Sunday, August 21, 2016

مفتی محمد سعید۔۔۔امن کا پیامی وہ جو سب کو ساتھ لے کر چلتا تھا



محمد طاہر سعید


پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی کے بانی سرپرست اور وزیر اعلیٰ مفتی محمد سعید کے انتقال کے بعد ریاست میں جو سیاسی خلا پیدا ہوا ہے اس کا مستقبل قریب میں پر ہونا ممکن نظر نہیں آ رہا ہے۔مرحوم مفتی محمد سعید ریاست کے موجودہ سیاسی نقشے پر
ایک قد آور اور دور اندیش سیاستدان تھے اور سیاست کے اس اعلیٰ مقام تک پہنچنے کے لئے انہوں نے تدبر اور استقامت کا مظاہرہ کیا۔ مرحوم چونکہ چھ دہائیوں تک ریاستی سیاست پہ چھائے رہے ۔ میں قارئین کرام کو اپنے نقطہ نظر سے ان کی شخصیت کے بارے میں روشناس کرانا چاہتا ہوں۔میں نے مرحوم کو ذاتی طور ہمیشہ ایک مدبر ،دور اندیش ،امن پسند اور اپنے لوگوں کے تئیں سنجیدہ و ہمدرد سیاستدان پایا۔60 سال طویل اپنے سیاسی سفر میں مفتی صاحب نے کافی نشیب و فراز دیکھے اور مشکل حالات کے باوجود ان کے قدم کبھی بھی نہیں لڑ کھڑاے بلکہ بہادری سے حالات کا مقابلہ کرتے رہے ، نیز زندگی کی آخری سانس تک اپنے فرائض کے تئیں سنجیدگی کا مظاہرہ کیا۔مرحوم بستر علالت پر بھی عوامی معاملات اور مسائل کے تئیں فکر مند تھے اور اپنی صاحبزادی پی ڈی پی صدر محبوبہ مفتی، جو ایمز میں اُن کی تیمار داری کے لئے ہمہ وقت موجود تھیں،سے ریاست کے حالات اور جاری ترقیاتی پروجیکٹس کے بارے میں جانکاری حاصل کرتے رہے، حتیٰ کہ بستر علالت پر اپنے پرنسپل سیکرٹری سے اپنے حالیہ فیصلوں اور ہدایات کی عمل آوری کے بارے میں اَپ ڈیٹ ہوتے رہے۔مفتی صاحب ایک بہترین منتظم بھی تھے۔2002 ءسے 2005ءاور حالیہ دس ماہ طویل اپنے دورِحکومت میں انہوں دور اندیش اور بہتر منتظم ہونے کا قدم قدم پر ثبوت دیا اور عملاًدکھایاکہ کس طرح نظریاتی اختلاف ہونے کے باوجود سب کو ساتھ لے کر ریاست کا نظم ونسق چلایا جا سکتا ہے۔مرحوم ریاست جموں و کشمیر کی تعمیر و ترقی اور خوشحالی کے وعدہ بند تھے۔چلہ کلان کی سخت سردی کے باوجود انہوں نے گھنٹوں شہر خاص کا دورہ کیا اور اپنی صحت اور بزرگی کا خیال رکھے بغیر شہر میں جاری ترقیاتی پروجیکٹس کا بر سر موقع جائزہ لیا۔مرحوم سرینگر کو ریاست کا دل مانتے تھے اور شہر سرینگر میں نہ صرف اپنی سربراہی والی حکومت کے آخری پروجیکٹ کا سنگ ِبنیاد رکھا بلکہ یہیں آخری جلسہ سے بھی خطاب کیا۔ایک ایسے وقت جب ہم اُن کے انتقال پر افسوس کر رہے ہیں، ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم ان کے نظریہ¿ جموں و کشمیر پر بھی کچھ بات کریں۔ مفتی صاحب ریاست کو امن و امان کا گہوارہ بنانا چاہتے تھے اور ایسے نازک وقت جب کئی لیڈران گولی کا جواب بم سے دینے کی وکالت کر رہے تھے ،مفتی صاحب امن کے وکیل بن کر سامنے آئے۔انہوں نے پاکستان کے ساتھ بات چیت، امن عمل اور گولی کا جواب بولی سے دینے کی وکالت کی۔ا س کے نتیجے میں 2002 ءسے 2005 ءتک اُن کی وزارت ِعالیہ کے دوران سرحدوں پر جنگ بندی، پاکستان اور علیحدگی پسندوں کے ساتھ مذاکرات اور اعتماد سازی کے اقدامات کے طور پر کئی بند پڑے راستے کھول دئے گئے جس کے لئے انہیں ہمیشہ امن کے علمبر دارکے طور پر یاد رکھا جائے گا ۔
2002 میں جب مفتی صاحب نے ریاست کا اقتدار سنبھالا تو عوام کو احساسِ تحفظ دلانے کے لئے پوٹا قانون کی منسوخی کے فیصلے کے ساتھ انسانی حقوق کے تحفظ کو یقینی بنانے اور فوج کو جوابدہ بنانے کے علاوہ کریک ڈاو¿ن اور لوگوں کی جامہ تلاشیوں کو روکنے کے لئے عملی اقدامات کئے۔ا س سے ریاست میں ایک سازگار ماحول تیار ہوا۔وہ اپنے فیصلے پر ہمیشہ قائم رہتے تھے اور انہیں یقین تھا جو فیصلہ وہ کرتے اس کے مثبت نتائج سامنے آئیں گے۔اس وقت سرینگر میں تعینات جی او سی لفٹیننٹ جنرل وی جی پٹانکر نے حالیہ میں اپنے ایک مضمون میں مفتی صاحب کے ایک فیصلے کا ذکر کرتے ہوئے لکھا”مفتی کافی فکر مند تھے کہ سرینگر جموں شاہراہ صرف دن کو ہی گاڑیوں کی آمدورفت کے لئے کھلی رہتی ہے اور جب میں نے ان سے شاہراہ کو 24 گھنٹہ کھلا نہ رکھنے کی تفصیل کے ساتھ وجوہات بتائیں تو وہ مان گئے لیکن دوسرے روز مجھ سے کہا کہ میں نے شاہراہ کو 24 گھنٹہ کھلا رکھنے کا فیصلہ کیا ہے۔اس سلسلے میں کئے گئے اعلان کو عوامی سطح پر کافی پذیرائی حاصل ہوئی۔جیسے دن گزرتے گئے وزیر اعلیٰ کا فیصلہ صحیح ثابت ہوا۔شاہراہ پر کسی پر طرح کی کوئی پریشانی نہیں ہوئی اور جب میں دوبارہ ان سے ملنے گیا تو انہوں نے مجھ سے واضح کرتے ہوئے کہا کہ یہ ہیلنگ ٹچ پالیسی کا ایک اہم حصہ ہے “آپ مفتی صاحب کے سیاسی نظریات سے اختلاف کر سکتے ہیں لیکن جن حالات میں نے انہوں نے اپنی ایک الگ سیاسی پہچان بنائی اور ہمیشہ اپنے موقف پر ڈَٹے رہے، اُس کے لئے وہ خراج تحسین کے مستحق ہیں۔انہوں نے نہ صرف امن کی وکالت کی بلکہ سیاسی اور جمہوری اداروں کو با اثر بنانے کے ساتھ ساتھ ریاست کے لوگوں کو ایک سیاسی متبادل بھی فراہم کیا۔مفتی صاحب جمہوریت کو نظریات کی جنگ مانتے تھے اور ہمیشہ مخالف سیاسی آواز کو جگہ دینے کے لئے کوشاں رہے۔ریاست میں ایک ہی سیاسی جماعت کا غلبہ تھا لیکن انہوں نے پی ڈی پی کی صورت میں ایک سیاسی متبادل فراہم کر کے لوگوں خاص کر نوجوانوں کی حوصلہ افزائی کی۔
مرحوم سے میری پہلی ملاقات 2011 ءمیں ہوئی۔میں رفیع آباد ان کے ایک جلسہ کی رپورٹنگ کرنے گیا تھا جہاں انہوں نے ریاست کو 1947 ءسے قبل کی آزادی دینے کی بات کہی۔میں اُن کی اس بات کو سمجھنا چاہتا تھا، اس لئے دوسرے روز ان کے دفتر فون کر کے ملاقات کا وقت مانگا ۔ ایک گھنٹہ بعد ہی ان کے دفتر سے واپس فون آیا کہ دوسرے روز صبح ملاقات کا وقت دیا گیا ہے۔مرحوم اپنے کمرے میں کرسی پر براجمان تھے اور ایک ہلکی سی مسکراہٹ کے ساتھ میرا استقبال کیا۔باتوں باتوں میں انہوں نے میرے خاندان کے بارے میں جانکاری حاصل کی اور میرے نانا مرحوم کے ساتھ اپنی وابستگی کا ذکر کیا۔رخصت ہوتے ہوئے میں نے جب مصافحہ کے لئے ہاتھ بڑھایا تو مرحوم نے مسکراتے ہوئے کہا ”آپ کو سیاست میںآنا چاہئے۔ اب تو آپ نوجوانوں کا زمانہ ہے“۔وقت گزرتا گیا اور میں نے مارچ 2014ءکو پی ڈی پی میں شمولیت اختیار کر لی اور چند روز بعد ہی اُن سے ملنے گیا ، یہ مرحوم سے میری دوسری ملاقات تھی۔بالکل اسی کمرے میں جہاں چند سال قبل میری ان سے پہلی بار ملاقات ہوئی تھی ۔اپنے مخصوص انداز میں مسکراکر مجھے بیٹھنے کے لئے کہا۔اس ملاقات میں زیادہ بات چیت پارلیمانی انتخابات اور کپواڑہ میں عوامی جلسوں کےلئے اہم مقامات پر ہی مر کوز رہی۔مرحوم کپواڑہ کے سیاسی طور اہم علاقوں کا ذکر کرتے رہے اور میں حیران ہوا کہ وہ کپواڑہ میں سیاسی طور پر حساس علاقوں کے بارے میں بہت زیادہ جانکاری رکھتے تھے۔جب بات میرے علاقے میں عوامی جلسہ منعقد کرنے کی ہوئی تو مرحوم نے کہا ”آپ آورہ میں رہتے ہیں، یہ سیاسی طور پر اہم علاقہ ہے ، میں آج کل زیادہ جلسوں کے لئے بنائی گئی مخصوص گاڑی میں بیٹھ کر ہی تقریر کرتا ہوں لیکن آپ وہاں میرے لئے سٹیج قائم کریں، جلسہ کی پوری ذمہ داری آپ کی ہے اور مجھے آپ کی تقریر بھی سننی ہے اور ہاں سیاست کو جز وقتی( Part time )نہیں بلکہ کل وقتی ( Full time ) کے طور پر اختیار کرنا۔آپ کا سیاسی مستقبل روشن ہے“۔مرحوم کی یہ باتیں مشکل اوقات میں مجھے آگے بڑھنے کا حوصلہ دیتی ہیں۔ مفتی محمد سعید کی موت سے ریاست جموں و کشمیر کے لوگوں نے امن کے علم بردار اور زخموں پر مرہم لگانے والے ایک شفیق رہنما کو کھودیا ہے۔ضرورت اس بات کی ہے ان کی سیاسی لیگیسی کو آگے بڑھا کر اُن کے امن و ترقی کے ادھورے مشن کو پایہ¿ تکمیل تک پہنچایاجائے۔2002 ءسے 2005 ءتک امن و ترقی کا جو کام انہوں نے شروع کیا، اُسے سیاسی حالات نے منطقی انجام تک پہنچنے نہیں دیا اور آج زندگی کا ساتھ نہیں رہا۔مرحوم برصغیر میں امن کی فضا اور ریاست جموں و کشمیر کو ترقی اور امن کا گہوارہ بنانا چاہتے تھے اور اس مشن کو پایہ تکمیل تک پہنچانا مفتی محمد سعید کو بہترین خراج عقیدت ہوگا۔ ع
حق مغفرت کرے عجب آزاد مرد تھا


(http://kashmiruzma.net/full_story.asp?Date=23_1_2016&ItemID=4&cat=5#.V7nQdimECM-)

No comments:

Post a Comment