Sunday, May 13, 2012

وجے ملہ کشمیر غزل گائیکی کی آبرو 9 مئی کو یہ آواز ہمیشہ کے لئے خاموش ہوگئی


محمد طاہر سعید زند ر زنہ باپتھ چھی مران لکھ ژ مرکھنا لوتہِ پاٹھی چیکھا پیالہ کیہواُف تِہ کرکھنا گیان پٹھ ایوارڈ یافتہ رحمان راہی کی شہرۂ آفاق غزل کا یہ شعر 10مئی کو کشمیری موسیقی سے محبت رکھنے والے ہرفرد کی زبان پر تھا کیونکہ جس شخص نے اپنی دلکش آواز سے اس غزل میں رنگ بھرا ہے وہ آواز ہمیشہ کے لئے خاموشی ہوچکی تھی۔ جی ہاں ہم بات کرہے ہیں نامور گلو کار اور کشمیری غزل گائیگی کے بے مثل فنکار اور کشمیری غلام علی کہلانے والے وجے کمار ملہ 9مئی 2012 کو چاہنے والوں کو ایک بڑا صدمہ دیکر ہارٹ اٹیک کے سبب جموں میں انتقال کر گئے۔56سالہ وجے ملہ کے پسماند گان میں سے ان کی اہلیہ رینو ملہ ‘ جن کا تعلق خود بھی سنگیت سے ہے‘ اور ایک بیٹا اور بیٹی شامل ہیں۔وجے کمار ملہ کا شمار ان چند گلو کاروں میں ہوتاہے جن کے منفرد لہجہ اور دلکش آوازنے کشمیری غزل کے تئیں نئی نسل کے رحجان کو مہمیز کیاجس کی وجہ سے کشمیری غزل آج نئی نسل میں بھی مقبول ہے۔وجے کمار ملہ نے کشمیری زبان میںغزل ،نعت ،بھجن اور لیلائیں گائیں۔اُنہوں نے انفرادی طور پر کشمیری موسیقی کے گایا اورکیلاش مہرا اور شمیمہ دیو کے ساتھ دوگانے بھی گائے ۔جو کافی مقبول عام ہوئے۔انہوں نے کئی اردو غزلیں بھی گائی ہیں جن میں جگرمراد آبادی کی مشہور غزل ’’اک لفظ محبت کا ادنیٰ سا فسانہ ہے ۔۔۔سمٹے تو دل عاشق ،پھیلے تو زمانہ ہے‘‘کافی مقبول ہوئی۔وجے ملہ جب پروفیسر رحمان راہی کا لکھا ہوا نعمہ’’ زند روزنہ باپتھ چھی مران لوکھ ژہ مرکھنا ،لئوت پاٹھ چکھا پیالہ کیو ہو اُف تے کرکھنا‘‘،کو جب اپنی دلکش اورمدھر آواز میں گایا تو اسے زبردست مقبولیت حاصل ہوئی، بلکہ اگر یہ کہا جائے کہ اس نے ریکارڈ توڑ دیئے تو غلط نہ ہوگاجو بعد میں کافی مقبول عام ہوااور فاروق نازکی کے مطابق اس غزل نے نہ صرف ملہ بلکہ کشمیری غزل کو بھی عروج فراہم کیا۔انہوں نے ’’ماں شیراںوالی‘‘ بجھن گیا جو اس قدر مقبول ہوا کہ وشنو دیوی مندر میں ہر خاص تقریب پر سنایاجاتا ہے۔وجے ملہ کو غزل گائیگی پر استادانہ مہارت حاصل تھی اور انہوں موجودہ دور کے کشمیری شاعروں کی درجنوں غزلیں گائی ہیں ۔ فلم اور میوزک انڈسٹری سے تعلق رکھنے والے کئی لوگ وجے ملہ کے چاہنے والوں میں شامل تھے۔بر صغیر کے عظیم اور پاکستان کے مشہور گلو کار حسین بخش نے وجے ملہ کے بارے میں ایک مرتبہ کہا تھاکہ ’ وجے کو سن کر میں نے اپنے رنگ کو محسوس کیا‘‘۔ملہ موسیقی کی دنیا میں کئی گلو کاروں کے استاد بھی رہے اور ان کے شاگرد وں کاشمار آج کشمیری کے معروف گلو کاروں میں ہوتا ہے۔معروف گلو کار ہ دپالی واتل نے کشمیر عظمیٰ سے بات کر تے ہوئے کہا ’’ مجھے ملہ صاحب کے شادگردوں کی صف میں شامل ہونے کا اعزاز حاصل ہے اور میں نے آنجہانی کے ساتھ درجنوں غزلیں ریکارڈ کروائیں‘‘۔ انہوں نے اس بات پر افسوس جتایا کہ ملہ صاحب کو حکومتی سطح پر وہ پذیرائی نہیں ملی جس کے وہ حق دار تھے اور وہ پچھلے کئی برسوں سے سفید پوشی کی زندگی بسرکر رہے تھے۔لیکن انہوں نے کبھی اپنی خودداری کا سودا نہیں کیا۔ انہوں نے کہا کہ ’’شہرت کے عروج پر ہونے کے باوجود وہ سروال جموں میں ایک کرائے کے مکان میں مقیم تھے‘‘میوزک کمپو زر خالد میر کے مطابق ملہ صاحب نے ریاست میں غزل گائیکی کی ایک خاموش تحریک شروع کی تھی جو مستقبل قریب میں ضرورایک غیر معمولی ادارہ بن کر سامنے آئے گا‘‘۔انہوں نے کہا کہ2007 میں جب انہوں نے وجے ملہ اور پاکستان کے عظیم گلو کار حسین بخش کی ملاقات کروائی تو آنجہانی کو سن کے حسین بخش نے کہا کہ ’’ میں نے وجے میں اپنا رنگ محسوس کیا ‘‘۔ملہ نے کشمیری غزل کو ملک کی مختلف ریاستوںمیں ہو نے والے’’ جشن کشمیر ‘‘ پروگراموں میں اْستادانہ مہارت کے ساتھ پیش کیا اورفن کے اساتذہ سے غیر معمولی داد وصول کی۔معروف ادیب اور سابق ڈپٹی ڈائریکٹر جنرل دور درشن فاروق نازکی نے کشمیر عظمیٰ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ کشمیری موسیقی کو بیسویں اور اکیسویں صدی کے دور میں جو آوازیں ملی ہیںان میںوجے ملہ کی آواز بھی شامل ہے ۔انہوںنے کہا ’’ہلکی موسیقی اور مہجور کے کلام کو گراما فون کے ذریعہ سب سے پہلے لوگوں تک پہنچانے والے محمود شہری تھے اس کے بعد یہ سلسلہ صوفی غلام محمد نے آگے بڑھایا ‘‘اور ان کے بارے میں ایک بار محمد رفیع نے کہا تھا اگر صوفی مجھ سے پہلے بمبئی آئے ہوتے تو محمد رفیع کا وجود نہیں ہوتا اور پھر اس موسیقی کو وجے ملہ نے آگے بڑھایا۔انہوں نے کہا’’کئی لوگ آئے اور چلے گئے لیکن وجے کمار ملہ نے اپنی ایک الگ شناخت قائم کی اور ایک ایسے وقت پر جب اردد غزل کی دنیا میں مہدی حسن اور جگجیت سنگھ کا طوطی بول رہا تھا اُس وقت ملہ نے کشمیری غزل کو ایک نئی جان عطا کی‘‘۔7فروری 1956کو حبہ کدل سرینگر میں پیدا ہوئے وجے ملہ نے نہایت ہی سادہ زندگی بسر کی ۔انہو ں نے موسیقی کی تربیت برج کرشن شاعر اور پنڈت جگن ناتھ شیو پوری سے حاصل کی، جس کے بعد انہوںنے 1982میں مرکزی ادارے سانگ اینڈ ڈرامہ ڈویژن میں بحثیت سٹاف آرٹسٹ نوکری اختیارکی۔انہوں نے موسیقی کی ابتدائی تربیت پریم سنگیت نکیتن سرینگر سے حاصل کی اور اس کے بعد وہ1985میں ممبئی چلے گئے جہاں انہوں نے 3سال تک بھارت کے معروف گلوکاروں کے ساتھ کام کیا ،لیکن بعد میں صحت کی خرابی کی وجہ سے وہ واپس ریاست چلے آئے۔انہوں نے ممبئی کے معروف گلوکاروں انوپ جلوٹااور ہری ہرن کے ساتھ بھی کام کیا ہے۔موصوف نے گانے کے ساتھ ساتھ میوزک ڈائریکٹر کی حیثیت سے بھی کام کیا۔ان کا میوزک البم ’’جستجو‘‘1992میں منظر عام پر آیا ۔انہیں 1995میں مرکزی وزارت اطلاعات و نشریات نے موسیقی کے میدان میں گراں قدر خدمات کے اعتراف میں ’اکھل بھارتیہ میوزک ایوارڈ ،سے بھی نوازا تھالیکن جس وجے ملہ نے کشمیری موسیقی کو ایک خول سے باہر نکال کر جدید خطوط پراستوار کرنے میں اہم کردار ادا کیا اُس کی مُدھر اور دلکش آواز کبھی بھی ریاستی حکومت کے کانوں تک نہیںپہنچی ۔مشہور میوزک ڈائریکٹر و نود چوپڑا کا کہنا ہے کہ ’’وجے ملہ کو سنگیت کی دنیا میں عزت کی نگاہوں سے دیکھا جاتاتھا لیکن ان کے حوالے سے ریاستی حکومت کا رویہ ٹھیک نہیں تھا‘‘۔بہرحال زندگی کے کئی اتار چڑھائو دیکھنے کے بعد ملہ کی زندگی کا سفر 9مئی کو ختم ہوا ۔جس سے ریاست اور بیرون کشمیری موسیقی کے دلدادوں کو گہرا صدمہ پہنچا ہے۔ وجے ملہ کی مکمل تجیم علی سردار جعفری کے اس شعر میں دیکھی جاسکتی ہے۔ پنے نغمہ پہ تجھے ناز ہو کہ نہ ہو نغمہ اس بات پر نازاں ہے کہ فن تیرا ہے

No comments:

Post a Comment