Thursday, December 8, 2011

شازیہ مجید قتل کیس : سماجی جرائم اور گھریلو تشدد کیخلاف خاموش احتجاج

محمد طاہر سعید


سرینگر// سماجی جرائم اور خواتین پر گھریلو تشدد کے خلاف سماجی تنظیموں اور سول سو سائٹی نے بدھ کو پریس
کالونی میں موم بتیاں جلاکر احتجاج درج کیا۔ احتجاج میں شامل لوگ سماجی جرائم اور گھریلوتشدد کی شکار شازیہ مجید ،کلیم قادری، رومانہ جاوید اور دیگر افراد کے لواحقین کو انصاف دلانے کا مطالبہ کر رہے تھے۔شازیہ مجید کے لواحقین کو انصاف دلانے کیلئے سول سائٹی نے پریس کالونی پر امن خاموش احتجاج کرنے کا پروگرام بنایا تھا اور اس کے لئے سماجی رابطہ کی وئب سائٹ فیس بک پر ’شازیہ مجید کیلئے انصاف‘ نام سے ایک صفحہ بنایا گیا تھا جس کے ذریعہ موم بتیاں جلا نے کے مظاہرے کا پیغام لوگوں تک پہنچایا گیا۔ ایڈوکیٹ سید فیصل قادری، ایڈوکیٹ نرجیس نواب، ایڈوکیٹ ندیم قادری اور میر داور نے فیس بک سے شازیہ مجید کو انصاف دلانے کی مہم شروع کی ہے۔ لائبریری سائنس میں گولڈ میڈل حاصل کرنے والی شازیہ مجیدساکن باغ مہتاب 6 نومبر کو اپنے سسرال میں مردہ حالات میں پایا گیا تھا اور پولیس کا کہنا ہے کہ شازیہ نے خودکشی کی تھی تاہم لواحقین کے مطابق شازیہ کو سسرال والوں نے قتل کیا اور وہ اسے تقریباً 5سال سے مسلسل ذہنی اور جسمانی تشدد کا نشا نہ بنایا جا رہا تھا۔ شازیہ مجید اسلامک یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی میں لائبریرین تھی اور لواحقین کے مطابق شوہر انہیں مسلسل میکے سے پیسے لانے کا مطالبہ کر رہا تھا جس کے بعد شازیہ نے اوم پورہ بڈگام میں پلاٹ فروخت کرنے کے علاوہ بنک سے قرضہ بھی حاصل کیا تھا اس کے باجود بھی شوہر انہیں مزید پیسے لانے کی مانگ کرتا رہا۔ عید سے قبل چند رو ز شازیہ کو اپنے شوہر نے واپس گھر بلا یا اور 6نومبر کو چھت کے پنکھے سے لٹکتی ہوئی ان کی لاش پائی گئی۔ شازیہ کے والد عبد المجید جوپر امن احتجاج میں شامل تھے،نے کشمیر عظمیٰ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ پولیس نے 306کے تحت کیس درج کر کے اسے خود کشی کا معاملہ بنایا ہے۔ انہوں نے کہا ’’میری بیٹی میں کافی ہمت تھی اور پانچ سال سے وہ اپنے سسرال والوں سے لڑ رہی تھی اور اسے ختم کر نے میں انہیں پانچ سال لگ گئے اور وہ اپنے اس منصوبے میں کامیاب ہوئے۔ انہوں نے کہا ’’یہ خودکشی کا واقعہ نہیں بلکہ قتل ہے اور اس میں شازیہ کے شوہر کے علاوہ تمام سسرال والے ذمہ دار ہیں‘‘۔ انہوں نے کہا’’میں پولیس سے پوچھنا چاہتا ہوں کہ اس کے سسرال والے ابھی تک آزاد کیوں گھوم رہے ہیں جبکہ اس واقعہ میں وہ برابر کے ملوث ہیں‘‘۔ جموں وکشمیر یوتھ پارلیمنٹ کے چیئر مین ایڈوکیٹ ندیم قادری نے کشمیر عظمیٰ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ہمارے سماج میں شازیہ کی طرح کئی خواتین زندگی بسر کر رہی ہیں اور یہ ہماری اخلاقی ذمہ داری ہے کہ ہم شازیہ کیلئے انصاف کی آواز بلندکرنے کے علاوہ ان بد نصیب خواتین کا معاملہ اٹھائیں جو گھریلو تشدد سہہ کر گھٹ گھٹ کر مر رہی ہیں۔ کلیم قادری اور رومانہ جاوید قتل کیس کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ان واقعات کا باریک بینی سے مشاہد ہ کرنے کے بعد لگتا ہے کہ جرائم پیشہ افراد کے حوصلے بلند ہیں اور کس طرح وہ اپنے منصوبوں کو عملی جامہ پہنا تے ہیں۔ اس پر امن احتجاج میں شازیہ اور کلیم قادری کے لواحقین کے علاوہ اسلامک یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کے طلباء ،سٹاف ممبران ،جموں وکشمیر یوتھ پارلیمنٹ ،جموں وکشمیر آر ٹی آئی مومنٹ ،انہد ،انر سیل اور سنٹر فار جسٹس اینڈ ڈیولپمنٹ کے ممبران نے شرکت کی۔

No comments:

Post a Comment