کشمیر میں اٹھنے والاسیاسی طوفان ابھی تھما بھی نہیں تھا اور حریت کانفرنس کے دون
دھڑوں میں بے چینی پیدا ہوگئی تھی وزیر مملکت برائے امور داخلہ پرکاش جیسوال نے پارلیمنٹ میں حریت دلی مذاکرات پر بیان دے کر میر واعظ عمر فاروق کی قیادت والی حریت کانفرنس کے لیڈروں کی بے چینوں میں مذید اضافہ کر دیا۔پرکاش جیسوال نے پارلیمنٹ میں ایک ضمنی سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا تھا ”حریت نے 2004سے دلی کے ساتھ مذاکرات کے 4 ادوار کئے مگر کسی بھی دور میں حریت کانفرنس کے لیڈروں نے کشمیر مسئلہ کے حوالے سے کوئی بھی تجویز پیش نہیں کی“۔پرکاش جیسوال کے اس بیان کے بعداگر چہ سخت گیر حریت کانفرنس خیمے کو مسرت ہوئی کیونکہ وہ ہمیشہ سے ہی دلی حریت مذاکرا ت کی مخالفت کرتی آئی ہے تاہم میر واعظ عمر فاروق کی قیادت والی حریت کانفرنس تذب زب کا شکار ہوگئی ہے ۔دلی کی طرف سے حریت کو پارلیمنٹ میں ایکسپوز کر نا حریت کانفرنس کے لئے بہت ہی بڑا دھچکہ تھا کیونکہ موجودہ سیاسی حالات کے تناظر میںحریت کے سیاسی مستقبل کے لئے اس طرح کا بیان مستحسن نہیں تھا۔کشمیر میں اگر چہ حریت دلی مذاکرات کے بارے میں پہلے ہی خدشات کا اظہار کیا جا رہا تھا تاہم آج کی بار دلی نے واضح طور پر ان خد شات کو صحیح ثابت کر دیا ہے۔حریت کانفرنس کانفرنس اس وقت پوری طرح سے مخمصے میں ہے ایک طرف پاکستان جو کشمیر مسئلہ کے حوالے سے حریت کانفرنس کی سیاسی اور سفارتی سطح پر حمایت کرتا تھا نے منہ موڈ لیا اور دوسری طرف دلی جس کی طرف اب حریت لیڈروں کی نگاہیں لگی ہوئی تھی اور انہیں اس دن کا انتظار تھا کہ کب انہیں دلی سے مذاکرات کی دعوت ملتی مگر دلی نے پارلیمنٹ میں بیان دے کر حریت کے مصائب میں اضافہ کر دیا۔حریت کانفرنس نے اگر چہ گزشتہ ماہ کسی بھی طرح کے دو طرفہ مذاکرات کو خارج از امکان قرار دیا تھا لیکن حالات کے مسلسل بد لاو کے بعد اور پر کاش جیسوال کے بیان کے بعد سنیئر حریت لیڈر شبیر احمد شاہ اب یہاں تک کہہ گئے دلی کے ساتھ مذاکرات نہ کر نے کا فیصلہ لینا موجودہ وقت میںقبل ازوقت ہو گا ۔حریت کانفرنس جس نے ایک ماہ قبل دلی کے ساتھ مذاکرات نہ کر نے کا فیصلہ کیا تھا اب براہ راست مذاکرات سے انکار بھی نہیں کر پارہی ہے کیو نکہ ا یک ماہ قبل جس طرح کی امید انہیںپاکستان کے ساتھ تھیں اب ان امیدوں پر پانی پھیر گیا ہے ۔حریت کانفرنس نے اب پاکستان جانے کا بھی فیصلہ کیا ہے اگرچہ انہیں وہاں دعوت بھی نہ ملے ۔اسی ساری صورتحال کے تناظر میں ہی حریت کی بے چینی ایک صاف آئینہ کی طرح نظر آتی ہے۔فی الوقت دلی کی طرف ایکسپوز کر نے کے بعد حریت نے دفاعی پوزیشن اختیار کر تے ہوئے دلی پر سنجیدہ نہ ہونے کا الزام لگایا۔دلی اور حریت کے دو متضاد بیایات کے بعد دو چیزیں سامنے آرہی ہیں۔ایک یہ کہ اگردلی حریت کانفرنس کے ساتھ ہی بات چیت میں سنجیدہ تھی تو گول میز کانفرنس کا انعقاد کیوں کیا گیا ۔دوسری بات یہ ہے کہ اگر حریت کانفرنس نے دلی کے ساتھ بات چیت کے چار ادوار کئے توانہوں نے وزیر اعظم کے ساتھ ہوئی بات چیت کو خلاصہ میڈیا کے سامنے کیوں نہیں رکھا۔اول الذکر کے بارے میں سیاسی تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ دلی نے جس وقت حریت کو بات چیت کی دعوت دی گئی تو اس کا ایک مقصد این ڈی اے سرکار کی طرف سے جاری مذاکرات کو آگے بڑھانا تھا اور دوسرا مقصد یہ تھا کہ پاکستان نے کشمیر کے حوالے سے نہایت ہی لچک کا مظاہر ہ کیا تھا اور دلی چاہتی تھی کہ حریت کانفرنس کو مذاکرات میںمشغول کر کے آئین ہند کے تحت کوئی حل نکالا جائے مگر نے دلی ساتھ مذاکرات کے دوارن کشمیر کا مسئلہ اٹھا نے کے بجائے انسانی حقوق ،جیلوں میں بند سیاسی قائدین کی رہائی جیسے مطالبات اٹھائے جس کے بعد دلی نے ایک اور کارڑ کھیل کر گول میز کانفرنس بھلائی تاکہ حریت کانفرنس کو مین سٹریم (نیشنل کانفرنس،پی ڈی پی اور کانگریس وغیرہ)جماعتوں کے سامنے ان کا موقف پوچھا جائے مگر یہ تمام تجربات ناکام ہونے کے بعد اب دلی نے حریت کوسر بازار ننگا کر دیا تاکہ آنے والے انتخابات میں حریت کانفرنس کی الیکشن بائیکاٹ مہم کو ناکام غیر موثر بنا یا جا سکے۔دوسری بات حریت نے چار بارمن موہن سنگھ کی قیادت والی سرکار ساتھ چار بار مذاکرات کئے مگر حریت نے کبھی بھی میڈیا کے سامنے بات چیت کی مفصل تفصیلات فراہم نہیں کیں اور اسی وقت سے خدشات کا اظہار کیا جا رہا تھا۔حر یت کانفرنس اس وقت ”نہ پائے رفتن نہ جائے ماندن“والی صورتحال سے دو چار ہے۔ایک طرف پاکستان مسلسل اپنے موقف میںتبدیلیاں لا رہا ہے اور پاکستان پیپلز پارٹی کی کا میابی سے حریت کانفرنس کی امیدیں بڑھ گئی تھیں تاہم آصف علی زرداری کے حالیہ بیان کے بعد ان کی امیدیوں پر پانی پھیر گیا ہے ،اب دوسری جانب دلی نے بھی حریت کی طرف اپنا رخ سخت کر دیا،حریت جہاں دلی سے مذاکرات کی آس لگائے بیٹھے تھی وہیں دلی نے حریت کو بلواسطہ طور پر اپنا جواب سنا دیا ۔حریت نے اب اپنا دامن جھاڑنے کے لئے واپس دلی پر وار کر نا شروع کیا ۔حریت کانفرنس نے دلی پر الزام لگایا کہ وہ مذاکرات کے بارے میں سنجیدہ نہیں ہیں کیونکہ انہوں نے گول میز کانفرنس منعقد کرکے دلی حریت مذاکرات کی افادیت ہی ختم کردی۔حریت کانفرنس کے قائمقام چیرمین عباس انصاری تو یہاں تک کہہ گئے کہ کانگریس سے بہتر تو بی جے پی ہی تھی۔ عباس انصاری نے کہا ’ ’حریت نے بھاجپا اور کانگریس ،دونوں حکومتوں سے ملاقات کے دوران مسئلہ کشمیر کے حوالہ سے اپنی تجاویز پیش کیں “۔انہوں نے کہا کہ ملاقات کے دوران ہم نے منموہن سنگھ سے کہا کہ ”ان تجاویز پر تبادلہ خیال کیجئے تاکہ بات چیت کا عمل آگے بڑھایاجا سکے “۔انہوں نے کہا کہ مذاکراتی عمل کو پٹری سے اتارنے کے لئے ہی گول میز کانفرنس بلائی گئی جس نے پورے عمل کو بگاڑ دیا۔ایسی صورتحال میں اب حریت کانفرنس پوری طرح سے تذبذب کا شکار ہے اور کشمیریوں کی نظروں میں بھی اب یہ مشکوک ہو رہے ہیں ۔سجاد لون اور یاسین ملک کا ذکر کئے گئے بات ادھوری رہ جائے گی ۔میرواعظ حریت کانفرنس کے ساتھ بات چیت کر نے کے علاوہ وزیر اعظم من موہن سنگھ نے پیپلز کانفرنس کے چیر مین سجاد غنی لون کے ساتھ بھی بات چیت کی ۔سجاد لون نے جس وقت من موہن سنگھ سے بات چیت کی تو انہیں بتا یا گیا کہ وہ کشمیر کے حوالے سے ایک پرپوزل پیش کریں جس کے بعد سجاد لون نے ’حصول وطنیت‘ کے نام سے ایک ڈاکو منٹ تیار کیا تاہم ابھی تک انہیں سجاد لون کو دلی نے دو بارہ مذاکرات کمے لئے نہیں بلا یا جس کا وہ بے صبری سے انتظار کررہے ہیں۔ سیاسی مبصرین کا کناہے کہ پر کاش جیسوال نے جس وقت پارلیمنٹ میں بیا ن دیا لیکن وہ سجاد لون کے ڈاکو مںت کا ذکر کرنا بھول گئے۔سجاد لون اگرچہ دلی کی فر مائش پر ہی یہ ڈاکو منٹ تیار کیا تھا تاہم اگر سنجید ہو تی تو انہیں سجاد لون کو بات چیت کے لئے دوبارہ مدعو کر نا چاہیے تھادلی اگر مذاکرات میں سنجید ہ ہے اور کشمیر مسئلہ کو آنے والی نسلوں کے پر چھوڑنے کے بجائے اس حل کر نا چاہتی ہے تو اسے دور بینی کا مظاہرہ کر کے اس مسئلہ کو ہمیشہ کے لئے حل کرنا ہوگا تاکہ ایک بھارت بھی جو قوت پر فوج پر صرف کرتی ہے وہ قوت اقتصادی ترقی پر صرف ہوگی اور کشمیرکے لوگ بھی چین کا سانس لیں گے ۔اس میں پاکستان کو بھی اپنے مفادات یک طرفہ چھوڑ کر کشمیریوں کے مستقبل کے بارے میں سنجیدگی کا مظاہرہ کر نا چاہیے.
syeedtahir07@gmail.com
Dated :Sun, 03/23/2008 - 16:58 — Guest
No comments:
Post a Comment