محمد طاہر سعید
سرینگر//21جنوری1990 کو گائو کدل میں سی آر پی ایف کے ہاتھوں 52 معصوم شہریوں کی ہلاکت کے زخم ابھی تازہ ہی تھے کہ محض چار دن بعدیعنی 25جنوری کو شمالی کشمیر کے ہندوارہ قصبہ میں سرحدی حفاظتی دستہ(بی ایس ایف)کے ہاتھوں 17نہتے اور معصوم لوگ جاں بحق ہوئے۔یہ وہ وقت تھا جب مسلح تحریک اسکے جوبن پر تھی اور اسے بے پناہ عوامی مقبولیت حاصل تھی۔ وادی کے دیگر علاقوں کی طرح اس روز شمالی کشمیر کے ہندوارہ میں لوگوں نے تحریک کے حق میںایک جلوس نکالا اورصبح آٹھ بجے سے ہی علاقہ رامحال ،راجواڑ ،کنڈی بلاک ،پہرو پیٹھ ،ماور ،قاضی آباد اور ملحقہ علاقوں کے لوگوں نے ہندوارہ کا رُخ کیا۔ا س واقعہ کے چشم دید گواہ خضر محمد کا کہنا ’’لوگ ہندوارہ چوک سے ہائر سکنڈری سکول کے احاطہ کی طرف جارہے تھے جہاں انہیں جمع ہونا تھا اس دوران وہاں سے وارپورہ ہندوارہ میں تعینات بی ایس ایف کی 125بٹالین کی ایک گاڑی زیر نمبر HYN7717 گزری جس میں پولیس سٹیشن ہندوارہ میں موجودہ بی ایس ایف اہلکاروں اور ایک سیاسی لیڈر کی رہائش گاہ کی حفاظت پر معمور اہلکاروں کے لئے کھانا لے جا رہے تھے ‘‘یہ گاڑی ہندوارہ چوک سے ہزاروں کی تعداد میں جمع لوگوں کے درمیان سے نکلی لیکن کسی نے بھی ان کے ساتھ کوئی چھیڑ چھاڑ نہیں کی تاہم لوگ نعرے بازی کر رہے تھے جوں ہی گاڑی ہندوارہ پولیس سٹیشن کے سامنے پہنچ گئی تو گاڑی میں موجود اہلکاروں نے پہلے ہوا میں فائیرینگ کی جس پر لوگ مشتعل ہوئے اور گاڑی کو کئی میٹر دور کھینچ کر نذرآتش کیا۔گاڑی کو نذرآتش کرنے کی قبل ہی بی ایس ایف اہلکاروں نے جلوس میں شامل لوگوں پر براہ راست فائرنگ کی ،اتنا ہی نہیں جہاں جہاں بھی چوک میں بی ایس ایف کے اہلکار موجود تھے انہوں نے مظاہرین پر فائرنگ کی جس کے نتیجے میں 6افراد موقعہ پر ہی ہلاک اور ایک سو کے قریب افراد زخمی ہوئے ۔بی ایف ایف اہلکار ضلع ہسپتال ہندوارہ ،جامع قدیم ،جامع جدید ،بانڈے محلہ ،ہیر پورہ ،کھنہ بل میں فائرنگ کرتے ہوئے داخل ہوئے اور تقریباً دن کے دو بجے تک زخمیوں کو اٹھانے کی اجازت تک بھی نہیں دی گئی جس کی وجہ سے مرنے والوں کی تعداد 6سے بڑھ کر 17ہوگئی جبکہ 73افراد زخمی ہوئے۔ایک او ر عینی شاہد محمد شفیع کے مطابق’’وہ تو قیامت صغریٰ تھی ،ہر طرف لاشوں اور زخمیوں کے ڈھیر ،جگہ جگہ خون کے نشانات،اپنے عزیز و اقارب کی تلاش میں خواتین کی آہ و بکا،ایمبولنس گاڑیوں کی آواز ،اہل ہندوارہ یہ دن کبھی نہیں بھول سکتے ‘‘۔لوگوں پر براہ راست فائیرینگ کے بعد بی ایف اہلکاروں نے پورے چوک اپنے قبضے میں لے لیا اور صبح دس بجے سے لیکر دن کے دو بجے تک لاشوں کو اٹھانے کی اجازت تک نہیں دی گئی اور نہ ہی زخمیوں کو ہسپتال منتقل کرنے دیا گیا۔اس واقعہ کے بعد ہندوارہ میں ایک ہفتہ مسلسل کر فیو رہا ۔پولیس نے اس سلسلے میں ایک ایف آئی آر زیر نمبر 10۔1990بتاریخ 26جنوری 1990زیر دفعہ ,151,53A,435,436,148,149,336,427,307درج کیا۔مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ اس واقعہ میں بی ایس ایف کی 125بٹالین کے اہلکار ملوث ہیں لیکن آج تک ان کے خلاف کوئی کاروائی نہیں کی گئی۔شہداء ہندوارہ کو ہر سال ان کی برسیوں پر یاد کیا جاتا ہے اس سلسلے آج 25جنوری کو جامع قدیم ہندوارہ میںشہداء کو خراج عقیدت اور فاتحہ خوانی ہوگی۔(ہندوارہ سے جاوید زرگر کے ساتھ)
No comments:
Post a Comment