محمد طاہر سعید
سرینگر//جلال آباد سوپور میں 21سالہ قرۃ العین کی شادی کی تیاریاں چل رہی تھیں او ر دلہن خود ملبوسات اور زیوارت خریدنے کیلئے تاریخ متعین کر رہی تھی لیکن اُسے کیا معلوم تھا کہ ہاتھوں میں مہندی رچانے سے 10روز قبل ہی وہ زینت زندان بن جائیگی۔افراد خانہ قرۃ العین کو بے گناہ قرار دے رہے ہیں جبکہ پولیس کادعویٰ ہے کہ اس کا ملی ٹینٹوں کے ساتھ رابطہ ہے اور سوپور پولیس سٹیشن پر حالیہ حملے میں بھی اس کا ہاتھ ہے۔پولیس نے اس کیخلاف قتل او رآرمز ایکٹ کے تحت کیس درج کیا ہے۔مقامی لوگوں نے کشمیر عظمیٰ کو بتا یا کہ قرۃ العین کو بے بنیاد کیس میں پھنسانے کا منصوبہ دراصل پولیس نے مارچ میں ہی بنایا تھا ۔لوگوں کا کہنا ہے کہ 30مارچ 2011کو پولیس نے جلال آباد میں چھاپہ ڈالا اور کئی مکانوں کی تلاشی لی۔لوگوں کے مطابق تلاشی کارروائی کے دوران پولیس نے قرۃ العین کے والد پیرزادہ شمس الدین کو ہدایت دی کہ وہ اگلے روز 31مارچ کو اپنی بیٹی کو لیکر پولیس سٹیشن حاضر ہو جائے اور جب شمس الدین اگلے روزپولیس سٹیشن پہنچ گیا تو اسے گرفتار کر کے 6روز بعد رہا کیا گیا اس ہدایت کے ساتھ کہ وہ 7اپریل کودوبارہ بیٹی کے ہمراہ پولیس سٹیشن میں حاضر ہوجائے۔ لوگوں کے مطابق پولیس نے 7اپریل کوشمس الدین اور اسکے اہل خانہ کے فون نمبرات حاصل کئے اور اسے کہا کہ وہ روزانہ اپنی بیٹی کو لیکر پولیس سٹیشن میں حاضری دیا کرے۔لوگوں کا کہنا ہے کہ قرۃ العین اپنی پڑھائی کیساتھ مصروف تھی جس کی وجہ سے وہ پولیس سٹیشن پر حاضر نہیں ہوسکی ۔ اسکے بعد اسے روزانہ پولیس سٹیشن سے فون آیا کرتے تھے کہ وہ حاضر ہونے کیلئے یہاں کیوں نہیں آتی ؟لوگوں کے مطابق 16جو ن کو پولیس نے دوبارہ جلال آبادمیں چھاپہ ڈالا اور شمس الدین و اس کے افرادِخانہ کو پولیس سٹیشن پر حاضر ہونے کیلئے کہا ۔مقامی لوگوں کے مطابق پولیس نے اس روز بھی انہیں دوبارہ پولیس سٹیشن پر حاضر ہونے کی ہدایت دی اور 10جولائی کو قرۃ العین اپنی والدہ مریم بیگم اور اپنے ایک نزدیکی رشتہ دار باسط احمد مسعودی ولد الطاف حسین مسعودی کے ہمراہ پولیس سٹیشن پہنچ گئی جہاں پولیس نے قرہ العین اور باسط کو حراست میں رکھا۔لواحقین کے مطابق قرۃ العین نے حال ہی میں گورنمنٹ گرلز ڈگری کالج سوپور نے بی اے کی ڈگری حاصل کی تھی اور اب اس نے فرلینگ کالج آف ایجوکیشن جلا ل آباد سوپورمیں بی ایڈ کرنے کیلئے داخلہ لیا تھا۔قرۃ کی شادی کی تاریخ بھی طے ہے اور 22و23جولائی کواس کی شادی اپنے ایک قریبی رشتہ دار سے ہونے والی ہے جس کیلئے تمام تیاریاں مکمل کی جاچکی تھیں جبکہ دعوت نامے بھی تقسیم کئے جا چکے ہیں۔قرۃ العین کے گھر میں ماتم کا ماحول ہے اور لواحقین سہمے ہوئے ہیں اور کچھ بتانے کیلئے تیار نہیں۔
پولیس کیا کہتی ہے
ایس ایچ او سوپور غضنفر احمد نے اس حوالے سے کشمیر عظمیٰ کو بتا یا کہ وہ قرۃ العین کو کسی بھی فرضی کیس میں نہیں پھنسا رہے ہیں اور اگر انہیں ایسا کرنا ہوتا تو اسے 30مارچ کو ہی گرفتار کیا گیا ہوتا۔انہوں نے کہا کہ قرۃ العین کا 2009سے لشکر طیبہ کیساتھ قریبی رابطہ ہے اور لشکر کے کمانڈر عبداللہ اُونی مذکورہ لڑکی کی والدہ کا سم کارڈ استعمال کر رہاتھاجبکہ اہل خانہ کے ناموں پر حاصل کئے گئے سم کارڈبھی ملی ٹینٹوں کے زیر استعمال ہیں۔انہوں نے بتا یا کہ جس وقت سوپور پولیس سٹیشن پر حملہ ہوا اس وقت قرۃ العین پولیس سٹیشن کے باہر موجود تھی اور اسکا فون بھی پولیس سٹیشن کے باہر چل رہا تھا۔ایس ایچ او نے کہا کہ قرۃ العین اور اسکے دیگر اہل خانہ پر پہلے ہی شک تھا اور مارچ سے ہی پوچھ تاچھ جاری تھی۔پولیس کے مطابق سوپور پولیس سٹیشن پر ہوئے حملے کے بعد زخمی ہونیوالے جوپولیس اہلکار صورہ اسپتال میں تھے، تو وہاں پولیس نے ایک شخص کو مشکوک حالت میں دیکھا،جسکے نتیجے میں پولیس نے اسے گرفتار کیا ، اس کا نام محمد شفیع شیخ ساکن ہندوارہ بتایاگیا ہے۔ پولیس کا مزید کہنا ہے کہ تفتیش کے دوران محمد شفیع نے اس بات کا اعتراف کیا کہ زخمی پولیس اہلکاروں پر اسپتال میں نظرگذر رکھنے کیلئے اسے جنگجوئوں نے تین ہزار روپے دیئے تھے۔ محمد شفیع کی بعد میں تفتیش کی گئی اور اْس کی نشاندہی پر جلال آباد سوپور میں چھاپہ ڈالا گیا جہاں قرۃالعین دختر شمس الدین کو گرفتار کیا گیا اور چار دن تک اسکی تفتیش کرنے کے بعد اس کیخلاف زیر نمبر 182/2011زیر دفعات 302, 7/4آرپی سی درج کر کے اسے زنانہ پولیس اسٹیشن سرینگر منتقل کیا گیاہے۔
No comments:
Post a Comment