نامعلومبندوق بر داروں کے حملوں میں کئی سرپنچوں اور پنچوں کی ہلاکت کے بعداخبارات میںاراکین پنچایت کے استعفیٰ نامے تا دم تحریر شائع ہونے سے پریشان وزیر اعلیٰ عمرعبدللہ جب 26ستمبر 2012کو ایس کے آئی سی سی میں میڈیا کے سامنے آئے تو بندوق برداروں اور علیحدگی پسندوں کے تئیں ان کا رویہ نہایت ہی جارحانہ تھا جب کہ ان کے چہرے سے پریشانی کے آثار بھی نمایاں طور پر دکھائی دے رہے تھے۔وزیر اعلیٰ پریس کانفرنس سے اپنے خطاب کے دوران اس حد تک گئے کہ انہوں نے عسکریت پسندوں کو چیلنج کرتے ہوئے کہا ’اگر دم ہے تو مجھ پر حملہ کرو‘‘۔ اپریل 2011میں پنچایتی انتخابات کے انعقاد کے بعد سے ہی پنچایتیں اخبارات کی سرخیوں میں ہیں۔ انتخابات کے فوراً بعد پنچایتوں کے اختیارات پر بحث شروع ہوئی کیونکہ منتخبہ ارکان پنچایت کو خدشہ تھا کہ 2001 میںمنتخب پنچایتوںکی طرح آج بھی انہیں اختیارات سے محروم رکھا جائے گا ۔کئی ماہ سے حکومت کے لیت ولعل کے بعد جموںاو رکشمیر میں مختلف سرپنچوں اور پنچوں نے اپنی صفو ں میں ہم آ ہنگی اور اتحا د پیدا کر نے کے لئے ایسوسی ایشنوں کا قیام بھی عمل میں لایا اور پنچایتوں کو اختیارات کی منتقلی کے مطالبے کو لے کر وہ سڑکوں پر بھی آئے ۔ بالآخر حکومت نے ایک درجن سے زائد محکموں کے اختیارات سرپنچوں کو منتقل کئے لیکن بات یہاں ہی ختم نہیں ہوئی بلکہ کانگریس نے پنچایتوں کو مزید اختیارات دینے کیلئے پنچایتی راج ایکٹ میں 73اور 74ویں ترمیم کو لاگوکرنے کیلئے مہم شروع کی۔کانگریس نے اس مہم کو سرینگر سے دلی پہنچایا اور ایک درجن کے قریب سرپنچ آل انڈیا کانگریس کے جنرل سیکریٹری راہل گاندھی سے دلی میں ملاقی ہوئے اور ان پر زور دیا کہ وہ پنچایتی راج ایکٹ میں 73اور 74ترمیم کو لاگو کر انے کے ضمن میں وزیراعلیٰ عمر عبداللہ پر اپنے اثر رسوخ کا استعمال کریں ۔کانگریس نے اپنے اس قدم سے یہ تاثر دینے کی کوشش کی کہ عمر عبداللہ ہی پنچایتوں کو با اختیار بنانا نہیں چاہتے ہیں ۔حکومت میں برابر کی حصہ داری ہونے کے باوجود کانگریس یہ معاملہ خود حل کرنے کے بجائے سڑکوں پر لے آئی حتیٰ کہ یوتھ کانگریس نے اس سلسلے میںپوری ریاست میں احتجاجی مظاہرے کئے۔ اس معاملے پر کانگریس صدر سیف الدین سوز نے بھی حکومت کے ساتھ ٹکر لی لیکن عمر عبداللہ نے یہ کہہ کر پورے غبارے سے ہوا نکال دی کہ’’کانگریس کے متعدد ممبران اور 2وزراء نے ان سے مطالبہ کیا کہ پنچایتوں کو مزید اختیارات نہ دئے جائیں ‘‘۔اپوزیشن جماعت پی ڈی پی بھی اس معاملے میں دور نہیں رہی اور اس نے سب سے پہلے حکومت کو اس وقت حیرت میں ڈال دیا جب پارٹی نے سبقت لیتے ہوئے ٹی آر سی گروانڈ سرینگر میں پنچایتی کانفرنس کا انعقاد کر کے پنچوں اور سرپنچوںکو اختیارات سے متعلق آگاہ کیا۔مبصرین کے مطابق ٹی آر سی کی اس کانفرنس کا مقصدصرف طاقت کا مظاہرہ کرنا تھا اور پی ڈی پی حکومت پر یہ واضح کرنا چاہتی تھی کہ4130سرپنچوں اور 29719 منتخب پنچوں میں سب سے زیادہ حصہ پی ڈی پی کا ہی ہے اور یہی وجہ ہے کہ حکومت بلاک لیول کے انتخابات مسلسل ٹال رہی تھی کیونکہ انہیں خدشہ تھا کہ پی ڈی پی کے زیادہ حمایتی اراکین پنچایت کی وجہ سے بلاک کونسلوں پر اسی پارٹی کا غلبہ رہے گا۔پی ڈی پی نے ایک اور چال چلتے ہوئے اسمبلی میں ایک ترمیمی بل لاکر کانگریس کو مخمصے میں ڈال دیا ہے کیونکہ اس ترمیمی بل میں وہی خصوصیات تجا ویز کی صورت میںدرج ہیں جو 73اور 74ویں ترمیم میں موجود ہیں۔پنچایتوںکو اختیارات دینے کے معاملے پر حکومت پہلے ہی پریشانیوں کا شکار تھی لیکن اب چند سرپنچوں اور پنچوں کی ہلاکت کے بعد پنچایتی اراکین کے مسلسل استعفوںنے عمر عبداللہ کے لئے مزید پریشانیاں پیدا کی ہیں کیونکہ عمر عبداللہ پنچایتی انتخابات کو اپنے لئے ایک بڑی کامیابی قرار دے رہے ہیں جس کی بنیادی وجہ صرف یہ تھی کہ 2010کے حالات کے بعد جب عمر عبداللہ پرتنقید کی گئی کہ وہ عوام سے دور ہورہے ہیں اور اسی دوری کی وجہ سے ریاست میں حالات خراب ہوئے تو انہوں نے اپنی سیا سی شبیہ کو بہتر بنانے کیلئے 2011کی ابتداء میں ہی پنچایتی چنائو کرانے کا فیصلہ کیا ۔پنچایتی چنائو میں نہ صرف رائے دہی کی شرح اچھی رہی بلکہ انتخابات میں لوگوں نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔انتخابات کی کامیابی کے بعد وزیر اعظم من موہن سنگھ نے 15اگست 2011کو قوم کے نام اپنے خطاب میں ریاست کے پنچایتی چنائو کا ذکر کر کے اسے ایک بڑی کامیابی قرار دیا۔وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ نے بھی دلی سے شائع ہونے والے ہفتہ روزہ میگزین ’’تہلکہ‘‘کے 6اگست 2011کے شمارے کو دئے گئے ایک انٹریو میںپنچایتی انتخابات اور ان کے اختیارات سے متعلق پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں کہا تھا’’یہ یاتو ایک عظیم کامیابی ہوسکتی ہے یا میرے ماتھے پر ایک بدنما داغ‘‘۔اس انٹریو میں انہوں نے پنچایتوں کو اختیارات دینے اور ان اختیارات کا صحیح استعمال کا ذکر بھی کیا تھا ۔مبصرین کا کہنا ہے کہ سرپنچوں کی ہلاکت کے بعد عمر عبداللہ کا پریس کانفرنس میں بندوق برداروں اور علیحدگی پسندوں کے تئیں جارحانہ روّیہ اسی لئے تھا کہ عمر عبداللہ کسی بھی صورت میں اپنے ماتھے پرناکامی کا داغ نہیں دیکھنا چاہتے۔عمر عبداللہ نے پریس کانفرنس میں یہاں تک کہہ دیا کہ اگر کوئی سرپنچ یا پنچ استعفیٰ دیتا ہے تو وہ وہاں جلد از جلد ضمنی انتخابات کریں گے چاہیے اس میں کم ہی لوگ شرکت کیوں نہ کریں ۔عمر عبداللہ کی اس پریس کانفرنس سے واضح ہورہا تھا حالت کیسا بھی رخ اختیار کر یں عمر عبداللہ پنچایتوں کی ناکامی نہیں دیکھنا چاہتے کیونکہ اگر ایسا ہوا تو 2010 کے حالات کا داغ مٹاتے مٹاتے ان کے ماتھے پرناکامی کا ایک اور داغ لگ سکتا ہے۔خود ارکان پنچایت تذبدب کا شکار ہیں کہ وہ جائیں تو جائیں کہاں۔ انتخابات میں عوام سے کئے وعدے اور انہیں دی گئی یقین دہانیاں جب پوری نہیں ہوئیں تو وہ عوام کو کوئی معقول جواب بھی نہیں دے پاتے ہیں ۔ایک طرف اراکین پنچایت اپنے اختیارات کو لے کر پر مخمصے کا شکار تھے وہیں دوسری طرف چند سرپنچوں کی ہلاکت بعد اب ان کی مزید پریشانیاں بڑ ھ گئی ہیں کیونکہ یہ ہلاکتیں ایک معمہ ہیں ۔سرکردہ مزاحمتی رہنما سید علی گیلانی نے ان ہلاکتوں کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ ’’سیاسی نظریہ بنیاد پر کسی کا قتل جائز نہیں‘‘وہیں اس بیان کے بعد مزید دو ہلاکتوں کا واقعہ پیش آیا ۔اس پوری صورتحال نے ہزاروں پنچوں اور سرپنچوں کو اب مزید مخمصے میں ڈال دیا ہے۔پنچایتی انتخابات ایک اچھی کوشش تھی کیونکہ جمہوریت کو عوامی سطح تک پہنچانے اور لوگوں کے روزمرہ کے مسائل کو حل کرنے کیلئے پنچاتیو ں کا سب سے اہم رول ما نا جا تا ہے اور پنچاتیں تب ہی کام کر سکتی ہیں جب انہیں اختیارات حاصل ہوں ،لوگ ہر چھوٹے بڑے مسئلہ کیلئے روزانہ سیکریٹریٹ یا ڈپٹی کمشنروں کے دفاتر کے چکر نہیں کاٹ سکتے ہیں لیکن یہا ں ایک اور بات ذہن میں رکھنی ہوگی کہ ان مجو زہ اختیارات کا غلط استعمال نہ ہو۔گائوں کی زندگی اور روزمرہ کے معاملات بالکل مختلف ہوتے ہیںلیکن بلواسطہ یا بلاواسطہ ایک دوسرے سے جڑے ہوتے ہیں اور جب کسی خاص شخص کے پاس اختیارات آتے ہیں تو وہ ان کا غلط استعمال بھی کر سکتا ہے۔گزشتہ ایک سال کے دوران ریاست کے کئی علاقوں میں بعض پنچایتی اراکین کی غنڈہ گردی اور اختیارات کے غلط استعمال کی خبریں بھی اخبارات میں شائع ہوئیں جبکہ کئی جگہوں پر سیاسی لیڈران نے ان اراکین کو اپنے مفادات کیلئے استعمال بھی کیا۔اب جب کہ عمر عبداللہ پنچایتوں کی کامیابی کا جھنڈا بلند ہی رکھنا چاہتے ہیں تو انہیں پنچایتوں کے اختیارات اور اراکین پنچایت کی حفاظت کے تمام پہلوں پر سنجیدگی سے غور کرنا ہوگا تب ہی ان کا مقصد پورا ہوگا ورنہ پنچ اور سرپنچ صرف سیاسی کھلونا بن کر رہ جائیں گے۔
Friday, October 5, 2012
پنچا یتی سیا ست کی کڑی آ زما ئش ....حکو مت کی پیشانی پہ داغ نہ رہے
نامعلومبندوق بر داروں کے حملوں میں کئی سرپنچوں اور پنچوں کی ہلاکت کے بعداخبارات میںاراکین پنچایت کے استعفیٰ نامے تا دم تحریر شائع ہونے سے پریشان وزیر اعلیٰ عمرعبدللہ جب 26ستمبر 2012کو ایس کے آئی سی سی میں میڈیا کے سامنے آئے تو بندوق برداروں اور علیحدگی پسندوں کے تئیں ان کا رویہ نہایت ہی جارحانہ تھا جب کہ ان کے چہرے سے پریشانی کے آثار بھی نمایاں طور پر دکھائی دے رہے تھے۔وزیر اعلیٰ پریس کانفرنس سے اپنے خطاب کے دوران اس حد تک گئے کہ انہوں نے عسکریت پسندوں کو چیلنج کرتے ہوئے کہا ’اگر دم ہے تو مجھ پر حملہ کرو‘‘۔ اپریل 2011میں پنچایتی انتخابات کے انعقاد کے بعد سے ہی پنچایتیں اخبارات کی سرخیوں میں ہیں۔ انتخابات کے فوراً بعد پنچایتوں کے اختیارات پر بحث شروع ہوئی کیونکہ منتخبہ ارکان پنچایت کو خدشہ تھا کہ 2001 میںمنتخب پنچایتوںکی طرح آج بھی انہیں اختیارات سے محروم رکھا جائے گا ۔کئی ماہ سے حکومت کے لیت ولعل کے بعد جموںاو رکشمیر میں مختلف سرپنچوں اور پنچوں نے اپنی صفو ں میں ہم آ ہنگی اور اتحا د پیدا کر نے کے لئے ایسوسی ایشنوں کا قیام بھی عمل میں لایا اور پنچایتوں کو اختیارات کی منتقلی کے مطالبے کو لے کر وہ سڑکوں پر بھی آئے ۔ بالآخر حکومت نے ایک درجن سے زائد محکموں کے اختیارات سرپنچوں کو منتقل کئے لیکن بات یہاں ہی ختم نہیں ہوئی بلکہ کانگریس نے پنچایتوں کو مزید اختیارات دینے کیلئے پنچایتی راج ایکٹ میں 73اور 74ویں ترمیم کو لاگوکرنے کیلئے مہم شروع کی۔کانگریس نے اس مہم کو سرینگر سے دلی پہنچایا اور ایک درجن کے قریب سرپنچ آل انڈیا کانگریس کے جنرل سیکریٹری راہل گاندھی سے دلی میں ملاقی ہوئے اور ان پر زور دیا کہ وہ پنچایتی راج ایکٹ میں 73اور 74ترمیم کو لاگو کر انے کے ضمن میں وزیراعلیٰ عمر عبداللہ پر اپنے اثر رسوخ کا استعمال کریں ۔کانگریس نے اپنے اس قدم سے یہ تاثر دینے کی کوشش کی کہ عمر عبداللہ ہی پنچایتوں کو با اختیار بنانا نہیں چاہتے ہیں ۔حکومت میں برابر کی حصہ داری ہونے کے باوجود کانگریس یہ معاملہ خود حل کرنے کے بجائے سڑکوں پر لے آئی حتیٰ کہ یوتھ کانگریس نے اس سلسلے میںپوری ریاست میں احتجاجی مظاہرے کئے۔ اس معاملے پر کانگریس صدر سیف الدین سوز نے بھی حکومت کے ساتھ ٹکر لی لیکن عمر عبداللہ نے یہ کہہ کر پورے غبارے سے ہوا نکال دی کہ’’کانگریس کے متعدد ممبران اور 2وزراء نے ان سے مطالبہ کیا کہ پنچایتوں کو مزید اختیارات نہ دئے جائیں ‘‘۔اپوزیشن جماعت پی ڈی پی بھی اس معاملے میں دور نہیں رہی اور اس نے سب سے پہلے حکومت کو اس وقت حیرت میں ڈال دیا جب پارٹی نے سبقت لیتے ہوئے ٹی آر سی گروانڈ سرینگر میں پنچایتی کانفرنس کا انعقاد کر کے پنچوں اور سرپنچوںکو اختیارات سے متعلق آگاہ کیا۔مبصرین کے مطابق ٹی آر سی کی اس کانفرنس کا مقصدصرف طاقت کا مظاہرہ کرنا تھا اور پی ڈی پی حکومت پر یہ واضح کرنا چاہتی تھی کہ4130سرپنچوں اور 29719 منتخب پنچوں میں سب سے زیادہ حصہ پی ڈی پی کا ہی ہے اور یہی وجہ ہے کہ حکومت بلاک لیول کے انتخابات مسلسل ٹال رہی تھی کیونکہ انہیں خدشہ تھا کہ پی ڈی پی کے زیادہ حمایتی اراکین پنچایت کی وجہ سے بلاک کونسلوں پر اسی پارٹی کا غلبہ رہے گا۔پی ڈی پی نے ایک اور چال چلتے ہوئے اسمبلی میں ایک ترمیمی بل لاکر کانگریس کو مخمصے میں ڈال دیا ہے کیونکہ اس ترمیمی بل میں وہی خصوصیات تجا ویز کی صورت میںدرج ہیں جو 73اور 74ویں ترمیم میں موجود ہیں۔پنچایتوںکو اختیارات دینے کے معاملے پر حکومت پہلے ہی پریشانیوں کا شکار تھی لیکن اب چند سرپنچوں اور پنچوں کی ہلاکت کے بعد پنچایتی اراکین کے مسلسل استعفوںنے عمر عبداللہ کے لئے مزید پریشانیاں پیدا کی ہیں کیونکہ عمر عبداللہ پنچایتی انتخابات کو اپنے لئے ایک بڑی کامیابی قرار دے رہے ہیں جس کی بنیادی وجہ صرف یہ تھی کہ 2010کے حالات کے بعد جب عمر عبداللہ پرتنقید کی گئی کہ وہ عوام سے دور ہورہے ہیں اور اسی دوری کی وجہ سے ریاست میں حالات خراب ہوئے تو انہوں نے اپنی سیا سی شبیہ کو بہتر بنانے کیلئے 2011کی ابتداء میں ہی پنچایتی چنائو کرانے کا فیصلہ کیا ۔پنچایتی چنائو میں نہ صرف رائے دہی کی شرح اچھی رہی بلکہ انتخابات میں لوگوں نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔انتخابات کی کامیابی کے بعد وزیر اعظم من موہن سنگھ نے 15اگست 2011کو قوم کے نام اپنے خطاب میں ریاست کے پنچایتی چنائو کا ذکر کر کے اسے ایک بڑی کامیابی قرار دیا۔وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ نے بھی دلی سے شائع ہونے والے ہفتہ روزہ میگزین ’’تہلکہ‘‘کے 6اگست 2011کے شمارے کو دئے گئے ایک انٹریو میںپنچایتی انتخابات اور ان کے اختیارات سے متعلق پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں کہا تھا’’یہ یاتو ایک عظیم کامیابی ہوسکتی ہے یا میرے ماتھے پر ایک بدنما داغ‘‘۔اس انٹریو میں انہوں نے پنچایتوں کو اختیارات دینے اور ان اختیارات کا صحیح استعمال کا ذکر بھی کیا تھا ۔مبصرین کا کہنا ہے کہ سرپنچوں کی ہلاکت کے بعد عمر عبداللہ کا پریس کانفرنس میں بندوق برداروں اور علیحدگی پسندوں کے تئیں جارحانہ روّیہ اسی لئے تھا کہ عمر عبداللہ کسی بھی صورت میں اپنے ماتھے پرناکامی کا داغ نہیں دیکھنا چاہتے۔عمر عبداللہ نے پریس کانفرنس میں یہاں تک کہہ دیا کہ اگر کوئی سرپنچ یا پنچ استعفیٰ دیتا ہے تو وہ وہاں جلد از جلد ضمنی انتخابات کریں گے چاہیے اس میں کم ہی لوگ شرکت کیوں نہ کریں ۔عمر عبداللہ کی اس پریس کانفرنس سے واضح ہورہا تھا حالت کیسا بھی رخ اختیار کر یں عمر عبداللہ پنچایتوں کی ناکامی نہیں دیکھنا چاہتے کیونکہ اگر ایسا ہوا تو 2010 کے حالات کا داغ مٹاتے مٹاتے ان کے ماتھے پرناکامی کا ایک اور داغ لگ سکتا ہے۔خود ارکان پنچایت تذبدب کا شکار ہیں کہ وہ جائیں تو جائیں کہاں۔ انتخابات میں عوام سے کئے وعدے اور انہیں دی گئی یقین دہانیاں جب پوری نہیں ہوئیں تو وہ عوام کو کوئی معقول جواب بھی نہیں دے پاتے ہیں ۔ایک طرف اراکین پنچایت اپنے اختیارات کو لے کر پر مخمصے کا شکار تھے وہیں دوسری طرف چند سرپنچوں کی ہلاکت بعد اب ان کی مزید پریشانیاں بڑ ھ گئی ہیں کیونکہ یہ ہلاکتیں ایک معمہ ہیں ۔سرکردہ مزاحمتی رہنما سید علی گیلانی نے ان ہلاکتوں کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ ’’سیاسی نظریہ بنیاد پر کسی کا قتل جائز نہیں‘‘وہیں اس بیان کے بعد مزید دو ہلاکتوں کا واقعہ پیش آیا ۔اس پوری صورتحال نے ہزاروں پنچوں اور سرپنچوں کو اب مزید مخمصے میں ڈال دیا ہے۔پنچایتی انتخابات ایک اچھی کوشش تھی کیونکہ جمہوریت کو عوامی سطح تک پہنچانے اور لوگوں کے روزمرہ کے مسائل کو حل کرنے کیلئے پنچاتیو ں کا سب سے اہم رول ما نا جا تا ہے اور پنچاتیں تب ہی کام کر سکتی ہیں جب انہیں اختیارات حاصل ہوں ،لوگ ہر چھوٹے بڑے مسئلہ کیلئے روزانہ سیکریٹریٹ یا ڈپٹی کمشنروں کے دفاتر کے چکر نہیں کاٹ سکتے ہیں لیکن یہا ں ایک اور بات ذہن میں رکھنی ہوگی کہ ان مجو زہ اختیارات کا غلط استعمال نہ ہو۔گائوں کی زندگی اور روزمرہ کے معاملات بالکل مختلف ہوتے ہیںلیکن بلواسطہ یا بلاواسطہ ایک دوسرے سے جڑے ہوتے ہیں اور جب کسی خاص شخص کے پاس اختیارات آتے ہیں تو وہ ان کا غلط استعمال بھی کر سکتا ہے۔گزشتہ ایک سال کے دوران ریاست کے کئی علاقوں میں بعض پنچایتی اراکین کی غنڈہ گردی اور اختیارات کے غلط استعمال کی خبریں بھی اخبارات میں شائع ہوئیں جبکہ کئی جگہوں پر سیاسی لیڈران نے ان اراکین کو اپنے مفادات کیلئے استعمال بھی کیا۔اب جب کہ عمر عبداللہ پنچایتوں کی کامیابی کا جھنڈا بلند ہی رکھنا چاہتے ہیں تو انہیں پنچایتوں کے اختیارات اور اراکین پنچایت کی حفاظت کے تمام پہلوں پر سنجیدگی سے غور کرنا ہوگا تب ہی ان کا مقصد پورا ہوگا ورنہ پنچ اور سرپنچ صرف سیاسی کھلونا بن کر رہ جائیں گے۔
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
No comments:
Post a Comment