آئے ایک خاص واقعہ کا ذکر کرتے ہوئے ارشد کہتے ہیں ”جب سی آر پی ایف اہلکاروں نے گولیاں چلانی شروع کیں تو کورٹ روڑ سرینگر کے ایک ٹیکسی ڈرائیور فاروق احمد شیخ جو نہایت طاقتوں اور جسیم تھا ،نے سی آر پی ایف اہلکار کی ایل ایم جی کے دھانے کو پکڑ کر اسے اپنے سینے پر لیا اور باقی لوگوں کو مرنے سے بچا لیا،جب ہم نے فاروق کی لاش کو اٹھایا اس کا بدن گولیوں سے چھیلنی تھا اور اس کے دونوں ہاتھ متواتر گولیاں چلنے سے آگ کی طرح تبتی ہوئی بندوق کی ناکلی پکڑے رکھنے سے جل چکے تھے“۔ارشد کا کہنا ہے کہ تقریباً آدھے گھنٹے کے بعد مقامی لوگوں نے ہمت اور حوصلے کا مظاہرہ کرتے ہوئے لاشوں اور زخمیوں کو د ریائے جہلم میں کشتیوں میں سوار کر کے انہیں ٹیکنی پورہ پہنچایا جہاں سے انہیں آٹو اور گاڑیوں میں بھر کر شہر کے مختلف ہسپتالوں تک پہنچا دیا گیا۔انہوں نے مزید کہا کہ گاﺅ کدل پل سے نئی سڑک تک ہزاروں کی تعداد میں جوتے تھے جو لوگوں نے بھاگنے کے دوران وہیں چھوڑ دے۔ارشد بٹ کا کہنا ”میں یہ سانحہ زندگی بھر کبھی بھول نہیں سکتا ،اس واقعہ کا میرے ذہن پر ایک گہرا اثر پڑ چکا ہے،میں نے لوگوں کو گولیاں لگتے ہوئے،گرتے ہوئے اور زخمیوں کو اٹھاتے ہوئے خود اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے اور یہ واقعہ آج بھی میرے ذہن میں تازہ ہے اور جو زخم لگا ہے وہ آج بھی ہرا ہے“۔ارشد کی عمر اب چالیس سال کے قریب ہے لیکن ان کا کہنا ”مجھے لگتا ہت کہ یہ کل کا واقعہ ہے ،جب بھی میں کبھی اس کے بارے میں سوچتا ہوں تو میرا بدن لرز اٹھتا ہے ،اس قتل عام کا مقصد ہی کشمیریوں کو خوف زدہ کرنا تھا کیونکہ اس وقت عسکری تحریک اپنے جو بن پر تھی اور لوگ بڑی تیزی کے ساتھ اس تحریک کے ساتھ منسلک ہورہے تھے “۔

ایس آر ٹی سی…اونٹ رے اونٹ تیری کون سی کل سیدھی............ گاڑیاں معمولی خرابی کی بناپہ ورکشاپوں میں مہینوں سے گردچاٹ رہی ہیں

محمد طاہر سعید
سرینگر//جموں وکشمیر سٹیٹ روڑ ٹرانسپورٹ کارپویشن کی غلط پالیسی وجہ سے کارپویشن کی تقریباً دو سو گاڑیاں معمولی خرابی کے باوجود مہینوں سے مختلف ورکشاپوں میں پڑی ہوئی ہیں ۔باوثوق ذرائع نے کشمیر عظمیٰ کوبتا یاکارپویشن کی پرچیزینگ کمیٹی کے حوالے سے جو نئی پالیسی اپنائی گئی ہے اس کی وجہ سے گاڑیاں ہفتوں اور مہینوں ورک شاپوں میں پڑی رہتی ہیں۔ذرائع نے بتا یا کہ ڈیپارٹمنٹل پرچیزینگ کمیٹی (اول)کے تحت کارپویشن براہ راست کمپنیوں سے پرزے حاصل کرتی تھی اور گاڑی میں خرابی پیدا ہونے کے بعد چند ہی گھنٹوں میں گاڑی کو ٹھیک کیا جاتا تھا تاہم ڈیپارٹمنٹل پرچیزینگ کمیٹی (دوم)کے تحت پرزوں کی تبدیلی کیلئے پہلے چار منیجروں سے اجازت حاصل کرنا پڑتی ہے اور یہ منجیر مختلف مقامات پر تعینات ہیں اور ان سے اجازت حاصل کرنے میں ہفتے لگ جاتے ہیں ۔ذرائع کا کہنا ہے کہ اس پالیسی کی وجہ سے گاڑیاں معمولی خرابی کے باعث ہفتوں اور کبھی کبھار مہینوں ورک شاپ میں پڑی رہتی ہیں جس کی وجہ سے کارپویشن کو لاکھوں روپے کا خسارہ اٹھانا پڑتا ہے۔ذرائع کے مطابق کارپویشن کی ایک نیو روم گاڑی زیر نمبر JK01Y-612 پانچ ماہ سے خرابی کے باعث ٹورسٹ سنٹر میں پڑی ہوئی ہے۔ذرائع نے مزید بتا یا کہ اس گاڑی سے کارپویشن کو روانہ 8550روپے حاصل ہوتے ہیں اور اس گاڑی کو ٹھیک کرنے میں صرف 15ہزار روپے کا خرچہ آتا ہے۔ذرائع نے بتا یا کہ تیس ہزاری نئی دلی سے سرینگر تک چلنے والی ایک سلیپر بس کی پریشر بال میں حال ہی میں کچھ خرابی پیدا ہوئی اور اسے ٹھیک کرنے میں صرف 20ہزارروپے لگ جاتے تھے جبکہ یہ آنے اور جانے میں اس گاڑی کی آمدنی 70ہزار روپے ہیں لیکن کارپویشن کی غلط پالیسی کی وجہ سے یہ گاڑی 19روز تک ورک شاپ میں پڑی رہی جس کی وجہ کارپویشن لاکھوں روپے کا نقصان ہوگیا۔ذرائع کا کہنا ہے کہ اس کارپویشن کے مختلف ورک شاپوں میں دو سو کے قریب گاڑیاں ،جن میں ٹرک اور دیگر چھوٹی بڑی گاڑیاں شامل ہیں،خرابی کے باعث پڑی ہوئی ہیں جو معمولی مرمت کے بعد قابل استعمال بن سکتی ہیں اور اس سے کارپویشن کی آمدنی میں بھی اضافہ ہوگاجبکہ برفباری کے موسم میں دور دراز علاقوں کے لئے ان گاڑیاں استعمال میں بھی لایا جا سکتا ہے۔جموں کشمیر سٹیٹ روڑ ٹرانسپورٹ کارپویشن ورکرز یونین کے چیر مین شکیل احمد کوچھے نے اس حوالے سے کشمیر عظمیٰ کو بتا یا یونین کا بہت دیر سے یہ مطالبہ رہا ہے کہ گاڑیوں کی مرمت کے حوالے سے محکمہ کو اپنی پالیسی میں تبدیلی لانی چاہیے کیونکہ اس پالیسی کی وجہ سے گاڑیاں ورکشاپوں میں پڑی رہتی ہیں اور کارپویشن کو خسارہ اٹھانا پڑتا ہے۔انہوں نے کہا’’اس حوالے محکمہ کو نئی پالیسی اپنا کر اختیار ات کو غیر مرکوز کرنا چاہیے تاکہ ایک معمولی پرزے کے لئے ڈرائیور کو منیجروں کے دفاتر کے چکر نہ کاٹنا پڑے۔انہوں نے کہا ’’ایک معمولی سے میٹنگ کے لئے کارپویشن کے ایک درجن آفیسران کو جموں طلب کیا گیا ہے اور ان کے آنے جانے میں کارپویشن کو لاکھوں روپے کا بوجھ اٹھانا ہے اور اس سلسلے میں کوئی جوابدہی بھی نہیں ہے۔انہوں نے کہا’’اگر اس وقت کارپویشن خسارے میں ہے تو پھر آفیسر ان کو جموں طلب کر کے ان کے ہوائی سفر پر لاکھوں روپے خرچ کرنے کا مطلب ہے ،اگر یہ لوگ کارپویشن کو مالی خسارے سے بچانے میں واقعی سنجیدہ ہیں تو پھر انہیں یہ رقومات خراب گاڑیوں پر خرچ کر کے انہیں قابل آمد و رفت بنانا چاہئے اس سے نہ صرف کارپویشن مالی خسارے سے بچ سکتی ہے بلکہ مستقبل میں ایسی ہوائی سفر بھی برداشت کر سکتی ہے‘‘۔اس حوالے سے کشمیر عظمیٰ نے ٹرانسپورٹ کے وزیر قمر علی آخون کے ساتھ رابطہ قائم کرنے کی کوشش کی لیکن ان کے ساتھ رابطہ نہ ہوسکا۔

جمہوریت پنپنے دی گئی نہ لوگوں کونمائندے چننے کا موقعہ دیا گیا .......ریاست کوقیدخانے میں تبدیل کیاگیا

محمد طاہر سعید

سرینگر//پی ڈی پی سرپرست اورسابق وزیراعلیٰ مفتی محمد سعید نے کہا ہ

ے کہ 1947میں ہند وپاک کی آزادی کیساتھ ہی جموں وکشمیر قید خانہ کی شکل اختیار کر گیا اور یہاں نہ تو جمہوریت کو پنپنے دیا گیااور نہ ہی لوگوں کو اپنے پسند کے نمائندے کو چننے کا موقعہ دیا گیا۔ پی ڈی پی کے یوم تاسیس کے موقعہ پر پارٹی ہیڈ کوارٹر پر منعقدہ ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے مفتی محمد سعید نے کہاکہ 1947میں برصغیر ہند و پاک کی آزادی کیساتھ ہی جموں وکشمیرقید خانے کی شکل اختیار کرگیا۔انہوں نے کہا ’’بیرونی سطح پر ہمارے تمام روایتی راستے بند کر دیئے گئے جو ہماری ریاست کی ترقی میں بڑی رکاوٹ بن گئے بلکہ اندرونی سطح پر کبھی جمہوریت کو پنپنے کا موقعہ ہی نہیں دیا گیا،اظہاررائے پر قدغن لگائی گئی اور انتخابات میں دھاندلیاں کی گئیں حتیٰ کہ آئین ساز اسمبلی ،جسے ریاستی عوام کی تقدیر کا فیصلہ کرنا تھا، کے ممبران بلا مقابلہ کامیاب قرار دئے گئے اور اس کیلئے بھی انتخابات نہیں ہونے دیئے گئے‘‘۔انہوں نے کہا کہ یہاں کئی دہائیوں تک ایک پارٹی نظام چلتا رہا جس نے ریاست کے سیاسی منظرنامے پر مزید اندھیرے کا اضافہ کردیا تاہم 1999میںپی ڈی پی کی بنیاد ڈالی گئی جس نے اسے سنگین چیلنج دیا ۔پی ڈی پی کے وجود کو ریاست کی جمہوری تاریخ میں ایک ٹرننگ پوائنٹ قرار دیتے ہوئے انہوںنے کہا ’’پی ڈی پی نے سیاسی منظرنامے پر اہم تبدیلیاں لائیں ‘‘۔پی ڈی پی سرپرست نے کہا ’ اپوزیشن کا ایک اہم رول ہوتا ہے اسلئے میراکام نیشنل کانفرنس کو ختم کر نا نہیں بلکہ میرا کام پارٹی پروگرام کو عوام تک پہنچانا ہے‘‘۔مفتی نے کہا کہ پی ڈی پی کو وجود میں لانے کا مطلب یہاں کے عوام کو مشکلات سے نجات دلانا اور مسئلہ کشمیر کو حل کر نے کیلئے ہند و پاک میں رائے عامہ بنا کر ہندوستان کو مجبور کرنا ہے کہ وہ مسئلہ کشمیر حل کر نے کیلئے غیر مشروط بات چیت کی شروعات کریں ۔انہوں نے کہا کہ پی ڈی پی کے دور حکومت میں ہی اس وقت کے وزیر اعظم اٹل بہاری واچپائی نے کشمیر کی سرزمین سے پاکستان کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھایا اور اس وقت جو امن عمل کا سلسلہ چل رہا ہے وہ اٹل بہاری واچپائی اور جموں وکشمیر کے عوام کی دین ہے۔انہوں نے کہا ’’ابھی تک صرف آر پار بچھڑے لوگ ملتے تھے ،اب کوئی بھی یہاں آسکتا ہے اور کوئی وہاں جاسکتا ہے حتیٰ کہ اب ہم بھی پاکستان کے زیر انتظام کشمیر جا سکتے ہیں ۔کشمیر میں پتھرائو پر قابو کرنے سے متعلق وزیر داخلہ پی چدمبر م کے بیان کو مضحکہ خیز قرار دیتے ہوئے مفتی محمد سعید نے کہا کہ کشمیر امن و قانون اور پتھرائو کا مسئلہ نہیں ۔ انہوں نے کہا کہ وزیر داخلہ کو پتھرائو سے متعلق بیان کی بجائے یہاں کے انتظامی معاملات اور حکومت کی بات کرنی چاہئے تھی۔انہوں نے کہا کہ کشمیر ایک سیاسی مسئلہ ہے اور اس کے تمام پہلوئوں کو حل کرناضروری ہے لیکن بد قسمتی یہ ہے کہ وزیر داخلہ نے ریاست کی حکومت اور یہاں کے عوام پر ڈھائے جارہے مظالم کا ذکر نہیں کیا۔مفتی سعید نے کہا ’’ جب میں نے اقتدار میں آنے کے بعد محمد یاسین ملک بشمول تمام حریت پسند لوگوں کی رہائی کا سلسلہ شروع کیا تو انہیں اس وقت منموہن سنگھ نے فون کر کے کہا تھا کہ گجرات میں انتخابات چل رہے ہیں اسلئے کانگریس کو گجرات میں نقصان ہوگا لیکن میں نے منہوہن سنگھ سے کہا میری پارٹی کا ایجنڈا یہی ہے ،میں لوگوں کو جیلوں میں بند نہیں رکھنا چاہتا‘‘۔انہوں نے کہا کہ پی ڈی پی نے اپنے منشور کے ایک ایک حصے اور پارٹی کے اس ایجنڈے پر مکمل عمل کیا جس کیلئے پی ڈی پی کو وجود میں لایا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ پنچایتی انتخابات کو غیرجماعتی بنیادوں پر کرانے کا مقصد صرف یہ تھا کہ حکمران جماعت تمام کامیاب امیدواروں کو اپنے کھاتے میں ڈالتی لیکن اگر پارٹی بنیادوں پر چنائو کرائے گئے ہوتے تو پی ڈی پی کو غالب اکثریت حاصل ہوتی ،اس کے بغیر بھی پی ڈی پی سب سے بڑی پارٹی بن کر ابھری ہے۔اس موقعہ پر پی ڈی پی سنیئر نائب صدر مولوی افتخار حسین انصاری ،جنرل سیکریٹری محمد دلاور میر ،ایم ایل سی محمد اشرف میر سمیت کئی لیڈران نے خطا ب کیا۔

’ پی ڈی پی پنچایت کانفرنس سبوتاژ کر نے کی کوشش ‘ حکومت مخمصے میں مبتلا،ٹکرائو کا راستہ ترک کرے


محمد طاہر سعید

سرینگر//حکومت پرپیپلز ڈیموکریٹک کی 28جولائی کو ہونیوالی ریاستی پنچایت کانفرنس سبوتاژ کر نیکا الزام عائد کرتے ہوئے پارٹی کے سنیئرلیڈر اور سابق نائب وزیراعلیٰ مظفر حسین بیگ نے کہا ہے کہ انکی پارٹی کو پنچایتی انتخابات میں دیگر جماعتوں کے مقابلے واضح برتری حاصل ہوئی ہے اور نیشنل کانفرنس کو خدشہ ہے کہ پی ڈی پی اس کانفرنس سے اپنی طاقت کا مظاہرہ کریگی۔پارٹی سرپرست مفتی محمد سعید کی سرکاری رہائش گاہ پر ایک ہنگامی پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے سابق نائب وزیر اعلیٰ نے کہا کہ انکی پارٹی نے 28جولائی کو نومنتخب سرپنچوں اورپنچوں کی کانفرنس منعقد کرنے کا فیصلہ کیا ہے اور یہ فیصلہ 10جولائی کوپارٹی نے لیا تھا اور اس کیلئے ضلع انتظامیہ سے12جولائی سے 21 جولائی تک چار بار اجازت طلب کی گئی لیکن ابھی تک انہیں یہ کانفرنس منعقد کر نے کیلئے اجازت نہیں دی گئی ہے تاہم سوموار کو انتظامیہ نے انہیں مطلع کیا کہ منگل صبح ساڑھے دس بجے تک انہیں اجازت دی جائیگی اور دوسری طرف اس کانفرنس کو سبوتاژ کر نے کیلئے 28جولائی کو ہی نو منتخبہ سرپنچوں اور پنچوں کو حلف دلانے کی تاریخ مقر ر کی گئی ہے۔ انہوں نے کہا’’حلف دینے کی تاریخ 21سے 26جولائی تک مقرر کی گئی تھی لیکن آج ہمیں پتہ چلا کہ اب سرپنچوں اور پنچوںکو28جولائی کو حلف دیا جارہا ہے جو کہ صرف ہماری کانفرنس سبوتاژ کر نیکی کوشش ہے‘‘۔بیگ نے کہا کہ پولیس اور محکمہ دیہی ترقی کے ملازمین کے ذریعہ ممبران کو ڈرایا جا رہا ہے کہ اگر وہ حلف نہیں لیں گے تو وہ ممبری سے خارج ہوجائیں گے ۔بیگ نے کہا’’ایسا کوئی قانون نہیں کہ اگر ممبر حلف نہیں اٹھائیگا تو وہ ممبری سے خارج ہوگا ،اس کا مقصد صرف ہماری کانفرنس ناکام کر نا ہے‘‘۔انہوں نے کہا’’ہم حکومت سے ٹکرائو نہیں چاہتے ،ہمارا حکومت سے مطالبہ ہے کہ حکومت 28جولائی کو حلف برداری کی تقریب موخر کرے یا ہم ہی اپنی کانفرنس کیلئے دوسری تاریخ مقرر کریں گے‘‘۔انہوں نے کہا ’’اگر حکومت ہماری کانفرنس منعقد کر نے میں روڑے اٹکائے گی تو ہمارے پنچ اور سرپنچ سڑکوں پر آنے کیلئے مجبور ہوجائیں گے اورایسی صورتحال کی ذمہ داری حکومت پر عائد ہوگی‘‘۔بیگ نے نیشنل کانفرنس پر الزام عائد کیا کہ وہ پنچوں اور سرپنچوں کو خریدنے کی کوشش کر رہی ہے تاکہ بلاک اور ضلع کمیٹیوں میں ان کے چیئرمین اور نائب چیرمین منتخب ہوں۔انہوں نے کہاکہ پہلی بار لوگوں نے بھاری تعداد میں ووٹ ڈالے ہیں حتیٰ کہ ان لوگوں نے بھی ووٹ ڈالے جنہوں نے اسمبلی انتخابات میں بائیکاٹ کیا تھا اور اس سے زمینی سطح پر جمہوریت کومضبوط کرنیکا ایک بہترین موقع ملا ہے اور ان نو منتخب ممبران کی رائے بھی مسئلہ کشمیر کو حل کر نے میں سود مند ثابت ہوگی کیونکہ یہ عوام کے منتخب نمائندے ہیں اور ان پر سنگ انداز یا لشکر طیبہ جنگجو ہونے کا کوئی الزام نہیں لگایا سکتا۔بیگ نے دعویٰ کیا کہ پی ڈی پی کوپنچایتی انتخابات میں برتری حاصل ہوئی ہے۔انہوں نے کہا’’15ہزار نو منتخب پنچوں اور سرپنچوں میں سے 8 ہزار سے زائد کا تعلق پی ڈی پی سے ہے اور حکومت کو خطرہ لگ رہا ہے کہ ہم اپنی طاقت کا مظاہرہ کریں گے اور اس سے یہ واضح ہوگا کہ ہمارے ممبران زیادہ ہیں اسلئے وہ کانفرنس کو سبوتاژ کر رہے ہیں‘‘۔انہوں نے کہا’’ہم حکومت سے کہنا چاہتے ہیں کہ وہ سرکس کا کھیل بند کرے ورنہ حالات ایسے کروٹ لیں گے کہ اس کی ذمہ دار ی حکومت پرہوگی‘‘۔مظفر حسین بیگ کے ہمراہ پریس کانفرنس میں پی ڈی پی جنرل سیکریٹری محمد دلاور میر،ترجمان اعلیٰ نعیم اختر،سٹیٹ سیکریٹری الطاف احمد بخاری اور ایم ایل سی مرتضیٰ خان تھے۔

مضافاتی ہسپتالوں سے 60فیصد مریضوںکی سرینگر منتقلی غیر ضروری SKIMSاورصدر ہسپتالوں میں روزانہ3500 کااندراج

محمد طاہر سعید
سرینگر//ضلع وسب ضلع ہسپتالوں اور پرائمری ہیلتھ سنٹروں میں بنیادی سہولیات کی عدم دستیابی کی وجہ سے مریضوں کو شہر کے ہسپتالوں کا رُخ کر نا پڑ تا ہے جس کی وجہ سے دیہی علاقوں کے ہسپتال بے معنی ہوکر رہ گئے ہیں ۔بیماروں کو سرینگر منتقل کرنا اب ایک معمول بن گیا ہے اور اگر کہیں ضلع یا سب ضلع ہسپتال میں بھی مریض کا علاج کا ممکن ہو لیکن بیمارکے لواحقین کو تب تک تسلی نہیں ہوتی جب تک نہ اسے سرینگر منتقل کیا جائے۔ وادی میں صحت کا شعبہ پوری طرح متاثر ہوا ہے اور تمام بیماروں کی نظریں صدر اسپتال، صورہ میڈکل انسٹی ٹیوٹ، جی پی پنتھ ہسپتال اور لل دید ہسپتال پر مرکوز ہوتی ہیں ۔اعداد و شمار کے مطابق وادی میں 9ضلع ہسپتال،47سب ڈسٹرکٹ ہسپتال ،228پرائمیری ہیلتھ سنٹر،125الوپیتھک ڈسپنسری،7ٹی بی سنٹر،280میڈکل ایڈ سنٹر اور 939 سب سنٹر موجود ہیں تاہم وادی میں کوئی بھی ایمرجنسی ہسپتال نہیں ہے جبکہ کشمیر کے مقابلے میں جموں میں 6ایمرجنسی ہسپتال کام کررہے ہیں۔ وادی کے ہسپتالوں میں بنیادی سہولیات کی کمی کی وجہ سے مریضوں کو سرینگرکا رُخ کر نا پڑتا ہے جس کی وجہ سے یہاں کے ہسپتالوں پر کافی دبائو رہتا ہے۔ وادی میں کل 1646 طبی ادارے ہیں اور ان پر اربوں روپے خرچ کئے جارہے ہیں تاہم بنیادی سہولیات کی عدم دستیابی کی وجہ سے یہ طبی ادارے بے معنی ہوکر رہ گئے ہیں۔ آورہ کپوارہ میں پرائمری ہیلتھ سنٹر پر 50لاکھ سے زائد روپے خرچ کئے گئے لیکن ہسپتال میں بنیادی سہولیات نہ ہو نے کی وجہ ہسپتال تباہی کے دہانے پر پہنچ گیا ہے۔ مقامی لوگوں کے مطابق ہسپتال میں کسی بھی طرح کی سہولیت موجود نہیں اور نہ ہی ہسپتال میں کوئی خاتون ڈاکٹر موجود ہیں جس کی وجہ سے خواتین اس ہسپتال کا رُخ نہیں کرتے۔اس ہسپتال میںا گر چہ ایک لیڈی ڈاکٹر موجود تھیں تاہم ایک سال قبل اس کا تبادلہ عمل میں لایا گیا اور ابھی تک کسی بھی دوسری لیڈی ڈاکٹر کو وہاں تعینات نہیں کیا گیا۔یہی حال وادی کے دیگر ہسپتالوں کا بھی ہے۔ سرینگر کے شیر کشمیر انسٹی ٹیوٹ آف میڈکل سائنسز صورہ کے او پی ڈی ریکارڈ کے مطابق روزانہ 2ہزار کے قریب نئے مریضوں کا اندراج ہوتا ہے جن میں زیادہ مریضوں کی تعداد دیہی علاقوں کی ہوتی ہے۔ میڈکل انسٹی انسٹی ٹیوٹ انتظامیہ کا کہنا ہے کہ اس رش کو کم کیا جاسکتا ہے کیونکہ 2ہزار میں 1200مریض ایسے ہوتے ہیں جن کا علاج مقامی ہسپتالوں میں بھی ممکن ہوسکتا ہے۔ سرینگر صدر ہسپتال کی حالت بھی میڈکل انسٹی ٹیوٹ سے مختلف نہیں۔ صدر اسپتال میں گزشتہ ماہ 40ہزار اوپی ڈی رجسٹر ہوئیں جبکہ پانچ ہزار مریض ہسپتال میں داخل رہے۔ صدر ہسپتال کے میڈکل سپر انٹنڈیٹ ڈاکٹر منیر مسعودی نے کشمیر عظمیٰ کو بتا یا کہ ہسپتال میں روزانہ اوسط 1500کے قریب مریض رجسٹر ہوتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ مریضوں کا سرینگر منتقل کر نے کا کوئی معقول نظام نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ مریضوں کو براہ راست سرینگر کے بڑے ہسپتالوں میں نہیں آنا چاہئے بلکہ اس کے لئے ایک معقول نظام کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ ضلعو ں سے سرینگر منتقل ہونے والے مریضوں کے پاس ضلع ،سب ضلع ہسپتالوں یا پرائمری ہسپتالوں کی ریفرل سلپ ہونی چاہیے اور اگر کسی مریض کاعلاج اپنے مقامی ہسپتالوں میں ہی ہوسکتا ہے تو اسے سرینگر منتقل نہیں کیا جانا چاہیے۔ اس صورتحال کے حوالے سے وزیر مملکت برائے صحت جاوید احمد ڈار نے بتا یا کہ ضلع یا سب اسپتالوں میں انفرسٹریکچر کی کمی نہیں ہے تاہم لوگوں کی ایک ذہنیت بن چکی ہے اور انہیں تب تک تسلی نہیں ہوتی جب تک شہر کے کسی ہسپتال کا رُخ نہیں کریں۔ انہوں نے کہا کہ ہم ماہانہ طور پر او پی ڈی مانیٹر کرتے ہیں تاہم انہوں نے اعتراف کیا کہیں کہیں پر ماہر ڈاکٹروں کی کمی ہوتی ہے جس کی وجہ سے مریضوں کو سرینگر منتقل کرنا لازمی بن جاتا ہے۔

شمالی کشمیر کے ہسپتالوں کو آلودہ پانی فراہم 20نمونوں میں سے 12مضر صحت ثابت

محمد طاہر سعید
سرینگر//اس بات کا انکشاف ہوا ہے کہ شمالی کشمیر کے 60فیصد ہسپتالوں میں پینے کا پانی مضر صحت ہے اور کسی بھی ہسپتال میں فلٹر پلانٹ نصب نہیں کیا گیا ہے۔ آئی ڈی ایس پی کپوارہ بارہمولہ کی ایک سروے رپورٹ کے مطابق شمالی کشمیر کے ضلع کپوارہ اور بارہمولہ کے اکثر ہسپتالوں کو پینے کا آلودہ پانی فراہم کیا جاتا ہے جو کہ بیماروں اور تیمارداروں کیلئے مضر صحت ہے۔ رپورٹ کے مطابق 20ہسپتالوں سے پینے کے پانی کے نمونے حاصل کئے گئے تھے اور لیبارٹری کی جانچ کے بعد 12ہسپتالوں میں پینے کا پانی مضر صحت پایا گیا ۔رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ان دونوں اضلا ع میں 41فیصد ہسپتالوں کو نل کا پانی فراہم کیا جاتا ہے۔ رپورٹ میں اس بات کا بھی انکشاف ہوا ہے کہ کپوارہ ضلع میں کوئی بھی فلٹریشن پلانٹ نہیں ہے۔ مذکورہ سروے رپورٹ نوڈل آفیسر آئی ڈی ایس پی شمالی کشمیر ڈاکٹر مسرت اقبال وانی کی قیادت میں ایک ٹیم نے تیار کی ہے۔ رپورٹ کے مطابق ٹنکیوں، جہاں پانی جمع کیا جاتا ہے ،کی مستقل بنیادوں پر صفائی نہیں ہوتی ہے اور نہ ہی پانی کے نمونوں کی جانچ کی جاتی ہے۔ رپورٹ کے مطابق صاف پانی کی فراہمی نیشنل رورل ہیلتھ مشن (این آر ایچ ایم)کے اہم مقاصد میں سے ایک ہے لیکن آج بھی یہ اس مقصد کو پانے میں ناکامی ہورہی ہے۔ حتی کہ ہسپتالوں میں چھوٹے فلٹریشن پلانٹ نصب نہیں کئے گئے تاکہ مریضوں اور تیمارداروں کو پینے کا صاف پانی فراہم کیا جاسکے۔ رپورٹ میں اگر چہ صرف ہسپتالوں کے پانی کی جانچ کی گئی ہے تاہم اس میں عام لوگوں کو فراہم کیا جانا والے پانی بھی صحت کے لئے مضر قرار دیا گیا ہے۔ رپورٹ میں یہ بات بھی منکشف ہوئی ہے کہ کئی علاقوں میں پانی کی ٹنکیوں کی مستقل بنیادوںپر صفائی نہیں کی جاتی ہے اور پی ایچ ای محکمہ لوگوں کو صاف پانی فراہم کر نے میں ناکام ہوا ہے۔ آئی ڈی ایس پی کے مطابق ضلع کپوارہ کے کئی علاقوں میں پانی میں ہزاروں کی تعداد میں کیڑے پائے گئے جسکی وجہ سے کئی بیماریوں نے جنم لیا۔ رپورٹ میں لوگوں سے کہا گیا کہ وہ پانی کو پانچ منٹ تک اُبالنے کے بعد ہی استعمال کر یں۔ جبکہ محکمہ صحت اور پی ایچ ای کے درمیان تال میل کی ضرورت پر زور دیا گیا ہے۔اس حوالے سے ڈائریکٹر ہیلتھ کشمیر ڈاکٹر سلیم الر حمان نے کشمیر عظمیٰ کو بتا یا کہ انہوں نے تمام ہسپتالوں کی انتظامیہ کو ہدایات دی ہیں کہ وہ بیماروں ، تیمارداروں اور ہسپتال عملہ کو صاف پانی فراہم کریں۔ انہوں نے کہا ’’ہسپتال انتظامیہ کو ہدایات دی گئی ہیں کہ وہ فلٹر کیا ہوا پانی مریضوں ،تیمارداروں اور عملہ کو فراہم کریں اور اس سلسلے میں وہ ہسپتالوں میں واٹر پیوری فائیر نصب کریں‘‘۔

مریض جائیں تو جائیں کہا ں ؟ سکمز میں 12وینٹی لیٹر ضروریات پورا کر نے کیلئے ناکافی

محمد طاہر سعید

سرینگر//وادی کے سب سے بڑے طبی مرکز صورہ میڈیکل انسٹی چیوٹ کے انتہائی نگہداشت والے وارڈ میں صرف 12وینٹی لیٹر موجود ہیں جو کہ مریضوں کی ضروریات پورا کر نے کیلئے بہت ہی کم ہے جبکہ وینٹی لیٹروں کی کمی سے اکثرو بیشتر مریضوں کی موت واقع ہوجاتی ہے۔انسٹی چیوٹ ذرائع نے کشمیر عظمیٰ کو بتا یا کہ سرجیکل آئی سی یو وارڈمیں صرف12وینٹی لیٹر موجودہیں جو کہ مریضوں کی بڑھتی ہوئی تعداد کے پیش نظر نہایت ہی کم ہیں۔ذرائع کے مطابق انسٹی ٹیوٹ میں صرف 5 وینٹی لیٹر موجود تھے اور سات سال قبل مزید سات وینٹی لیٹر لگائے گئے اور تب سے کوئی بھی نیا وینٹی لیٹر نہیں لایاگیا۔گزشتہ سال کے پُرتشدد حالات کے دوران وینٹی لیٹروں کی ضرورت زیادہ بڑھ گئی لیکن مذکورہ طبی ادارے کے پاس صرف 12ہی وینٹی لیٹر موجود تھے۔ذرائع کے مطابق اس وقت اگر انسٹی ٹیوٹ انتظامیہ نے مزید وینٹی لیٹر خریدنے کا فیصلہ کیا تھا تاہم ایک سال گزرجانے کے باوجود ابھی تک اس فیصلہ پر علمدار آمد نہیںکیاجاسکاہے۔ذرائع کا کہنا ہے کہ اگر کبھی کوئی بڑا حادثہ پیش آتا ہے یا زخمیوں کو انسٹی ٹیوٹ پہنچایا جاتا ہے تو اس وقت وینٹی لیٹروں کی کمی کی وجہ سے تمام زخمیوں کامعقول علاج نہیں ہوپاتا جس کی وجہ سے اکثر زخمیوں کی موت واقع ہوجاتی ہے۔انسٹی ٹیوٹ میں معمول کے مطابق بھی وینٹی لیٹروں کی کمی محسوس کی جاتی ہے لیکن انتظامیہ دلچسپی کا مظاہرہ نہیں کرتی۔کشمیر عظمیٰ کو ذرائع نے بتا یا کہ 19مئی کو کولگام کی تین سالہ بچی وینٹی لیٹر میسر نہ ہو نے کی وجہ سے فوت ہوئی۔مذکورہ بچی کو کولگام ضلع ہسپتال سے انسٹی ٹیوٹ منتقل کیا گیا تھا جہاں اسے وینٹی لیٹر کی سخت ضرورت تھی،مذکورہ بچی کی جان بچانے کیلئے چند ڈاکٹروں نے انتہائی نگہداشت والے وارڈ کے ساتھ رابطہ کر کے وینٹی لیٹر فراہم کر نے کو کہا تاہم مذکورہ وارڈ کے ڈاکٹروں نے یہ کہہ کر وینٹی لیٹر فراہم کر نے سے انکار کیا کہ تمام وینٹی لیٹر اس وقت مصروف ہیں،جس کے نتیجے میں بچی کی موت واقع ہوئی۔ذرائع کا کہنا ہے کہ انسٹی ٹیوٹ میں اکثراُنہی مریضوں کو داخل کیا جاتا ہے جنہیں وینٹی لیٹر کی ضرورت ہوتی ہے ۔ذرائع کا کہنا ہے کہ انسٹی ٹیوٹ میں مالی طور پر کوئی دشواری نہیں لیکن انتظامیہ وینٹی لیٹر خریدنے میں دلچسپی کا مظاہر ہ نہیں کرتی ہے۔اس حوالے سے انسٹی ٹیوٹ کے انچارج ڈائریکٹر رفیق احمد حکیم نے کشمیر عظمیٰ کو بتا یا کہ وینٹی لیٹروں کو نصب کر نے کیلئے جگہ کی کمی ہے تاہم اس سلسلے میں کام جارہی ہے اور چھ ماہ یا ایک سال کے اندر مزید 8وینٹی لیٹرنصب کئے جائیں گے۔انہوں نے اس بات کا اعتراف کیا کہ وینٹی لیٹروں کی اشد ضرورت ہے لیکن جگہ کی کمی کی وجہ سے مزید وینٹی لیٹروں کولگانے میں دشواریاں پیش آرہی ہیں ۔ انہوں نے کہا’’ہم نے آٹھ مزید وینٹی لیٹر لگانے کا فیصلہ کیا ہے اور اس سلسلے میں ضروری مشینری خریدنے کیلئے عنقریب احکامات صادر کئے جائیں گے تاہم اس کام میں چھ ماہ سے ایک سال کا وقت لگ سکتا ہے‘‘۔

سکمز :وادی کے مریضوں کی آخری امید لیکن ڈاکٹروں سے ملنے کے لئے مہینوں کاانتظار ،انتظامیہ کی پہلوتہی

محمد طاہر سعید
سرینگر//میڈکل انسٹی چیوٹ صورہ میں ڈاکٹروں سے ملنے کیلئے مریضوں کوکم از کم دو ماہ انتظار کرنا پڑرہا ہے۔انتظامیہ کا کہنا ہے کہ اسپتال میں مریضوں کی تعداد میں زبردست اضافہ ہورہا ہے جس کی وجہ سے مریضوں کو ڈاکٹروں سے ملنے کیلئے جلد وقت نہیں ملتا ۔ انسٹی ٹیوٹ کے ڈاکٹر وں کی پرائیویٹ پریکٹس پر پابندی کے بعد ہی یہاں کے اہم شعبوں جن میںانڈوکرنالوجی،کارڈیالوجی،گیسٹرو انٹرالوجی اوریورالوجی شامل ہیں،کے مریضوں کو ڈاکٹروں سے ملنے کیلئے مہینوں انتظار کرنا پڑ رہاہے۔ ذرائع کے مطابق انڈوکرنالوجی شعبہ میں مریضوں کو ڈاکٹروں سے ملنے کیلئے اکتوبر نومبر کی تاریخ دی جاتی ہے۔انڈو کرنالوجی کے ڈاکٹر نے 25مئی کو ایک مریض زیر او پی ڈی کارڈ نمبر 97386کا ملاحظہ کیا اور مذکورہ مریض کو ڈاکٹر سے ملنے کی اگلی تاریخ 29اکتوبر دی گئی۔گیسٹرو انٹرالوجی کے ایک مریض زیر او پی ڈی کارڈ نمبر 860886کا 26مئی کو ڈاکٹر نے ملاحظہ کیا اور اسے ڈاکٹر سے ملنے کی اگلی تاریخ 6اکتوبر دی گئی۔گسٹرو انٹالوجی کے ہی ایک اور مریض زیر او پی ڈی نمبر 51634کو بھی ڈاکٹر سے ملنے کی تاریخ 6اکتوبر دی گئی ۔میڈکل انسٹی ٹیوٹ کی او پی ڈی رجسٹر پر درج ریکارڈ کے مطابق 26مئی کو گیسٹروانٹرالوجی کے ڈاکٹروں سے ملنے والے تمام مریضوں کو اگلی تاریخ 6اکتوبر دی گئی ہے۔امراضِ قلب میںمبتلاایک مریض او پی ڈی نمبر 33743 کا 26مئی کو چیک اپ کیاگیااور اسے اب دوبارہ ڈاکٹر سے ملنے کے لئے 23جون تک انتظار کرنا پڑیگا۔ ذرائع کے مطابق مریض کو ڈاکٹر سے پہلی بار ملنے کے بعد 15دن کا وقت دیا جاتا تھا لیکن گزشتہ ڈیڑھ ماہ سے اب مریضوں کو دو سے تین ماہ کا وقت دیا جارہاہے جبکہ نئے مریضوں کو بھی اسی طرح ڈاکٹروں سے ملنے کیلئے مہینوں انتظار کرنا پڑرہاہے۔ضلع اور دیگر ہسپتالوں میں ڈاکٹروں کا بہترین انتظام نہ ہونے کی وجہ سے مریضوں کی آخری امید میڈکل انسٹی ٹیوٹ پرہے تاہم یہاں جب مریضوں کو ڈاکٹروںسے مہینوں کے بعدملنے کاموقعہ بھی فراہم ہوتا ہے تو اُس وقت تک انکی صحت بگڑ چکی ہوتی ہے۔ذرائع کا کہنا ہے کہ ان مریضوں کو بعدمیں نیم مردہ حالت میں کیجولٹی میں داخل کیا جاتا ہے اور اگر ان کا بروقت علاج نہیں ہوگا تو اکثر مریض کی موت واقع ہوتی ہے۔صورہ میڈکل انسٹی چیوٹ کے انچارج ڈائریکٹر رفیق احمد حکیم نے اس نے حوالے سے کشمیر عظمیٰ کو بتا یا کہ اسپتال میں بیماروں کی تعداد میں زبردست اضافہ ہواہے اور ہر ایک ڈاکٹر کی کوشش ہے کہ وہ زیادہ سے زیادہ بیماروں کا ملاحظہ کرسکے۔انہوں نے کہا کہ بدقسمتی سے ہمارے یہاں کے اسپتالوںمیںبیماروں کا تسلی بخش علاج نہیں ہوپاتاکیونکہ انکے پاس بہتربنیادی ڈھانچہ موجود نہیں ہے اسلئے بیمار انسٹی ٹیوٹ کا ہی رُخ کرتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ گزشتہ سال انسٹی ٹیوٹ میں لاکھوں بیماروں کا علاج اور ٹسٹ کرائے گئے اور تمام مشکلات کے باجود انسٹی ٹیوٹ کی کوشش رہتی ہے کہ وہ زیادہ سے زیادہ مریضوں کا علاج کرسکے۔انہوں نے کہا کہ اگر کہیں بھی پر کوئی کوتاہی ہو تو اسے دورکر نے کی کوشش کی جائیگی۔