Sunday, March 18, 2018

کشمیرـ: تعلیمی سرگرمیوں کی بحالی ہماری اجتماعی ذمہ داری


نیلسن منڈیلا کا یہ مشہور قول تعلیم کی اہمیت کے بارے میں ہے۔’’ تعلیم سب سے موثر ہتھیار ہے جس کی مدد سے آپ اپنی دنیا بدل سکتے ہیں‘‘۔


ایک طرف جہاں ہم کشمیر بند کی وجہ سے ہوئے اقتصادی نقصان کا تخمینہ لگا رہے ہیں وہیں ہمیں یہ گنتی بھی کرنی چاہیے کہ ہڑتالوں کی وجہ سے کتنے تعلیمی دن ضائع ہوگئے۔ وادی کشمیر میں گزشتہ تین ماہ سے تقریباً تمام تعلیمی ادارے بند ہیں اور وہ طالب علم جنہیں اسکولوں اور کالجوں میں ہونا چاہیے تھا، ان کی ایک بڑی تعداد ہاتھوں میں سنگ اٹھائے سڑکوں پر بیٹھی ہے ۔ مسئلہ کشمیر اور اس کی وجوہات ایک طرف لیکن ایک  ایسی ریاست جو پہلے ہی سیاسی غیر یقینیت اور اقتصادی بدحالی کی وجہ سے مشکلات سے جوجھ رہی ہو ، وہ کیا شعبہ تعلیم کی تباہی کی متحمل ہوسکتی ہے؟ کشمیری طلبہ کو جب بھی کبھی موقع ملا انہوں نے ریاستی، قومی اور بین الاقوامی سطح پر اپنی قابلیت کا لوہا منوایا ہے ۔
دو ہزار پندرہ میں جموں وکشمیر میں نئی حکومت کے قیام کے بعد ہی تعلیمی شعبہ کی طرف خاص توجہ مرکوز کی گئی تھی اور اگر واقعا ت کا صحیح تجزیہ کیا جائے تو یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ تعلیمی شعبہ حکومت کی اہم ترجیحات میں شامل رہا۔ گزشتہ ڈیڑھ سال کے دوران حکومت نے تعلیمی شعبہ کو صحیح سمت دینے کے لئے کئی انقلابی نوعیت کے اقدامات بھی کئے۔ان اقدامات کی وجہ سے اگرچہ ریاست کے وزیر تعلیم نعیم اختر اندرابی کو ایک حلقہ کی طرف سے تنقید کا نشانہ بھی بنایا گیا لیکن بالآخر اس کے مثبت نتائج کے بعد ہر طرف سے ان اقدامات کی ستائش کی گئی۔ حکومت نے گزشتہ سال سرما میں وزیر اعلیٰ سپر ففٹی کوچنگ سنٹر قائم کئے جس کی وجہ سے طلبہ کی ایک بڑی تعداد نے قومی سطح کے امتحانات میں کامیابی حاصل کی۔
لیکن اسے بدقسمتی کہیں یا کچھ اور کہ جولائی کے مہینے سے ہی نا مساعد حالات کی وجہ سے کشمیر کا تعلیمی شعبہ بری طرح متاثر ہوا ہے۔ وادی میں جاری مسلسل ہڑتالوں نے اس شعبے کو پوری طرح سے یرغمال بنا لیا ہے۔ تعلیمی شعبہ کو یرغمال بنانے سے قبل اس بات پر غور کرنا چاہیے تھا کہ 2008اور 2010کی ہڑتالوں کی وجہ سے جو نقصان اس شعبہ کو ہوا کیا بعد میں اس کی بھرپائی ہوسکی ۔2014 کے تباہ کن سیلاب کی وجہ سے بنیادی تعلیمی ڈھانچہ تباہ ہوا لیکن سرکار نے گزشتہ ڈیڑھ سال کے دوران جہاں بنیادی ڈھانچے کی از سر نو بحالی کے لئے اقدامات کئے وہیں معیاری تعلیم کی فراہمی سرکار کی خاص توجہ کا مرکز رہی ۔ سیلاب کے بعد حکومت نے نہ صرف اضافی کلاسز کا اہتمام کیا بلکہ چند ماہ امتحانات کو بھی موخر کرنا پڑا لیکن بار بار ایسا کرنا ممکن نہیں ہے۔

دو ہزار پندرہ میں جموں وکشمیر میں نئی حکومت کے قیام کے بعد ہی تعلیمی شعبہ کی طرف خاص توجہ مرکوز کی گئی تھی اور اگر واقعا ت کا صحیح تجزیہ کیا جائے تو یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ تعلیمی شعبہ حکومت کی اہم ترجیحات میں شامل رہا۔ گزشتہ ڈیڑھ سال کے دوران حکومت نے تعلیمی شعبہ کو صحیح سمت دینے کے لئے کئی انقلابی نوعیت کے اقدامات بھی کئے۔ان اقدامات کی وجہ سے اگرچہ ریاست کے وزیر تعلیم نعیم اختر اندرابی کو ایک حلقہ کی طرف سے تنقید کا نشانہ بھی بنایا گیا لیکن بالآخر اس کے مثبت نتائج کے بعد ہر طرف سے ان اقدامات کی ستائش کی گئی۔ حکومت نے گزشتہ سال سرما میں وزیر اعلیٰ سپر ففٹی کوچنگ سنٹر قائم کئے جس کی وجہ سے طلبہ کی ایک بڑی تعداد نے قومی سطح کے امتحانات میں کامیابی حاصل کی۔
لیکن اسے بدقسمتی کہیں یا کچھ اور کہ جولائی کے مہینے سے ہی نا مساعد حالات کی وجہ سے کشمیر کا تعلیمی شعبہ بری طرح متاثر ہوا ہے۔ وادی میں جاری مسلسل ہڑتالوں نے اس شعبے کو پوری طرح سے یرغمال بنا لیا ہے۔ تعلیمی شعبہ کو یرغمال بنانے سے قبل اس بات پر غور کرنا چاہیے تھا کہ 2008اور 2010کی ہڑتالوں کی وجہ سے جو نقصان اس شعبہ کو ہوا کیا بعد میں اس کی بھرپائی ہوسکی ۔2014 کے تباہ کن سیلاب کی وجہ سے بنیادی تعلیمی ڈھانچہ تباہ ہوا لیکن سرکار نے گزشتہ ڈیڑھ سال کے دوران جہاں بنیادی ڈھانچے کی از سر نو بحالی کے لئے اقدامات کئے وہیں معیاری تعلیم کی فراہمی سرکار کی خاص توجہ کا مرکز رہی ۔ سیلاب کے بعد حکومت نے نہ صرف اضافی کلاسز کا اہتمام کیا بلکہ چند ماہ امتحانات کو بھی موخر کرنا پڑا لیکن بار بار ایسا کرنا ممکن نہیں ہے۔
http://urdu.news18.com/blogs/kashmir-agitation-education-199137.html

No comments:

Post a Comment