Wednesday, December 9, 2009

خاموش مذکرات کاری۔۔ایجنڈا کیا ہوگا؟؟

محمد طاہر سعید
بھارتی وزیر اعظم ڈاکٹرمن موہن سنگھ نے وادی کے اپنے حالیہ دورہ کے دوران مسئلہ کشمیر کے حل کے حوالے سے جہاں خارجی سطح پر پاکستان کی طرف ایک بار پھر دوستی کا ہاتھ بڑھا یا وہیں داخلی سطح پربھی انہوں نے ہر اُس شخص کے ساتھ غیر مشروط مذاکرات کا اعلان کیا جو تشدد اور خون خرابہ کاراستہ ترک کرکے ریاست میںبقول ان کے امن و خوشحالی کے فروغ کیلئے کوئی بامعنی تجویز رکھتا ہو۔من موہن سنگھ کایہ بیان اگر چہ بھارت کی روایتی پالیسی کے عین مطابق تھا تاہم اپنی تقریر میں انہوں نے جو لہجہ اختیار کیا تھا،وہ واقعی ایک مثبت تبدیلی کی جانب اشارہ کرتا تھا۔حتیٰ کہ جب ایک صحافی نے حریت کانفرنس (ع) چیئرمین میر واعظ عمر فاروق کی جانب سے حال ہی میں لندن میں دیئے گئے بیان، جس میں موصوف نے عسکریت کو کشمیر کی تحریک آزادی کا ایک ر±خ قرار دیا تھا، کے بارے میں پوچھا تو مسٹر سنگھ نے نہایت ہی نرم لہجہ اختیار کرتے ہوئے کہا ” ہمیں غصے میں دیئے گئے بیانات پر ردعمل ظاہر نہیں کرنا چاہیے“۔گزشتہ ایک دوماہ کے دوران کشمیر مسئلہ کے حوالے سے بھارت نے بظاہر اپنی پالیسی میں کافی تبدیلی لائی ہے۔مسٹر سنگھ کے بیان سے قبل وزیر داخلہ پی چدمبرم نے بھی کشمیر حل کے حوالہ سے چند غیر متوقع باتیں کیں۔پریس انفارمیشن بیورو آف انڈیا کی طرف سے سرینگرمیں منعقد کی گئی آل انڈیا ایڈیٹرس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے چدمبرم نے صحافیوں کے سوالوں کا جواب دیتے ہوئے کہا ”کشمیر ایک سیاسی مسئلہ ہے اور اس کا سیاسی حل نکالنا ہے اور اس اس ضمن میں حکومت ہند کی پالیسی یہ ہے کہ ریاست کے ہر طبقہ کے ساتھ مذاکرات ہونگے“تاہم چدمبرم نے ساتھ ہی مذاکرات کی نوعیت بتاتے ہوئے کہا کہ یہ مذکرات میڈیا کے سامنے نہیں ہونگے بلکہ خفیہ اور سفارتی سطح کے مذاکرت ہونگے اور وقت آنے پر میڈیا کے سامنے تفصیلات رکھی جائیں گی۔انہوں نے کہا کہ بھارت کسی دوسرے حل کو کاپی کر کے نہیں ٹھونسے گا چونکہ یہاں کے تاریخی اور جغرافیائی حالات منفرد ہیں، اس لئے حل بھی منفرد ہوگا اور وہ حل ریاستی عوام کی اکثریت کو قبول ہوگا۔مرکزی وزیر داخلہ کے بیان پر معمول کے مطابق ریاست کی تمام سیاسی جماعتوں کی طرف ملا جلا ردعمل سامنے آیا ۔مین سٹریم جماعتوں اور حریت کانفرنس کے اعتدال پسند دھڑے نے جہاںچدمبرم کے بیان کا خیر مقدم کیا وہیں بزرگ مزاحتمی قائد سیدعلی شاہ نے گیلانی نے اسے بھارت کی شاطرانہ پالیسی قرار دیتے کہا ہے کہ یہ بیانات مسئلہ کشمیر کے حوالہ سے بھارت پر عالمی دباﺅ کو زائل کرنے کی کوششیں ہیں۔تاہم میر واعظ عمر فاروق کی قیادت والی حریت کانفرنس نے نئی دلی سے دوبارہ مذاکرات شروع کرنے کا من بنالیا ہے اور اس کیلئے تیاریاں جاری ہیں جس کی ایک کڑی کے تحت انہوں نے حریت کے اندر اور باہر مشاورت کا سلسلہ شروع کیا ہواہے ۔حریت(ع) نے دیگر مزاحمتی قوتوں ،خاص کر بزرگ مزاحمتی لیڈر سید علی گیلانی اور لبریشن فرنٹ کے محمد یاسین ملک کو اعتماد میں لینے کی کوششیں بھی تیز کر دیں ہیں اور اس کےلئے فضل الحق قریشی اور بلال غنی لون پر مشتمل دو نفری کمیٹی بھی بنائی گئی ہے جو مذاکرات کے حوالے سے دیگر مزاحمتی لیڈروں سے مشاورت کریں گے لیکن فی الوقت حریت کانفرنس (ع)میں بھی کئی اکائیاںبھارت کے ساتھ مذاکرات کے حق میں نہیں ہیں اور ان کا ماننا ہے کہ یہ وقت گزاری کے سوا کچھ بھی نہیں ۔ان لیڈروں کے مطابق منموہن سنگھ نے حریت کو مذاکرات کی دعوت نہیں دی ہے جبکہ حریت آئین کے مطابق دوطرفہ مذاکرات مسئلہ کا حل نہیں بلکہ صرف سہ فریقی بنیاد پر حق خودارادیت کو مرکز بنا کر بات چیت ممکن ہے۔اس میں کوئی شک نہیں کہ لمبے وقفہ کے بعد حکومت ہند نے اٹوٹ انگ کے اپنے روایتی موقف پر خاموشی اختیارکرکے کچھ اس طرح بات کی جس سے بظاہر لگ رہا ہے کہ دلّی اب کی بار کشمیر مسئلہ پرمثبت مذاکرات میں سنجیدہ ہے ،تاہم اس ساری صورتحال کا ایک دلچسپ پہلو یہ بھی ہے کہ یہ سارا عمل مسئلہ کے داخلی پہلو سے جڑا ہوا ہے جبکہ خارجی سطح پر حکومت ہندنے پاکستان کے ساتھ مذاکرات کی بحالی کوگوکہ آج الفاظ کا ہیر پھیر کے ساتھ دہشت گردی سے مشروط نہیں کیا ہے لیکن بین السطور منموہن سنگھ نے صاف کیا کہ دہشت گردی کے خلاف کارروائی کئے بغیر مذاکراتی عمل سود مند ثابت نہیں ہوسکتی ،اس طرح انہوں نے پاکستان سے بالواسطہ طور پر کہا ہے کہ وہ مذاکرات کی کامیابی کیلئے پہلے انتہاپسندی کا خاتمہ کرے ۔ تاریخی اعتبار سے پاکستان کشمیرمسئلہ کا ایسا ہی فریق ہے جیسا بھارت اورکشمیری عوام، اور ان کی شمولیت کے بغیر کوئی پائیدار حل نکالنے کی امید کرنا عبث ہے۔اس ضمن میں ریاستی وزیراعلیٰ عمر عبداللہ کا یہ بیان انتہائی اہمیت کا حامل ہے کہ نئی دلّی کو کشمیر مسئلہ حل کرنے کیلئے بیک وقت پاکستان اور کشمیریوں کے ساتھ مذاکرات شروع کرنے چاہئیںکیونکہ بقول ان کے ماضی میں دلّی اور کشمیر یا دلّی اور اسلام آباد کے درمیان ہوئے تمام معاہدے یکطرفہ طور کئے گئے تھے اورانہیں تیسرے فریق کی توثیق حاصل نہیں تھی جس کی وجہ سے ان معاہدوں کو ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا جبکہ مسئلہ ابھی بھی برابر اپنی جگہ پر قائم ہے ۔جب وزیراعلیٰ کو خود دوطرفہ مذاکرات سے کوئی نتیجہ برآمد ہونے کی امید نہیں ہے ،ایسے میں دلّی اور کشمیری قیادت کے ساتھ مذاکرات کی بحالی بے معنی ہوکر رہ جاتی ہے کیونکہ اگر ان مذاکرات کو وزیراعلیٰ کے بیان کی روشنی میں دیکھا جائے تو ان کا حشر بھی ماضی جیسا ہوگا۔”درپردہ سفارتکاری اور خفیہ مذاکراتکاری“کے طویل ادوار کے بعد داخلی پہلو پر جو بھی حل نکل آئے گا،ہوسکتا ہے کہ وہ پاکستان کو قابل قبول نہیں ہو ،یوں یہ مسئلہ بھارت اور پاکستان سمیت ریاستی عوام کے سروں پر تلوار کی طرح لٹکتا رہے گاجس کے چلتے امن و خوشحالی کے تمام خواب ،خواب ہی رہیں گے۔ اس ساری صورتحال کے باوجو د میرواعظ حریت مذاکرات کیلئے آمادہ ہے ،جو کافی معنی خیز ہے ۔یہ امر قابل ذکر ہے کہ میرواعظ کی سربراہی والی حریت کانفرنس سمیت کئی مزاحمتی جماعتوں نے اس سے قبل بھی کئی بار ہندوستان کے ساتھ مسئلہ کشمیر پر بات چیت کے کئے ادوار کئے مگر ان کا کوئی معنی خیز نتیجہ سامنے نہیں آیا بلکہ میرواعظ عمر فاروق کو ہمیشہ نئی دلی سے شکایت ہی رہی کہ انہوں نے مذکرات کے دوران حریت کو دی گئی یقین دہانیوں کو پورا نہیں کیا گیا۔حریت کانفرنس نے 2004سے براہ راست نئی دلی کے ساتھ مذاکرات کا آغاز کیا ۔حریت کانفرنس کو مذاکرات کے لئے تیار کر نے میں ہندوستان کے سابق وزیر قانون رام جیٹھ ملانی، جو کہ ُاس وقت کشمیر کمیٹی کے سربراہ تھے ،کے علاوہ جموں و کشمیر کے موجودہ گورنر این این وہراہ نے اہم کردار ادا کیا۔حریت کانفرنس نے 22جنوری 2004کو اُس کے وقت کے وزیر داخلہ کے ساتھ پہلی اور 27مارچ 2004کو اُس وقت کے وزیر اعظم اٹل بہاری واچپائی کے ساتھ دوسری ملاقات کی۔نئی دلی اور حریت کے درمیان مذکراتی سلسلہ کو آگے بڑھاتے ہوئے ستمبر 2005 میں نئی یو پی اے سرکا رنے حریت کانفرنس کے ساتھ مذکرات کئے ۔حریت کانفرنس کے علاوہ محمد یاسین ملک نے 17فروری 2006کو جبکہ پیپلز کانفرنس کے سجاد غنی لون نے 14جنوری 2006کو وزیر اعظم من موہن سنگھ کے ساتھ ملاقات کی۔حریت کانفرنس ،یاسین ملک اور سجاد لون کی نئی دلی کے ساتھ مذاکرات کو خوب تشہیر ملی اور تمام دھڑوں نے مذاکرات کو تسلی بخش قرار دیا۔مذاکرتی عمل کے فوراً بعد کسی بھی معجزے کی امید رکھنا ٹھیک تو نہیں تھاتاہم بات چیت کے زمینی سطح پر کچھ اثرات مرتب ہونے کی ضرور امید رکھی جا سکتی تھی مگر بات چیت کے تین سال گزرجانے کے باوجود بھی زمینی سطح پر کوئی قابل قدر بدلاﺅ نہیں آیا اور آج مذاکرتی عمل میں حصہ لینے والے حریت لیڈران اور مین اسٹریم جماعتوں کے رہنما مذاکرات کی ناکامی کا اعتراف کر تے ہیں۔ایسے میں وزیر داخلہ پی چدمبرم نے کچھ نئے اور انوکھے الفاظ کا سہارا لیتے ہوئے ریاست کی سیاسی جماعتوں کو ایک بار لبھانے کی کوشش کی ہے اور اس وقت مذاکرات کو خفیہ سفارتکاری کا نام دیکر اسے ریاست کیلئے ایک سیاسی پیکیج تیار کرنے کی کڑی قراردیا گیا ۔اس ضمن میں چدم برم کاکہنا تھاکہ جموں و کشمیر میں مختلف گروپوں کےساتھ خاموش سفارت کاری کے تحت بالمشافہ مذاکرات کے ذریعے ریاست کے لئے ایک پیکیج تیار کرنے میں تجاویز کے خد و خال مرتب کرنے میں مدد ملے گی۔ چدمبرم کا خفیہ مذاکراتکاری اور سفارتکاری کو اتنی اہمیت دینا بے معنی نہیں ہے ۔انہیں بخوبی معلوم ہے کہ اگر اس بار بھی مذاکرات کا ڈھنڈورا پیٹا جائے تو حشر ماضی سے کچھ مختلف نہیں ہوگا لیکن اس وقت صورتحال ماضی سے بالکل مختلف ہے
۔عالمی سطح پر رونما ہورہی تبدیلیوں اور مسئلہ کشمیر کی گونج کے چلتے بھارت اس وقت اس بات کا متحمل نہیں ہوسکتا ہے کہ مذاکرات کے غبارے سے جلد ہوا نکل جائے ۔ان کی کوشش رہے گی کہ ریاست کی زیادہ سے زیادہ سیاسی قوتیں مذاکراتی عمل کا حصہ بنیں اور اس کو وہ اعتباریت ملے جس کی بھارت کو فی الوقت شدت سے تلاش ہے ۔ایسا کرنے سے جہاں اس عمل کو طوالت ملے گی ،وہیں مذاکراتی عمل کا حصہ بننے والوں کو بھی کچھ اس طرح الجھا کر رکھا جائے گا کہ وہ دلّی کی بھول بھلیوں میں گم ہو کر اصل مسئلہ کو ہی بھول جائیں ۔بھارتی وزیر اعظم بھلے ہی یہ کہیں کہ داخلی اور خارجی سطح پر مذاکرات کی بحالی کسی عالمی دباﺅ کے تحت نہیں ہورہی ہے لیکن بیشترسیاسی مبصرین کا ماننا ہے کہ مذاکرات کی تازہ پیشکش وقت گزاری کے سوا کچھ بھی نہیں اور اس ہتھیار کا استعمال کرکے بھارت مسئلہ کشمیر سے عالمی توجہ ہٹانے کی ایک اور کامیاب کوشش میں لگا ہوا ہے ۔مبصرین کے نزدیک حکومت ہند کے پاس اس وقت اس بات کے سوا کوئی چارہ کار نہیں کہ وہ بات چیت کی ڈفلی بجاکرعالمی دباﺅ کو اس کے شور میں کچھ اس طرح گم کردے کہ کل کوئی یہ کہنے والا نہ ہو کہ ”آپ نے پہل نہ کی“۔اگر ایسا نہ ہوتا تو وزیراعظم ہند صرف اڑھائی ماہ بعد اپنے موقف میں اس قدر لچک نہیں لاتے ۔یاد رہے کہ 15اگست کے روزلال قلعہ کی فصیل سے اپنی تقریر میں وزیر اعظم من موہن سنگھ نے کہا تھا کہ” اسمبلی اور پارلیمانی چناﺅ میں عوام کی بھاری شرکت سے یہ واضح ہوگیا کہ اب جموں وکشمیر میں علیحدگی پسندوں کی کوئی جگہ ہے اور انہیں اس راستہ سے باز آنا چاہئے“۔اب ایسا کیا ہوا کہ بھارت کو دوماہ بعد ہی اپنا لہجہ بدلنا پڑا؟۔یہاں اس امر پر بھی غور کرنا ضروری بنتا ہے کہ مذاکرات کی بحالی کے حوالہ سے بھارت کا موقف انتہائی مبہم اور غیر واضح ہے ۔فی الوقت کسی کو معلوم نہیں کہ مذاکرات کا ایجنڈا کیا ہوگا اور کس کے ساتھ مذاکرات ہونگے،جو کئی ایک خدشات کو جنم دیتا ہے۔ عوامی حلقوں کی جانب سے یہ سوال کیا جارہا ہے کہ اگر نئی دلّی کشمیر کو واقعی ایک سیاسی مسئلہ مانتی ہے اور اس کا سیاسی حل نکالنے کی باتیں کر رہی ہے تو درپردہ سفارتکاری کا کیا مطلب ہے ۔ مذاکرات کی بحالی کے حوالہ سے خدشات بالکل بجا ہیں ۔مین سٹریم جماعتوں کو بہر حال ان خدشات کے ہوتے ہوئے بھی زہر کا یہ جام پینا ہی پڑے گا کیونکہ وہ دلّی ناراضگی مول نہیں سکتے مگر علیحد گی پسند قیادت کو سوچنا پڑے گا کیونکہ وہ خون کی ترجمانی کا دعویٰ کرتے ہیں ۔کیا وہ اس عمل کا حصہ بن کر کر بلواسطہ طور پرہی سہی ،بھارت کے آلہ کار تو نہیں بن رہے ہیں؟۔کس کو معلوم نہیں کہ بھارت کی یہ تاریخ رہی ہے کہ اس نے کشمیری لیڈروں کو ہر وقت اپنے مفاد کیلئے استعمال کیا ہے اور جب اتنے مفادات کی تکمیل ہوئی تو انہیں اس طرح پھینک دیا گیا جیسے دودھ سے مکھی پھینکی جاتی ہے۔اگر موجودہ مزاحمتی قیادت کو بھی اس حشر کا انتظار ہے تو بے شک مذاکراتی عمل کا حصہ بننے میں کوئی برائی نہیں لیکن اگر وہ ماضی سے عبرت حاصل کرکے واقعی کشمیری خون کے ترجمان ہیں تو وہ اس طرح کی مکر و فن ِخواجگی سے مرعوب نہیں ہوسکتے۔
syeedtahir07@gmail.com

No comments:

Post a Comment