Friday, January 27, 2012

جنوری 1990:جب گاﺅ کدل مقتل میں تبدیل ہوا تھا


محمد طاہر سعید
سرینگر//گاﺅکدل قتل عام کو 22سال گزر گئے ہیں لیکن اس واقعہ کے زخم ابھی بھی تازہ ہیں اور ایسا لگتا ہے جیسے یہ واقعہ کل پیش آیاہے۔ 1990 جب ریاست میں عسکری تحریک اپنے جوبن پر تھی اور لوگوں کے جذبہ آزادی میں دن بدن اضافہ ہوتا جارہا تھا اور اس صورتحال کو بھانپتے ہوئے نئی دلی نے جگموہن کو ریاست کا گورنر بنا کر بھیجا ۔19جنوری کو نئی دلی نے جگموہن کو ریاست کا گورنر نامزد کیا اور ان کے نامزدگی کے صرف ایک روز بعد سی آر پی ایف کے ہاتھوں کشمیریوں کے قتل عام کا پہلا اور بڑا واقعہ پیش آیا۔اس واقعہ میں 52شہری ہلاک اور سینکڑوں زخمی ہوگئے۔21جنوری 1990کو وادی میںسخت سردی تھی لیکن عسکری تحریک دن بدن گرم ہوتی جارہی تھی،اس روز موسم صاف تھا مگر کرفیو کی وجہ سے لوگ اپنے گھروں میں سہمے ہوئے تھے اس دوران شہر کے پادشاہی باغ سے لوگوں نے ایک جلوس نکالا یہ جلوس جواہر نگر اور راجباغ سے ہوتے ہوئے گاﺅ کدل پہنچ گیا ۔دن کے دو بجے اس پرُامن جلو س پر سی آر پی ایف نے فائیرینگ کر کے گاﺅکدل کو مقتل میں تبدیل کی۔اس واقعہ کے چشم دید گواہ بسنت باغ کے ارشد احمد بٹ کا کہنا ہے”شہر میں کریک ڈاون اور گھر گھر تلاشیوں کے بعد کر فیو تھا،سول لائز سے ایک جلوس نکالا گیا جو گاﺅ کدل پہنچتے پہنچتے ایک بڑے جلوس کی شکل اختیار کر گیا،جلوس میں شامل لوگ جوں ہی گاﺅکدل پل پار کر کے نئی سڑک کے قریب پہنچ گئے تو سی آر پی ایف اہلکاروں نے دونوں طرف سے فائیرینگ شروع کی “ ۔اس قتل عام کے واقعہ کو دھراتے ہوئے ارشد کہتے ہیں” میں نے یہ منظر خود اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے،سی آر پی ایف اہلکاروں نے لوگوں پر براہ راست بندوق کے دھانے کھول دئے،کچھ لوگ موقعہ پر ہی ہلاک ہوئے اور کچھ زخمی حالت میں وہیں گر گئے ,یہ صورتحال تقریبا دس منٹ تک جاری رہی اس کے بعد سی آر پی ایف اہلکار گاڑیوں میں آگئے اور زخمیوں پر گولیاں چلائیں اتنا ہی نہیں انہوں نے لاشوں کے ساتھ بے حرمتی بھی کی ،باقی لوگ گلیوں اور کوچوں سے بھاگنے میں کامیاب ہوئے“۔ارشد کے مطابق ”یہ جلیانوالہ باغ قتل عام کو دوسرا منظر تھا ،سی آر پی ایف نے پر امن لوگوں پر فائیرینگ کی اور ایسا لگ رہا تھا کہ عام لوگوں کے قتل عام ایک منصوبہ بند طریقے سے کیا گیا کیونکہ پہلے لوگوں کو گاﺅ کدل پُل پار کرنے کی اجازت دی گئی اور لوگوں نے جوں ہی پُل پار کیا اور کچھ نئی سڑک پہنچ گئے تو دونوں تک سے سی آر پی ایف اہلکاروں نے اندھا دھند فائیرینگ کی“۔گاﺅ کدل قتل عام میں پیش آئے ایک خاص واقعہ کا ذکر کرتے ہوئے ارشد کہتے ہیں ”جب سی آر پی ایف اہلکاروں نے گولیاں چلانی شروع کیں تو کورٹ روڑ سرینگر کے ایک ٹیکسی ڈرائیور فاروق احمد شیخ جو نہایت طاقتوں اور جسیم تھا ،نے سی آر پی ایف اہلکار کی ایل ایم جی کے دھانے کو پکڑ کر اسے اپنے سینے پر لیا اور باقی لوگوں کو مرنے سے بچا لیا،جب ہم نے فاروق کی لاش کو اٹھایا اس کا بدن گولیوں سے چھیلنی تھا اور اس کے دونوں ہاتھ متواتر گولیاں چلنے سے آگ کی طرح تبتی ہوئی بندوق کی ناکلی پکڑے رکھنے سے جل چکے تھے“۔ارشد کا کہنا ہے کہ تقریباً آدھے گھنٹے کے بعد مقامی لوگوں نے ہمت اور حوصلے کا مظاہرہ کرتے ہوئے لاشوں اور زخمیوں کو د ریائے جہلم میں کشتیوں میں سوار کر کے انہیں ٹیکنی پورہ پہنچایا جہاں سے انہیں آٹو اور گاڑیوں میں بھر کر شہر کے مختلف ہسپتالوں تک پہنچا دیا گیا۔انہوں نے مزید کہا کہ گاﺅ کدل پل سے نئی سڑک تک ہزاروں کی تعداد میں جوتے تھے جو لوگوں نے بھاگنے کے دوران وہیں چھوڑ دے۔ارشد بٹ کا کہنا ”میں یہ سانحہ زندگی بھر کبھی بھول نہیں سکتا ،اس واقعہ کا میرے ذہن پر ایک گہرا اثر پڑ چکا ہے،میں نے لوگوں کو گولیاں لگتے ہوئے،گرتے ہوئے اور زخمیوں کو اٹھاتے ہوئے خود اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے اور یہ واقعہ آج بھی میرے ذہن میں تازہ ہے اور جو زخم لگا ہے وہ آج بھی ہرا ہے“۔ارشد کی عمر اب چالیس سال کے قریب ہے لیکن ان کا کہنا ”مجھے لگتا ہت کہ یہ کل کا واقعہ ہے ،جب بھی میں کبھی اس کے بارے میں سوچتا ہوں تو میرا بدن لرز اٹھتا ہے ،اس قتل عام کا مقصد ہی کشمیریوں کو خوف زدہ کرنا تھا کیونکہ اس وقت عسکری تحریک اپنے جو بن پر تھی اور لوگ بڑی تیزی کے ساتھ اس تحریک کے ساتھ منسلک ہورہے تھے “۔

No comments:

Post a Comment