Sunday, August 21, 2016

سیاسی بدلاؤ زمانے کی پکار .......پیامِ سحرکی یہ دستک مبارک



محمد طاہر سعید

جمہوریت جہاں خیالات کی جنگ ہے وہیںتنقید جمہوریت کی روح ہے لیکن اگر جمہوری نظام میں جائز تنقید کرنے کے لئے کوئی مضبوط اپوزیشن جماعت موجود نہ ہو تو جمہوریت کے معنی ہی ختم ہوجاتے ہیں۔ریاست میں عوامی راج کے بعد جمہوریت برائے نام رہی۔یہاں ایک ہی سیاسی جماعت یعنی نیشنل کا نفرنس کی موجودگی سے لوگوں کے پاس کوئی متبادل بھی نہیں تھا۔ نتیجہ کے طور پر اس سیاسی جماعت کی قیادت نے من چاہے فیصلے لئے اوراقتدار کی نیلم پری کو ہمیشہ اپنی جاگیر سمجھ بیٹھے۔ اگر کوئی این سی مخالف آواز تھی تووہ صرف آزادی پسندوں کی آواز تھی لیکن یہ آواز انتظامی اور حکومتی معاملات کو زیادہ ترجیج نہ دیتی رہی۔ ویسے بھی یہاں کبھی مخالف آواز یا جمہوریت کو پننے کا موقع بھی نہیں دیا گیا ۔اگر کسی بھی سیاستدان نے ایسی کوشش کی تو اسے مختلف طریقوں سے زیر کیا گیا۔1957 ء میں ڈیموکریٹک نیشنل کانفرنس،1984میں عوامی نیشنل کانفرنس یا 1987کے انتخابات میں ہم خیال سیاسی جماعتوں کے اتحاد موسوم بہ مسلم متحدہ محاذ کی کوششیں مختلف وجوہا ت کی بنا پر کوئی موثر متبادل قائم کرنے میں قائم نہیں ہوئیں۔ریاست میں اگر چہ کانگریس یا دیگر مرکزی سیاسی جماعتوں کے شاخیںقائم کرکے متبادل سیاسی جماعت قائم کرنے کی کوشش بھی کی گئی، تاہم ریاست خاص کر وادی کشمیر میں ان جماعتوں کو مقبولیت حاصل نہیں ہوسکی ۔ماضی میں جھانک کر دیکھیں تو پتہ چلتا ہے کہ ریاست میں چند ایک علاقوں کو چھوڑ کر انتخابات ہمیشہ یک طرفہ رہے ۔1962کے اسمبلی انتخابات میں بخشی غلام محمد کی قیادت والی نیشنل کانفرنس نے 72نشستوں پر ،پرجا پریشد نے تین جب کہ دونشستوں پر آزاد امیدوار عبدالغنی لون اور غلام نبی وانی کامیاب ہوکر آئے ۔تاہم 1962سے 1967تک ریاست کے سیاسی حالات میں کئی تبدیلیاں ہوئیں ،جہاں بخشی غلام محمد کو وزارت اعظمیٰ کے عہدے سے سبکدوش ہونا پڑا، وہیں 1964میں جی ایم صادق کی طرف سے نیشنل کانفرنس کے ممبران کی مدد سے نئی حکومت قائم ہوئی تووزیر اعظم اور صدر ریاست کو بالترتیب وزیر اعلیٰ اور گورنر کے ناموںمیں تبدیل کر کے جموں کشمیر کی خصوصی پوزیشن کی بیخ کنی کا آغاز ہوا۔1967کے چنائو میں غلام محمدصادق کی قیادت میں کانگریس کو اچھی خاصی اکثریت حاصل ہوئی جب کہ بخشی غلام محمد کی نیشنل کانفرنس 8نشستوں تک سمٹ کر رہ گئی اوربھارتیہ جن سنگھ کو تین نشستیں حاصل ہوئیں۔1971میں جی ایم صادق کی وفات کے بعد سید میر قاسم وزیر اعلیٰ بنے اور ان کی قیادت میں انڈین نیشنل کانگریس نے 58جب کہ جماعت اسلامی کو 5نشستیں حاصل ہوئیں اور بھارتیہ جن سنگھ کو جموں سے تین نشستوں پر کامیابی حاصل ہوئی۔اندرا عبداللہ ایکارڈ کے بعد سید میر قاسم نے شیخ محمد عبداللہ کیلئے وزرات اعلیٰ کی کرسی چھوڑ دی اور 1977میں ہوئے انتخابات کے دوران نیشنل کانفرنس نے واضح اکثریت حاصل ۔

1977ء کے بعد ہوئے انتخابات میں نیشنل کانفرنس مسلسل کامیابی حاصل کرتی رہی، یہاں تک کہ 1987کے انتخابات میں مسلم متحدہ محاذ کے امیدواروں کی کامیابی کے باجود بھی انہیں ناکام قرار دیا گیا اور یہ واقعہ ریاست کی جمہوری تاریخ کا ایک بڑا خون آشام سانحہ بنا۔مف کے علاوہ بھی اگر کسی نے یہاں نیشنل کانفرنس یا اس کی قیادت کے خلاف آواز بلند کرنے کی کوشش کی تو اُس آواز کو طاقت اور سیاسی سازشوں کے بل بوتے پر دبایا گیا۔ماضی کے ان انتخابات پر باریک بینی سے نظر ڈالنے کے بعد یہی بات ظاہر ہوتی ہے کہ یہاں کبھی متبادل کے قیام یا جمہوریت کو پنپنے کا موقع نہیں دیا گیا۔پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی کے سرپرست مفتی محمد سعید یہ کہنے میں حق بجانب ہیں کہ وہ ریاست جموں وکشمیر میں لوگوں کو ایک متبادل علاقائی سیاسی جماعت فراہم کرنے میں وہ کامیاب ہوئے۔2002میں پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی نے پہلا اسمبلی چنائو لڑا اور 9.28فیصدی ووٹوں کے ساتھ 16نشستوں پر کامیابی حاصل کی۔2004کے پارلیمانی چنائو میں پارٹی کے ووٹ بنک میں اضافہ ہوا اور پارٹی نے 11.94فیصدی ووٹ حاصل کئے اور 2009کے پارلیمانی چنائو میں پارٹی کے ووٹ بنک میں 20.5فیصدی کا اضافہ ہوا ۔پارٹی کے ووٹ بنک میں مسلسل اضافہ اس بات کی طرف واضح اشارہ ہے کہ ریاست کے لوگ کافی وقت سے متبادل کے انتظار میں تھے اور پی ڈی پی کی شکل میں انہیں ایک متبادل سیاسی جماعت مل گئی ۔نیشنل کانفرنس ریاست کی سب سے پرانی سیاسی جماعت ہے اور اگر اس جماعت نے عوامی خواہشات کا احترام کیا ہوتا تو شاید لوگ اس جماعت سے دوری اختیار نہیں کرتے۔

اصولی بات یہ ہے کہ لوگوں کے پاس کوئی متبادل سیاسی جماعت موجود نہ ہونے کی صورت میں جہاں جمہوریت کو پنپنے کا موقعہ نہیں ملتا، وہیں ایک ہی سیاسی جماعت کی اجارہ داری کی وجہ سے حکومت کئی ایسے فیصلے بھی لیتی ہے جو عوامی توقعات اور خواہشات کے عین مطابق نہیں ہوتے۔ماضی کی کئی ایسی مثالیں ملتی ہیں جہاں سیاسی قیادتوں اور وقت کی حکومتوں نے ایسے فیصلے لئے جن سے عوامی مفادات کے بجائے ان کے ذاتی مفادات کی تکمیل ہوئی اور کسی مضبوط اپوزیشن کی غیر موجودگی سے بلا کسی خوف و جھجک کے یہ مصلحت پسندانہ فیصلے لئے گئے۔حالیہ پارلیمانی چنائو میں لوگوں نے نیشنل کانفرنس کو عملاًمسترد کیا اور انہیںپی ڈی پی کی شکل میں ایک متبادل سیاسی جماعت مل گئی ہے لیکن نیشنل کانفرنس کی موجودہ حالت پی ڈی پی سمیت دیگر سیاسی جماعتوں کے لئے بھی پیغام ہے کہ جمہوریت میں عوام کو طاقت حاصل ہے اور اگر یہ جماعتیں بھی عوامی مفادات کا خیال نہیں رکھیں تو عوام اگرنیشنل کانفرنس جیسی سیاسی جماعت جس کا منڈیٹ ایک زمانے میں جیت کا پروانہ سمجھا جاتا تھا، کو مسترد کرسکتے ہیں، کل ان کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوگا۔

ریاست کے سیاسی نظام میں ایک مثبت تبدیلی کی ضرورت ہے اور اس کیلئے ایک مضبوط متبادل سیاسی جماعت کی ضرورت ہے ۔بدقسمتی سے گزشتہ کئی سالوں سے وادی کشمیر میں کئی سیاسی جماعتیں وجود میں آئیں جن کا مقصد صرف کشمیر وادی کے ووٹ بنک کوتقسیم کرنا تھا ۔اس بات پر غور کرنے کی ضرورت ہے کہ صرف وادی میں ہی کئی سالوں خاص کر انتخابات کا بگل بجنے کے ساتھ ہی نئی جماعتیں وجود میں کیوں آئیں؟اس طرح کے عمل سے وادیٔ کشمیر،پیر پنچال اور خطہ چناب کے لوگوں کی خواہشات کا احترام نہیں ہوسکتا ۔کئی سالوں کی انتھک کوششوں کے بعد اب پی ڈی پی ایک قابل قبول متبادل سیاسی جماعت کے طور پر ابھرچکی ہے اور اس جماعت کو اس وقت ریاست کے تینوں خطوں میں عوامی مقبولیت حاصل ہے اور جاریہ انتخابات کا ریاست کی سیاست کا رُخ بدلنے میں اہم رول ہے،اس لئے ضرورت اس بات کی ہے کہ عوام ایک ہی سیاسی جماعت کو واضح منڈیٹ دیں تاکہ بیساکھیوں کے سہارا لینے کے بجائے ایک مضبوط حکومت قائم ہوسکے اورعوامی مفادات کے اور خواہشات کا احترام ہوسکے۔۔حالیہ ایام میں تباہ کن سیلاب نے ریاست کو تباہی کے دہانے پر پہنچایا ہے ۔انتخابات کے فوراً بعد نئی حکومت کے قیام کے ساتھ ہی سب سے اہم کام ریاست کی تعمیر نو ہے اور اس کیلئے ایک مضبوط حکومت کی ضرورت ہے ۔

(http://kashmiruzma.net/full_story.asp?Date=29_11_2014&ItemID=5&cat=5#.V7nO8imECM9)

No comments:

Post a Comment