محمد طاہر سعید
اسمبلی کے حالیہ اجلاس کے دوران سی پی آئی ایم کے ممبر اسمبلی محمد یوسف تاریگامی نے جب سال 2000میں قانون سازاسمبلی میں پاس کی گئی اٹانومی قرارداد پر از سر نو غور کر نے کے لئے قرداد ایوان میںلائی تو امید کی جاری تھی کہ نیشنل کانفرنس اس قراداد کی حمایت کرئے گی ،یا کم از کم اتنا ضرور ہوگا کہ حکمران نیشنل کانفرنس مذکورہ ممبر کو اٹانومی کی قرادا د خود ایوان میں لانے کا یقین دلائے گی مگر ہوا اس کے برعکس ۔نیشنل کانفرنس کے سنیئر لیڈر اور قانون و پارلیمانی امور کے وزیر علی محمد ساگر نے تاریگامی کی قرارداد کی یہ کہہ کر مخالفت کی کہ وزیر اعظم کی طرف مرکز ریاست تعلقات پر بنائے گئے رنگا راجن ورکنگ گروپ نے ابھی تک اپنی رپورٹ پیش نہیں کی ہے ۔حالانکہ یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ہے کہ رنگا راجن کمیٹی میں اٹانومی کی مخالفت کی گئی ہے اور اس بات کا اظہار واضح طور پر اس کمیٹی کے ایک ممبر نے اسی اسمبلی کے ایوان میں برملا طور پر کیا ۔
آخر نیشنل کانفرنس جو 1977سے اٹانومی کے وعدے پر سانسیں لے رہی ہے کو ایسا سٹینڈ لینے کی ضرورت کیوں محسوس ہوئی ۔اس سارے معاملے کو ماضی قریب کی سیاسی ڈیولپمنٹ میں دیکھنے کی ضرورت ہے۔2002میں پی ڈی پی اور کانگریس کی مخلوط حکومت کے وجود میں آنے کے بعدنیشنل کانفرنس نے نئی دلی میں اپنی پوزیشن کو مستحکم بنانے کی ہر ممکن کوشش کی تھی مگر وہ ہر ایسی کوشش میں ناکام رہے تاہم 2008میں بادلوں کی اوٹ سے سورج کی ایک کرن چھن کراس وقت نکل آئی جب امر ناتھ تنازعہ کے پس منظر میں پی ڈی پی نے غلام نبی آزاد حکومت کی حمایت واپس لی اور پی ڈی پی اور کانگریس میں دوریاں بڑھنے لگیںاور یہ خلیج نیشنل کانفرنس اور کانگریس میں قربت کا سبب ثابت ہوئی۔چونکہ آنے والے پارلیمانی انتخاب میں پی ڈی پی کا سٹینڈ کانگریس کو بھاری پڑنے کا اندیشہ تھالہذا انہوں نے بھی نیشنل کانفرنس کی عجلت کو غنیمت سمجھ لیا ۔یہی وجہ ہے کہ نیشنل کانفرنس فی الوقت کوئی ایسا قدم نہیں اٹھانا چاہتی ہے جس سے وہ اپنے اکھڑے پاﺅں زمین پر واپس جمانے کا زریں موقع گنوا بیٹھے۔نیشنل کانفرنس کو اس سے قبل کئی بار مرکز کے ساتھ ٹکراﺅ کا مزا چکھنا پڑا ہے اور آ ج بھی انہیں مرکز کے ساتھ ٹکراﺅ سے پیدا ہو نے والے نقصان کا بھر پور اندازہ ہے ۔نیشنل کانفرنس نے جب 2000میں اٹانومی کی قراردا د پاس کی تھی اس وقت عمر عبداللہ بی جے پی کی قیادت والے قومی جمہوری اتحاد حکومت میں وزیر مملکت کے عہدے پر فائز تھے اور آج نیشنل کانفرنس کے صدر فاروق عبداللہ یو پی اے کی حکومت میں وزیر ہیں ۔نیشنل کانفرنس اس وقت دِلّی سے لے کر سرینگر تک اقتدار پر براجمان ہے ،اس لئے اسے اس بات کی قطعی ضرورت نہیں ہے کہ وہ دِلّی کے ساتھ کوئی ٹکراﺅ پیداکرے ۔اسمبلی میں اگر چہ نیشنل کانفرنس کے کئی ممبران نے اٹانومی کے اس ریزولیشن پر بحث کر نے کا مطالبہ کیا تھا مگر اسپیکر نے وزیر قانون علی محمد ساگر کے تیور دیکھ کر ایوان کی کاروائی ہی ملتوی کر دی۔
نیشنل کانفرنس نے اپنے ویژن ڈاکو منٹ میں اٹانومی کو جموں وکشمیر کے مسئلہ کا پر امن حل قرار دینے کی بات کی ہے اور ہندوستان کے سنجیدہ فکر طبقے نے اس کو قبول کر نے کا عندیہ بھی دیا ہے ،تو یہ توقع ضرور کی جا رہی تھی کہ اقتدار میں آنے کے بعد نیشنل کانفرنس دوبارہ اس پر غور کر نے کے لئے نئی دِلّی سے رجو ع کر ے گی۔اس بات میں کوئی مضائقہ نہیں ہے کہ نیشنل کانفرنس اقتدار سے باہر اٹانومی کے مسئلہ پر جتنی سنجیدہ ہو تی ہے اتنا ہی اقتدار میں آنے کے بعد دکھائی دے کیونکہ حد سے زیادہ آگے بڑھنے کے نتائج اس جماعت کے بار بار کے تجربات شامل ہیں۔نیشنل کانفرنس کا اس وقت کانگریس کے ساتھ گہرانا یارانہ ہے اور ایسے یارانے ٹوٹنے کی تلخ یادیں بھی ان کی سیاسی یاداشت کا حصہ ہیں۔نئی دلی کے ساتھ الحاق کے بعد دہلی کی مہربانیوں کو محسوس کر کے جب شیخ محمد عبداللہ نے پنڈت جواہر لال نہر و سے کہا کہ کشمیر کے لوگ ہندوستان کے ساتھ خوش نہیں ہیں اس لئے انہیں آزاد چھوڑا جائے تو نئی دِلّی کو شیخ مرحوم کو الگ کر کے جیل کی کال کوٹھہری میں پہنچانے اور بخشی غلام محمد کو ان کی جگہ وزیر اعظم کے عہدے پر فائز کر نے میںکوئی دیر نہ لگی ،حالانکہ پنڈت نہرو کو اپنے عزیز دوست کو پابند سلاسل کرنے پر عمر بھر افسوس رہا ۔9اگست 1953ءکو شیخ محمد عبداللہ گرفتار ہوئے اور 15اگست کو پہلی بار ریاستی پرچم کے ساتھ ترنگا لہرا یا گیا اور جب 1975میں شیخ محمد عبداللہ کشمیر ایکارڈ کے ذریعہ دوبارہ اقتدار میں آئے تب تک ریاستی پرچم اپنی اہمیت اور افادیت کافی حد تک کھو چکا تھا اور ریاست کو حاصل خصوصی آئینی پوزیشن کی بیخ کنی اپنے عروج کو پہنچ چکی تھی حالانکہ ایکارڈ کے وقت لوگوں کو یقین دلایا گیا تھا کہ 1953ءسے قبل کی پوزیشن بحال کی جائے گی مگر اقتدار حاصل کر نے کے بعدجب شیخ محمد عبداللہ نے وزیر اعظم اندرا گاندھی کو اپنا وعدہ یاد دلا یا تو اندرا گاندھی نے شیخ محمد عبداللہ سے کہا کہ گھڑی کی سوئیاں واپس نہیں موڑی جا سکتی ہیں ۔1984میں ڈاکٹر فاروق عبداللہ نے کانگریس کو سینگ دکھانے کے لئے کانگریس مخالف پارٹیوں کو یکجا کر نے کی کوشش تھی تو نئی دِلّی نے انہیں اپنے ہی بہنوئی غلام محمد شاہ کے ذریعہ ایسی پٹخنی دی کہ آج تک فاروق عبدللہ ہر قدم اُٹھانے سے پہلے سو بار سوچتے ہیں کہ اس سے کہیں دِلّی کا دل تو نہیں دُکھے گا ۔اب وہ ان کی منشا کے بغیر پر بھی نہیں ہلاتے اور جب فاروق عبداللہ کو 1984کا زمانہ یاد آتا ہے تو وہ بلاجھجک کہہ اٹھتے ہیں کہ کشمیری راضی رہیں یا نہ رہیں دلی راضی رہنی چاہیے۔
جون 2000میں نیشنل کانفرنس نے جو اٹانومی کی قرادراد اسمبلی میں پاس کی ،گرین سگنل اسے 1996میں اس وقت ملا تھا جب ایچ ڈی دیوی گوڑا ہندستان کے وزیر اعظم تھے اوراس وقت کے وزیر دفاع ملائم سنگھ یادو نے کہاتھا کہ مرکز جموں وکشمیر کو اندرونی خود مختاری دینے کے بارے میں سنجیدگی سے غور کر رہا ہے اور اس سلسلے میں پارلیمنٹ کے آئندہ اجلاس میں قانون بھی بنایا جائے گا۔فاروق عبداللہ کی زیر قیادت حکومت نے اٹانومی کی قرادراد منظور کر نے سے قبل ایک کمیٹی ضرور تشکیل دی لیکن جب تک اس کمیٹی نے اپنی رپورٹ پیش کی تب تک کافی دیر ہوچکی تھی اور مرکز میں بھاجپا نے اقتدار سنبھالا تھااور ایک بات واضح تھی کہ بھاجپا کبھی بھی اس قرارداد کی حمایت نہیں کرے گی کیونکہ ”ایک ودھان،ایک پردھان اور ایک نشان “ اسی جماعت کا نعرہ تھا اور 1953ءمیں شیخ کی برطرفی سے قبل اسی کو بنیاد بنا کر 1952میں شیخ محمد عبداللہ کے خلاف جموں میں پرجا پریشد کی ایجی ٹیشن چلائی گئی تھی ۔جس وقت دیو گوڑا کی قیادت والی یو نائٹیڈفرنٹ حکومت نے جموں وکشمیر کو مکمل اٹانومی دینے کی بات کی اسی وقت بی جے پی نے اس کی مخالفت کر تے ہوئے کہا تھا کہ ’یہ دیش کا ایک اوربٹوارا کرنے کے مترادف ہے“تو پھر اسی بی جے پی کے پاس یہ قراداد بھیجنے کا ہی کیا مقصد تھا؟
اب 2008کے چناﺅ میں نیشنل کانفرنس نے ایک بار پھر اٹانومی کا وعدہ کیا ہے اور یہ بات قابل فہم ہے کہ کانگریس کے ساتھ ساجھے داری کے ہوتے ہوئے ایسے کسی قانون کے لئے راہ ہموار ہونا مشکل ہے جس سے کشمیر کی آئینی حیثیت مضبوط ہو اور مخالف پارٹیوں کو کانگریس کی پوزیشن پورے ہندوستان میں کمزور کر نے کا موقع ہاتھ آئے ۔ ویسے بھی کانگریس کی کشمیر کے تئیں ابتداءسے ہی دوغلی اور سخت پالیسی رہی ہے اور کشمیر کا مسئلہ پیدا کر نے کی ذمہ داری بھی سی پارٹی پر ہے ۔اس میں کوئی شک نہیں کہ اندرونی خود مختاری نیشنل کانفرنس کی مسئلہ کشمیر کے تئیں واضح پالیسی ہے اور سیاسی مصلحت کی وجہ سے کبھی کبھی انہیں اس مسئلہ پر خاموشی اختیار کرنا پڑتی ہے اور اگر کبھی انہیں مسئلہ کشمیر کے حوالے سے بات کر نے کا موقع ملے گا تو ان سے یہ امید ضرور کی جا سکتی کہ وہ اٹانومی کا معاملہ زیر بحث لائیں گے تاہم مستقبل قریب میں ان سے ایسی کوئی بھی امید رکھنا ٹھیک نہیں ہے کہ وہ اقتدار اور وہ بھی کانگریس کے ساتھ شراکت میں ہوتے ہوئے اٹانومی کی قراداد اسمبلی میں لائیں گے اور فی الحال انہوں نے اپنی اٹانومی کو رنگا راجن ورکنگ گروپ کی رپورٹ کے نیچے دبا کر رکھ دیا ہے۔
No comments:
Post a Comment