محمد طاہر سعید، اشرف چراغ
کپوارہ//18سال قبل 27جنوری 1994کا دن آج ہی کی طرح سرد تھااور صبح کہرے کی چادر نے آسمان کو لپیٹ لیا تھایہ وہ دن تھا جب کپوارہ کو معصوم شہریوں کے خون سے نہلایا گیا ۔کپوارہ کے لوگ اس دن کو اپنی زندگی کا منحوس دن تصور کررہے ہیں اور مہلوکین کے لواحقین کو انصاف کی دہائی دیتے ہوئے بے گناہوں کی یاد میں خون کے آنسو رورہے ہیں 27جنوری 1994کو لوگ معمول کے مطابق کام کاج کیلئے نکلے تھے اور لوگوں کی ایک بڑی تعداد سردی کے باجود ضلع ہیڈکوارٹر کپوارہ میں تھے اور صبح 10بجکر 45منٹ پر فوج نے بنا کسی وجہ کے لوگوں پر براہ راست گولیاں برسائیں ۔فائر نگ کا سلسلہ اُس وقت تک جاری رکھاگیا جب تک نہ فوجی اہلکاروں نے 27 افراد کوموت کی نیند سلا دیا جن میں دکاندار، پولیس اہلکار اورضلع ترقیاتی کمشنر کپوارہ کے دفاتر کے ملازمین شامل تھے جبکہ سینکڑوں لوگ زخمی ہوئے۔ایک عینی شاہد محمد عبداللہ کا کہنا ہے ’’26جنوری کو مزاحمتی قیادت نے مکمل ہڑتال کی کال دی تھی لیکن فوج کی 15پنجاب سکھ لائی یونٹ نے لوگوں کو پہلے ہی متنبہ کیا تھا کہ اگر انہوں نے ہڑتال کی تو اس کے سنگین نتائج سامنے آئیں گے‘‘محمد عبدااللہ کا کہنا ہے’’صبح دس بجکر 45 منٹ پرکپوارہ بائی پاس روڈ سے فوج کی ایک کانوائی جارہی تھی اور اس دوران اس علاقے میں فائرنگ کی آوازیں سنائی دیں۔لوگ ابھی یہ سمجھنے کی کوشش ہی کررہے تھے کہ فائرنگ کی آوازیں کہاں سے آرہی ہیں تو اِسی دوران کپوارہ بازار میں ہرطرف فوج نے بندوقوں کے دہانے کھول دیئے گئے اور لوگ اپنی جان بچانے کیلئے اِدھر اُدھر بھاگنے لگے۔ کپوارہ قصبہ کے نزدیک ایک پہاڑی پر ملہ پوسٹ ،پاپا2، وین اورریگی پورہ ٹاپ پرموجودفوجی بنکروں سے فائرنگ کی گئی جن کا نشانہ براہِ راست کپوارہ بازار میں موجود عام لوگ تھے اور اس کے علاوہ اولڈ برج پرقائم پولیس پوسٹ کو بھی نشانہ بنایاگیا،جب 20منٹ بعد فائیرینگ تھم گئی تو27 افراد کی لاشیں کپوارہ بازار میں بکھری پڑی تھیں‘‘۔عینی شاہد کا مزید کہنا ہے کہ تقریباً ساڑھے گیارہ بجے کے بعد لوگوں کو حکم دیا گیا کہ وہ شناختی پریڈ کے لئے اپنی گھروں سے باہر آئیں ‘‘۔ایک اور شاہد غلام نبی کا کہنا ہے ’’۔ڈی سی آفس کپوارہ کا ایک ملازم خضر محمدکوڑا کرکٹ کے ایک ڈھیر میں چھپا بیٹھا تھا، فوجی اہلکاروں نے اُسے وہاں سے گھسیٹ کر لایا اور گولیاں مار دیں۔ گلگام کپوارہ کے ایک فاریسٹ گارڈ غلام محمد میر کو اس بناء پر قتل کر دیاگیا کیونکہ اُس نے خاکی وردی پہنی تھی اور فوجی اہلکار اُسے پولیس جوان سمجھ بیٹھے۔مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ یہ قتل عام اس وجہ سے کیا گیاکیونکہ پولیس اور فوج کے درمیان محاذ آرائی چل رہی تھی، جو25جنوری کو اس وقت شروع ہوئی جب ایک پولیس کانسٹیبل اور ایک فوجی آفیسر کے درمیان ہاتھا پائی ہوئی۔بتایا جاتا ہے کہ کانوائی کی ایک گاڑی ایک بزرگ راہگیرکو کچلنے جارہی تھی تو اِس موقعہ پرفوجی اہلکاروں نے مذکورہ شہری کی مار پیٹ کی۔اس واقعہ کے نتیجے میں ایک پولیس کانسٹیبل نے مزاحمت کی، جسکی بناء پراُسکی ایک آفیسر کے ساتھ لڑائی ہوئی۔چنانچہ فوجی آفیسر نے پولیس اہلکار کو سنگین نتائج بھگتنے کی دھمکی دی اور اس کے بعد کپوارہ میں 26کی گئی ہڑتال کی وجہ سے فوج کے غصہ میں مزید اضافہ ہوگیا‘‘۔ چشم دید گواہ حبیب الہ میر کا کہنا ہے’’27جنوری کو شب برات تھی اور لوگ ضروری ساز و سامان خریدنے کے لئے کپوارہ آئے تھے ۔انہوں نے کہا’’میں اقبال مارکیٹ میں سامان خریدرہا تھاجس دوران اچانک فائیرینگ شروع ہوئی لوگ اپنی جان بچانے کے لئے محفوظ مقامات کی طرف بھاگنے لگے اور میں مقامی مندر میں گھس گیا باہر نکلنے بعد میں نے کپوارہ میں جگہ جگہ پر لاشیں بکھری ہوئیں دیکھیں‘‘۔ایک مقامی سینئر آفیسر ، جو اس واقعہ کا چشم دید گواہ تھا، نے اُس وقت فوج کو موردالزام ٹھہرایا تھا جسکے بعدفوج نے اسے گرفتار کیاتھاپولیس نے اس واقعہ کے سلسلے میں ایف آئی آر زیر نمبر13/94بتاریخ 27جنوری 1994زیر دفعہ 302/307درج کیا ہے۔ ایف آئی آر میں لکھاگیا ہے ’’31میڈیم ریجمنٹ سے وابستہ اہلکارفیلڈ آفیسر ایس بخشی کی سربراہی میں روڈ اوپننگ پارٹی پر مامور تھے،اور انہوں نے کپوارہ مارکیٹ اور اس کے گرد و نواح اندھادھندفائرنگ کر کے متعدد لوگوں کو ہلاک کیا‘‘۔ تاہم فوج نے اُس وقت کہا کہ 27شہریوں کی ہلاکت اُس وقت ہوئی جب ایک فوجی کانوائی پرجنگجوئوں نے حملہ کیا جسکے بعد طرفین کے مابین گولیوں کا تبادلہ ہوا ۔اس واقعہ کو اگرچہ 18سال ہوگئے ہیں لیکن مہلوکین کے لواحقین آج بھی انصاف کی دہائی رہے ہیں ۔لواحقین کا کہنا ہے کہ اس کیس کو بالکل بند کر دیا گیا ہے اور واقعہ میں ملوث افراد کی نشاندہی بھی ہوچکی ہے لیکن ابھی تک انہیں کوئی سزا نہیں دی گئی۔
No comments:
Post a Comment