Sunday, March 18, 2018

امرناتھ یاترا : کشمیر یت کی علامت

ذرہ ذرہ ہے میرے کشمیر کا مہمان نواز
راہ میں پتھر کے ٹکڑوں نے دیا پانی مجھے
حکیم نارائین چکسبت اگر زندہ ہوتے توشاید آج انہیں یہ شعر لکھنے پر نہایت ہی افسوس ہوتا ،کیونکہ جس مہمان نوازی کاذکر انہوں نے اپنے اس شعر میں کیا ہے10جولائی کواُن ہی مہمان نوازوں کی وادی میں چند شر پسند عناصر نے یہاں آئے مہمانوں پر حملہ کر کے 7افراد کو ہلاک کیا۔کشمیر میں امرناتھ یاترا صدیو ں سے چلی آرہی ہے اور تاریخ کی کتابوں کے مطابق 1885 میں ایک مسلمان بوٹہ ملک نے امرناتھ گھپا کو دریافت کیا تھا اور تقریباً ایک صدی سے ہندئو مذہب کے پیروکاروں کی اس گھپا سے عقیدت وابستہ ہے۔یاترا کشمیر کی مہمان نوازی اور بھائی چارے کی ایک علامت رہی ہے اور ایک واقعہ کو چھوڑکر پر تشدد و نا مساعد حالات کے باوجودبھی امرناتھ یاترا ہمیشہ سے پر ُامن رہی ہے ۔حقیقت یہ بھی ہے کشمیری مسلمانوں نے یاترا میں اپنا کردار ادا کیا ۔1990میں ریاست میں عسکری تحریک شروع ہونے کے بعد 1994میں حرکت الانصار نامی تنظیم نے یاترا پر حملے کی دھمکی دی تھی تاہم یاترا پُر امن اختتام کو پہنچی لیکن 2000میں ایک بد قسمت واقع پیش آیا جب بندوق برداروں نے پہلگام میں یاترا بیس کیمپ پر حملہ کر کے دودرجن سے ذائد افراد کو ہلاک کیا۔2008میں امرناتھ شرائن بورڈ کو زمین فراہم کرنے کے خلاف چلی مہم کے باوجود یاترا پُر امن اختتام پذیر ہوئی جبکہ 2010اور2016کے نامسائد حالات کے دوران بھی یاترا پُر امن رہی ۔اگر حالات خراب بھی تھے لیکن مقامی لوگوں نے کبھی بھی یاترا کو کوئی گزند پہنچانے کی کوشش نہیں کی۔اس بدقسمت قوم کے،جس کے اپنے بدن زخمی سے چھلنی ہے ،دوسروں کا درد جلد محسوس کرتی ہے ،ہم اپنے گھر سے جلا سکتے ہیں لیکن دوسری کے گھر جلتے نہیں دیکھ سکتے ۔یاترا پر ہوئے حملے سے چند روز قبل جنوبی کشمیر میں ہی جب ایک گاڑی کو حادثہ پیش آیا تو وہاں کے مقامی باشندوں نے جائے واقعہ پر پہنچ کر یاتریوں کا ہسپتال پہنچایا ۔
سال 2008 میں جب شرائن بورڈ کو زمین منتقل کرنے کا تنازعہ عروج پر تھا اور کئی عام شہری مارے جاچکے تھے،پوری وادی کرفیو کی وجہ سے محصور تھی،لیکن اُس وقت بھی کشمیریوںنے مہمان نوازی کی ایک عظیم مثال پیش کرتے ہوئے جگہ جگہ پریاتریوں کے لئے لنگر وںکا اہتمام کیا ۔
گزشتہ 10جولائی کو جنوبی کشمیر کے بوٹینگو علاقے میں جب مسلح افراد نے یاتریوں سے بھری بس پر اندھا دھند گولیاں چلائیں شاید وہ اچھی طرح سے جانتے تھے کہ وہ کشمیریوں کی صدیوں کی پرانی مہمانی نوازی او ر بھائی چارے کی روایت پر ایک ایسا بد نما داغ لگا رہے ہیں جس کو مٹانے میں شاید دہائیاں لگ جائیں گی۔
اس واقعہ کے خلاف کشمیری قوم نے جس طرح ایک ہوکر آواز اٹھائی وہ اپنے آپ میں خود کئی سوال کا جواب ہے ۔ایک ایسے دور میں جب چند خود ساختہ قوم پرست نیوز چینلوں نے کشمیریوںکے خلاف ایک جنگ شروع کی ہے اور ایک کشمیریوں کو مشکوک بنانے کی مہم شروع کی ہے ،اس دوران یاترا حملے کے خلاف سیاسی نظریات سے بالا تر ہوکر ایک آواز میں مذمت کی، نہ صرف حوصلہ افزا ء ہے بلکہ خود ساختہ قوم پرستوں کو بھی جواب دیا کہ کشمیری عوام فطرتاً شریف او ر مہمان نواز ہیں ۔
یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ہر سماج اور قوم میں چند مٹھی بھر لو گ ایسے بھی ہیں جو جنونیت کے عالم اور مذہب کی آڑ میں ایسے قدم اٹھاتے ہیں جس کا خمیازہ پوری قوم کو بھگتنا پڑتا ہے اور ایسا ہی چند روز قبل ہوا۔اس واقعہ نے عسکریت پسندوں کے ارادوں پر بھی سوالات کھڑے کئے ۔اس میں کوئی شک نہیں کہ سماج کے ایک طبقہ میں عسکریت پسندوں کو قبولیت حاصل ہے مگر سوال یہ ہے کہ ماہ رمضان کے مقد س مہینے میں ایک پولیس پارٹی پر حملہ کرکے چھ اہلکاروں کو ہلاک کیا گیا جبکہ اس سے قبل جموں وکشمیر بنک کی ایک گاڑی حملہ کر کے بنک کے محافظین اور چار پولیس اہلکاروں کوجس بے دردی سے جان لی گئی ۔کیا یہ لوگ ایک ایسی حد کو پار نہیں کر رہے ہیں جس کااثر تمام کشمیری قوم پر پڑسکتا ہے اور یہاں کے سماجی تانے بانے کو درہم بر ہم کر سکتی ہے۔جن نوجوانوں نے بندوق کی راہ اختیار کی ہے،کیا یہ صحیح ہے یا غلط ،پر بحث کی جاسکتی ہے لیکن ایسے واقعات واقعی اُن کے ارادوں پر سوالات اٹھا رہے ہیں۔
امرناتھ یاتریوں پر ہوئے حملے کودہشت گردانہ واقعہ ہی قرار دیا جاسکتا ہے کیونکہ معصوم بچوں ،عورتوں ،غیر مسلح افراد او ر مذہبی مقامات پر حملہ کرنے والے دہشت گرد ہی ہوسکتے ہیں کیونکہ ایسے لوگ انسانیت ،تہذیت اوراور مذہبی بھائی چارے کے دشمن ہیں ،ایسے لوگو ں کا حصول مقصد کسی قوم کی آزادی نہیں بلکہ تباہی ہوتی ہے۔
اس واقعہ کا ایک اور بدقسمت پہلو یہ ہے کہ اس پر سیاست کرنے اور مذہبی رنگ دینے کی کوشش کی گئی۔نیشنل کانفرنس سکیولر بنیادوں پر وجود میں آئی ہے لیکن جب اسی جماعت کے قائدین اس معاملے کو مذہبی یا علاقائی رنگ دینے کی کوشش کریں تو اسے بدقسمتی سے ہی تعبیر کیاجاسکتا۔نیشنل کانفرنس نے کوئی موقعہ گنوائے بغیر جموں بند کال کی حمایت کا اعلان کیا ۔پارٹی اچھی طرح سے جانتی تھی کہ اس واقعہ کا ایک مذہبی پہلوہے اورایک مذہب کے پیرو کاروں کے جذبات مجروح ہوئے ہیں اور ایسی صورتحال میں جموں بند کال کی حمایت کرنا ،ویشو ہند پرشید اور بجرنگ دل کی حمایت کرنا کتنا خطرناک ثابت ہوسکتا ہے۔اگر یہ جماعت جموں وکشمیر بندکی کال دیتے یا اس کی حمایت کرتی تو شائد ان کے ارادوں پر شک کی انگلی نہیں اٹھتی لیکن جس طرح انہوں نے مذہبی منافرت پھیلانے اور علاقائی تقسیم کا ساتھ دیا تویہاں شک یقین میں بدل جاتاہے۔عمر عبداللہ سے توقع ہے کہ وہ ایک سنجیدہ سیاستدان ہیں اور ا نہیں اپنی ذمہ داریوں کا احساس ہوگا ۔لیکن انہوںنے ٹویٹر پر ریاست سے باہر مقیم کشمیریوں کا ذکر کرتے ہوئے انہیں ہوشیار رہنے کی صلح دی اور وزیر داخلہ سے ان کی حفاظت کویقینی بنانے کا مطالبہ کیا۔یہاں وہ دانستہ یا نادانستہ ایک ایسی غلطی کر بیٹھے جس کا خمیازہ عام لوگوں اور ریاست سے باہر مقیم کشمیریوں کو بھگتنا پڑ سکتا ہے۔اگر انہیں واقعی کشمیریوں کی فکر تھی تو وہ اپنے خدشات کا اظہار کرنے کیلئے مرکزی وزیر داخلہ سے فون پر بھی رابطہ کرتے یا یا وزیر اعلیٰ کی نوٹس میں لاسکتے تھے ۔لیکن انہوں نے ایسا نہ کرنے کے بجائے ایک کھلے پلیٹ فارم پر ایسی بات کہی جس کا مقصد اگر نیک بھی ہوتا لیکن ان کا ٹویٹ مذہبی جنونیت والوں کو اُکسانے کیلئے کافی تھا۔عمر عبداللہ کے مقابلے میں علیحدگی پسندلیڈران کا رول کم از کم مثبت رہا اور انہوں نے سنجیدگی کا مظاہرہ کرکے ایک آواز میں اس واقعہ کی نہ صرف مذمت کی بلکہ ایسے عناصر کو الگ تھلگ کرنے پر بھی زو ر دیا۔
اس واقعہ کو لیکر جموں وکشمیر کی وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی نے نہایت ہی سنجیدہ اور مدبرانہ رول ادا کیا۔نہ صرف وزیر اعلیٰ بلکہ ایک کشمیری لیڈر ہونے کے ناطے انہوں نے وہی کیا جو وقت کا تقاضہ تھا۔اُن کی ریاست میں ایک بدقسمت واقعہ پیش آیا تھا اور کوئی وقت ضائع کئے بغیر وہ اننت ناگ پہنچی اور پوری رات متاثرین کے شانہ بشانہ رہیں اور زخمیوں کے  علاج و معالجہ کی از خود نگرانی کی۔انہوں نے وہی کیا جس کی ایک صحیح کشمیری سے توقع کی جاسکتی ہے۔

http://urdu.news18.com/blogs/amarnath-yatra-is-a-symbol-of-kashmiriat-220371.html 

No comments:

Post a Comment