Wednesday, December 9, 2009

پیشگی چناوی اتحاد ۔ کانگریس کا نیا پینترا

Sat, 01/12/2008
گجرات میں بھارتیہ جنتا پارٹی کی جیت کے بعد جموں و کشمیر میں کانگریس نے اپنی ایک اتحادی جماعت پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی کے ساتھ رشتوں کو مضبوط کر نے کی کوشش شروع کر دی ہے ۔کانگریس کوخدشہ ہے کہ اگر انتخابات سے قبل اس کا اتحاد پی ڈی پی سے ٹوٹ گیا تو ریاست میں اگلی حکومت غیر کانگریس ہو سکتی ہے ۔ہندوستان کی مختلف ریاستوں میں ہوئے اسمبلی انتخابات میں کانگریس کی شکست کے بعد جب کانگریس کو کشمیر میں بھی اپنی شکست کا احساس ہونے لگا توکانگریس کے لیڈران نے اپنی اتحادی جماعت پی ڈی پی کے خلاف بیان بازیوں کا سلسلہ کم و بیش روک دیا۔
گزشتہ ماہ غلام نبی آزاد نے لمبے وقفہ کے بعد پی ڈی پی کے سرپرست اعلیٰ اور سابق وزیر اعلi مفتی محمد سعید کے ساتھ ملاقات کی جس کے بعد دونوں پارٹیوں کے درمیان کئی ماہ سے جاری تعطل ختم ہو گیا ۔دو نوں پارٹیوں کے درمیان تعطل کے بعد سیاسی مبصرین نے عندیہ دیا تھا کہ مخلوط حکومت اب چند دنوں یا ہفتوں کی مہمان ہے جبکہ غلام نبی آزاد نے بھی نئی دہلی میں کانگریس ہائی کمان کو اس بات کی پیشکش کی تھی کہ وہ جموں و کشمیر کے وزیر اعلیٰ کی حیثیت سے مستعفی ہونا چاہتے ہیں۔تاہم بعد میں یہ تعطل دہلی کی براہ راست مداخلت سے ختم ہوا ۔پی ڈی پی نے اپنے سنیئر لیڈر مظفر حسین بیگ کو دوبارہ کابینہ میں بیج دیا اور انہیں نائب وزیر اعلیٰ بنایا ۔بیگ کو گزشتہ سال پارٹی نے مبینہ طور پر کانگریس سے قربت رکھنے اور حکومتی معاملات میں پارٹی کی پالیسوں کو پس پردہ ڈالنے کی پاداش میں کابینہ سے واپس بلایاتھا ۔کانگریس اور پی ڈی پی کی بڑھتی ہوئی دوریوں کا حزب اختلاف کی جماعت نیشنل کانفرنس نے فائیدہ اٹھا نے کی کوشش کی تھی اور اس پارٹی کے سرپرست اعلیٰ ڈاکٹر فاروق عبداللہ نے کئی بار کانگریس کو بلواسطہ اتحاد کی پیش کش کی بھی کی تھی ۔

نیشنل کانفرنس نے کانگریس کی قربت حاصل کر نے کے لئے صدر جمہوریہ کے انتخاب کے دوران پرتبھادیو سنگھ پاٹل کو حمایت بھی دی تھی مگر فاروق عبداللہ اور ان کی جماعت کو سو نیا گاندھی پسند نہیں کر تی ہے دوسری طرف اس کے سرپرست کومستقل مزاج اور قابل اعتماد بھی نہیں مانا جا تا ہے اس لئے وہ اپنے مقصد میں کامیاب نہ ہوسکے۔انہوں نے این ڈی اے کے دور حکومت میں ریاست میںاپنی حکومت کو برقرار رکھنے کے لئے این ڈی اے کے ساتھ اتحاد بھی کیااور پارٹی کے سنیئر لیڈر پروفیسرسیف الدین سوز کو این ڈی اے مخالف ووٹ دینے پر پارٹی سے نکال دیا جس کے بعد انہوں نے کانگریس کے کیمپ میں پناہ لی۔نیشنل کانفرنس کے سرپرست فاروق عبداللہ نے گجرات میں اب نریندر مودی کی کامیابی کے بعد انہیں مبارک باد دی اور کہا کہ ان کی کامیابی بہترین نظم کی کامیابی ہے۔

2002کے انتخابات میں شکت کے بعد نیشنل کانفرنس نے این ڈی اے کے ساتھ اتحاد کر نے اور گجرات فسادات کے دوران چب سادھ لینے پر جموں و کشمیر کے مسلمانوں سے معافی مانگی اور اس پارٹی کے لیڈران بار بار اور ہر عوامی جلسہ میں اپنی اس غلطی پر نادم اور شرمسار نظر آئے ۔نیشنل کانفرنس کے صدر عمر عبداللہ نے کئی بار کہا کہ این ڈی اے کے ساتھ ان کا اتحاد سب سے بڑی غلطی تھی ۔مگر گجرات میں بی جے پی کی کامیابی کے بعد اب نیشنل کانفرنس دو بارہ بی جے پی کا آشیر واد حاصل کرنے کی کوشش کر رہی ہے اور اسی کی ایک کڑی کے تحت فاروق عبداللہ نے اپنی ایک تقریر میں مودی کے حق میں تعریفوں کے پل باندھے ۔نیشنل کانفرنس کے صدر عمر عبداللہ نے اگر چہ اپنے والد اور پارٹی کے سرپرست کی طرف سے دئے گئے بیان پر لاعملی کا اظہار کیا ہے تاہم سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ نیشنل کانفرنس انتخابات کے پیش نظر اس طرح کا طرز عمل اختیار کر رہی ہے ۔مبصرین کا کہنا ہے کہ نیشنل کانفرنس کی یہ روایت رہی ہے کہ باپ بیٹے کے بیان کی تردید کرتا ہے اور بیٹا باپ کے بیان کی تردید کر تا ہے تاہم فاروق عبداللہ کا بیان وزن سے خالی نہیں ہو سکتااور ان کا بیان پارٹی کا پالیسی بیان ہوتا ہے۔

نیشنل کانفرنس کانگریس اور پی ڈی پی کے اتحاد کے بعد اب کافی پریشان نظر آرہی ہے اور وہ کسی بھی صورت میں اب دہلی میں این ڈی اے کا سپورٹ حاصل کر نے کی کوشش کر رہے ہیں کیونکہ گزشتہ چار سال کے دوران نیشنل کانفرنس کانگریس کی قربت حاصل کر نے میں کامیاب نہیں ہوئی ۔نیشنل کانفرنس نے قومی سطح پر اپنی پوزیش مضبوط کر نے کے لئے علاقائی جماعتوں کی طرف سے بنائے گئے تھرڑ فرنٹ ،یو این پی اے کے ساتھ بھی اتحاد بنانے کی کوشش کی مگر اس کے لیڈران کو جلد ہی اس بات کا احساس ہوا یو این پی اے کوئی مضبوط اتحاد نہیں ہے اور جموں و کشمیر جیسی حساس ریاست کی جماعت کے لئے یہ اتحاد کامیاب نہیں رہے گا ۔جموں و کشمیر کی اسمبلی کی معیاد 2008میں مکمل ہورہی ہے اور انتخابات سے قبل ہی جوڑ توڑ شروع ہوا اور تمام جماعتیں دہلی کا آشیر واد حاصل کرنے میں مصروف ہیں ۔

جموں و کشمیر میں اگلی حکومت کو ن بنائے گایہ کہنا قبل از وقت ہوگا ۔کانگریس ،نیشنل کانفرنس ، پی ڈی پی ،سی پی آئی ایم سمیت تمام مین سٹریم جماعتوں نے انتخابی کوششوں کا آغاز کیا ہے ۔سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ کئی علحیدگی پسند جماعتیں 2002کے اسمبلی انتخابات کی طرح آج کی بار بھی آزاد امید وار کی حیثیت سے الیکشن میں حصہ لیں گے۔ریاست کے سابق وزیر اعلیٰ اور فاروق عبداللہ کے بہنوئی غلام محمد شاہ نے بھی انتخابات میں حصہ لینے کا فیصلہ کیا ہے ۔غلام محمد شاہ کو ایک بہترین منتظم کے طور پر مانا جا تا ہے ۔سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ انتظامیہ کے کئی اعلیٰ افیسران انتخابات کے دوران غلام محمد شاہ کی حمایت کریں گے کیونکہ انہوں نے اپنے دورحکومت میں مقامی آفیسران کی حوصلہ افزائی کی اور دس سال بعد بھی یہ آفیسران جو پوزیشن اختیار نہیں کر سکتے، غلام محمد شاہ نے اپنے دور حکومت میں انہیں وہ پوزیشن دی ۔غلام محمد شاہ کو ایک بہترین منتظم ہونے کے ساتھ ساتھ سخت گیر مسلمان بھی مانا جا تا ہے ۔انہوں نے 1984میں حکومت قائم کر نے کے بعد پہلے قدم کے طور پر سرینگر اورجموں کے سول سیکریٹریٹ میں مسجد تعمیر کروائی ۔مبصرین کے مطابق غلام محمد شاہ گزشتہ کئی سال سے حریت کانفرنس کی بولی بھی بول رہے تھے اور انہیں حریت کانفرنس کی حمایت بھی حاصل ہوسکتی ہے اور ان کے کئی امیدوار وں کا تعلق حریت کانفرنس سے ہوگا ۔

ریاست کی سیاست کا باو آدم ہی نرالہ ہے یہاں کی سیاست کسی بھی وقت کوئی بھی کروٹ لے سکتی ہے اور جموں وکشمیر کے سیاسی اور حکومتی معاملات میں دہلی کی براہ راست مداخلت رہتی ہے۔نئی دہلی کشمیر میں وقت سے پہلے ہی انتخابات کر انے کے حق میں ہیں کیونکہ گزشتہ سال اور امسال ہوئے ضمنی انتخابات میں رائے دہندگان کی بھاری شرکت کی وجہ سے اب نئی دہلی کے حوصلے بھی بلند ہوئے ہیں ،ریاست میں مسلح تحریک شروع ہونے کے بعد ہوئے انتخابات میں ووٹنگ کی شرح کافی کم رہی تاہم ضمنی انتخابات میں 70فیصد کے قریب ووٹنگ ہوئی جو ایک ریکارڑ ہے اگر آنے والے اسمبلی انتخابات میں بھی رائے دہی کی شرح اسی طرح رہی تو نئی دہلی اسے اپنی بڑی کامیابی قرار دے سکتا ہے اور 2009میں ہونے والے پارلیمنٹ انتخابات میں قومی سطح پر اس کو ستعمال کر سکتی ہے کہ اپنے موقف میںکوئی لچک لائے بغیرریاست کے اندر امن قائم ہوا اور لوگوں کی بڑی تعداد اب ہندوستان کی جمہویت میں یقین رکھتی ہے۔اس وقت کانگریس اور پی ڈی پی درمیان بھی معاملات ٹھیک ٹھاک چل رہے ہیں اس لئے دونوں پارٹیاں پیشگی انتخابات کو ہی ترجیح دیں گے۔
syeedtahir07@gmail.com

No comments:

Post a Comment