محمد طاہر سعید
بہر حال پری پیڈ موبائیل سروس پر پابندی عائد کر کے مرکزی وزیر داخلہ پی چدمبرم نے اپنی اس بات کو عملی شکل دی جو انہوں نے گزشتہ ماہ سرینگر میں منعقدہ ایک تقریب کے دوران کہی تھی اور اس سے عام لوگوں میں یہ تاثر مزید گہرا ہوگیا ہے کہ کشمیری عوام کو جنس فیصلوں سے نقصان یا تکلیف پہنچتی ہے مرکز اُسے عملی جامہ پہنانے میں کوئی دقیقہ فروگذاشت نہیں کرتا۔بھارت کے وزیر داخلہ پی چدمبرم نے یو پی اے کے دوبارہ اقتدار میں آنے کے بعد جون 2009میں ایک پریس کانفرنس کے دوران عام لوگوں کی راحت کے لئے فوج میں تخفیف کر نے اور فورسز کو حاصل خصوصی اختیارات واپس لینے کی بات بھی کی تھی ۔پارلیمانی انتخابات سے قبل جموں میں عمر عبداللہ کے ہمراہ ایک پریس کانفرنس میں اُنہوں نے اس بات کا اعادہ بھی کیا تھا، مگر اس اہم اعلان پر عمل آوری کی بجائے 14اکتوبر کو وزیرداخلہ نے سرینگر میں کل ہند اُردو ایڈیٹرس کی کانفرنس میں جموں و کشمیر میں پری پیڈ موبائل سروس بند کرنے کی بات کی اور صرف 15روز کے اندر اندر ہی اس پر عمل کر کے دکھایا۔ اگرچہ حکمراں جماعت نیشنل کانفرنس سمیت بیشتر سیاسی جماعتوں نے اس فیصلے پر برہمی کا اظہار کیا، مگر ابھی تک مرکزی اربابِ اقتدار پر اس کا کوئی اثر نہیں ہوا۔ یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ ہر ایک چیز کے فوائد اور نقصانات ہوتے ہیں اور خاص کر جب کوئی چیز اپنی حدود سے تجاوز کر جائے تو وہ وبال جان بن جاتی ہے ۔ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم پری پیڈ موبائیل سروس پر لگی پابندی کے دونوں پہلوں پر غور کریں ۔اس پابندی کی وجہ سے ریاست میںکم و بیش 40لاکھ پری پیڈ موبائیل فون بے کار ہوگئے اور 80فیصد موبائیل استعمال کر نے والوں کے لئے یہ پابندی واقعی ایک پریشان کن بات ہے۔پابندی سے بھارت کی کئی مواصلاتی کمپنیوں خاص کر ائر ٹیل اور ایر سیل کوکافی نقصان کا سامنا ہے کیونکہ پری پیڈ کنکشنوں میں بڑا حصہ انہی کا تھا۔ اتنا ہی نہیں پری پیڈ کے کاروبار سے جڑے ہزاروں نوجوان اپنے روزگار سے محروم ہوئے جبکہ لوگوں کے درمیان موبائل فون کی وجہ سے بنے رابطے بھی ختم ہوئے جس سے لوگوں کا کاروبار زندگی بری طرح متاثر ہوا۔ وزارت داخلہ نے اسے سیکورٹی کا معاملہ قرار دے کر بند کر دیا ہے حالانکہ ماضی میں جب بھی کبھی کسی عسکری گروہ کے خلاف کوئی کامیاب کارروائی کی جاتی رہی ہے تو سیکورٹی ایجنسیوں کا یہ دعویٰ رہا ہے کہ یہ کامیابیاں عسکریت پسندوں کے موبائل فونوں کی سگنل کی نشاندہی کی وجہ سے ممکن ہوئی ہےں، اس طرح یہ موبائل سروس نہ صرف ان سیکورٹی ایجنسیوں کے لئے کارآمد ثابت ہوئی ہے بلکہ پولیس نے جرائم سے متعلق کئی کیسوں کو اسی فون سروس کی وجہ سے ہی حل کرنے میں کامیابی حاصل کی ہے۔ وزارت داخلہ کی یہ دلیل کہ جنگجو پری پیڈ حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے تھے صحیح ہوسکتی ہے لیکن کیا یہ ممکن نہیں کہ جو شخص پری پیڈ سم کارڈ حاصل کرسکتا ہے وہ پوسٹ پیڈ بھی حاصل کرنے میں کامیاب ہوسکتا ہے لہٰذا اس پر مکمل پابندی لگانے کی بجائے ویری فیکشن کے سسٹم میں بہتری لانے کی ضرورت تھی۔جموں وکشمیر کے مقابلے میںبھارت کی شمال مشرق ریاستوں میں ملی ٹنسی(نکسل واد)کافی زیادہ ہے مگر وہاں پری پیڈ پر ایسی کوئی پابندی عائد نہیں ہے۔وزارت داخلہ اس بات سے بھی بخوبی واقف ہے کہ پورے ملک میں ملی ٹنٹوں کے لئے سم کارڈ حاصل کرنازیادہ مشکل نہیں ہے ۔حال ہی میں دلی سے شائع ہو نے والے ایک ہفتہ روزہ میگزین نے اپنی ایک تحقیقاتی رپورٹ شائع کی تھی جس میں میگزین کے نمائندے نے یہ ثابت کیا کہ کس طرح سے ہندوستان میں دہشت پسند کاروائیوں میں ملوث افراد اور غیر ملکی لوگ سم کارڈ اورڈارئیوینگ لائسنس حاصل کر سکتے ہیں۔مذکورہ نمایندئے نے ممبئی حملوں میں گرفتار اجمل قصاب اور سابق انڈر ورلڈ ڈان ابو سالم کی تصاویر استعمال کر کے سم کارڈ اورڈرائیونگ لائسنس حاصل کئے حتیٰ کہ ایک کرایہ نامہ جہاں ابو سالم کو مالک مکان اور اجمل قصاب کو کرایہ دار دکھایاگیاہے ۔مذکورہ نمائندے نے رپورٹ میں کہا کہ ہندوستان میں کسی بھی نام پر اور کوئی تصویر لگا کر پیسوں کے عوض کچھ بھی کیا جا سکتا ہے۔اگر پی چدمبر م اور ان کی وزارت صرف پابندی پر ہی یقین رکھتی ہے تو انہیں سب سے پہلے نئی دلی اور کولکتہ میں پری پیڈپر پابندی عائد کرنی چاہیے تھی جہاں سے ممبئی حملوں میں ملوث جنگجوﺅں نے سم کارڈ حاصل کئے تھے اور اس کے بعد کشمیر کی باری آتی جہاں بقول چدمبرم کے حالات اب ٹھیک ہیں اور ملی ٹنسی کے واقعات میں کافی کمی ہوئی ہے اور بقول مرکزی وزیر برائے قابل تجدید تونائی ڈاکٹر فاروق عبداللہ کے سیکورٹی کے حالات اتنے ٹھیک ہیں کہ وزیر اعظم من موہن سنگھ اور یوپی اے چیر پرسن سونیا گاندھی بلٹ پروف کے بغیر عوامی اجتماع سے خطاب کرتے ہیں اس کا کیا کریں کہ کشمیر کےلئے مرکز کا معیار ہی الگ ہے۔
پری پیڈ موبائیل سروس پر لگائی گئی پابندی کاایک مثبت پہلو بھی ہے جس پر بہت کم غور ہوا۔ جیسا پہلے ذکر ہوا کہ جو بھی چیز حد سے بڑھ جاتی ہے تو وہ نقصان دہ بھی ہوتی ہے اور ایساہی ہمارے یہا ں پری پیڈ موبائیل سروس کی وجہ سے ہے۔ ہمارے یہاں ایک ایک گھر میں چار سے پانچ موبائیل فون موجود ہیں حتی کہ آٹھویں جماعت میں زیر تعلیم بچے کے پاس بھی موبائیل فون ہے ۔اگر رابطوں کی بات کریں تو جہاں پانچ سال قبل ایک گھر میں ایک لینڈ لائن ہوتی تھی تو وہ ایک رابطہ کا بہترین ذریعہ ہوتا تھا اور آج گھر میں ایک یا دو موبائیل فون کے بجائے تقریباًنصف درجن موبائیل فون ہیں ۔پری پیڈ کی وجہ سے ایک بچہ یا بچی جس کے والدین اسے موبائیل فون استعمال کر نے کی اجازت نہیں بھی دیتے تھے موبائیل فون لانے میں کامیاب ہوئے کیونکہ مختلف مواصلاتی کمپنیوں نے سم پری پیڈ سم کارڈی کی قیمت اتنی سستی رکھی کہ ایک بچہ اپنے جیب خرچہ سے آسانی سے سم کارڈ خرید سکتا ہے جبکہ موبائیل فون کی قیمت بھی کافی کم ہے اور صرف ہزار بارہ سو روپے میں موبائیل سیٹ خریدا جا سکتا ہے۔ان مواصلاتی کمپنیوں نے رات کے دوران بات کر نے کے لئے مختلف سکیمیں بھی رکھیں تھیں اور چند ماہ قبل مواصلاتی کمپنی ائر ٹیل سے وابستہ ایک ملازم نے بتا یا کہ صرف کشمیر وادی میں رات کو 40ہزار ائر ٹیل کے سم مصروف ہوتے ہیں ۔کوئی شک نہیں ہے کہ پابندی کی وجہ سے نہ صرف مواصلاتی کمپنیوں بلکہ اس پیشے سے منسلک بے روزگار وں کو کافی نقصان ہوا تاہم ہمیں یہ مثبت پہلو بھی مد نظر کھنا چاہئے ۔پری پیڈ کی وجہ سے ایک صارف کے پاس ایک سے زائد سم کارڈ ہیں اور مختلف سم کارڈوں سے مختلف نمبروں پر فون کر تے رہتے ہیں اور اب پابندی کی وجہ سے فالتو سم کارڈ بند ہوجائیں گے اور بقول ڈاکٹرفاروق عبداللہ کے اب موبائیل فون استعمال کر نے والے اصلی صارف سامنے آئیں گے۔مرکزی وزارت داخلہ کی طرف سے پری پیڈ پر لگائی گئی پابندی سے قبل اخبارات میں کئی کالم نویسوں نے موبائیل فون کے بے جا استعمال سے پھیل رہے جرائم اور بے راروی پر اپنی تشویش کا اظہار کیا تھا۔موبائیل فون کے کثرت استعمال کا اس بات لگایا جا سکتا ہے کہ موبائل کمپنیاں بھارت کی دوسری ریاستوں کے مقابلے میں جموں وکشمیر سے زیادہ پیسہ حاصل کرتے ہیں ۔2004-05کے دوران صرف بی ایس این ایل اور ائیر ٹیل نے 103کروڑ روپے کمائے جبکہ 2005-06کے دوران 276.28کروڑ ،2006-07کے دوران
800.31کروڑ ،2007-08کے دوران 917کروڑ روپے کی ریکارڑ کمائی صرف جموں وکشمیر سے حاصل کی جبکہ جون 2009تک ان مواصلاتی کمپنیوں نے 274.98کروڑ روپے کمائے ہیں ۔ایک ایسی ریاست جو کہ پہلے ہی اپنا وجودبرقرار رکھنے کےلئے جدوجہد میں مصروف ہے اُس کی معیشت میں سے اتنی خطیر رقم ریاست کے باہر جارہی ہے ۔اگر ہم پری پیڈ لگائی گئی پابندی کے اس مثبت پہلو کو ہی مدنظر رکھیں گے تو شاید اس پر زیادہ افسوس بھی نہیں ہوگا تاہم جہاں تک عزت نفس سے کھلواڑ کی بات ہے تو کس کو برداشت ہوسکتی ہے
syeedtahir07@gmail.com
No comments:
Post a Comment