محمد طاہر سعید
سرینگر//سال 2009نے کشمیر کی صحافت ،سیاست اور موسیقی میں تاریخ رقم کر نے والی کئی اہم شخصیات کو ہم سے چھین لیا۔دنیا کی نا پائیداری پر اظہار افسوس کو اپنی آواز سے مقبول عام بنانے والے گلوکار غلام حسن صوفی اور عبدا لرشید فراش کے انتقال نے وادی کو دو مثالی آوازوں سے محروم کر دیا۔60سال تک اپنی پیشہ ورانہ خدمات انجام دے کر بابائے صحافت اور مدیر آفتاب خواجہ ثناءاللہ بٹ بھی اس دنیا سے کوچ کر گئے ۔دونوں مدیران کی وفات سے جموں وکشمیر کی صحافتی تاریخ میںصحافت کا اہم باب بند ہوگیا۔خواجہ ثنا ءاللہ بٹ کی وفات کے ایک ہفتہ قبل نصف صدی تک کشمیر کی ار دو صحافت پر چھائے رہنے والے اور سرینگر ٹائمز کے مدیر اعلیٰ صوفی غلام محمد77سال کی عمر میں 15دسمبر کو اس دنیا سے چل بسے ۔صوفی غلام محمد ریاست کے سرکردہ صحافی کئی کتابوں کے مصنف بھی تھے۔صوفی غلام محمد کو صحافت کے میدان میں بہترین کارکردگی کے اعتراف میں کئی اعزازات سے نوازا گیا جبکہ 2003میں انہیں مفتی محمد سعید کے دور اقتدار میں قانون ساز کونسل کا ممبر نامزد کیا گیا تھا۔دونوں صحافیوں کے نماز جنازہ میں وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ حریت کانفرنس کے دونوں دھڑوں کے سربراہان اور ریاست کی کئی سرکردہ سیاسی سماجی ادبی اور مذہبی رہنماﺅں نے شرکت کی۔6جنوری کو ریاست کے سابق وزیر اعلیٰ اور عوامی نیشنل کانفرنس سربراہ غلام محمد شاہ المعروف ’گل شاہ“انتقال کر گئے ۔ انکی عمر 88برس تھی وہ 7جولائی 1984سے 12مارچ 1986تک ریاست کے وزیر اعلیٰ رہے اس سے قبل وہ شیخ محمد عبداللہ کی وزارت کابینہ میں وزیر بھی رہے۔غلام محمد شاہ 1944 میں سیاست میں شامل ہوئے اور کشمیر چھوڑ دو تحریک ،رائے شماری کی تحریک اور موئے مقدس تحریک میں اہم رول ادا کیا ۔وہ محاز رائے شماری کے جنرل سیکریٹری بھی رہے اور نیشنل کانفرنس کے بانی شیخ محمد عبداللہ داماد اور معتمد خاص تھے۔ 1984میں انہوں نے نیشنل کانفرنس کے ایک درجن ممبران اسمبلی کے ساتھ پارٹی سے بغاوت کر کے عوامی نیشنل کانفرنس کی بنیاد ڈالی اور کانگریس کی حمایت سے وزیر اعلیٰ بنے۔29مارچ کو سابق ریاستی وزیر غلام نبی کوچک انتقال کر گئے۔کوچک شیخ محمد عبداللہ کے قریب ترین ساتھیوں میں سے تھے اور محاز رائے شماری تحریک کے دوران کئی بار مقید بھی رہے۔وہ شیخ محمد عبداللہ اور پھر غلام محمد شاہ کی وزارت میںسنیئر وزیر بھی رہے۔موت سے تین روز قبل انہوں نے نیشنل کانفرنس کو چھوڑ کر عوامی نیشنل کانفرنس میں شمولیت اختیار کی تھی۔ ریاست کی سرکردہ سیاسی شخصیت غلام محی الدین صوفی جنہوں نے کشمیر چھوڑ دو تحریک میں اہم کردار ادا کیا تھا 25فرور ی اپنی رہائش گاہ گاندربل میں انتقال کر گئے۔غلام محی الدین صوفی سرکردہ سیاست دان مولانا محمد سعید مسعودی پرنسل سیکریٹری تھے اورمولانا کی ہلاکت تک وہ ان کے ساتھ رہے۔غلام محی الدین صوفی کی عمر 81سال تھی۔ 9نومبر کو کشمیر کے محمد رفیع کہلانے والے معروف گلوکار غلام حسن صوفی بھی انتقال کر گئے ۔غلام حسن صوفی کے گاے ہوئے کئی گیت جن میں”افسوس دنیا کانسی نالوب سمسار ساتھی‘،چانہہ برتل روائم ہا رژاے آواز واژئی نو“زمانئی پوکنہ ہم دم توتئی کیا گو“جیسے کئی مشہور گیت اس وقت بھی زبان زدعام ہے۔ دنیا کی ناپائیداری کے بارے میں لکھے گئے گیتوں کو بے مثال اور جذباتی آواز عطا کر نے والے غلام حسن صوفی 9نومبر کو مالک حقیقی سے جا ملے اور ان کی موت پر وادی میں عوامی سطح پر بہت افسوس کیا گیااور اکثر لوگ انہیں ان کے ہی گائے ہوئے اس گیت ”افسوس دنیا کانسی نالوب سمسار ساتھی‘ کو گا کر انہیں یاد کرتے رہے اور آج بھی اگر ان کی یاد میں کوئی محفل منعقد ہوتی ہے تو وہاں ان کا یہ گیت ضرور گایا جاتا ہے۔2009نے جاتے جاتے ایک اور مشہور نوجوان گلو کار عبدا لرشید فراش کو ہم سے چھین لیا۔غلام حسن صوفی کی موت کے بعد فراش سے موسیقی اور گائیگی کی دنیا کو بہت امیدیں وابستہ تھیں ۔دنیا کی ناپائیداری اور موت کے موضوعات پر لکھے گئے گانوں کو انہوں نے اوت پر اثر آواز دی ۔ان کی موت کی خبر سنتے ہی لوگوں کے ذہن میں ان کا مشہور گانا”موت ژورو کرتھ خالی کم خانئی “آگیا۔عبد الرشید فراش نے کئی مشہور گیت گائے ہیں جن میں ”دلبرو مئے دلس کژھ گانگلئی بہہ بلئی چانے دیدار ساتھئی “اور ”آئی آدنیک مدانو پادن پے مئی دمابھہہ“شامل ہیں ۔
syeedtahir07@gmail.com
No comments:
Post a Comment