محمد طاہر سعید
سرینگر//ضلع وسب ضلع ہسپتالوں اور پرائمری ہیلتھ سنٹروں میں بنیادی سہولیات کی عدم دستیابی کی وجہ سے مریضوں کو شہر کے ہسپتالوں کا رُخ کر نا پڑ تا ہے جس کی وجہ سے دیہی علاقوں کے ہسپتال بے معنی ہوکر رہ گئے ہیں ۔بیماروں کو سرینگر منتقل کرنا اب ایک معمول بن گیا ہے اور اگر کہیں ضلع یا سب ضلع ہسپتال میں بھی مریض کا علاج کا ممکن ہو لیکن بیمارکے لواحقین کو تب تک تسلی نہیں ہوتی جب تک نہ اسے سرینگر منتقل کیا جائے۔ وادی میں صحت کا شعبہ پوری طرح متاثر ہوا ہے اور تمام بیماروں کی نظریں صدر اسپتال، صورہ میڈکل انسٹی ٹیوٹ، جی پی پنتھ ہسپتال اور لل دید ہسپتال پر مرکوز ہوتی ہیں ۔اعداد و شمار کے مطابق وادی میں 9ضلع ہسپتال،47سب ڈسٹرکٹ ہسپتال ،228پرائمیری ہیلتھ سنٹر،125الوپیتھک ڈسپنسری،7ٹی بی سنٹر،280میڈکل ایڈ سنٹر اور 939 سب سنٹر موجود ہیں تاہم وادی میں کوئی بھی ایمرجنسی ہسپتال نہیں ہے جبکہ کشمیر کے مقابلے میں جموں میں 6ایمرجنسی ہسپتال کام کررہے ہیں۔ وادی کے ہسپتالوں میں بنیادی سہولیات کی کمی کی وجہ سے مریضوں کو سرینگرکا رُخ کر نا پڑتا ہے جس کی وجہ سے یہاں کے ہسپتالوں پر کافی دبائو رہتا ہے۔ وادی میں کل 1646 طبی ادارے ہیں اور ان پر اربوں روپے خرچ کئے جارہے ہیں تاہم بنیادی سہولیات کی عدم دستیابی کی وجہ سے یہ طبی ادارے بے معنی ہوکر رہ گئے ہیں۔ آورہ کپوارہ میں پرائمری ہیلتھ سنٹر پر 50لاکھ سے زائد روپے خرچ کئے گئے لیکن ہسپتال میں بنیادی سہولیات نہ ہو نے کی وجہ ہسپتال تباہی کے دہانے پر پہنچ گیا ہے۔ مقامی لوگوں کے مطابق ہسپتال میں کسی بھی طرح کی سہولیت موجود نہیں اور نہ ہی ہسپتال میں کوئی خاتون ڈاکٹر موجود ہیں جس کی وجہ سے خواتین اس ہسپتال کا رُخ نہیں کرتے۔اس ہسپتال میںا گر چہ ایک لیڈی ڈاکٹر موجود تھیں تاہم ایک سال قبل اس کا تبادلہ عمل میں لایا گیا اور ابھی تک کسی بھی دوسری لیڈی ڈاکٹر کو وہاں تعینات نہیں کیا گیا۔یہی حال وادی کے دیگر ہسپتالوں کا بھی ہے۔ سرینگر کے شیر کشمیر انسٹی ٹیوٹ آف میڈکل سائنسز صورہ کے او پی ڈی ریکارڈ کے مطابق روزانہ 2ہزار کے قریب نئے مریضوں کا اندراج ہوتا ہے جن میں زیادہ مریضوں کی تعداد دیہی علاقوں کی ہوتی ہے۔ میڈکل انسٹی انسٹی ٹیوٹ انتظامیہ کا کہنا ہے کہ اس رش کو کم کیا جاسکتا ہے کیونکہ 2ہزار میں 1200مریض ایسے ہوتے ہیں جن کا علاج مقامی ہسپتالوں میں بھی ممکن ہوسکتا ہے۔ سرینگر صدر ہسپتال کی حالت بھی میڈکل انسٹی ٹیوٹ سے مختلف نہیں۔ صدر اسپتال میں گزشتہ ماہ 40ہزار اوپی ڈی رجسٹر ہوئیں جبکہ پانچ ہزار مریض ہسپتال میں داخل رہے۔ صدر ہسپتال کے میڈکل سپر انٹنڈیٹ ڈاکٹر منیر مسعودی نے کشمیر عظمیٰ کو بتا یا کہ ہسپتال میں روزانہ اوسط 1500کے قریب مریض رجسٹر ہوتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ مریضوں کا سرینگر منتقل کر نے کا کوئی معقول نظام نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ مریضوں کو براہ راست سرینگر کے بڑے ہسپتالوں میں نہیں آنا چاہئے بلکہ اس کے لئے ایک معقول نظام کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ ضلعو ں سے سرینگر منتقل ہونے والے مریضوں کے پاس ضلع ،سب ضلع ہسپتالوں یا پرائمری ہسپتالوں کی ریفرل سلپ ہونی چاہیے اور اگر کسی مریض کاعلاج اپنے مقامی ہسپتالوں میں ہی ہوسکتا ہے تو اسے سرینگر منتقل نہیں کیا جانا چاہیے۔ اس صورتحال کے حوالے سے وزیر مملکت برائے صحت جاوید احمد ڈار نے بتا یا کہ ضلع یا سب اسپتالوں میں انفرسٹریکچر کی کمی نہیں ہے تاہم لوگوں کی ایک ذہنیت بن چکی ہے اور انہیں تب تک تسلی نہیں ہوتی جب تک شہر کے کسی ہسپتال کا رُخ نہیں کریں۔ انہوں نے کہا کہ ہم ماہانہ طور پر او پی ڈی مانیٹر کرتے ہیں تاہم انہوں نے اعتراف کیا کہیں کہیں پر ماہر ڈاکٹروں کی کمی ہوتی ہے جس کی وجہ سے مریضوں کو سرینگر منتقل کرنا لازمی بن جاتا ہے۔
No comments:
Post a Comment